پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 185 تا 192 تک لکھ کر پوسٹ کر دیا ہے۔

اب میں دیکھتا ہوں کہ زین نے کون سے صفحے ابھی تک پوسٹ نہیں کیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
زین تو خاصا مصروف ہو گا رپورٹین بنانے میں۔ میں ہی اسکے حصے کے صفحات 152 تا 156 لکھ دیتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 152

ڈی بانلڈ کا قول ہے کہ یہ صرف کتاب ہی مین اثر ہے جس سے ایک قسم کی تغیر و تبدل واقع ہو جاتا ہے۔ فی الحقیقت ایک اعلٰے درجہ کی کتاب عظیم الشان جنگ سے بہی زیادہ ذی وقعت ہے۔

ہبزلت کا قول ہے کہ شاعر ہمیشہ زندہ رہتے ہین اور غیر فانی ہین۔ خیالات و افعال کے بدولت اونکے نشان باقی رہتے ہین۔ جو امور کہ ورجل اور ہومر نے اپنے عہد مین کئے وہ سب ہمارے سامنے اسطرحسے موجود ہین کہ گویا ہم اوسوقت اونکے ساتہہ زندہ تہے۔ اونکی تصنیفات ہمارے پاس موجود ہیہن ہم جسطرح چاہین اونکو مصرف مین لا سکتے ہین۔

مشکل سے دنیا مین کوئی کام ایسا نکلیگا جسے کسی شخص نے ابتدا مین کیا ہو اور ابتک اوسکا نشان باقی رہگیا ہو لیکن مردہ مصنفین مثل زندہ انسان کے ہین۔ جو اپنی تصنیفات کی وجہ سے ہمارے درمیان ہرطرحکی حرکت و گفتگو کر سکتے ہین۔ اور جن لوگون نے کہ دنیا کو فتح کیا ہے اونکی یہہ حالت ہے کہ جیسے کوئی شخص خاک کسی ظرف مین رکہدے۔ جسقدر زمانہ زیادہ گزرتا جاتا ہے اوسیقدر اقوال و خیالات و معلومات پختہ و مستحکم ہو جاتے ہین برخلاف اجسام و اشیا اور دوسری چیزونکے جو روز بروز فنا ہوتی جاتی ہین۔ انسان کے ساتھ صرف اوسکے افعال ہی نہین فنا ہو جاتے بلکہ جملہ نیکیان اور اوصاف غایب و کالعدم ہو جاتے ہین۔ صرف اوسکی دانائی و فراست غیر فانی ہے جو اوسکی آیندہ نسلون کے واسطے بے کم و کاست باقی رہتی ہے۔ اور وہ محض اقوال ہین جو ابدالآباد تک قائم رہتے ہین۔
********************************************
*******************************​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 153

