ایچ اے خان
معطل
اچھا۔پاکستانیوں میں شر پسندی ، بدامنی اور سنسنی پھیلانے والے عناصر کو عموماً خارجی کہا جاتا ہے
الحمدللہ میں ان میں سے نہیں
میں سچا پاکستانی ہوں۔
اچھا۔پاکستانیوں میں شر پسندی ، بدامنی اور سنسنی پھیلانے والے عناصر کو عموماً خارجی کہا جاتا ہے
کہتے ہیں کہ کھانے کو انتظار نہیں کروانا چاہیے۔۔۔۔ میں اسی مقولے پر عمل کر رہا تھا۔اپنی اپنی سٹیک سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے ہم پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ ہم کس قدر سست ہیں تناول فرمانے میں جبکہ ذوالقرنین صاحب کھانے کے بعد کے کلمات بھی پڑھ چکے تھے ۔
ویسے بڑا نہ منائیں تو کہوں کہ خارجی شیعوں کی وہ جماعت تھی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوکر الگ ہوگئی تھیپاکستانیوں میں شر پسندی ، بدامنی اور سنسنی پھیلانے والے عناصر کو عموماً خارجی کہا جاتا ہے
ہم منتظر رہیں گے۔ اس مرتبہ اگر آپ کا کراچی آنا ہوا تو کراچی کی سیر کروانا میرے ذمہ رہا جبکہ محفل پر اس ملاقات کی روداد اور قابل دید مقامات کی تصاویر کی شئیرنگ آپ کے ذمے۔پچھلے سال ہم کراچی آئے تھے .شیر پاؤ لانڈھی اگر دوبارہ آنا ہو تو آپ کو ضرور اطلاع دینگے
اگر میرا کراچی آنا ہوا تو دونوں چیزیں آپ کے ذمہہم منتظر رہیں گے۔ اس مرتبہ اگر آپ کا کراچی آنا ہوا تو کراچی کی سیر کروانا میرے ذمہ رہا جبکہ محفل پر اس ملاقات کی روداد اور قابل دید مقامات کی تصاویر کی شئیرنگ آپ کے ذمے۔
اجی ہم کیا آپ کو کراچی دکھائیں گے، آپ تو خود کراچی کے باشندے ہیں۔اگر میرا کراچی آنا ہوا تو دونوں چیزیں آپ کے ذمہ
شکریہاجی ہم کیا آپ کو کراچی دکھائیں گے، آپ تو خود کراچی کے باشندے ہیں۔
البتہ آپ کی میزبانی کی سعادت اور اس کی روداد کا احوال پیش کرنے کے لیے ضرور حاضر ہیں۔
پوری بات لکھِیں نہ خان صاحب کہ خارجیوں کو شیعہ اس وجہ سے خارجی کہتے ہیں کہ وہ حضرت علی کے کفر کا فتوی دیتے تھے (نعوذ باللہ)، صفین میں تحکیم پر راضی ہونے کی وجہ سے اور باقی مسلمان اس وجہ سے خارجی کہتے ہیں کہ وہ امیر معاویہ اور انکے معاونین کو بھی کافر سمجھتے تھے (ایضا)۔ پس فی زمانہ جو اپنے علاوہ باقی سب کے کفر کا فتوی دے وہ "خارجی" ہوا۔ویسے بڑا نہ منائیں تو کہوں کہ خارجی شیعوں کی وہ جماعت تھی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوکر الگ ہوگئی تھی
متفقپوری بات لکھِیں نہ خان صاحب کہ خارجیوں کو شیعہ اس وجہ سے خارجی کہتے ہیں کہ وہ حضرت علی کے کفر کا فتوی دیتے تھے (نعوذ باللہ)، صفین میں تحکیم پر راضی ہونے کی وجہ سے اور باقی مسلمان اس وجہ سے خارجی کہتے ہیں کہ وہ امیر معاویہ اور انکے معاونین کو بھی کافر سمجھتے تھے (ایضا)۔ پس فی زمانہ جو اپنے علاوہ باقی سب کے کفر کا فتوی دے وہ "خارجی" ہوا۔
پہلے تو میرے غریب خانے ہی کو شرف میزبانی بخشیے گا، بعد میں سیر کے دوران کسی ریسٹورنٹ بھی چلے جائیں گے۔شکریہ
کونسے ریسٹورنٹ میں
