پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اگلا صفحہ

Tadbeer_page_0022.jpg

 
قومی ترقی کے اسباب مین صڑف بڑے بڑے آدمیونکا شمار نہیں کرنا چاہیے بلکہ صرف چال چلن ہے جو کسی قوم مین اونکو بڑا ثابت کر دیتی ہے ۔ جب واشنگٹن ارونگ ، سر والٹر اسکاٹ کی ملاقات کو آیا ٹسفرڈمین گیا تو اوس نے اپنے گرد و نواح کے کسان دوسنتونکو بلا کر واشنگٹن سے ملایا اور کہا کہ مین آپکو اسکاٹ لنڈ کے لایق اور سیدہے سادے لوگونسے ملاتا ہوں ۔ کسی قوم کے چال چلن کا اندازہ اون لوگون کی پر تکلف لیڈی اور جنٹلمین سے نہیں ہو سکتا جو روز مری ہر جگہ نظر آتے ہیں بلکہ ان لوگونسے تمیز کرنا چایے جو مدبر ، فلسفی یا اہل دین ہین اور جو قومی گروہ کے خیالات ظاہر کرتے ہین طور و طریقے کی بنیاد قایم کرتے ہیں جنسے روز بروز قومی ترقی کو نشوونما ہوتی ہے اور جو اونمین ایک جان بخش قوت پیدا کرتے ہین کیونکہ فل الحقیقت وہی قوم کے پشت پناہ ہین ۔

جب تک کہ قوم مین عالی دماغی ۔ راستبازی ۔ ایمانداری ۔ خدا ترسی اور دلیری نہوگی اوس وقت تک کسی دوسرے قوم مین اوسکی کچہہ وقعت نہین ہوسکتی اور نہ دنیا مین عزت ۔ جس قوم کے اخلاق حمیدہ اور اوصاف پسندیدہ ہین اوسپر گورنمنٹ ایمانداری اور عمدگی سے حکومت کر سکتی ہے لیکن جو قوم کہ ناپاک ۔ خود غرض ۔ دغا باز ۔ بے ایمان ہے اور قانون کی پابند نہین ہے تو لامحالہ اوسکو گورنمنٹ کے سخت احکام بر داشت کرنے پڑینگے ۔

قوم بہی مثل مثل نوع افراد کے گزشتہ رفارمر کی یاد گارونسے قوت اور مدد حاصل کر سکتی ہے اور یہہ قومی حالت درست کرنے کے لئے بہت ضروری ہے ۔ اس سے موجودہ نسلوں کو تقویت اور ترقی ہوتی ہے اور اونکے بڑے بڑے مہامت کی کامیابی سے جرات اور ہمت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 18

لیکن قومی ترقی کے اسباب مین صرف بڑے بڑے آدمیونکا شمار نہین کرنا چاہیے بلکہ یہہ صرف چال چلن ہے جو کسی قوم مین اونکو بڑا ثابت کر دیتی ہے۔ جب واشنگٹن ارونگ ۔ سر والٹر اسکاٹ کی ملاقات کو آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گیا تو اوس نے اپنے گرد نواح کے کسان دوستونکو بلا کر واشنگٹن سے ملایا اور کہا کہ مین آپکو اسکاٹ لنڈ کے لایق اور سیدہے سادے لوگونسے ملاتا ہون۔ کسی قوم کی چال چلن کا اندازہ اون لوگونکی پرتکلف لیڈی اور جنٹلمین سے نہین ہو سکتا جو روزمرہ ہر جگہہ نظر آتے ہین بلکہ اون لوگونسےتمیز کرنا چاہیے جو مدبر۔ فلسفی یا اہل دین ہین اور جو قومی گروہ کے خیالات ظاہر کرتے ہین طور و طریقے کی بنیاد قائم کرتے ہین جنسے روز بروز قومی ترقی کو نشو و نما ہوتی ہے اور جو اونمین ایک جان بخش قوت پیدا کرتے ہین کیونکہ فی الحقیقت وہی قوم کے پشت پناہ ہین۔