گیارھوان باب

رفاقت ازدواجی

مسئلہ مسلمہ ہے کہ انسانی طبیعت پر صحبت کا بہت کچھہ اثر ہوتا ہے۔ کسی قسم کی تخصیص یا تفریق نہین ہے کہ مرد ہو یا عورت بلکہ دونو مخلوق کی دنیاوی حالتونپر اسکی تاثیر بدرجہ مساوات ھاوی ہے۔ جسطرح عالم طفولیت مین عورتین بچونکی پرورش کرتی ہین اونکی روحانی اور جسمانی لوازمات کا بندوبست کرتی ہین ہر حالت اور ہر موقع پر اونکی نگران و خبر گیران رہتی ہین اوسیطور پر مرد کے زمانہ شباب مین بھی عورتین مشیر صلاح کار معتمد اور غمگسار مختلف مدارج کے لحاظ سے ہو سکتی ہین مختصر یہہ کہ عورت کی صحبت کا اثر کم یا زیادہ بُرا یا بھلا ہر حال مین مرد پر ہو سکتا ہے۔ مرد عورت کے باھمی خدمات و فرائض کو قدرت نے بہت توضیح کے ساتھ ظاہر کر دیا ہے۔ خالق مطلق نے مرد و عورت کو اسواسطے پیدا کیا تا کہ ہر ایک اپنے فرائض حقیقی کو انجام دے اور اپنے اصلی مراتب پر مامور رہے ان مین سے کوئی کسی دوسرے کی جگہہ اپنے واسطے نہین حاصل کر سکتا۔ کیونکہ اونکے مختلف مشاغل اچھی طرح ظاہر ہین باوجودیکہ مرد و عورت اپنی اپنی حالت پر جداگانہ طریقہ سے رکھے گئے ہین لیکن ایک دوسریکے تعلقات اتحاد کے ساتہہ قائم ہین خاندانی امور کے انصرام یا باہمی ترقی کے ذریعہ حاصل کرنے کے واسطے مرد و عورت دونون کی شرکت اجانت آپس مین ضروری ہے اگرچہ مرد و عورت ایک دوسریکے جلیس اور مساوی ہین لیکن بلحاظ قوت وہ آپس مین بالکل مختلف ہین۔ مرد بہ نسبت عورت کے مضبوط و طاقتور ہوتا ہے عورتین نازک ذی حسن ہوتی ہین۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 154

ایک کو دماغی قوت کی وجہ سے ترجیح ہے اور دوسرے کو طبیعی اوصاف کے سبب سے فوق ہے اور گو دماغ کے بدولت حکومت کی جاتی لیکن طبیعت سے اثر ڈالا جاتا ہے۔ پس مرد و عورت دونون اپنے جداگانہ فرایض زندگی کے انجام دہی کے واسطے یکسان مقرر کئے گئے ہین لیکن جسطرح اس امر کی کوشش کرنی حماقت ہے کہ عورت کا کام مرد کے تعلق کیا جاے اوسیطرح یہ سعی بہی بالکل عبث ہے کہ مرد کا کام عورت کے سپرد کیا جاے۔ بعض اوقات عورتون مین مردونکے اوصاف پائے جاتے ہین اور مردونمین عورتونکی خاصیت ظاہر ہوتی ہے لیکن یہ مستنشیات مین داخل ہے۔

اگرچہ مرد کے اوصاف کا زیادہ تر تعلق دماغ سے ہے اور عورتونکا دل سے لیکن مرد کے دل کی تربیت بہی اوسیقدر ضروری ہے جسقدر دماغ کی اور عورت کے دماغ کی تربیت بہی ویسی ہی لازمی ہے جیسی دل کی۔

بیوقوف اور احمق عورت کی طرح بودا مرد بہی اس قابل نہین ہے کہ وہ کسی مہذب سوسایٹی مین داخل کیا جاے۔ مرد و عورت کے چال چلن مین شایستگی اور عمدگی پیدا کرنیکے واسطے دماغی اور طبعی دونون قوتونکی تربیت لازمی اور ضروری ہے۔ تاوقتیکہ مردونمین ہمدردی و مہربانی نہودلی۔ کمینہ خصلت اور خود غرض ہین اور غیر تعلیم یافتہ عورتین گو وہ حُسن و خوبصورتی مین عدیم النظیر ہون مثل ایسی گڑیون کے ہین جو صرف پرتکلف لباس سے آراستہ کر دی گئی ہین۔ عورتونکی نسبت عام طور پر بہی ایک پسندیدہ راے ہے کہ اونہین عاجزی اور فرمانبرداری کی وجہ سے تعریف و مقبولیت کا حق حاصل ہے۔ سر رچرٹ اسٹیل کا قول ہے کہ اگر ہم مرد کی عزت کا خاکہ قایم کرین تو انسانیت کے واسطے دلیری اور دانشمندی کو جزو اعظم قرار دین۔ اور اسیطرح عورت کی اوسوقت توصیف ہو سکتی ہے جب اونمین نزاکت۔ نرمی و ہشت۔ اور اطاعت ہو جسے اوسمین ایک قسم کی معشوقیت کا مادہ پیدا ہو جاے۔ اکثر غلطی سے نوخیز لڑکونکی تعلیم خود غرضی کی جانب محول ہوتی ہے کیونکہ دنیاوی کاروبار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 155