مرزا قادیانی وغیرہپس فی زمانہ جو اپنے علاوہ باقی سب کے کفر کا فتوی دے وہ "خارجی" ہوا
جی میں نے کوئی نام اسی لیے نہیں لکھا تھا کہ دوستوں کی پروازِ تخیل پر یہ بات چھوڑ دوں کہ ع۔ فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اُوستمرزا قادیانی وغیرہ
میں آپ کی بات کا ہرگز برا نہیں مانتی کیونکہ آپ کا مزاج جانتی ہوں بہرحال شرپسندی کی ایک اور اچھی مثال قائم کی ہے آپ نے ۔ویسے بڑا نہ منائیں تو کہوں کہ خارجی شیعوں کی وہ جماعت تھی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوکر الگ ہوگئی تھی
ایسی بات پر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا کہوں ۔۔ تعریف کا شکریہ ادا کروں۔۔ یا سڑیل انسان کی طرح کوئی سڑی ہوئی بات کردوں ۔۔ یا بس خاموش رہ جاؤں ۔۔ لیکن جو عزت محبت آپ نے ہمیں دی اس کا شکریہ ادا کرنے کو الفاظ نہیں ۔۔ خاص بات اس ملاقات کی کہ جیسے اکثر ہوتا ہے پہلی ملاقات میں کچھ کچھ تصنع ہوتا ہے ۔۔ ویسا کچھ بھی نہیں تھامحفل کے بزرگ جو اپنی جدید تراش خراش کی بدولت کہیں سے بھی " بابا جی " نہیں دِکھتے آن حاضر ہوئے
شکر ہےمیں آپ کی بات کا ہرگز برا نہیں مانتی کیونکہ آپ کا مزاج جانتی ہوں بہرحال شرپسندی کی ایک اور اچھی مثال قائم کی ہے آپ نے ۔
شکریہپہلے تو میرے غریب خانے ہی کو شرف میزبانی بخشیے گا، بعد میں سیر کے دوران کسی ریسٹورنٹ بھی چلے جائیں گے۔
آپ کی خوبیوں کے تناظر میںشکر ہے
ویسے خارجی والی بات آپ نے کی تھی میں نے نہیں
خوش رہیںآپ کی خوبیوں کے تناظر میں
یہ مت بھولئے کہ آپ کی گفتگو آپ کی شخصیت کی عکاس ہے آپ جو عکس دکھائیں گے ہم وہی دیکھیں گے ۔
قبول ہے.انشاءاللہ اگلے سال ملاقات ہو سکتی ہے اگر زندگی نے وفا کیہم منتظر رہیں گے۔ اس مرتبہ اگر آپ کا کراچی آنا ہوا تو کراچی کی سیر کروانا میرے ذمہ رہا جبکہ محفل پر اس ملاقات کی روداد اور قابل دید مقامات کی تصاویر کی شئیرنگ آپ کے ذمے۔
صائمہ شاہ سے ملاقات
عہد حاضر میں بیرونی حملہ آوروں کی پیش قدمی سے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ فیس بک ہی ہے۔ یوں تو کوئی کتنا ہی محتاط رہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کر بیٹھتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک دن میں فیس بک کی نیوز فیڈ پر سرسری سی نظر گھما رہا تھا۔سیاست پر لفظوں کی جگالی، نصیحتو ں کے پند، مذہب پر مقالے لکھنے والے لڑکے بالوں کے اقوال، لڑکیوں کی تصاویر پر لکھے اشعار اور شئیر کرنے کی قسموں وعدوں والی پوسٹوں کے درمیان ایک تصویر نے توجہ کھینچ لی۔ لاہور کے بیچوں بیچ بہتی نہر۔ لاہور کا اپنا کوئی جغرافیہ تو ہے نہیں، لے دے کے ایک نہر ہی ہے جو اس شہر میں کسی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس کی اہمیت کے مسلّم ہونے میں کس کافر کو شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس پروفائل پر کیوں۔ شئیر کرنے والے سے رابطہ کیا۔ عرض گزاری۔ حضور! یہ کیا حرکت ہے؟ یہ تصویر کب کہاں کیسے؟ فرمانے لگے کہ بس فون اٹھایا جا رہا تھا تم سے رابطے کے لیے۔ ہم نے گپت آمد کا سبب پوچھا۔ پتا چلا کہ بوجوہ ہنگامی دورہ ہے۔ چند دن کا قیام ہے۔ جس میں سے نصف چند دن گزر چکے ہیں۔ اور بقیہ چند دن بھی جلد معیاد پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ موصوفہ نے ہمیں ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ جس انداز میں کہا، اس کو ٹرخانے پر بھی محمول کیا جا سکتا تھا۔
مؤرخہ 29 اکتوبر بروز ہفتہ کیفے کوسٹا میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وقت کی بےحد پابند نکلیں۔ (اے اللہ! مجھے معاف کر دے۔) دیدہ زیب شلوار قمیص میں ملبوس شاہ صاحبہ کو جیسا سوچا تھا، ویسا ہی پایا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت اپنے اوتار کا عکاس تھی۔ کھانا وہ کھا کر آئی تھیں اور ثبوت کے طور پر "لیفٹ اوورز" فیس بک پر بھی لگا آئی تھیں کہ میں کہیں کھانے کا اصرار نہ کروں۔ ہم نے چائے آرڈر کی۔ کیفے کا ماحول بہت ہی بد مزا کرنے والا تھا۔ رش اور بےجا شور۔ ساتھ والے میز پر براجمان فیملی کے بچوں کو صائمہ بےحد اچھی لگیں۔ جس کا اظہار انہوں نے بارہا زبردستی ان کی گود میں آکر کیا۔ میرے سر کے عین اوپر ایک سپیکر لگا تھا جس کی بلند آواز مجھے کیفے کی بجائے "منٹھار" میں بیٹھا محسوس کروا رہی تھی۔ دو بار آواز آہستہ کرنے کا کہنے کے باوجود آواز کم نہ ہوئی۔ یا اگر ہوئی تو مجھے بہرحال کم ہوتی محسوس نہیں ہوئی۔
ہم دونوں اس اونچی دکان پھیکا پکوان قسم کے وینیو کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے محفلین کو کوسنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگیں کہ فراز سے ملے بغیر نہیں جا سکتی۔ اس سے ملنے کا وعدہ بہت عرصے سے ہے۔میں نے کہا فراز بھائی کو ڈھونڈنے والا کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ موصوف کے تمام ٹھکانے میری نظروں میں ہیں۔ چاہ کر بھی نہیں چھپ سکتے۔ اگلے دن انہوں نے میرے گھر کے قریب ہی اپنی خالہ کے گھر آنا تھا۔ میں نے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی جو اس طرح قبول کی گئی کہ" اگر اُدھر اتنا وقت نہ لگا ، یا اگر وہاں ایسا نہ ہوا اور پھر اس کے بعد اِدھر بھی جانا ہے اور وہاں سے جلد خلاصی ہوگئی اور پھر تم نے فراز کو بھی وہاں بلوا لیا تو۔۔۔۔۔۔۔" اس "یہاں وہاں" میں لاہور کا جغرافیہ مکمل ہوتا تھاسو بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ اگلے دن یہ میرے گھر نہیں آئیں۔
ہماری یہ مختصر سی ملاقات چائے کے کپ اور فریڈیز کیفے میں لنچ کے منصوبے کے ساتھ ختم ہوگئی۔بعد ازاں فراز بھائی نے بھی اس کومحمود پایا اور تصویب فرمائی۔