جب تک کہ قوم مین عالی دماغی۔ راستبازی۔ ایمانداری۔ خدا ترسی اور دلیری نہوگی اوس وقت تک کسی دوسرے قوم مین اوسکی کچہہ وقعت نہین ہو سکتی اور نہ دنیا مین عزت۔ جس قوم کے اخلاق حمیدہ اور اوصاف پسندیدہ ہین اوسپر گورنمنٹ ایمانداری اور عمدگی سے حکومت کر سکتی ہے لیکن جو قوم کہ ناپاک خودغرض۔ دغاباز۔ بے ایمان ہے اور قانون کی پابند نہین ہے تو لامحالہ اُسکو گورنمنٹ کے سخت احکام برداشت کرنے پڑینگے۔

قوم یہی مثل نوع افراد کے گزشتہ رفارمر کی یادگار ونسے قوت اور مدد حاصل کر سکتی ہے اور یہہ قومی حالت درست کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس سے موجودہ نسلونکو تقویت اور ترقی ہوتی ہے اور اونکے بڑے بڑے مہمات کی کامیابی سے جرات اور ہمت ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 19

۔۔۔۔۔۔۔ مثل شخصی کے ایک بڑے تجربے کی دولت ہے جسپر عقلمندی کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے سے ترقی حاصل ہو سکتی اور عروج ہوتا ہے ورنہ تباہی۔ بربادی اور ناکامی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ٹکا سامنا ہوتا ہے۔ مثل شخص واحد کے قوم یہی امتحان سے مستحکم و مشقت ہو جاتی ہے کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگونکے ۔۔۔۔۔ مہمات اور مشکلات کی کامیابیونکا کا ذکر ہے جسکے سبب سے چال چلن ہین اونکی شہرت ہوئی آزادی اور حب الوطنی کا شوق اگرچہ بہت کچہہ مفید ہے لیکن آزمایش اور تجربے کو سب پر فوق ہے۔

حب الوطنی کے یہہ معنی نہین ہین کہ بیٹہکر فضول شور و غل مچائے ۔۔۔۔۔۔۔ کرے اور مدد کے واسطے فریاد کرے بلکہ حب الوطنی کے یہہ مفسدین کہ ملک مین عمدہ کامونسے ترقی کی جائے۔ راستبازی اور دلیری سے فرائض پورے کئے جائین۔ جن لوگون نے اگلے زمانے میں کارنمایان کئے ہین اونکی مثالین پیش کر کے ملک مین جرات و ہمت پہیلائی جاے تا کہ ترقی اور عروج حاسل ہو۔

قوم کے لئے یہہ ضرور نہین کہ اونمین مردم شماری زیادہ ہو بلکہ یہ لازم ہے کہ اوسمین لایق اور قابل ہون۔ قوم مین آدمیون کی تعداد اور ملک کی وسعت بہت ہو سکتی ہے لیکن اس سے کچہہ اوس قوم کو فخر نہیں ہو سکتا۔ بنی اسرائیل کی قوم مین بہت تہوڑے آدمیونکی تعداد تہی لیکن اوس قوم نے اپنے زمانہ مین کیسے بڑے بڑے کام کئے اور نوع انسان کے واسطے دنیا مین کیسے مدلل اصول قایم کر گئے۔ اتہنس اور یونان کی آبادی کچہہ بہت زیادہ نہین تہی لیکن وہانکی قوم مین کس قدر حب الوطنی کا جوش تہا اور کیسے کیسے علوم و فنون مثل حکمت و فلسفہ کے دہانسے ظاہر ہوئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 20

لیکن اتہنس کی ناگہانی تنزلی کا باعث بہ نس بت ترقی کے اسوجہ سے زیادہ تر حیرت افزا ہے کہ وہانکی قوم نے ایکبارگی اپنے اخلاق کو خراب کر دیا اور اونکی عورتون نے باوجود تعلیم یافتہ ہونے کے اپنے دامن عصمت کو فسق و فجور کے دہہونسے الودہ کر ڈالا۔

