فاتح بیٹا ! اللہ آپکی گڑیا کے نصیب بہت اچھے کرے ،دین و دنیا کی کامیابیاں اور خوشیاں عطا کرے (آمین)
مگر اس عمر میں بچے چاقو سے کھیلنا پسند کرتے ہیں (ّعلامہ اقبال کی ایک نظم ) اور پیتل کو بھی سونا سمجھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مگر کون باز آیا اور کون باز آئے گا
بزرگوارم! ان نیک تمناؤں پر تہ دل سے ممنون ہوں۔
بجا فرماتے ہیں آپ۔۔۔ کون جانے چاقو کیا ہے اور کھلونا کیا۔۔۔ شادی چاہے محبت کی ہو یا ارینجڈ، دونوں ہی جوا یا رسک ہیں جس میں کامیابی اور ناکامی کا تناسب تقریباً ایک ہی ہے۔
اگر جھگڑے لڑائیاں محبت کی شادی میں ہوتے ہیں تو کیا ارینجڈ میں اس بات کی گارنٹی ہے کہ نہیں ہوں گے؟ دونوں میں ہی جھگڑے لڑائیاں، خوشیاں، کامیابی و ناکامی کے چانسز ایک سے ہیں تو جنھوں نے زندگیاں گزارنی ہیں انھیں ان کی مرضی سے کیوں نہ گزارنے دی جائیں۔ تا کہ اگر کل کلاں کو لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے تو وہ کسی اور کو اس کا قصوروار تو نہیں ٹھہرائیں گے۔
میں نے پہلے بھی یہی لکھا تھا دنیا کا ہر مذہب اور ہر قانون انسان کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اور جیون ساتھی چننے کی اجازت دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں ماں باپ اپنی مرضیاں تھوپ کر اولاد کی زندگیاں بھی ویسے ہی تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جیسے ان کے ماں باپ نے ان کے ساتھ کیا۔۔۔ شاید اپنی خوشیاں چھیننے کا بدلہ اپنی اولاد کی خوشیاں چھین کر لے رہے ہیں۔
جب ایسے ماں باپ سے کہا جائے کہ آپ یہ کس مذہب کس قانون کے تحت کر رہے ہیں تو ان کا احمقانہ، جاہلانہ اور گھٹیا جواب یہ ہوتا ہے کہ "ہاں ہاں! باقی سب کام تو مذہب اور قانون کے تحت ہی ہو رہے ہیں نا!"
اس پر طرہ یہ کہ کچھ جاہل قسم کے لوگ ایسی احمقانہ قصے کہانیاں لکھ کے پھیلاتے رہتے ہیں کہ ماں باپ کی مرضی سے شادی کرنا ہی گویا مذہب ہے اور اس کے بدلے میں جنت الفردوس مل جائے گی جب کہ دوسری صورت یعنی اپنی مرضی سے شادی کرنے پر جہنم کی عمیق گہرائیوں میں پھینک دیے جاؤ گے۔