ایک ٹیلیفونی مکالمہ

ساجد

محفلین
اس دھاگے میں ہی جتنا احمدیوں اور اُن کے مذہبی عقائد کے خلاف بغض اگلا گیا ہے اُس سے پاکستان میں اقلیتوں کو ملنے والی مذہبی آزادی کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔
ارے بھائی ، کہاں بغض اگلا گیا ؟ بلکہ غور فرمائیں تو اس دھاگے میں آپ کو زیادہ تر مذہبی آزادی کے لئے زور دیتی تحاریر ملیں گے سوائے چند ایک کے۔
ہاں اگر آپ مذہب کی مبادیات پر مبنی اصولی بات کو بغض کہہ رہے ہیں تو شاید ہم آپ کو اپنی بات درست طریقے سے سمجھا نہ پائے ہوں یا پھر ممکن ہے کہ آپ نہ سمجھ پائے ہوں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
نیز مسلم لیگ اور پاکستان کے بانیان میں شامل آغا خانی شیعہ تو اسلامی شریعت کو ہی پوری طرح سے رد کر چکے ہیں، اُنہیں اب تک اس پکے مسلمان ملک میں 'مسلمان' ہونے کی آسائش کیوں حاصل ہے؟ کتاب و سنت ویب سائٹ پر ایک کتاب ایسی بھی موجود ہے جس میں اکابر علمائے کرام کے وہ فتوے جمع کیے گئے ہیں جو اُنہوں نے آغا خانیوں/اسماعلیوں کی تکفیر میں جاری کیے ہیں۔ بنیاد اُن کی بھی وہی ہے کہ آغا خانی دین کے 'بنیادی ارکان' کے انکاری ہیں۔ اب پتا نہیں ان 'بنیادی ارکان' کے انکاریوں کی فہرست کا اختتام کہاں جا کر ہو گا؟
حسان، اسماعیلیوں کو پاکستان میں مسلمان کا درجہ حاصل نہیں ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اسماعیلی اسلام کے بنیادی ارکان کو نہیں مانتے۔ اسماعیلیوں کے جماعت خانوں میں عام طور پر مسلمانوں کو جانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں سندھ ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔ میں کسی وقت فرصت میں وہ فیصلہ ڈھونڈ کر اس کے مندرجات بھی محفل میں پیش کروں گا انشاءاللہ۔
 

سید ذیشان

محفلین
اب آتے ہیں آپ کی بات کی طرف کہ بریلویوں یا شیعوں کو بھی کچھ لوگ تکفیری فتووں پر رکھتے ہیں تو عرض کر دوں کہ یہ دونوں مکاتیبِ فکر احمدیت کے وجود سے پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں لیکن ان میں سے کسی کا عقیدہ بھی توحید و ختمِ نبوت کے بارے میں ڈانواں ڈول نہیں اور نہ ہی یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور کو نبی مانتے ہیں۔


سپاہ صحابہ وغیرہ کی پوری کوشش ہے کہ اہل تشیع کو بھی کافر قرار دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ امامت کا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف جاتا ہے کیونکہ امام بھی ایک طرح کا نبی ہوتا ہے (اصل میں ایسا نہیں ہے لیکن "جس کی لاٹھی اس کی بھینس")- ان کے مطابق شیعہ ہندوں، یہودیوں،احمدیوں سے بھی بڑے کافر ہیں۔ اس کے علاوہ بریلویوں پر تو شرک کا الزام لگایا جاتا ہے جو کہ ختم نبوت کے انکار سے زیادہ شدید ہے-
ان دونوں گروہوں کو ابھی تک یہ کافر اس لئے قرار نہیں دے سکے کیونکہ ان کی تعداد کافی زیادہ ہے- اگر صرف عقائد پر ہی تکفیر کی بات ہو تو سب ایک دوسرے کو کافر ہی گردانتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
حسان، اسماعیلیوں کو پاکستان میں مسلمان کا درجہ حاصل نہیں ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اسماعیلی اسلام کے بنیادی ارکان کو نہیں مانتے۔ اسماعیلیوں کے جماعت خانوں میں عام طور پر مسلمانوں کو جانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں سندھ ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔ میں کسی وقت فرصت میں وہ فیصلہ ڈھونڈ کر اس کے مندرجات بھی محفل میں پیش کروں گا انشاءاللہ۔