میں اون لوگونکو یہ تحریک کی جاتی ہے کہ وہ خاصکر اپنی ہی کوششون پر اعتبار کرین لیکن لڑکیونکو یہ ترغیب دیجاتی ہے کہ وہ اپنے کل امور دوسرونکے بہروسہ پر چہوڑ دین۔ لڑکونکو اس امر کی تعلیم دیجاتی ہے کہ وہ قطعی طور پر اپنی ہی راے کی استصواب سے عملدرآمد کرین برخلاف اسکے لڑکیونکو یہ سکہلایا جاتا ہے کہ وہ دوسرونکی مشورت پر کاربند ہون۔

یہہ تو تیقن ہے کہ عورتونکی عمدہ ترین صفت اپنے رشتہ دانونکے ساتہہ محبت کے ذریعہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ مثل ایک ایسی دایہ کے ہے جسکو قدرت نے کل نوع انسان کے واسطے خلق کیا ہے جو عاجزونکی خبر گیری کرتی ہے اور اون لوگونکی تربیت و پرورش کرتی ہے جنسے ہمکو محبت ہے۔ وہ خلقی طور پر شفیق ہمدرد۔ شاکر۔ اور نفس کُش ہوتی ہے۔

عورتونکی ذات جملہ امراض کے واسطے اکسیر کی خاصیت رکہتی ہے کیونکہ وہ عاجز و مجبور کی اعانت کے واسطے ہر وقت مستعد رہتی ہین اور تکلیف و صعوبت مین تسلی و تسکین دینے کے لئے تیار رہتی ہین۔

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی انسان جان کنی کی حالت مین ہوتا ہے تو اوسکی تنفس سے یہ بات مستنبط کی جاتی ہے کہ گویا وہ اپنے قریب عورت کو طلب کرتا ہے۔ چنانچہ جب منگو پارک یکہ و تنہا بے یار و مددگار افریقہ کے ایک موضع سے نکال دیا گیا اور بہو کون مرنے لگا تو اوس نے ارادہ کیا کہ درخت کے نیچے جہان نہ تو آفات ارضی و سماوی کا کوئی انسداد ہے اور نہ درندونسے محفظت ہو سکتی ہے اپنی رات کسیطرح بسر کرے لیکن اتفاق سے اوسوقت ایک زن حبشیہ محنت و مزدوری کر کے واپس آ رہی تہی کہ اوس شخص کی حالت بیکسی دیکہکر عورت کو بہت ترس آیا وہ اپنے جہوپڑے مین اوسکو لے گئی آب و غذا کی خبرگیری کی اور سامان آسایش مہیا کر دیا۔


لیکن جب عورتونکی تخصیصی اوصاف محبت و ہمدردی کے ساتہہ ظاہر کئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 156

جاتے ہیں تو اونکی مسرتون کے واسطے بہی یہہ ضروری ہے کہ اونکے چال چلن کی تربیت و درستی اسطرح پر کی جاے کہ اون مین تہذیب و شایستگی۔ اختیار و اعتبار کی قدرت پیدا ہو اجے۔ کیونکہ مردونکے مانند عورتونکی بہی زیادہ خوشیان اسی پر منحصر ہین کہ اونکی چال چلن مین ذاتی تکمیل ہو جاے۔ اور خود مختاری سے جو دل و دماغ کے باقاعدہ تعلیم و تربیت سے پیدا ہوئی ہے اونمین یہ قابلیت ہو جائیگی کہ وہ اپنی زندگی کو بہ نسبت اپنی مسرتونکے زیادہ تر مفید کر سکین اور ہوشیاری کے ساتہہ اون اوصاف سے دوسرون کو بہی مستفید کرین جنسے وہ خود بہی منصف ہین خاصکر وہ امور جو تعلقات فریقین اور باہمی ہمدردی سے واقع ہوتے ہین۔

