ایک لائن لکھ کر کہانی مکمل کریں

اربش علی

محفلین
اور جب پولیس حادثہ کی جگہ پر پہنچی اور وہاں باریکی سے ہر چیز کو پرکھا گیا تو ایک بلے کے پنجوں کے نشان ملے۔
سارے محلے میں تلاش کی گئی کہ کن کن گھروں نے بلےپال رکھے ہیں۔ پولیس کو یہ انکشاف حیرت میں ڈال گیاکہ پوری محلے میں کسی نے کئی سال سے کبھی کوئی بلی یا بلا نہ پالا تھا، طرفہ یہ کہ محلے والوں کا کہنا تھا کہ ان گلیوں میں پچھلے چھے سال سے کبھی کوئی بلی بلا کبھی نہ دیکھا گیا۔
پھر وہ بلا کون تھا جو اس رات گلی میں موجود تھا۔۔۔۔!!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
سارے محلے میں تلاش کی گئی کہ کن کن گھروں نے بلےپال رکھے ہیں۔ پولیس کو یہ انکشاف حیرت میں ڈال گیاکہ پوری محلے میں کسی نے کئی سال سے کبھی کوئی بلی یا بلا نہ پالا تھا، طرفہ یہ کہ محلے والوں کا کہنا تھا کہ ان گلیوں میں پچھلے چھے سال سے کبھی کوئی بلی بلا کبھی نہ دیکھا گیا۔
پھر وہ بلا کون تھا جو اس رات گلی میں موجود تھا۔۔۔۔!!
بلا کون تھا یا پھر کس نے بلے کا روپ دھارا ہوا تھا۔۔۔۔ اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب فیصل عظیم فیصل نے اس معاملے کی تفتیش شروع کی۔ ان کی آنکھوں میں جھٹ سے اس بلے کی تصویر گھومنے لگی جو حال ہی میں انھوں نے دیکھی تھی۔ لیکن کہاں؟؟؟؟ یہ یاد نہ آ رہا تھا۔
 

اربش علی

محفلین
بلا کون تھا یا پھر کس نے بلے کا روپ دھارا ہوا تھا۔۔۔۔ اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب فیصل عظیم فیصل نے اس معاملے کی تفتیش شروع کی۔ ان کی آنکھوں میں جھٹ سے اس بلے کی تصویر گھومنے لگی جو حال ہی میں انھوں نے دیکھی تھی۔ لیکن کہاں؟؟؟؟ یہ یاد نہ آ رہا تھا۔
"میں کہاں ہوں ؟؟"
"کون سی جگہ یہ ہے؟؟"
فیصل عظیم فیصل نے اندھیرے میں دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے یہ دو جملے کہنا چاہے، مگر منہ پر لگی ٹیپ لفظوں کو آواز دینے میں حائل تھی۔ جب ان کی آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہوئیں اور بدن کچھ بیدار ہوا تو پتا چلا کہ ان کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے سختی کے ساتھ جکڑے جا چکے تھے۔ سنسان کمرے میں دو کرسیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک پر انھیں اس طرح سے باندھا گیا تھا کہ انگلیوں کی جنبش تک ممکن نہیں تھی، اور سامنے والی دوسری کرسی ابھی خالی تھی۔۔۔۔۔۔!!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
"میں کہاں ہوں ؟؟"
"کون سی جگہ یہ ہے؟؟"
فیصل عظیم فیصل نے اندھیرے میں دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے یہ دو جملے کہنا چاہے، مگر منہ پر لگی ٹیپ لفظوں کو آواز دینے میں حائل تھی۔ جب ان کی آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہوئیں اور بدن کچھ بیدار ہوا تو پتا چلا کہ ان کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے سختی کے ساتھ جکڑے جا چکے تھے۔ سنسان کمرے میں دو کرسیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک پر انھیں اس طرح سے باندھا گیا تھا کہ انگلیوں کی جنبش تک ممکن نہیں تھی، اور سامنے والی دوسری کرسی ابھی خالی تھی۔۔۔۔۔۔!!
کرسی بظاہر خالی دکھائی دے رہی تھی مگر اس پر ایک پراسرار بلا موجود تھا جو جادوگر بلا کے نام سے مشہور تھا۔
 
کرسی بظاہر خالی دکھائی دے رہی تھی مگر اس پر ایک پراسرار بلا موجود تھا جو جادوگر بلا کے نام سے مشہور تھا۔
جادوگر بلا نے فیصل کو دیکھ کر ہنستے ہوئے خوش آمدید کیا ۔

بلا: وا وئی پلسئے توں آج میرے ہتھیں آ ای گیا ایں
فیصل : کسے گواچی باندری دیا بچیا ۔ کیلے کھان والی نسل توں میرے ہتھ کھول دے نئیں تے جے میں آپ کھول لئے تے سیدھا تیرا پلس مقابلہ ای کراں گا۔ تینوں شریفاں دا گارڈ بناواں ۔ تینوں حافظ لے جاوے کسے ڈمرو دے ڈھکن۔
بلا : ہی ہی ہی ۔۔ تو پھر آپ چاہتے ہیں کہ میں یوں ہاتھ بڑھاؤں اور یوں کر کے آپ کو کھول دوں ( یہ کہتے ہوئے فیصل کے ہاتھ کھول دیتا ہے ) تو یہ آپ کی بھول ہے کیونکہ میرے چنگل سے بچنا مشکل نہیں نا ممکن ہے ۔ یم پاسی بل ۔ مائی نیم اس بلا
اتنی دیر میں فیصل کا ہاتھ گھومتے ہوئے بلا کی گدی پر پڑا اور اسے دن میں تارے نظر آتے چلے گئے ۔

آجئو فیر
 
Top