بہت خوب! آج پتا چلا کہ 'مسلم' لیگ کے بانی اور پہلے صدر سر آغا خان سوم اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے گھر والے بھی اس پکے مسلمان ملک پاکستان میں کافر گردانے جاتے ہیں۔
ویسے گلگت اور ہنزہ میں ان اسماعیلی 'کافروں' کی ہی اکثریت ہے۔ میرے خیال سے تو یہ اسماعیلی کافی احمق تھے کہ اپنے جیسے ایک غیر مسلم ملک بھارت سے لڑ کر آزاد ہوئے اور پھر غیر مشروط طور پر ایک مسلمان ملک پاکستان سے ملحق ہو گئے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت خوب! آج پتا چلا کہ 'مسلم' لیگ کے بانی اور پہلے صدر سر آغا خان سوم اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے گھر والے بھی اس پکے مسلمان ملک پاکستان میں کافر گردانے جاتے ہیں۔
ویسے گلگت اور ہنزہ میں ان اسماعیلی 'کافروں' کی ہی اکثریت ہے۔ میرے خیال سے تو یہ اسماعیلی کافی احمق تھے کہ اپنے جیسے ایک غیر مسلم ملک بھارت سے لڑ کر آزاد ہوئے اور پھر غیر مشروط طور پر ایک مسلمان ملک پاکستان سے ملحق ہو گئے۔
حسان، اگر جذباتی تقریر کرنی ہے تو وہ میں آپ سے بہتر کرسکتا ہوں کہ مجھے تیرہ برس سے زائد عرصہ ہوگیا ہے یہ کام کرتے۔ میں نے بات قانون سے متعلق کی تھی۔ آپ شاید اسماعیلیوں کے نظریات و عقائد سے واقف نہیں ہیں، اس لئے جذباتی تقریر کا سہارا لے ہیں۔ پہلے ان کے نظریات و عقائد کے بارے میں پڑھ لیجئے، اس کے بعد ایک الگ دھاگہ بنا کر میں اور آپ اس موضوع پر بحث کرلیں گے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
سپاہ صحابہ وغیرہ کی پوری کوشش ہے کہ اہل تشیع کو بھی کافر قرار دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ امامت کا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف جاتا ہے کیونکہ امام بھی ایک طرح کا نبی ہوتا ہے (اصل میں ایسا نہیں ہے لیکن "جس کی لاٹھی اس کی بھینس")-
یہ تو حقیقت ہے کہ شیعوں کا ایک بڑا گروہ اس عقیدے کا حامل ہے کہ ’امام جس اعلٰی و ارفع مرتبے پر فائز ہوتا ہے، کوئی مقرب فرشتہ یا نبی مرسل بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔‘ جس کسی کو میری اس بات سے اختلاف ہے وہ ایک بار آئمہ کے بارے میں شعیوں کے نظریات پر تحقیق کرلے حقیقت اس پر خود ہی واضح ہوجائے گی۔ خود امام خمینی نے اپنی کتاب الحکومۃ الاسلامیہ میں بھی یہی نظریہ پیش کیا ہے۔

پسِ تحریر: میں اس وقت دفتر میں ہوں اور مذکورہ کتاب گھر پر پڑی ہے، انشاءاللہ گھر جا کر کتاب کا اقتباس مکمل حوالے کے ساتھ پیش کروں گا۔
 

رانا

محفلین
یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جس کا بار بار ذکر کیا گیا کہ احمدیوں کو قانوناً اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ مسلمانوں جیسے کام کریں اور اسلامی اصطلاحات و شعار وغیرہ سے انہیں حکومت کی طرف سے جبراً باز رکھا جانا چاہئے۔ اس حوالے سے جماعت احمدیہ کی آفیشل ویب سائٹ پر ایک آرٹیکل کیا اسلامی اصطلاحیں مسلمانوں کا پیٹنٹ ہیں؟ کے عنوان سے موجود ہے۔ پورا مضمون تو بہت بڑا ہے یہاں شئیر کرنا مشکل ہے لیکن اس کے صرف چند حصوں کا خلاصہ ہی یہاں شئیر کرتا ہوں۔ دلچسپی رکھنے والے احباب اس لنک پر جاکر پورا مضمون پڑھ سکتے ہیں۔
جن شعار اور اصطلاحوں کے استعمال سے ہمیں یہ کہہ کر منع کیا جاتا ہے کہ یہ اسلام سے ہی مخصوص ہیں اور ان پر صرف مسلمانوں کی اجارہ داری ہے اس لئے کسی بعد میں آنے والے کو ہم ان کے استعمال کا حق نہیں دیں گے۔ اس پہلو سے جہاں تک اسلامی اصطلاحات کا تعلق ہے یہ تواللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں ، کسی مُلاّں نے نہیں بنائیں ۔ کسی فرقہ کے عالم نے تو نہیں بنائیں۔ لیکن اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ ان اصطلاحوں پر ان کی اجارہ داری ہے تو پھر اگر پاکستان میں ایک پیٹنٹ آفس مذاہب کے لئے کھولا جائے کہ اس طرح کے جھگڑوں سے بچنے کے لئے تمام مذاہب اپنی اپنی اصطلاحات جن پر وہ اپنا حق سمجھتے ہیں وہ اس پیٹنٹ آفس میں ثبوت کے ساتھ اندراج کرالیں تاکہ بعد میں پھر کوئی ان کو بغیر اجازت استعمال نہ کرسکے تو سوچیں ذرا ہوگا کیا؟