سوسایٹی اعلٰے درجہ کی مہذب و شایستہ اوسیوقت ہو گی جب فریقین کی تعلیم و تربیت مطابق و مساوی درجہ مین کی جائیگی۔ ایک شایستہ عورت تعلیم یافتہ مرد کی رفاقت کر سکتی ہے کیونکہ ایک ہی اخلاقی قانون دونون کے واسطے برابر حاوی ہے۔ لیکن اس خیال کا وجود نیکیونکی بنیاد کے واسطے سیلاب سے کم نہین ہے کہ بوجہہ تفریق جنسیت اگر مرد سے ذبایم اخلاقی سرزد ہون تو وہ معافی کے قابل ہین لیکن اگر عورت مرتکب ہو تو تاحیات کلنک کا ٹیکا اوسکے لگا دیا جاے۔ پس سوسایٹی کی حالت اوسوقت شستہ ورفتہ ہو سکتی ہے جب مرد و عورت دونون افعال ذمیمہ ق قبیحہ سے جو طبیعت و کانشنس کے خلاف ہوتے ہین اور زندگی کی مسرتونکے زایل کرنے مین زہر ہلاہل کی خاصیت رکہتی ہین بدرجہ مساوی اجتناب و احتراز کرین۔

اب اس موقع پر ہم ایک لطیف بحث شروع کرنیکی جرات کرتے ہین۔ اگرچہ اسکا شوق بالعموم اور عالم گیر ہوتا ہے لیکن معلم و ادیب اور والدین اسکے مانع و سدراہ ہوتے ہین۔ ذکور و اثاث دونون سے تذکرہ عشق و محبت ناپسندیدہ خیال کیا گیا ہے اور اسیوجہ سے نوجوان لوگ ایک ایسی حالت مین چہوڑ دئے گئے ہین کہ وہ مصنوعی تعشقانہ داستانونکو دیکہکر جنسے کتابین مالا مال ہین خود اپنے تصور سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 172

بارہوان باب

تجربہ

عملی فہم و شعور صرف تجربہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ پند و نصائح ہر حال مین مفید ہیہن لیکن تا وقتیکہ حقیقی زندگی کی ترتیب و ترمیم نہو یہ سب محض ایک اصول کے طور پر رہتے ہین۔ دنیا کے اون مشکل امور کے تجربات سے جو اکثر واقع ہو جاتے ہین اونسے چال چلن مین ایک ایسی سچائی پیدا ہو جاتی ہے جو تعلیم و تربیت سے کبہی حاصل نہین ہو سکتی البتہ عام مرد و عورت کے تحریک طبیعت کے اتصال سے ظاہر ہوتی ہے۔ اگر انسان ذی وقعت ہونا چاہتا ہے تو اوسکو لازم ہے کہ دنیا کے روزانہ کاروبار مین جو وقت۔ و تکلیفات۔ صعوبات و مشکلات واقع ہوتے ہین اونپر باالاستقلال ثابت قدم رہے۔ عزلت نشینی کی حالت مین جو نیکیان ظہور پذیر ہوتی ہین وہ چندان قابل تعریف نہین ہین کیونکہ خلوت نشینی مین جو زندگی بسر ہوتی ہے اوسمین تمامتر خود غرضی کی خواہش مضمر ہے۔ کنارہ کشی سے دوسرونکی نسبت محقرانہ خیالات پیدا ہوتے ہین اور زیادہ تر یہ اپنی آرام طلبی۔ نفس پرستی اور بزدلی کی دلالت ہے۔ دلیرانہ محنت و فرض کا حصہ ہر شخص کا اوسکے متعلق اور جس سے کسی خاص گروہ کو اس سے نقصان اوٹہانا پڑتا ہے اوسیطرح ہر شخص کو بہی جداگانہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کے روزانہ کاروبار مین شامل ہونے اور کل امور مین شریک ہونے سے عملی واقفیت حاصل ہوتی ہے اور عقل بڑہتی ہے۔ انہین امور سے ہم اپنے دائیرہ فرض تک پہونچتے ہین۔ کام کرنیکا طریقہ سیکہتے ہین اپنے مین محنت تحمل اور استقلال کی صفت پیدا کرنے سے چال چلن کی تکمیل و تربیت ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 173