اکتیس اکتوبر بروز سوموار منصوبہ یہ تھا کہ میں فراز بھائی کو پک کروں گا اور پھر فریڈیز پہنچا جائے گا۔ لیکن بھلا ہو لاہور کی سلجھی ٹریفک اور خالی سڑکوں کا۔ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اوپر سے ایک پولیس کانسٹیبل نے مجھے روک لیا ۔ دس منٹ کی چھان پھٹک کے بعد بھی جب چالان کرنے کی کوئی وجہ نہ ملی تو مجھے جانے دیا۔ اسی اثنا شاہ صاحبہ کا میسج ملا کہ وہ کیفے میں محو انتظار ہیں۔ میں نے فراز بھائی کو فون کیا کہ آپ خود جلد پہنچ جائیں۔ اور سیدھا کیفے پہنچا۔ سلام دعا کے بعد جناب نے پہلی بات کی۔ "پاکستان میں کیسے رہتے ہو تم لوگ؟ اللہ کی پناہ! صبح سے لائٹ نہیں ہے۔"یقین مانیےدل کو ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ اپنی ڈھٹائی کا عالم ہائے ہائے۔ "نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں"۔ دل کیا قہقہہ لگا کر ہنسیں۔ خوب مذاق اڑائیں۔ لیکن مروت بھی کوئی چیز ہے۔ سو ایک سنجیدہ سی رونی سی صورت بنا کر کہا۔ لائٹ کیسے جا سکتی ہے؟ آجکل تو شیڈول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے؟قبل اس کے ہمارے اس طرح کے جوابات سے شاہ صاحبہ شاہی جلال میں آتی۔ فراز بھائی بھی پہنچ گئے۔ فراز بھائی کی آمد کے بعد احباب نے کھانا تناول فرمانے کا فیصلہ کیا۔ کھانے کے دوران بھی ہلکی پھلکی گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ کھانے کے اختتام تک شاہ صاحبہ کی والدہ ، بہن اور بیٹا بھی آگئے۔ ان سب کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ رہی۔ آنٹی اتنی شفیق اور مہربان شخصیت۔ اللہ پاک ان کو جلد از جلد شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
صائمہ کی شخصیت کا تاثر جو محفل نے دیا۔باذوق، نفیس اور بامعنی بات کرنے والی، ویسا ہی قائم رہا۔ البتہ جو جارحانہ انداز یا سخت لہجہ اپنانے والا محفلی تاثر ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ بہت نرم لہجے میں ایک خوبصورت شخصیت سے سلجھے انداز میں باتیں سننے کا موقع ملا۔ فراز بھائی کے بارے میں اس لیے تاثرات قلمبند نہیں کیے کہ ان کے بارے میں چار سال قبل بھی لکھ چکا ہوں۔ اور ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ لہذا ان کی تعریف کو لوگ اقربا پروری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اور بدتعریفیاں ایکدوسرے کی ہم اکثروبیشتر کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہمارا معاہدہ ہے کہ یہ سرعام نہیں کی جائیں گی۔
صائمہ کی اگلی صبح فلائٹ تھی۔ اس کے باوجودجس طرح انہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکالا، وہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔اور اس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا شکرگزار ہوں۔
السلام و علیکم
آج محفل میں پھر اس خیال سے آگیا کہ مجھے احباب کے اصرار پہ لکھنے کا خیال آگیا..
خیر جی میرے پاس نینی کی طرح الفاظ کا ذخیرہ نہیں ہے اور صائمہ شاہ نے دبنگ انداز اپناتے ہوئی لکھا کہ متاثرین ہی احوال لکھیں.. اب سوچ رہا ہوں سیدھا سیدھا ہی لکھ دوں بس سادے انداز میں
جیسے کہ سب کو معلوم ہے کہ میں عرصہ دراز سے گوشہ نشین ہوں.. بلکہ.. بازار میں بیٹھا ہوں مگر گوشہ نشیں ہوں اس بات کو نینی خوب جانتا ہے..