اسیطرح روم کے ادبار اور تنزلی کی وجہ تہی وہانکے باشندونکی بداعمالی کاہلی۔ اور عیش پسندی ہے۔ باشندگان روم کے دماغ مین کبر و نخوت کی مذموم و قبیح ہوا بہر گئی۔ اونہون نے صرف اپنے بزرگونکے کارنامونکو اپنے افتخار کا باعث سمجہہ لیا جسے یک بیک اونکی ترقی اور عروج کا چمکدار ستارہ اوبا و تنزلی کی تیرہ و تار گہٹا مین چہپ کر غائب ہو گیا۔ پس جو قوم عیش و عشرت کاہلی اور لہو و لعب مین مصروف ہو جائیگی اوسکو کسی نہ کسی دن تباہی و بربادی کے بحر عمیق مین سکونت گزین ہونا پڑیگا۔ اور دوسرے جفاکش و مستعد قوم اونکی قایم مقامی کرے گی۔

لوئی چہاردہم نے اپنے وزیر کالبرٹ سے ایک دفعہ سوال کیا۔ کونسی وجہہ ہے کہ باوجود فرانس کی اتنی بڑی وسعت اور آبادی کے ہین۔ ہالینڈ ایسے چہوٹے ملک پر فتحیاب نہو سکا ۔ وزیر نے جواب دی اکہ خداوند ملک کی بڑائی وسعت اور مردم شماری کی زیادتی پر نہین منحصر ہے بلکہ باشندگان ملک کی قابلیت پر ہے۔ چونکہ ڈچ والے لایق۔ جفاکش اور مستعدہین اسی وجہ سے اونپر فتحیابی مشکل ہے۔

اسی قسم کی ایک حکایت اور بہی ہے کہ جب 1608ء مین بادشاہ اسپین نے اپنے وکیلون اسپنولا اور رچارڈٹ کو کسی عہد نامہ کی تکمیل کے واسطے ہاگ مین روانہ کیا تو اونہون نے وہان جا کر اتفاقاً دیکہا کہ سات آٹہہ آدمی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 21

کشتی پر چلے آ رہے ہین اور کنارے پر پہونچکر اون لوگونے گہاس پر بیٹہکر اپنے کہانے کا بندوبست شروع کر دیا یہہ دیکہکر ان دونون وکیلون نے ایک شخص سے دریافت کیا کہ یہہ کون ہین اوس نے جواب دیا کہ یہہ ہمارے عبادت گزار حکمران اور نائب الریاست ہین۔ تب دونون سفیرون نے آپسمین مشورہ کیا کہ انسے مصالحت کر لینی چاہئے کیونکہ انپر فتحیابی باالکل غیر ممکن ہے۔

جو قوم کہ اپنی حالت مین ترقی کرنی مسدود کر دیتی ہے وہ عنقریب اپنی بربادی کی خطرناک بنیاد قایم کرتی ہے۔ اور جس قوم مین کہ ایمانداری۔ راستبازی دیانت داری۔ اور انصاف کے مطا بق عملدرآمد نہین ہوتا تو اوسکو قوم کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہین ہے۔ اور جس قوم مین کہ دولت لہو و لعب اور عیش و عشرت کے کامونمین صرف ہو گئی ہو اور اوس قوم میں عزت۔ نیکی۔ وفاداری اطاعت براے نام رہگئی ہو۔ پس اگر اوس تاریک حالت میں خوش نصیبی سے کوئی ایماندار شخص ہو اور اپنے قوم کی مدد و اعانت کرنے پر مستعد ہو تو صرف یہی ایک بقیہ امید ہو سکتی ہے کہ ہر ایک شخص اپنے چال چلن کو درست کرے ۔ کیونکہ صرف اسی ایک کوشش سے قوم مین کچہہ چنبہلنے کی حالت پیدا ہو سکتی ہے۔ اور اگر بدقسمتی سے قومی چال چلن کی تربیت لاعلاج ہو تو پہر ہرگز کوئی دوسرا ذریعہ اصلاح کا نہین ہے۔