سب سے پہلے یہودی آئیں گے اور کہیں گے کہ ہم ’’مسلمان‘‘ کی اصطلاح پیٹنٹ کرانا چاہتے ہیں کہ اس پر ہمارا حق ہے سب سے پہلے ہمارے مذہب میں یہ استعمال ہوئی تھی۔ اور ثبوت کیا دیں گے؟ایسا کہ کوئی مسلمان جھٹلا بھی نہ سکے گا۔ قرآن سے ثبوت دیں گے کہ دیکھیں رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لک وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ)(البقرۃ: 128 ) کہ ابراہیم دعا کرتے ہیں حضرت اسماعیل کے ساتھ کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنے لئے دو مسلمان بنادے اور ہماری اولاد میں سے بھی اسی طرح مسلمان بناتا چلا جا۔ یہ امت مسلمہ تیرے لئے ہوگی یہود کہیں گے کہ یہ اصطلاح تو سب سے پہلے ہمارے مذہب کے نبی ابراہیم کے لئے استعمال ہوئی تھی کہ وہ مسلمان تھا۔ اب حکومت پاکستان کیسے رد کرے گی یہ ثبوت؟ پہلی ہی پیٹنٹ کی درخواست میں پاکستان کے تمام مسلمان اب غیر مسلم بن گئے کہ اگر مسلمان کہلوانا ہے تو پہلے یہود سے اجازت حاصل کرو۔ سوال یہ ہے کہ یہود سے کیوں اجازت حاصل کریں۔ یہ بنیادی سوال ہے۔

یہودیوں کی اگلی درخواست ہوگی کہ مسلمان بھی ہم ہیں اوربِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ہمارا حق ہےکیونکہ حضرت سلیمان ؑ نے جو خط بھیجا تھا ملکہ سبا کو اس پریہ لکھاہوا تھا قَالَتْ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّىْۤ اُلْقِىَ اِلَىَّ کِتٰبٌ کَرِيْمٌ میرے پاس ایک بہت ہی معزز ایک رسالہ، ایک خط بھیجا گیاہے۔(اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ) سلیمانؑ کی طرف سے اور وہ کہتاہے وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ) ۔ اور پھر مسلمان ہونے کی دعوت کیا کہتی ہے کہ مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ (سورہ النمل 31)۔لہذا پہلے تو صرف مسلمان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے اب بسم اللہ سے بھی گئے۔ اب قرآن بسم اللہ کے بغیر کیسے پڑھیں گے؟ کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھ سکتے کہ یہ تو یہود کا حق ہے اور انہوں نے پابندی لگائی ہوئی ہے کہ کسی دوسرے کو اجازت نہیں یہ پرھنے کی۔ ہم احمدیوں پر سینکڑوں مقدمات صرف اس وجہ سے درج ہیں کہ فلاں نے شادی کارڈ پر بسم اللہ لکھی تھی یا دکان میں لکھی ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ۔

ہمیں کہتے ہیں تم اپنی مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔ اب ایک اور Patent عیسائیوں کی طرف سے آئے گا ۔کئی درخواستوں پریہودیوں نے قبضہ کر لیا۔ اب عیسائیوں کا Patent آنے والاہے۔ قرآ ن کریم فرماتاہے اور تسلیم کرتاہے اس بات کو کہ وہ عیسائی جو خدائے واحد کے نام پر ستائے گئے جس طرح آج احمدیوں کو ستایا جارہاہے اور زیر زمین چلے گئے جب ان کواللہ تعالیٰ نے بالآخریہ خوشخبری دی کہ باہر امن ہو گیاہے ۔تمہارے حقوق قائم ہو گئے ہیں ۔اب تم بے شک زیر زمین حالت سے باہر آجاؤ تو اس مقام پریہ فیصلہ ہوا تھاکہ یادگار کے طورپر کیا بنایا جائے۔ اس کا جواب قرآن کریم فرماتاہے ( قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓى اَمْرِهِمْ )الکہف:21) وہ لوگ جو فیصلہ کرنے میں زیادہ قوی تھے اور طاقت رکھتے تھے انہوں نے کہا لَ۔نَ۔تَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَّسْجِدًاہم ان کی یادگار کے طورپر اس مقام پر مسجد بنائیں گے ۔تو اب عیسائی کہیں کہ دیکھو تم نے خواہ مخواہ مسجدوں کا جھگڑا شروع کیاہوا ہے ۔یہ تو عیسائی اصطلاح ہے اور قرآن اس پر گواہ ہے ۔ تم کیسے اس کے موجد ہو سکتے ہو۔ یہ درخواست عیسائیوں کی ہوگئی۔ اسلام پر اور(بِسْمِ اللّٰہِ) پر تو قبضہ کرلیا ہے یہودنے۔ اور اب رہا’ مسجد ‘ اس پر عیسائی قابض ہو گئے ۔اب مولوی کیا بنائیں گے پھر۔ ان کی کون سی درخواست قبول ہوگی اور کیوں قبول ہوگی۔ یہ سوال ہے۔ کس طرف قرآن کھڑا ہوگا؟۔اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ جس Patentکو Patent کے مسلّمہ قواعد کے مطابق درج کرنا ضرور ی ہے اور جس کے مذہب میں سب سے پہلے کوئی اصطلاح رائج ہوئی تھی تو لازماًجس کی طرف قرآن ہوگا اس کی بات مانی جائے گی اور نعوذباللہ گویا قرآن، قرآن کے خلاف گواہی دے رہاہوگا۔ اس لئے یہ ظالمانہ تصورہی بالکل بیہودہ اور لغو ہے۔ دین میں کوئی Patentنہیں ہے ۔ ہر اچھی بات کی طرف ہر سچا مومن بلاتاہے اور جب وہ اس کو اختیار کرتاہے تو خوش ہوتاہے۔

