ایک کھلا خط

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم
اُمید ہے آپ باخیریت ہوں گے اور موسمِ خزاں کی اولین ساعتیں آپ کے شہر میں سردہواؤں اور زرد پتوں سمیت اُتررہی ہوں گی
موسمِ خزاں اُداسی کا موسم وہ اُداسی جو میں نے آپ کی تحریروں میں محسوس کی اور اسی اُداس رُت نے مجھے آپ کو یہ خط
لکھنے کی تحریک دی تاکہ کچھ باتیں آپ کے گوش گذار کرسکوں - محترم بات یہ ہے کہ اپنی اس اُداسی کو تنہائی کو ترک کیجیئے اور
اپنی دنیا کو آباد کریں دل شاد نہ بھی ہو تو گھرآباد کرلینا چاہیے کہ مرد کو خدا نے کفیل بنا کے بھیجا ہے اسے آباد کاری اور
نظام زیست کو چلانے کی ذمہ داری سونپی ہے - آپ نصف بہتر اور ہمسفر کی کھوج سے نکلیں اور کسی کے شریک سفر ہوجائیں کہ کوئی آپ
کا ہمسفرنہ ہواتو کیا آپ کسی کے ساتھ چلنے کو قبول کرلیں -
کسی کو راحتیں دیں تو آپ کی دنیا بھی رونقوں سے بھرپور ہوجائے - کسی آنچل کے سائے میں سکون کو پالیں - دیر نہ کریں کہیں
روح کی اُداسی زندگی کا سناٹا نہ بن جائے - آپ کے قہقہوں میں کسی کی مسکراہٹیں شامل ہوئیں تو ان سے روشنی کی کرنیں پھوٹیں گی
مزاج کے موسموں کے ساتھی کا انتظار بھی تو جان لیوا ہوتا ہے تو کیوں نہ خود کو کسی کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کوشش
کریں - گھرہستی کی دنیا کسی سیرِعالم سے کم ثابت نہیں ہوگی - دستور ِدنیا بھی سماج کا مذہب کا فریضہ بھی ہے - فرد کی تنہائی معاشرے کی
روش سے بغاوت اور اس کے لیے چیلنج سے کم نہیں میں آپ کو انسان کے سماجی حیوان کے فلسفے سے بور نہیں کروں گا لیکن اس
جانب آپ توجہ ضرور مبذول کروانا چاہوں گا کہ تکمیلِ خاندان سے سماج کو دوام ہے اور اسی پہ معاشرہ قائم ہے -
سوچیں کہ ہم آسمان سے رسی پکڑ کے نہیں اُترے ایک گھرمیں پیدا ہوئے تو ایک گھر کو بنانے بسانے کہ ذمہ دار بھی ٹھہرائے گئے ہیں
میں آپ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ دل نہ بھی بسے تو بھی گھربسا لینا چاہیے ممکن یہی دل کی تسکین کا باعث بن جائے -
خود کو تلاش کے حوالے مت کریں کہ تلاش کبھی مکمل نہیں ہوتی یہ گم گشتہ جنت کا دُکھ ازل سے ابن آدم کا مقدر ہے اورابد تک رہے گا
وہ جسے آدم کی پسلی سے نکلا گیا تھا وہ ہی محرومی کو کم کرنے میں معاون ہوگی - آپ کے زرق کی برکتیں اور گھرکی رونقیں
اُسی کے دم سے ہوں گی -
آپ اسے خط کہیں یا Loud Thinkingکہ آئینے سے کلام اور خودکلامی کہ کبھی کچھ باتیں دوسروں کو کہیں تو خود کو سمجھ آتی ہیں
میری نیک خواہشات اور دعائیں آپ کے لیے آپ کے خوشگوار اور شاد وآباد مستقبل کےلیے-