کچھ دن پہلے صائمہ شاہ نے نہر کی تصویر فیس بک پہ شیئر کی پتا چل گیا محفل کی دبنگ خاتون لاہور میں ہیں ۔۔ اب اصل میں تو وعدہ یہ تھا کہ میری طرف سے لنچ یا ڈنر ہوگا لیکن دفتری مصروفیات نے جکڑ رکھا ہے پچھلے چند ماہ سے.. اور دل میں خواہش بھی تھی صائمہ شاہ خود کہیں کہ بھئی کہاں ہو.. اور ہوا بھی یوں کہ انہوں نے جس بندے کو کہا یعنی نینی کو.. اس کو میرے حالیہ سب ٹھکانے پتہ ہیں اور اکثر وہ چھاپہ مارنے کا فرض ادا کرتا ہے.. خیر پچھلے اتوار پہلی بار مجھے نینی نے کال کی اور مجھے پتہ لگ گیا کہ صائمہ شاہ جی نے بذریعہ نینی ڈھونڈ نکالا ہے اور مجھے لگا کہ ڈانٹ پڑنی ہے اب لیکن خوشی بھی ہوئی کہ ملاقات کے لیے یاد رکھا.. پہلے نینی کے گھر ملاقات کا ارادہ تھا لیکن پھر دوسرے دن دوپہر کو لنچ کا پروگرام بنا..
خیر جی دوسرے دن نینی کو کہا کہ بھائی مجھے پک کرلینا... لیکن اس کی کال آئی کہ بھائی خود ہی بہنچ جاؤ کیونکہ صائمہ شاہ جانے کے موڈ میں لگ رہی ہیں.. تو میں اپنے حساب سے فٹافٹ پہنچا اور وہاں صائمہ شاہ سے بالمشافہ ملاقات ہوئی اور یہ ضرور کہوں گا بہت کم خواتین کو بارعب حسن عطا ہوتا ہے اور صائمہ شاہ ان بہت کم خواتین میں سے ایک ہیں.. دھیما لہجہ اور دو ٹوک انداز بات کرنے کا.. اور اتنی دھیمی آواز کہ غور کرنا پڑتا کیا کہہ رہی ہیں اور اچھی بات یہ کہ بہت دوستانہ ماحول میں بات چیت ہوئی حالات حاضرہ پہ جس میں مزاح کا عنصر زیادہ تھا جبکہ میں زیادہ تر خاموش رہا جو کہ میری عادت ہے ۔۔ اور اللہ تینوں پُچھے نینی.. بیف اسٹیک منگوالیا اور میرے جیسا پینڈا اس کے ساتھ لڑنے لگ گیا جبکہ صائمہ شاہ اور نینی نے بڑے نارمل طریقے سے کھانا ختم کیا اور میرے پسینے چھوٹ گئے ۔۔ صائمہ شاہ نے میرے بالوں میں اتری چاندی کے باوجود یہ کہہ دیا کہ میں باباجی بالکل نہیں لگتا جس نینی تھوڑا جیلس ہوا تو اس کو بارہ سال کا منڈا کہنا پڑا.. اور نینی آج تک اس بات پہ پکا ہے کہ وہ بارہ سال کا ہی لگتا ہے ۔۔ اور ذرا چشم تصور سے دیکھیں تو ایک بہت بارعب خوبصورت خاتون(صائمہ شاہ) کے ساتھ ایک ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ قسم کا بندہ(نینی) اور ساتھ میں بیچارہ مینجر یا اسسٹنٹ قسم کا شریف انسان(فراز) بیٹھے اور کمپنی سی ای او دونوں کی کلاس لے رہی ہیں لنچ پہ بلاکر لیکن ایسا دیکھنے والوں کو لگتا ہوگا دراصل صائمہ اتنا دھیما بولتی ہیں کہ مجھے اور نینی کو اونچا بولنا پڑا.. پھر صائمہ کی والدہ بہن اور بیٹا آگئے اور بہت اچھا ان سے مل کر خاص طور پہ ماں جی سے مل کر تو بہت ہی اچھا لگا.. اور خاص طور ایک بات کہوں کہ صائمہ بہت اچھی با اخلاق اور فرینڈلی خاتون ہیں ان کی شخصیت میں نفاست اور رعب ہے اسٹائل ہے.. غصہ کہیں بھی نہیں ہے اور یقیناً ان کی دوستی ہمارے لیے بہت فخر اور خوشی کا باعث ہے کیونکہ وہ خود کہتی ہیں کہ وہ ان سے ملتی ہیں جن سے وہ ملنا چاہتی ہیں.. آخر میں آپ کا بہت شکریہ ادا کرنا چاہوں گا صائمہ شاہ کہ آپ نے ہمیں عزت محبت اور اعتماد دیا.. خوش رہیں آباد رہیں..