پورا مضمون اس لنک پر جاکر دیکھ لیں یہ صرف چند مثالیں دی ہیں۔ آگے سب لوگ خود غور کرلیں کہ پاکستان کے مولویوں نے خود یہودیوں اور عیسائیوں کو راستہ دکھا دیا ہے۔ وہ پہلے ہی مسلمانوں کو تنگ کرنے کا کوئی حیلہ نہیں جانے دیتے تو اس پاکستان کی مثال کو دیکھ کر اب اگر انہوں نے اقوام متحدہ میں درخواست دے دی کہ یہ ہماری اصطلاحیں ہماری اجازت کے بغیر کوئی استعمال نہ کرے تو سوچیں کہ اقوام متحدہ میں تو قبضہ ہی یہودیوں اور عیسائیوں کا ہے۔ انہوں نے اگر قانون بنادیا کہ کوئی مسلمان یہ اصطلاحیں استعمال نہیں کرسکتا تو کیا باقی رہ جائے گا؟ اور مسلمانوں کے باون ممالک ہیں باقی اکیاون تو اقوام متحدہ میں اس کیس کو لڑنے کے لئے چلے جائیں گے لیکن پاکستان کس منہ سے اس کیس کے خلاف لڑنے جائے گا؟ بلکہ اگر پاکستان ساتھ شامل ہونا چاہے گا تو باقی مسلمان ممالک ہاتھ جوڑ کر واسطے دیں گے کہ خداکے لئے تم نہ اس وفد میں آنا ورنہ تمہیں دیکھتے ہیں وہ اقوام متحدہ والے کیس خارج کردیں گے کہ یہ تو بالکل پاکستان کے قانون کے مطابق مبنی بر انصاف قانون ہے اس لئے بدلا نہیں جاسکتا۔

اقوام متحدہ کو تو چھوڑیں اگر ڈیڑھ سو سے زائد غیر مسلم ممالک نے پاکستان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں پر یہ پابندی لگا دی کہ یہ اصطلاحیں مسلمان استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ یہود اور عیسائیوں میں یہ سب سے پہلے رائج ہوئیں تھیں تو سوچیں ذرا کیا پاکستان کے مسلمان ان ممالک کے اس فیصلے کو انصاف کا فیصلہ کہہ سکیں گے؟

اس آرڈیننس پر پاکستان کے ایک صحافی ایڈوکیٹ غالبا اصغر علی گھرال نام تھا شائد انہوں نے ایک کتاب میں تبصرہ کیا تھا کہ اگر مولوی کو اس طرح کھل کھیلنے کی چھوٹ دی گئی تو یہ سلسلہ یہیں نہیں رکے گا بلکہ آگے تک جائے گا کہ احمدیوں پر یہ بھی پابندی لگائی جائے گی کہ اپنے نومولود بچوں کے کانوں میں اذان نہیں دے سکتے۔ بلکہ مسلمانوں کی طرح روزہ بھی نہیں رکھ سکتے اور پولیس رمضان میں احمدیوں کو زبردستی کھانا کھلا کر چیک کیا کرے گی کہ کہیں چھپ کر روزہ تو نہیں رکھ لیا اس نے۔