خیراندیش
زبیر مرزا
ستمبر 20013
وعلیکم السلام !
میں یہاں خیریت سے ہوں ۔ اورخیال کرتا ہوں کہ آپ بھی زندگی کی انہی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف ہونگے ۔ جس سے ایک عرصےسے میں دوچار ہوں ۔کیونک مجھ سے کہی ہوئی باتوں میں آپ نےبھی خود سے تکرار کی ہے ۔ آپ نے جو باتیں اپنے خط میں گوشوار کیں ۔ اس سے میں آپ کی دوستی اور مردم شناسی کاقائل ہوگیا ہوں۔ مگر اصل قصہ یہ ہے کہ زندگی اتنی آسان نہیں ، جتنی ہم سمجھتے ہیں ۔ زندگی اس ریت کی مانند ہے جسے جتنی زور سے مٹھی میں بھینچو یہ اور بھی تیزی سے پھسل کر ہاتھوں سے نکل جاتی ہے ۔ آسودگی کسی بھی نوعیت کی ہو ، کسے پسند نہیں مگر اس کا حصول اتنا بھی سہل نہیں کہ خواہش کیساتھ ہی اس کی تکمیل کے آثار پیدا ہوجائیں ۔ زندگی کی معراج دل کی آسودگی میں ہے اور یہ زندگی کی بہت مشکل ترین آسودگی ہے ۔ میں نے بارہا کوشش کی کہ اس معراج تک پہنچا جائے مگر ہر بار صرف اس لیئے ناکام ہوگیا کہ یہ میرے نصیب میں لکھی نہیں گئی ۔ بے چینی ، بے قراری ، اضطراب ، بے کلی ، اداسی اور مایوسی ، ہرگام کسی بچے کی طرح میرا ہاتھ تھام کر ہمیشہ میری ہمسفر رہی ہے ۔ میں نے اس گھتی کو سلجھانے کی بہت کوشش کی مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا ۔
کسی کو راحتیں اور خوشیاں دینے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان پہلے خود خوش ہو ۔ کسی کے آنچل میں چہرہ چھپانے سے زندگی کی محرومیاں ختم ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ آنچل کبھی آپ کے لیئے تنگ نہ ہو ۔ یہ بہت مشکل ہے کہ پت جھڑ کے کسی پتے کو بہت دیر تک سنبھالا جائے ۔ مزاج کے موسم کی ذرا سی بھی سختی ، کسی بھی ایسے پتے کو اس کے وجود سے بیگانہ کرسکتی ہے ۔ اور زندگی پہلے سے بھی زیادہ مشکل بن سکتی ہے ۔ اور یہ معاملہ یکطرفہ نہیں دو طرفہ بھی ہوسکتا ہے ۔ یعنی آپ اپنے ساتھ کسی اور کی بھی زندگی مشکل بنادیں ۔ مزاج کو سمجھنا ، دنیا کا مشکل ترین کام ہے ۔ اکثر انسان اپنے مزاج کو بھی زندگی کے آخری لمحوں تک نہیں سمجھ پاتا ۔ اور کبھی ایسا موقع آ بھی جائے تو زندگی گذر چکی ہوتی ہے ۔ اس صورتحال میں مجھے کسی کے مزاج اور کسی کو میرے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ممکن نظر نہیں آتا ۔ قہقہے وہیں پُھوٹتے ہیں جہاں خلوص اور نیک نیتی موجود ہو ۔ اس بے ثبات دنیامیں یہ اب ممکن نہیں رہا ۔
شہزاد احمد نے کیا خوب کہا ہے :
اس بے ثبات دنیا میں
جب ثبات چاہو گے
آس ٹوٹ جائے گی
کچیاں گولیاں کھیلو
اک دن ٹوٹیں گی
جان چھوٹ جائے گی