جسکو مشکل امور اور دقت طلب کامونسے مقابلہ کرنا پڑتا ہے جسکے ساتہہ عمل درآمد کرنے سے ہمارے آیندہ زندگی کا خاکہ قایم ہوتا ہے اور ہمکو ایسی ایسی مصیبتونکا سامنا ہوتا ہے جنسے ہم بہت کچہہ واقفیت حاصل کر سکتے ہین جو تنہائی کی حالت مین ہمسے نہیں ہو سکتے۔

دوسرونکے ساتہہ راہ و رسم رکہنے مین آدمی کو اپنی حالت سے آگاہی ہوتی ہے اور دنیاوی کاروبار مین آزادانہ برتاؤ سے انسان کو اپنی قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے بغیر اس قسم کے تجربونکے انسان مغرور و متکبر ہو جاتا ہے اور اپنی حالت سے بالکل ناواقف و نابلد رہتا ہے۔

مویفٹ کا بیان ہے کہ یہ ایک غیر متنازعہ امر ہے کہ جس شخص کو اپنی قابلیت کا اندازہ ہے اُس سے غلط امور نہین ظہور پذیر ہو سکتے اور برخلاف اسکے جس شخص کو اپنی مادہ سے ناواقفیت ہے اُس سے ٹہیک کام نہین ہوتے۔ اکثر ایسے لوگ ہوتے ہین جو دوسرونکی جانچ و آزمایش کے واسطے مستعد رہتے ہین لیکن وہ خود اپنی حالت پر کبہی غور نہیں کرتے۔

پس اون لوگونکو جو دنیا مین کچہہ ہونا چاہتے ہین یا کچہہ کرنا چاہتے ہین یہ لازم ہے کہ اپنی حالت سے خوب واقفیت حاصل کرین۔ فریڈرک پر تہس نے ایکمرتبہ اپنے ایک نوجوان دوست سے کہا کہ "تم اوس بات کو تو اچہی طرح جانتے ہو جسے تم کر سکتے ہو لیکن تمکو اوس سے بہی واقفیت حاصل کرنی چاہیے جسے تم نہین کر سکتے کیونکہ بٖغیر اسکے تم اپنے وقت مین کوئی کام پورا نہین کر سکتے اور نہ تمکو اندرونی آسایش حاصل ہو سکتی ہے۔

جو شخص کہ تجربہ سے مستفید ہو گا اوسے چندان کسی دوسرے کی اعانت کی ضرورت نہین ہے لیکن جس شخص مین یہ خیال مرکب ہے کہ میں دوسرونسے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 174

کیون سیکون یا مین اون لوگونسے زیادہ عقلمند ہون" تو اس خیال کے آدمی سے دنیا مین کامیابی یا کسی نیک و بڑی کام کی امید نرکہنی چاہیے۔ ہمکو اس امر کے واسطے اپنے دل و دماغ کو تیار رکہنا چاہیے کہ جو لوگ ہمسے زیادہ دانشمند و تجربہ کار ہین اونسے سبق ھاسل کرین اور کبہی ان باتونمین شرم و حجاب نکرنا چاہیے۔ جس شخص نے تجربہ کی مدد سے اپنے فہم و فراست مین ترقی پیدا کی ہے وہ ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ جو چیزین اوسکے مشاہدہ سے گزرین اوسپر وہ صحت کے ساتہہ فیصلہ کرے اور اپنی روزانہ زندگی کا مبحث قرار دے۔