جب یہ قانون 1984 میں نافذ ہوا تھا تو ہندوستان میں ایک اخبار میں ایک سکھ نے لکھا تھا آج ہمارے سینے میں ٹھنڈ پڑ گئی ہے اور ہمارے اوپر سے وہ الزام دور ہوگیا ہے کہ مسلمان ہمیں کہتے تھے کہ تم کیسی جاہل قوم ہو جو ہماری اذان سن کر بھرشٹ ہوجا تے ہو۔ سب کو علم ہوگا کہ سکھوں کے دور حکومت میں پنجاب میں مسلمانوں کے اذان کہنے پر سکھوں کی طرف سے پابندی تھی کہ اذان کی آواز سے ہمارے کھانے بھرشٹ ہوجاتے ہیں۔ اس سکھ نے لکھا کہ آج ہم سے یہ داغ دھل گیا کہ اب خود مسلمانوں نے مسلمانوں کی اذانیں بند کرائیں ہیں۔ اب ہمیں کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا۔ چودہ سو سال پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے گھر میں اذان دینی شروع کی تھی تو کفار مکہ یہی شکایت لے کر گئے تھے کہ اپنی اذان بند کردیں کیونکہ اذان سے ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔

افسوس احمدیت دشمنی میں یہ مولوی کفار مکہ کے نقش قدم پر چلنے سے بھی نہ چُوکے۔ 1987 میں ملتان میں ایسے ہی ایک کیس کے دوران ملتان کے ختم نبوت کے ناظم غالباً تاج محمد بھٹی نام تھا ان کا عدالت میں ایسے ہی ایک کیس کی پیروی کے دوران یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ یہ درست ہے کہ چودہ سو سال پہلے جو شخص مسلمان ہوتا تھا اس سے کفار مکہ یہی سلوک کرتے تھے جو آج ہم احمدیوں سے کررہے ہیں۔ یہ تو صرف ملکی قانون کو ہی ہاتھ میں نہیں لے رہے بلکہ خدائی قانون کو بھی ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہیں یقین ہو کہ اب احمدیوں کو پھیلنے سے جس طرح بھی روکنا ہے اور جو کچھ کرنا ہے خود ہی کرنا ہے خدا پر بھروسا مت رکھنا کہ نعوذ باللہ خدا مرگیا ہے کہ کوئی ایکشن ہی نہیں لے رہا اس لئے اب اسلام کو صرف ہم پاکستان کے علما نے ہی بچانا ہے۔ افسوس کہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے مولوی کن گلیوں میں بھٹک گئے جہاں کبھی کفار مکہ بھٹکا کرتے تھے۔
 

سید ذیشان

محفلین
یہ تو حقیقت ہے کہ شیعوں کا ایک بڑا گروہ اس عقیدے کا حامل ہے کہ ’امام جس اعلٰی و ارفع مرتبے پر فائز ہوتا ہے، کوئی مقرب فرشتہ یا نبی مرسل بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔‘ جس کسی کو میری اس بات سے اختلاف ہے وہ ایک بار آئمہ کے بارے میں شعیوں کے نظریات پر تحقیق کرلے حقیقت اس پر خود ہی واضح ہوجائے گی۔ خود امام خمینی نے اپنی کتاب الحکومۃ الاسلامیہ میں بھی یہی نظریہ پیش کیا ہے۔

پسِ تحریر: میں اس وقت دفتر میں ہوں اور مذکورہ کتاب گھر پر پڑی ہے، انشاءاللہ گھر جا کر کتاب کا اقتباس مکمل حوالے کے ساتھ پیش کروں گا۔


شیعوں کا یہ نظریہ ہے کہ وحی کا سلسلہ رسول اللہ (ص) پر ختم ہو گیا ہے۔ اور دین اسلام بھی مکمل ہو گیا ۔ ان کے بعد کوئی اس میں ردوبدل نہیں کر سکتا۔

اس لنک پر آپ کو سورہ بقرہ کی آیت 124 کی تفسیر مل جائے گی جس میں امامت کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

ویسے میں نے جو بات کی تھی وہ مثال دی تھی کہ کسی کو کافر ثابت کرنا کتنا آسان کام ہے جب جج بھی انسان خود ہو، جیوری بھی وہی ہو اور جلادبھی وہی ہو۔ آپ نے میری دلیل کو کافی مضبوط کیا :)
 

حسان خان

لائبریرین
کیا ہی بہتر ہو اگر ہم 'منحرف' گروہوں کے عقائد کی اتنی فکر کرنے اور اُنہیں گمراہ ثابت کر کے راہِ راست پر لانے کی اتنی کوشش کرنے کے بجائے اپنی فکر کرنا شروع کر دیں۔
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو
 

حسان خان

لائبریرین
حسان، اگر جذباتی تقریر کرنی ہے تو وہ میں آپ سے بہتر کرسکتا ہوں کہ مجھے تیرہ برس سے زائد عرصہ ہوگیا ہے یہ کام کرتے۔ میں نے بات قانون سے متعلق کی تھی۔ آپ شاید اسماعیلیوں کے نظریات و عقائد سے واقف نہیں ہیں، اس لئے جذباتی تقریر کا سہارا لے ہیں۔ پہلے ان کے نظریات و عقائد کے بارے میں پڑھ لیجئے، اس کے بعد ایک الگ دھاگہ بنا کر میں اور آپ اس موضوع پر بحث کرلیں گے۔