مگر جان پھر بھی چھوٹتی نظر نہیں آتی ۔ ذمہ داریوں کا احساس اپنی جگہ موجود ہے ۔ مگر اس سے منسلک کچھ خاکے ایسے ہیں ۔ جن سےسمجھوتہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ میں مانتا ہوں کہ ،
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
گرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں
چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے

" شریک سفر" جس کو آپ نے اپنے خط میں ماخذ بنایا ہے ۔ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ۔ اور تنہائی کا بہترین علاج بھی ہے ۔ مگر اس کا تعلق میری نظر میں جسم سے زیادہ قلب سے ہے ۔ اور" قلب کی آسودگی " ، میں کہہ چکا ہوں کہ زندگی کی سب سے مشکل آسودگیوں میں سے ایک ہے ۔ ممکنات میں سب کچھ ہے ، مگر ناممکنات کا بھی دائرہ بہت وسیع ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے لیئے کم از کم ناممکنات میں سے ہے ۔ میں تقدیر پر یقین رکھتا ہوں ۔ مگر میں اپنے حدود سے بھی واقف ہوں ۔

مذہب ، رسمِ دنیا ، سماج کا دستور، وغیرہ کو سامنے رکھ کر کسی کا ہمسفر بن جانا یا کسی کو اپنا ہمسفر بنا لینا ۔ ہمارے معاشرے کا سب سے آسان ترین کام ہے ۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ ، میں اس اس انسٹیٹوٹ کی مخالفت نہیں کررہا ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو اپنا ساتھی بنانے سے پہلے یہ اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ کیا آپ "اُس" کے قابل ہیں کہ بھی نہیں ۔ یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ کسی کو دیکھا ، پسند کیا اور شادی کرلی ۔ اور پھر بعد میں ساری زندگی ایڈجسمنٹ میں گذر جائے ۔ شادی ایک ادارے کا نام ہے ۔ یہ ادارہ اسی اصورت میں کامیابی سے چل سکتا ہے جب اس ادارے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نبھا رہا ہو۔میں سمجھتا ہوں مجھ میں بہت خامیاں ہے ۔ اگر کسی کو یہ خامیاں عزیز ہوں تو میں اس کو بھی دوسرے کی خامی گردانوں گا ۔ میں مانتا ہوں کہ اپنی تلاش ممکن نہیں مگر سچ یہ بھی ہے کہ،
تیرے جہاں میں ، ایسانہیں کہ پیارنہ ہو
جہاں امید ہو اس کی ، وہاں نہیں ملتا

آپ کے خط نے مجھے بھی آج کچھ لکھنے پر مجبور کیا ۔ کچھ Self Dialogue بھی کی ۔ بہرحال اس کوشش کےنتیجے میں میں یہ سوچنے پر مجبورہواکہ میں اپنے بارے میں ایک بار پھر سوچوں ۔ اور یہ سب آپ کی محبت اور توجہ کی مرہونِ منت کی وجہ سے ممکن ہوا ، جو ایک خط کی شکل میں میرے سامنے موجود ہے ۔ اللہ آپ کے لیئے بھی آسانیاں پیدا کرے ۔ آپ کی نیک خواہشات اور دعاؤں کے لیئے بھی آپ کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ایک اچھا دوست بھی زندگی کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔ اس حوالے سے اس کا آج مظاہرہ بھی دیکھ لیا ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ آپ کے مشورے زندگی کے ہرگام ہر مشعلِ راہ رہیں گے ۔ اُمید ہے اس کی روشنی میں اپنی نہیں تو کسی اور کی تلاش مکمل ہوجائے ۔ اپنا بہت خیال رکھیئے گا ۔
اللہ حافظ
آپ کا دوست ظفر ی
15 ستمبر
2013
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
محترم زبیر بھائی
محترم ظفری بھائی
السلام علیکم
آپ دونوں محترم بھائیوں کے خطوط جہاں پر خلوص سادگی کے ساتھ زندگی کے نئے رخوں کی جانب بلاتے اس رنگا رنگ زندگی کے چھپے بھید کھول رہے ہیں وہیں ان کو پڑھتے کچھ سوالات بھی ابھرتے ہیں ۔ زندگی کی راہ پر محو سفر ہر مسافر اس زندگی کے موسموں کا سامناکرتا ہے ۔ کبھی یہ موسم اس کے تن من روح کو مہکا دیتے ہیں ۔اور یہ مسافر اپنی موج مستی و ہلا گلہ سے ان موسموں کو کچھ اور حسین بنا لیتا ہے ۔
اور کبھی یہ موسم اس پر اک طوفان کا مانند کچھ ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ اس کا وجود دروں و بروں سے گھائل ہوجاتا ہے ۔ اور لبوں سے بے اختیار آہیں و شکوے پھوٹنے لگتے ہیں ۔
عجب ہے یہ زندگی ۔۔۔
عجب ہیں اس کے موسم ۔۔۔۔۔
عجب تر ہیں اس کے مسافر ۔۔۔
سفر تو سفر ہے ۔ ۔۔
کٹ ہی جاتا ہے ۔۔۔
اکیلا پن تنہائی ہو ہمراہ ۔۔۔۔۔
یا کہ ہم سفر ہوئی کوئی شوخ و شنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزل پر پہنچ سوچتا ہے یہ مسافر ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ہیں زندگی سے ۔۔۔۔؟ یا کہ زندگی ہے ہم سے ۔؟
اگر " ہم ہیں زندگی سے " تو اس زندگی کا احسان کیسے چکائیں ۔۔۔۔؟
اگر " زندگی ہے ہم سے " تو کیسے اس زندگی کو زندگی بنائیں ۔۔ ؟
یقین ہے کہ " زندگی سے ابھرے یہ سوال " جواب پائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں کہ اللہ تعالی اس زندگی کے سب رنگوں کو سب موسموں کو آپ کے لیے آسان فرمائے ۔آمین
 