جسے ہم عام طور پر دانش کہتے ہین وہ کوئی دوسری چیز نہین ہے بلکہ صرف ایسے روزانہ تجربات کا نتیجہ ہے جسمین عقلمندی کے ساتہہ ترقی دی گئی ہو اور نہ اسمین اسقدر زیادہ قابلیت کی ضرورت ہے جیسی کہ راستی۔ تحمل اور نگرانی کی احتیاج ہے۔ بعض اوقات عورتین بہ نسبت مردونکے اچہی سمجہہ ظاہر کرتی ہین کیونکہ اونکی قوت طبعی و مدرکہ تیز و درست ہوتی ہے اونکی ہمدردی و عادات خاص خاص کامونمین بہت موافق ہوتی ہین۔ اکثر ایسی عورتین جو بہت زیادہ دانشمند نہین ہین وہ بہی ایسے مردون کا چال چلن درست و مرتب کر دیتی ہین جنکی طبیعت کا بدلنا قریب قریب غیر ممکن سمجہا جاتا ہے۔

زندگی کو تجربہ کا ایک ایسا مدرسہ کہنا چاہیے کہ جہان مرد و عورت سب قیدی ہین۔ مدرسہ مین جو باتین سیکہی جاتی ہین اونکی ضروریات کا یقین ہے لیکن دنیاوی تعلیم گاہ مین رنج و غم تکلیف و مصایب ہمارے معلم ہوتے ہین جنسے ہم صرف سبق نہین حاصل کرتے بلکہ یہہ سمجہتے ہین کہ خدا کی جانب سے یہہ امور نازل ہوے ہین۔

مدرسہ زندگی مین کن کن تجربات سے استفادہ ہوا۔ کن واقعات
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 175

کے سیکہنے سے فواید حاصل ہوئے۔ دل و دماغ کی درستی و تربیت مین کسقدر ترقی ہوئی۔ عقل۔ جرات و خود اختیاری کی کہانتک مشق بہم پہونچی۔ عیش و راحت کی حالت مین دیانت و راستبازی قایم رہی زندگی تحمل و اعتدال سے بسر کی۔ یا محض خود غرضانہ طور پر بغیر کسی دوسرے کی پرواہ کے زندگی بسر کی۔ دنیاوی تکلیفات و صعوبات سے کیا نتیجہ پیدا کیا۔ آیا اطاعت و بردباری اور خدا پر توکل ہوا یا بے صبری و شکایت اور ہوس ہی رہی۔

تجربہ کے نتائج البتہ زندگی سے حاصل ہوتے ہین اور زندگی سے مراد وقت ہے تجربہ کار آدمی وقت کو اپنا مددگار سمجہتا ہے۔ وقت کی نسبت کارڈنیل میزان بیان کرتے ہین کہ یہہ صرف تسلی دہ اور فرحت بخش نہین ہے بلکہ معلم بہی ہے۔ یہہ تجربہ کاجزو اعظم اور دانشمندی کی بنیاد ہے۔ ایام شباب مین یہ دوست دشمن دونوں ہو سکتا ہے۔ بوڑہون کے واسطے یہ تکلیف دہ اور راحت رسان دونوں طرح کی خاصیت رکہتا ہے۔ اگر بُرے اور بہلے طور پر صرف کیا گیا ہے۔