مجھے اسماعیلیوں کے 'غلط' نظریات و عقائد کی چنداں فکر نہیں۔ میں بس یہ جانتا ہوں کہ مجھے اسماعیلیت اور اسماعیلی اچھے لگتے ہیں اور اُن کی تاریخ اور تمدنی خدمات میں مجھے کافی دلچسپی ہے اور اس بارے میں کافی مطالعہ بھی رہا ہے۔ نیز، یہ حقیقت بھی ہمیشہ پیشِ نظر رہتی ہے کہ قائدِ اعظم کا تعلق بھی اسی فرقے کے گھرانے سے تھا۔ اب اس کے بعد اسماعیلیوں کے خلاف صادر ہوئے سارے فتوے اور کسی کے اُن کے اور اُن کے عقائد کے بارے میں خیالات میری نظر میں ہیچ ہیں۔

ویسے بھی جہاں تک مذاہب اور عقائد کا تعلق ہے تو میرا ماننا ہے کہ یہ سب نفسی (subjective) چیزیں ہیں، جن پر درست اور غلط کا قاعدہ نہیں لگایا جا سکتا۔
 
آپ ذرا دوبارہ میرا مراسلہ پڑھ کر بتادیجئے کہ میں نے کہاں یہ کہا ہے کہ قادیانیت کی تبلیغ کی اجازت ہے یا ایسی اجازت دے دینی چاہئے۔ بات شروع ہی اس واقعے سے ہوئی تھی جس پر آپ کچھ نہیں کہنا چاہتیں اور آپ نے میری بات کا اقتباس بھی اسی واقعے سے لے کر بحث کا آغاز کیا تھا۔​
میں اپنی بات مکمل کر چکی ہوں ۔ قادیانی کتب کا پاکستان میں چھپنا اور بیچنا ویسے ہی ممنوع ہے جیسے کسی بھی توہین آمیز کتاب کا ۔ یہ لوگ اگر چھاپنے اور تقسیم کرنے سے باز نہیں آ رہے تو یہ ان کی غنڈہ گردی ہے ۔ ان کی اس غنڈہ گردی اور فساد کی کوشش پر حکومت آنکھیں بند رکھتی ہے تو اشتعال پھیلتا ہے ۔ کوئی کسی کے مذہب کی توہین کرے گا تو جوابا کوئی پھول نہیں برسائے گا ۔ میرا پہلا مراسلہ دیکھ لیجیے میری بات واضح ہے ۔​
 

عاطف بٹ

محفلین
”امام اپنے منصب کے لحاظ سے بہت بلند ہوتا مقام پر فائز ہوتا ہے۔ اس کی ’ولایت‘ کائناتی ہوتی ہے، یعنی کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم و اقتدار کے آگے سرنگوں ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب (شیعہ) کی بنیادی تعلیمات میں یہ عقیدہ موجوہ ہے کہ ہمارے آئمہء کرام کو اللہ تعالیٰ کے حضور اتنا تقرب حاصل ہے کہ جسے نہ کوئی مقرب فرشتہ پاسکا ہے اور نہ کوئی نبی مرسل۔“ [صفحہ نمبر: 119 تا 120 - امام خمینی: دعوت، تحریک اور افکار - مصنف: علامہ امام روح اللہ موسوی خمینی، مرتبین: سید اسعد گیلانی، مولانا محمد نصراللہ خان خازن مجددی، اشاعت: جنوری 2008ء، ایڈیشن: 1، اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور]
”آئمہء اطہار ہی کے بارے میں ایک دوسرے روایت میں ہے، ’اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں ایسا قرب حاصل ہوتا ہے جو کسی ملک مقرب اور نبی مرسل کو بھی میسر نہیں۔‘ ایسے ہی درجہء بلند پر حضرت فاطمۃ الزہرا علیہا السلام فائز تھیں۔“ [صفحہ نمبر: 121]

پسِ تحریر: کتاب مذکور کے جن حصوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ امام خمینی کی کتاب ’الحکومت الاسلامیہ‘ کا اردو ترجمہ ہیں۔ ’الحکومت الاسلامیہ‘ کے تعارف کے بارے میں کتاب مذکور میں یہ الفاظ درج ہیں: ’الحکومت الاسلامیہ‘ دراصل امام خمینی کے ان محاضرات کا مجموعہ ہے جو آپ نے 13 ذی قعدہ 1389ء سے لے کر یکم ذی الحجہ 1389ء تک نجف اشرف میں علمِ فقہ میں ’ولایتِ فقیہہ‘ کے موضوع پر ان علمائے دین کے سامنے کیے جو سند فضیلت حاصل کر کے فارغ ہورہے تھے۔
 