بہت شکریہ ایک خوبصورت ملاقات شیئر کرنے کے لیے۔ اللہ پاک آپ سب کو خوش و خرم اور اپنی حفاظت میں رکھیں۔ آمین۔نیرنگ خیال سے ملاقات اتنے ہولناک ماحول میں ہوئی کہ اب تک اس کے اثرات قائم ہیں ، پرشور بےہنگم موسیقی ، مادر پدر آزاد بچے اور ٹنوں میک اپ کے بوجھ سے لدی مائیں بچوں سے اس قدر بےنیاز تھیں کہ مجھ سمیت انہیں بھی خبر نہ ہوئی کہ میں ان کے بچوں کی بےبی سٹنگ کر رہی تھی ، غباروں کے پیچھے کودتے معصوم بچے بیگانگی کی حدود پھلانگتے میری نشست پر جوتوں سمیت حملہ آور ہوتے رہے اور میری نگاہیں ان کی ماوں کے تعاقب میں بھٹکتی رہیں کہ شائد تشویش کی کوئی لہر ابھی ابھرے اور کوئی ایک مشرقی ماں اپنے لاڈلے کی تلاش میں کوئی نظرکرم ڈالے مگر یہ معجزہ نہ ہوا ۔ بالائے ستم وہ چائے جو پیش کی گئی ایسا لگا جیسے کسی کی بد دعا ایک پیالی میں سمٹ آئی ہو خیر اس کے بعد یہی طے پایا کہ اس ملاقات کو ایک ڈراونا خواب سمجھ کر بھول جایا جائے اور بہتر جگہ پر فراز سمیت ملا جائے ۔
ہماری ملاقات فریڈیز میں طے پائی اور پہلے ملاقاتی کسی نزدیکی مال میں ٹہلتے ہوئے پابندی وقت کا قومی کھیل کھیل رہے تھے جب مجھے ایک فون کال کے ذریعے یاد دہانی کروانی پڑی کہ میں مقررہ وقت کے مطابق موجود ہوں سو موصوف ٹہلتے ٹہلتے آ پہنچے اور ان کے چند منٹ بعد ہی محفل کے بزرگ جو اپنی جدید تراش خراش کی بدولت کہیں سے بھی " بابا جی " نہیں دِکھتے آن حاضر ہوئے ۔ پچھلی ملاقات کے برعکس دونوں حضرات سے سیر حاصل گفتگو رہی بہت سے محفلین کا ذکر خیر ( آفیشلی ) اور ذکر بد ( ان آفیشلی ) موضوع گفتگو رہا ۔
نیرنگ خیال کو بابا جی کی کم عمری کے تذکرے نے دلی صدمہ پہنچایا اور انہوں نے حاضرین محفل سے زبردستی یہ طے کروایا کہ وہ بھی سولہ سے زیادہ نہیں دِکھتے ۔
اپنی اپنی سٹیک سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے ہم پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ ہم کس قدر سست ہیں تناول فرمانے میں جبکہ ذوالقرنین صاحب کھانے کے بعد کے کلمات بھی پڑھ چکے تھے ۔
ایک خوبصورت ملاقات اچھی صحبت اور گفتگو پر تمام ہوئی جانے دوبارہ زندگی یہ موقع دے یا نہ دے مگر مجھے حقیقتاً دونوں سے مل کر خوشی ہوئی ۔ سادگی سے بھر پور اور تصنع سے پرے دونوں شخصیات نے اپنے وقت سے چند قیمتی لمحے بھرپور خلوص سے میرے لئے وقف کئے جو میرے لئے بہت معنی رکھتے ہیں ۔
محفل کی محبتوں اور خلوص کے نام بہت سی دعائیں ۔