ظفری

لائبریرین
کوئی بات نہیں نایاب بھائی ۔۔۔ ایسا ہوجاتا ہے ۔ مثال کے طور پر جیہ کو ہی دیکھ لیں ۔ جہاں میری کسی بات پر متفق ہوناچاہیں وہاں نامتفق کا بٹن دبا کر چُھو ہوجاتیں ہیں ۔ ;)
 
وعلیکم السلام !
میں یہاں خیریت سے ہوں ۔ اورخیال کرتا ہوں کہ آپ بھی زندگی کی انہی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف ہونگے ۔ جس سے ایک عرصے میں دوچار ہوں ۔کیونکہ آپ نے مجھ سے کہی ہوئی باتوں میں خود سے بھی تکرار کی ہے ۔ آپ نے جو باتیں اپنے خط میں گوشوار کیں ۔ اس سے میں آپ کی دوستی کی معراج اور مردم شناسی کاقائل ہوگیا ۔ مگر اصل قصہ یہ ہے کہ زندگی اتنی آسان نہیں ، جتنی ہم سمجھتے ہیں ۔ زندگی اس ریت کی مانند ہے جسے جتنی زور سے مٹھی میں بھینچو یہ اور بھی تیزی سے پھسل کر ہاتھوں سے نکل جاتی ہے ۔ آسودگی کسی بھی نوعیت کی ہو ، کسے پسند نہیں مگر اس کا حصول اتنا بھی سہل نہیں کہ خواہش کیساتھ ہی اس کی تکمیل کے آثار پیدا ہوجائیں ۔ زندگی کی معراج دل کی آسودگی میں ہے اور یہ بہت زندگی کی مشکل ترین آسودگی ہے ۔ میں نے بارہا کوشش کی کہ اس معراج تک پہنچا جائے مگر ہر بار صرف اس لیئے ناکام ہوگیا کہ یہ میرے نصیب میں لکھی نہیں گئی ۔ بے چینی ، بے قراری ، اضطراب ، بے کلی ، اداسی اور مایوسی ، ہرگام کسی بچے کی طرح میرا ہاتھ تھام کر ہمیشہ میری ہمسفر رہی ہے ۔ میں نے اس گھتی کو سلجھانے کی بہت کوشش کی مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا ۔
کسی کو راحتیں اور خوشیاں دینے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان پہلے خود خوش ہو ۔ کسی کے آنچل میں چہرہ چھپانے سے زندگی کی محرومیاں ختم ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ آنچل کبھی آپ کے لیئے تنگ نہ ہو ۔ یہ بہت مشکل ہے کہ پت جھڑ کے کسی پتے کو بہت دیر تک سنبھالا جائے ۔ مزاج کے موسم کی ذرا سی بھی سختی ، کسی بھی ایسے پتے کو اس کے وجود سے بیگانہ کرسکتی ہے ۔ اور زندگی پہلے سے بھی زیادہ مشکل بن سکتی ہے ۔ اور یہ معاملہ یکطرفہ نہیں دو طرفہ بھی ہوسکتا ہے ۔ یعنی آپ اپنے ساتھ کسی اور کی بھی زندگی مشکل بنادیں ۔ مزاج کو سمجھنا ، دنیا کا مشکل ترین کام ہے ۔ اکثر انسان اپنے مزاج کو بھی زندگی کے آخری لمحوں تک نہیں سمجھ پاتا ۔ اور کبھی ایسا موقع آ بھی جائے تو زندگی گذر چکی ہوتی ہے ۔ اس صورتحال میں مجھے کسی کے مزاج اور کسی کو میرے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ممکن نظر نہیں آتا ۔ قہقہے وہیں پُھوٹتے ہیں جہاں خلوص اور نیک نیتی موجود ہو ۔ اس بے ثبات دنیامیں یہ اب ممکن نہیں رہا ۔
شہزاد احمد نے کیا خوب کہا ہے :
اس بے ثبات دنیا میں
جب ثبات چاہو گے
آس ٹوٹ جائے گی
کچیاں گولیاں کھیلو
اک دن ٹوٹیں گی
جان چھوٹ جائے گی