سید ذیشان

محفلین
”امام اپنے منصب کے لحاظ سے بہت بلند ہوتا مقام پر فائز ہوتا ہے۔ اس کی ’ولایت‘ کائناتی ہوتی ہے، یعنی کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم و اقتدار کے آگے سرنگوں ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب (شیعہ) کی بنیادی تعلیمات میں یہ عقیدہ موجوہ ہے کہ ہمارے آئمہء کرام کو اللہ تعالیٰ کے حضور اتنا تقرب حاصل ہے کہ جسے نہ کوئی مقرب فرشتہ پاسکا ہے اور نہ کوئی نبی مرسل۔“ [صفحہ نمبر: 119 تا 120 - امام خمینی: دعوت، تحریک اور افکار - مصنف: علامہ امام روح اللہ موسوی خمینی، مرتبین: سید اسعد گیلانی، مولانا محمد نصراللہ خان خازن مجددی، اشاعت: جنوری 2008ء، ایڈیشن: 1، اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور]
”آئمہء اطہار ہی کے بارے میں ایک دوسرے روایت میں ہے، ’اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں ایسا قرب حاصل ہوتا ہے جو کسی ملک مقرب اور نبی مرسل کو بھی میسر نہیں۔‘ ایسے ہی درجہء بلند پر حضرت فاطمۃ الزہرا علیہا السلام فائز تھیں۔“ [صفحہ نمبر: 121]

پسِ تحریر: کتاب مذکور کے جن حصوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ امام خمینی کی کتاب ’الحکومت الاسلامیہ‘ کا اردو ترجمہ ہیں۔ ’الحکومت الاسلامیہ‘ کے تعارف کے بارے میں کتاب مذکور میں یہ الفاظ درج ہیں: ’الحکومت الاسلامیہ‘ دراصل امام خمینی کے ان محاضرات کا مجموعہ ہے جو آپ نے 13 ذی قعدہ 1389ء سے لے کر یکم ذی الحجہ 1389ء تک نجف اشرف میں علمِ فقہ میں ’ولایتِ فقیہہ‘ کے موضوع پر ان علمائے دین کے سامنے کیے جو سند فضیلت حاصل کر کے فارغ ہورہے تھے۔


لیکن یہ بات آپ بھول رہے ہیں کہ کئی انبیاء بھی امام کے درجے پر فائز تھے۔ مثلاً ابراہیم (ع)۔ پوسٹ 68 میں دیئے گئے لنک پر مزید تفصیلات دیکھ سکتے ہیں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
لیکن یہ بات آپ بھول رہے ہیں کہ کئی انبیاء بھی امام کے درجے پر فائز تھے۔ مثلاً ابراہیم (ع)۔ پوسٹ 68 میں دیئے گئے لنک پر مزید تفصیلات دیکھ سکتے ہیں۔
آپ کی اس بات سے اتفاق کر بھی لیا جائے کہ ’کئی انبیاء بھی امام کے درجے پر فائز تھے‘ تو تب بھی امام خمینی کی شیعہ عقائد سے متعلق بات پر اس کا کسی حوالے سے اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ ان کی بات سے یہ بالکل واضح ہورہا ہے کہ وہ آئمہء اثنا عشریہ کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
آپ کی اس بات سے اتفاق کر بھی لیا جائے کہ ’کئی انبیاء بھی امام کے درجے پر فائز تھے‘ تو تب بھی امام خمینی کی شیعہ عقائد سے متعلق بات پر اس کا کسی حوالے سے اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ ان کی بات سے یہ بالکل واضح ہورہا ہے کہ وہ آئمہء اثنا عشریہ کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔


یہ تو سب جانتے ہیں کہ شیعہ عقیدے کے مطابق رسول اللہ (ص) کا مقام تمام جن و انس و ملائکہ سے بلند ہے۔(بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر) تو جو بھی بات ہوتی ہے اس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے جس میں وہ کہی گئی ہوتی ہے۔
یہاں پر ولایت کی بات ہو رہی ہے۔ وحی ظاہری بات ہے پیغمروں پر ہی نازل ہوتی ہے۔ اور اہل سنت کے مطابق بھی الوالعظم پیغمبر پانچ ہیں جن میں حضرت موسیٰ (ع) کا بھی شمار ہوتا ہے، لیکن قرآن میں ایک ایسا واقعہ ہے جن میں ان کی ملاقات حضرت خضر (ع) کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موسیٰ (ع) جیسے پیغمبر خضر(ع) کی شاگردی میں نہیں آ سکتے۔ یہ کوئی تاریخ نہیں ہے قرآن کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے آپ جو نتیجہ اخذ کرنا چاہیں وہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

جہاں تک نبیوں کی امامت کی بات ہے تو سورۃ بقرہ کی آیت 124 ہے :
And remember that Abraham was tried by his Lord with certain commands, which he fulfilled; He said: "I will make thee an Imam to the nations." He pleaded: "And also (Imams) from my offspring!" He answered: "But my promise is not within the reach of evil-doers."
 