(مترجم) ناظرین ! خاصکر ملک کے نوجوان اور ہوشیار تعلیم یافتہ ! اپنے اس باب کو صرف سرسری نظر سے دیکہہ لیا ہو گا۔ میرے خیال مین کسی کتاب کو اس طرح سے پڑہ لینا کہ پہر اوسکے مضامین کا دماغ مین کچہہ یہی اثر رہے باالکل فضول ہے۔ پس مین بہ ادب آپسے گزارش کرتا ہون کہ اسکو دوبارہ غور سے ملاحظہ کیجئے اور جن نامی گرامی اشخاص کی تمثلیین اس باب مین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 22

مندرج ہین اونہین ذہن نشین کر لینے کی کوشش کیجئے۔ انکی یادداشت آپکے حق مین بہت ہی مفید ثابت ہونگی۔

آپ خیال کیجئے کہ یہہ اوس قوم کا مصنف ہے اور اون لوگونکے کارنامے ہین جنکے آباء اجداد ابتدا مین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاتے تہے اور بجاے اسکے کہ کپڑے پہنین اپنے جسم پر رنگ آمزیان کرتے تہے۔ لیکن زمانہ کی ۔۔۔۔۔۔۔ نے ایسا پلٹا کہایا کہ یہی قوم روے زمین پر اعلٰے درجہ کی تعلیم یافتہ۔ مہذب اور شایستہ تسلیم کیجاتی ہے۔ اگرچہ آپ ہی کی قوم کے ممبر کسی زمانہ مین انکے اوشاوتہے لیکن خوار کر کے شرمندہ ہونا چاہیے کہ اب آپکی اور ہماری کیا حالت ہے۔ ۔۔۔۔۔ حالت مین یہہ ناگہانی تغیر اگرچہ بہت ہٹاندوہناکر ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ کا باعث اپ خود سمجہہ سکتے ہین اگر آپکو رام اور اتہنس کے واقعات جو اس باب میں قلمبند ہین یاد ہون۔ مین کچہہ اور زیادہ کہہکر آپکی طبیعت کو بے چین کرنا نہین چاہتا صرف ایک شعر پر اپنے نوٹ کو ختم کرتا ہون اور اس کتاب کے دوسرے باب کا ترجمہ آپکے حضور مین پیش کرتا ہون۔

سرکنم شکوہ اگر تاب شنیدن داری
سینہ بشاگافم اگر طاقت دیدن داری

---------------------------------------------------------------------------------------------------------

دوسرا باب

اثر طرز معاشرت

اول اور ضروری تعلیم گاہ چال چلن کے واسطے گہر ہے۔ مکان ایک ایسی جگہہ ہے جہان انسان اپنی پیدایش کے ساتہی اعلٰے درجہ کی بہی تعلیم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 23

پا سکتا ہے اور بدترین خصایل بہی اوسکی طبیعت مین سکونت پذیر ہو سکتے ہین کیونکہ طرز معاشرت ہی کی تاثیر ہے جس سے چال چلن کا اصول ۔۔۔۔۔۔۔ اور جسکے مطابق انسان کو عمر بہر عملدرآمد کرنا پڑتا ہے جو زندگی کے ساتہہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہہ عام مقولہ ہے کہ طرز و طریقہ سے انسانیت ہوتی ہے یا طبیعت سے لیکن اصل یہہ ہے کہ طرز معاشرت سے آدمی کو انسانیت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ طرز معاشرت کی تعلیم صرف طریقہ اور طبیعت پر نہین منحصر ہے بلکہ اوسکا اثر چال چلن پر ہوتا ہے۔ خاصکر اگر بہر طبیعت مین عادت کا دخل ہوتا ہے۔ چال چلن میں نیکی اور بدی کا نشو و نما ہوتا ہے۔ اوسی ۔۔۔۔۔۔ نا چاہیے وہ خالص ہونا مخلوط اصول اور مقولے برآمد ہوتے ہین جسکے مطابق سوسایٹی مین برتاؤ کرنا پڑتا ہے۔ قانون بجاے خود صرف طرز معاشرت کی تاثیرات کا عکس ہے۔ چہوٹے سے چہوٹا خیال جو ابتداً کسی سچے کے ذہن نشین کر دیا جاے تو وہ اُسکی آیندہ زندگی میں مثل ایک پبلک اوتہنس یعنی عام خیال کے ہو جایگا۔ پس جو لوگ بچونکی ابتدائی تعلیم مین محنت کرتے ہین اونکو زیادہ دقت اوٹہانی پڑتی ہے بہ نسبت اونکے جو کسی سلطنت کا انتظام کرتے ہین۔