مگر جان پھر بھی چھوٹتی نظر نہیں آتی ۔ ذمہ داریوں کا احساس اپنی جگہ موجود ہے ۔ مگر اس سے متعلق کچھ خاکے ایسے ہیں ۔ جن سےسمجھوتہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ میں مانتا ہوں کہ ،
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
گرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ۔۔۔ ۔۔
رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں
چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے

" شریک سفر" جس کو آپ نے اپنے خط میں ماخذ بنایا ہے ۔ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ۔ اور تنہائی کا بہترین علاج بھی ہے ۔ مگر اس کا تعلق میری نظر میں جسم سے زیادہ قلب سے ہے ۔ اور" قلب کی آسودگی " ، میں کہہ چکا ہوں کہ زندگی کی سب سے مشکل آسودگیوں میں سے ایک ہے ۔ ممکنات میں سب کچھ ہے ، مگر ناممکنات کا بھی دائرہ بہت وسیع ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے لیئے کم از کم ناممکنات میں سے ہے ۔ میں تقدیر پر یقین رکھتا ہوں ۔ مگر میں اپنے حدود سے بھی واقف ہوں ۔

مذہب ، رسمِ دنیا ، سماج کا دستور، وغیرہ کو سامنے رکھ کر کسی کا ہمسفر بن جانا یا کسی کو اپنا ہمسفر بنا لینا ۔ ہمارے معاشرے کا سب سے آسان ترین کام ہے ۔۔۔ ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ، میں اس اس انسٹیٹوٹ کی مخالفت نہیں کررہا ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو اپنا ساتھی بنانے سے پہلے یہ اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ کیا آپ "اُس" کے قابل ہیں کہ بھی نہیں ۔ یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ کسی کو دیکھا ، پسند کیا اور شادی کرلی ۔ اور پھر بعد میں ساری زندگی ایڈجسمنٹ میں گذر جائے ۔ شادی ایک ادارے کا نام ہے ۔ یہ ادارہ اسی اصورت میں کامیابی سے چل سکتا ہے جب اس ادارے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نبھا رہا ہوں ۔میں سمجھتا ہوں مجھ میں بہت خامیاں ہے ۔ اگر کسی کو یہ خامیاں عزیز بھی ہوں تو میں اس کو بھی دوسرے کی خامی سمجھوں گا ۔ میں مانتا ہوں کہ اپنی تلاش ممکن نہیں مگر سچ یہ بھی ہے کہ،
تیرے جہاں میں ، ایسانہیں کہ پیارنہ ہو
جہاں امید ہو اس کی ، وہاں نہیں ملتا