یہ تو سب جانتے ہیں کہ شیعہ عقیدے کے مطابق رسول اللہ (ص) کا مقام تمام جن و انس و ملائکہ سے بلند ہے۔(بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر) تو جو بھی بات ہوتی ہے اس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے جس میں وہ کہی گئی ہوتی ہے۔
یہاں پر ولایت کی بات ہو رہی ہے۔ وحی ظاہری بات ہے پیغمروں پر ہی نازل ہوتی ہے۔ اور اہل سنت کے مطابق بھی الوالعظم پیغمبر پانچ ہیں جن میں حضرت موسیٰ (ع) کا بھی شمار ہوتا ہے، لیکن قرآن میں ایک ایسا واقعہ ہے جن میں ان کی ملاقات حضرت خضر (ع) کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موسیٰ (ع) جیسے پیغمبر خضر(ع) کی شاگردی میں نہیں آ سکتے۔ یہ کوئی تاریخ نہیں ہے قرآن کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے آپ جو نتیجہ اخذ کرنا چاہیں وہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

جہاں تک نبیوں کی امامت کی بات ہے تو سورۃ بقرہ کی آیت 124 ہے :
اولوا العزم
لیکن قرآن میں ایک ایسا واقعہ ہے جن میں ان کی ملاقات حضرت خضر (ع) کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موسیٰ (ع) جیسے پیغمبر خضر(ع) کی شاگردی میں نہیں آ سکتے۔ یہ کوئی تاریخ نہیں ہے قرآن کی بات ہو رہی ہے۔
یہ قرآن میں کہاں ہے ؟
 

سید ذیشان

محفلین

ٹائپو ہو گیا۔ معافی کا خواستگار ہوں۔
یہ قرآن میں کہاں ہے ؟
[Yusufali 18:65] So they found one of Our servants, on whom We had bestowed Mercy from Ourselves and whom We had taught knowledge from Our own Presence.
[Yusufali 18:66] Moses said to him: "May I follow thee, on the footing that thou teach me something of the (Higher) Truth which thou hast been taught?"
[Yusufali 18:67] (The other) said: "Verily thou wilt not be able to have patience with me!"
[Yusufali 18:68] "And how canst thou have patience about things about which thy understanding is not complete?"
[Yusufali 18:69] Moses said: "Thou wilt find me, if Allah so will, (truly) patient: nor shall I disobey thee in aught."
[Yusufali 18:70] The other said: "If then thou wouldst follow me, ask me no questions about anything until I myself speak to thee concerning it."
[Yusufali 18:71] So they both proceeded: until, when they were in the boat, he scuttled it. Said Moses: "Hast thou scuttled it in order to drown those in it? Truly a strange thing hast thou done!"
[Yusufali 18:72] He answered: "Did I not tell thee that thou canst have no patience with me?"
[Yusufali 18:73] Moses said: "Rebuke me not for forgetting, nor grieve me by raising difficulties in my case."
[Yusufali 18:74] Then they proceeded: until, when they met a young man, he slew him. Moses said: "Hast thou slain an innocent person who had slain none? Truly a foul (unheard of) thing hast thou done!"
[Yusufali 18:75] He answered: "Did I not tell thee that thou canst have no patience with me?"
[Yusufali 18:76] (Moses) said: "If ever I ask thee about anything after this, keep me not in thy company: then wouldst thou have received (full) excuse from my side."
[Yusufali 18:77] Then they proceeded: until, when they came to the inhabitants of a town, they asked them for food, but they refused them hospitality. They found there a wall on the point of falling down, but he set it up straight. (Moses) said: "If thou hadst wished, surely thou couldst have exacted some recompense for it!"
[Yusufali 18:78] He answered: "This is the parting between me and thee: now will I tell thee the interpretation of (those things) over which thou wast unable to hold patience.
[Yusufali 18:79] "As for the boat, it belonged to certain men in dire want: they plied on the water: I but wished to render it unserviceable, for there was after them a certain king who seized on every boat by force.
[Yusufali 18:80] "As for the youth, his parents were people of Faith, and we feared that he would grieve them by obstinate rebellion and ingratitude (to Allah and man).
[Yusufali 18:81] "So we desired that their Lord would give them in exchange (a son) better in purity (of conduct) and closer in affection.
[Yusufali 18:82] "As for the wall, it belonged to two youths, orphans, in the Town; there was, beneath it, a buried treasure, to which they were entitled: their father had been a righteous man: So thy Lord desired that they should attain their age of full strength and get out their treasure - a mercy (and favour) from thy Lord. I did it not of my own accord. Such is the interpretation of (those things) over which thou wast unable to hold patience."
 
Top