یہہ ایک قدرت کا ترتیب کردہ سلسلہ ہے کہ ابتداے زندگی آیندہ زمانہ کی تمہید ہے۔ اور دماغ و خیال کی درستی پہلے گہر سے ہونی چاہئے۔ کیونکہ جب عالم طفولیت گزر جاتا ہے اور شباب کا زمانہ آتا ہے تو ہر شخص کا ایک فیشن جداگانہ ہو جاتا ہے اور وہ علٰحدہ اپنی ایک سوسایٹی قایم کر لیتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حصول تہذیب کے واسطے گہر مثل ایک پرتاثیر مدرسہ کے ہے۔ کیونکہ آخر الام تہذیب سے شخص تعلیم کا سوال قایم ہوتا ہے اسوجہ سے کہ سوسایتی کا ہر ایک شخص چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ ہو اپنے جماعت مین ایک طور پر عملدرآمد کرتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 24

جنکے لحاظ سے وہ سوسایٹی مہذب اور شایستہ کیجاتی ہے۔

ہر شخص کی تعلیم اوسکی شروع پیدایش سے ہونی چاہئے کیونکہ انسان جب دنیا مین پہلے پہل اپنا قدم رکہتا ہے تو وہ باالکل معصوم ہوتا ہے اور اپنی پرورش و تعلیم مین دوسرونکا محتاج۔ اور جسوقت سے کہ اوسکی پہلی سانس شروع ہوتی ہے اوسوقت سے تعلیم کی بہی ابتدا ہو جاتی ہے۔ ایک عورت نے اپنے مذہب پیشوا سے اپنے بچے کی تعلیم کا وقت پوچہا جسکو پیدا ہوئے ابہی صرف چار برس گزرے تہے اوس نے جواب دیا کہ "بیگم صاحب اگر آپنے اپنے بچے کی تعلیم جسوقت تک نہین کی تو وہ چار برس باالکل ضایع کر ڈالے جسوقت سے کہ بچہ مسکرانا شروع کرے اوسوقت سے اوسکی تعلیم و تربیت کا موقع حاصل ہے۔"

اوس ابتدائی حالت کی تعلیم یہہ ہے کہ اوسکے سامنے ایسے عمدہ نمونے پیش کئے جائین جسکی تقلید کرنے سے (کیونکہ یہہ مادہ اونمین فطرتی ہوتا ہے) اونکی رگ و پے مین اوسکا اثر پہہیل جاے۔ جس طرح خربزہ کو دیکہکر خربزہ رنگ پکڑتا ہے بعینہ یہی کیفیت بچونکی ہوتی ہے۔ پس اونکے لئے بڑی تعلیم یہہ ہے کہ عمدہ مثال قایم کی جاے۔

چاہے کیسے ہی خفیف خفیف چیزونکو مطابق بچونکی چال چلن قایم ہو جائے لیکن تاہم مرتے دم تک وہ عادتین پیچہا نہین چھوڑتی۔ ملٹن کا قول ہے کہ جس طرح صبح ہونے سے دن کی امید ظاہر ہوتی ہے اوسی طرح لڑکپن کے وقت سے انسان کی آیندہ زندگی حال مستنبط ہوتا ہے۔ پس جس قسم کی ابتدا مین تعلیم ہوتی ہے اوسکے مطابق نیکی اور بدی ذہن نشین ہو جاتی ہے۔ جو مدت العمر قایم رہتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 25