آج آپ کے خط نے مجھے بھی آج کچھ لکھنے پر مجبور کیا ۔ کچھ Self Dialogue بھی کی ۔ بہرحال اس کوشش کےنتیجے میں میں یہ سوچنے پر مجبورہواکہ میں اپنے بارے میں ایک بار پھر سوچوں ۔ اور یہ سب آپ کی محبت اور توجہ کی مرہونِ منت کی وجہ سے ممکن ہوا ، جو ایک خط کی شکل میں میرے سامنے موجود ہے ۔ اللہ آپ کے لیئے بھی آسانیاں پیدا کرے ۔ آپ کی نیک خواہشات اور دعاؤں کے لیئے بھی آپ کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ایک اچھا دوست بھی زندگی کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔ اس حوالے سے اس کا آج مظاہرہ بھی دیکھ لیا ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ آپ کے مشورے زندگی کے ہرگام ہر مشعلِ راہ رہیں گے ۔ اُمید ہے اس کی روشنی میں اپنی نہیں تو کسی اور کی تلاش مکمل ہوجائے ۔ اپنا بہت خیال رکھیئے گا ۔
اللہ حافظ
آپ کا دوست ظفر ی
15 ستمبر
2013
واللہ زبیر مرزا بھائی مانتے ہیں یا نہیں۔

میں نے مراسلے میں پہلے ایک ہنٹ بھی لکھ چھوڑا تھا کہ یہ مخاطب کون ہے پر پھر کچھ سوچ کر تدوین کر دی کہ جب زبیر مرزا بھائی نے نام نہ لکھا تو مجھے بھی نہیں لکھنا چاہیے۔

ظفری بھائی یقین جانیے دلی آسودگی 70 فیصد خود کو پڑھانے یا سیلف ہپنا ٹِزم اور 30 فیصد حقائق کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ دل اتنا زیادہ مادہ پرست اورحساب داں نہیں۔ اس کے فلسفے بڑے عجیب ہیں ۔
آپ لگتے تو دل والے ہیں اس لیےکہیں ایسا نہ ہو جائے یا ویسا نہ ہوجائے جیسی میٹیریلسٹک باتوں کو سائڈ پر رکھیں اور کود پڑیں۔ باقی دل کے معاملے دل خود سنبھال لے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
واللہ زبیر مرزا بھائی مانتے ہیں یا نہیں۔

میں نے مراسلے میں پہلے ایک ہنٹ بھی لکھ چھوڑا تھا کہ یہ مخاطب کون ہے پر پھر کچھ سوچ کر تدوین کر دی کہ جب زبیر مرزا بھائی نے نام نہ لکھا تو مجھے بھی نہیں لکھنا چاہیے۔

ظفری بھائی یقین جانیے دلی آسودگی 70 فیصد خود کو پڑھانے یا سیلف ہپنا ٹِزم اور 30 فیصد حقائق کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ دل اتنا زیادہ مادہ پرست اورحساب داں نہیں۔ اس کے فلسفے بڑے عجیب ہیں ۔
آپ لگتے تو دل والے ہیں اس لیےکہیں ایسا نہ ہو جائے یا ویسا نہ ہوجائے جیسی میٹیریلسٹک باتوں کو سائڈ پر رکھیں اور کود پڑیں۔ باقی دل کے معاملے دل خود سنبھال لے گا۔
محترم بھائی ۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ " کھلا خط " کسی اک " مخصوص " ہستی سے مخاطب ہے ۔
اس کا مخاطب صاحب تحریر سمیت ہروہ " مرد " ہے ۔ جو زندگی کی جنگ میں دانستہ یا غیر دانستہ اس طرح محو ہو چکا ہے ۔ کہ اسے زندگی کے اس حسین و خوبصورت رنگ بھری حقیقت کی جانب توجہ دینے کی فرصت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ " ہزار راہیں مڑ کر دیکھا کہیں راہ نہ پائی " کی صدا لگاتے زندگی کی جنگ میں مصروف ہے ۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
اللہ سے دعا ہے کہ آپ دونوں کے حالات پر رحم فرمائے۔