جارج ہربرٹ کا قول ہے کہ زمانہ مثل ایک رہرو کے ہے جو نوجوانونکی نگاہونمین مختلف اقسام کی خوشی۔ مسرت اور عجائیبات سے مملو ہے لیکن جسقدر دن گزرتے جاتے ہین۔ وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہین جنہون نے اس مشکلات کے بیچ مین استقلال و عمدگی سے اپنی زندگی بسر کر دی اور ایسی کشاکشی کی حالت مین زندہ دلی و ثابت قدمی سے اپنی عمر صرف کی۔ سر ہنری لارنس کا قول ہے کہ زندگی دو قسم کی ہوتی ہے حقیقی اور غیر حقیقی۔ حقیقی زندگی تو ۔۔۔۔ اور سیدہی راہ کی جانب لیجاتی ہے اور غیر حقیقی زندگی اوسکی مشکلات کو ان خیالات کے ساتہہ دفع کرتی ہے کہ اس تیرہ و تار راہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 176

مین بہی عیش و مسرت کے امور پوشیدہ ہین جنپر ہم ناواقفیت کے ساتہہ جا رہے ہین۔

جوسف منکسٹر کی چودہ برس کے سن مین یہ عادت تہی کہ اپنی کتاب پڑہکر مغربی ہند کی جانب سفر کرنیکا ارادہ کرتا تا کہ وہانکے باشندونکو انجیل کی تعلیم دے۔ اور وہ فی الحقیقت اپنے خرچ کے لئے صرف دس شلنگ لیکر گہر سے معہ انجیل کے روانہ ہو جاتا بلا شبہہ وہ اپنی اس کوشش مین کامیاب بہی ہوا لیکن جب اوسکے والدین کو گم گشتگی کا حال معلوم ہوتا تو وہ فوراً تلاش کر کے اوسے واپس لاتے لیکن اوسکا شوق ایسا نہین تہا کہ کوئی شخص اس ارادہ سے اوسے باز رکہے چنانچہ اوس خیر خواہ خلائق نے اوس تاریخ سے جاہلونکی تعلیم کا سلسہ علے الاتصال جاری رکہا۔

جس کام کا شوق انسان کے دلمین پیدا ہو تو اوسکے انجام کے واسطے مضبوطی بہی ہونی چاہیے ورنہ بغیر اسکے جو مشکلات و موانعات واقع ہونگے وہ اوسکو پس پا ہو جانے پر مجبور کرینگے لیکن ہمت و ثابت قدمی کے ساتھہ انسان اون مشکلات کا مقابلہ کرے تو ضرور کامیابی حاصل کریگا۔ کالمبس کو جو نئی دنیا کے اظہار کا شوق غالب ہوا تو اوس نے سمندر کے نامعلوم مراحل و خطرات کو نہایت دلیری سے طے کیا اور جب اوسکے رفیقون نے ناامید ہو کر اوسے دہمکایا کہ ہم تجہکو دریا مین غرق کر دینگے تب بھی وہ اپنے خیال و ہمت پر مستقل رہا یہانتک کہ نئی دنیا کا اُفق دور سے ظاہر ہوا۔

ذی حوصلہ آدمی کبہی ناکام نہین ہوتا بلکہ وہ علے التواتر کوششونکے بعد کامیابی حاصل کرتا ہے۔ کوئی درخت پہلے ہی ضرب مین نہیں گر پڑتا بلکہ متعدد ضرب اور بڑی محنت کے بعد کٹتا ہے۔ ہم کسی شخص کی عمدہ حالت کو دیکہتے ہین جسپر وہ ممتاز ہے لیکن اون محنت و تکلیفات و خطرات پر نہین غور کرتے جسکو طے کر کے اوس نے یہہ درجہ حاصل کیا ہے۔ مارشل کا ایک دوست اوسکی عمدہ حالت کی تعریف کر رہا تہا کہ مارشل نے اوس سے کہا تمکو میرے حالت پر حسد ہوتا ہے لیکن تمکو یہ حالت بہ نسبت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 172 تا 176 (شگفتہ کے حصے کے) بھی لکھ کر پوسٹ ہوئے۔

کتاب مکمل پوسٹ ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے اب کوئی صفحہ باقی نہیں ہے۔
 
Top