جب بچہ مانکے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے تو گویا وہ دنیا کے پہاٹک تک ابہی پہونچا ہے کہ آنکہہ کہولتے ہی اوسکو گرد اپنے صدہا قسم کی عجیب و غریب چیزین نظر آتی ہین جسپر پہلے تو اوسکی صرف حیرت انگیز نگاہین پڑتی ہین لیکن رفتہ رفتہ وہ اون عجائبات کو غور سے دیکھنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ کرنا۔ مقابلہ کرنا سیکہتا ہے اور تب اوسکی دماغ مین خیالات و تصورات پیدا ہونے شروع ہوتے ہین۔ پس اگر اس حالت مین دانشمندانہ تعلیم ہو تو فی الحقیقت اوسکی فوری ترقی بہت ہی تعجب خیز ہو جائے۔ لارڈ بروہم کا قول ہے کہ جس قدر ضروری چیزین اور اصول چار برس کے سن میں بچہ سیکہہ لیتا ہے اوس قدر وہ اپنی بقیہ زندگی میں بہی نہین حاصل کر سکتا۔ اس عام طفولیت مین جو معلومات بچونکو حاصل ہو جاتی ہے اور جو خیالات دماغ مین متمکن ہو جاتے ہین وہ اسقدر قوی الاثر ہوتے ہین کہ اونکو کاالعدم فرض کر لینے کے بعد بہی کسی کمبرج یا اکسفورڈ کے ڈگری یافتہ کی قابلیت کے سامنے کچھ حقیقت نہین رکہتی۔

وہ لڑکپن ہی کا زمانہ ہے جسمین خیالات فوراً ذہن نشین ہو جاتے ہین اور بہت خفیف اشتعال سے روشنی پیدا ہو جاتی ہے۔ اوسوقت کی باتین ہمیشہ دماغ میں قایم رہتی ہین۔ مسٹر اسکاٹ کی نسبت مشہور ہے کہ جسکو شاعری کا شوق اپنے انکے اشعار سنے سے ہوا ۔۔۔۔۔ وقت مین جبکہ یہہ ایک حرف بہی پڑہنے کے لائق نہین تھا۔ عالم طفولیت مثل ایک ایسے آینہ کے ہے جسمین آیندہ زمانہ کی وہ سیہین ظاہر ہوتی ہین جو ابتدا مین قایم کی جائین۔

گہر ایک ایسی جگہہ ہے جہان بچے پرورش پاتے ہین اور طرز معاشرت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 26

کے مطابق اپنے کو بہلائی یا برائی کی صورت مین ظاہر کرتے ہین۔ پس جس خاندان مین کہ عمدہ فرایض جاری ہین۔ جہان عقلمندی سے طبیعت و دماغ کی تربیت کی جاتی ہے۔ جہان روزانہ زندگی مین نیکی اور ایمانداری کا برتاؤ ہے اور جہان دانشمندی۔ مہربانی اور محبت کی تعلیم ہوتی ہے تو اوس خاندان کے بچے البتہ لایق۔ دانشمند۔ ہونہار اور فیضرسان ہو سکتے ہین۔

اور برعکس اسکے جس خاندان مین جہالت بیوقوفی اور خودغرضی پہیلی ہوئی ہے تو وہانکی اولاد بہی جاہل۔ ناشایستہ اور غیرمہذب ہو جائیگی۔ ایک قدیم یونانی حکیم کا قول ہے کہ اگر کسی بچے کا معلم کوئی غلام مقرر کیا جائے تو ہمارے پاس بجاے ایک کے دو غلام ہو جائینگے۔