اب آرڈر پر تو ایسی شریک حیات بننے سے رہییں۔ کچھ خوبیوں اور کچھ خامیوں کے ساتھ جیسی بھی ملے قبول کر لیں۔
 

زبیر مرزا

محفلین
الہی یہ کرم ہے کہ ستم کے آپ کے دل کی باتیں کسی اور کی زباں سے ادا ہوں - ظفری بھائی یوں لگا کہ خط لکھا اور پھر
جواب بھی میں نے خود ہی تحریر کردیا ( گو میں آپ سا دلکش اورپُراثر اندازِ تحریر نہیں رکھتا) - آپ کی تحریرٰیں جب جب
پڑھیں آپ نے دل سے قریب تر پائیں یوں جیسے ہمزاد سے مکالمہ ہو - یوں تو ہر حرف میرے دل کی آواز تھا لیکن
میں نے بارہا کوشش کی کہ اس معراج تک پہنچا جائے مگر ہر بار صرف اس لیئے ناکام ہوگیا کہ یہ میرے نصیب میں لکھی نہیں گئی ۔ بے چینی ، بے قراری ، اضطراب ، بے کلی ، اداسی اور مایوسی ، ہرگام کسی بچے کی طرح میرا ہاتھ تھام کر ہمیشہ میری ہمسفر رہی ہے ۔ میں نے اس گھتی کو سلجھانے کی بہت کوشش کی مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا
یہ پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہوتی گئیں - میں دل کی گہرائیوں اور جذب سے آ پ کے لیے دعا کرتا رہوں گا- اور آپ سے اپنے لیے دعاؤں کا
خواستگار ہوں -


 

عینی شاہ

محفلین

عمراعظم

محفلین
خط بھی اچھا لکھا گیا تھا اور جواب کے دلائل کو رد کرنا بھی محال ہے۔البتہ ہم زندگی کے بے شمار مرحلوں کو اپنی رضا،خواہش اور پسند کے بغیر تسلیم کر چکے ہیں،کہ ان میں سے اکثر ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔زندگی کے کئی مراحل کو ہم اپنے انداز سے بنانے ،سوارنے اور بسر کرنے میں ہماری قابلیت ، علم اور صلاحیت اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھی ہماری تمام کی تمام کامیابیاں آنِ واحد میں نابودہو جاتی ہیں۔یہیں ہمیں اپنی حدود سے آشنائی ملتی ہے۔میں اپنے آپ کو صرف اپنے گھر تک صرف اس لیئے محدود نہیں کر سکتا کہ باہر نکلنے میں کئی خطرات موجود ہیں۔
دنیا کی طرح انسان کی ضروریات، ترجیحات،پسند ،صلاحیت نیز مزاج بھی تغیر پزیر رہتے ہیں۔اگر آپ خود اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو کوئی اور چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ کوئی بھی انسان دوسرے جیسا پیدا نہیں کیا گیا،ہم سب کئی لحاظ سے ایک دوسرے سے محتلف ہیں۔
میں اپنے دونوں بھائیوں کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنا مقصود حاصل کرنے کی کوشش ضرور کریں البتہ یہ ذہن میں رکھیں کہ انسان بقول شمشاد بھائی آرڈر پر نہیں بنتے۔جو قریب تر ملے اُسے اپنا لیں۔
 
Top