چونکہ بچون مین تقلید کا قدرتی مادہ ہوتا ہے لہذا وہ کبہی اس سے باز نہین رہ سکتے کیونکہ جملہ خیالات و عادات طور و طریقے بزور کلام اونکے راستے مثل ایک نمونے کے ہوتے ہین جسوجہ سے ۔۔۔۔۔۔ چال چلن ۔۔۔۔۔ کرنے کے لئے اونکے سامنے عمدہ نمونے پیش کرنے چاہیین تاکہ یہ تقلید اونکے حق مین آیندہ زندگی کے واسطے مفید ثابت ہو۔ پس بچونکے واسطے عمدہ نمونے معلم کا حکم رکتے ہین۔ کسی بچے کی تعلیم یافتہ بان صدہا معلمون سے اچہی ہے کیونکہ اوسکے اقوال و افعال کی روشنی اونکے دماغ اور آنکہونمین بلا مشقت پہونچتی ہے اور اپنا عمدہ اثر ظاہر کرتی ہے۔ اوسکی تمثیل تعلیم سے بدرجہا زیادہ مفید ہے۔ اور بُری تمثیل کے مقابلے مین اعلٰے درجہ کی تعلیم یہی باالکل بیکار اور فضول ہے اسوجہ سے کہ تمثیل کی تقلید کی جاتی ہے قول کی نہین کی جاتی۔ قول کے برعکس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی ملا کی تعلیم دینداری بحالت بدنیتی کوئی عمدہ اثر نہین پیدا کر سکتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 27

ابتدائی تمثیل کو کاولی اس طرح بیان کرتا ہے کہ جیسے درخت کی چہال مین حرفونکے نشان بنا دئے جائین جو درخت کی بالیدگی کے ساتہہ خود بہی بڑہتے جائینگے۔ پس اوس حالت مین کیسا ہی چہوٹا خیال کیون نہ پیدا کر دیا جاے لیکن وہ کبہی معدون نہین ہو سکتا۔ اوسوقت کے خیالات کی نقشبندی مثل اسکے ہے کہ جیسے زمین مین تخم ریزی کی جاے پس جسطرح اس ترکیب سے غلہ پیدا ہوتا ہے اوسی طرح خیالات کی ذہن نشینی سے افعال و اقوال و عادات کی تربیت ہوتی ہے۔

یہہ قول کسی طرح مبالغہ مین نہین داخل ہو سکتا کہ حسرت۔ و مسرت جہالت و قابلیت تہذیب و ناشایستگی صرف عورتونکی تعلیم پر منحصر ہے۔ امرسن کا مقولہ بہت ٹہیک ہے کہ تہذیب و شایستگی کا کافی پیمانہ عورتونکی تعلیم کا اثر ہے۔ کسی خاندان کا بچہ ہو وہ اپنی مانکی گود مین پیدا ہوتا ہے پس اوسکی آیندہ زندگی تعلیم و تربیت اوسکی تاثیر بخش معلمہ کی تمثیل پر منحصر ہے۔

کسی دوسرے کے بہ نسبت عورتونکی تعلیم کا زیادہ اثر ہوتا ہے کیونکہ لوازمات انسانیت مین مرد مثل دماغ۔ قوت ممز اور طاقت کے ہے۔ لیکن عورت مثل طبیعت۔ قوت محسوسہ۔ لطافت۔ تربیت اور تسکین کے ہے۔ اگرچہ مرد دماغ کو درست کرتا ہے لیکن عورت قوت مدرکہ کو ٹہیک کرتی ہے جو خاص کر چال چلن کے واسطے بہت ضروری ہے۔ مرد ذہن کو خیالات سے مملو کرتا ہے اور عورت دل پر اثر ڈالتی ہے۔ مرد جس چیز کا ہمکو یقین دلاتے عورتین اوسکی محبت ہم میں پیدا کرتی ہین اور آخر الامر خاصکر عورتین ہین جو ہم مین نیکی اور بہلائی کرنے کی قابلیت پیدا کر سکتی ہین۔

جان رینڈلف مدبر امریکہ کہتا ہے کہ مین باالکل کافر ہو جاتا اگر مجھے
 
Top