ایک کہانی

شیخ لیاقت نیشنل لائبریری - ایک کہانی ۔ قسط 21


عشاء سے قبل لڑکا پی ٹی وی اسٹیشن کی گلی میں دو سگنل چھوڑ کر دائیں ہاتھ پر موجود ایک مسجد کے سامنے گاڑی روکتا ہے۔

شیخ اول بنوری ٹاون نے لڑکے کو اس مسجد میں بعد از نماز عشاء مدرسہ بالغان میں شرکت کے لیے کہا تھا۔

ان کے حساب سے لڑکے کے لیے یہ جز وقتی دو، تین یا چار سالہ کلاسیں کافی تھیں۔

حالانکہ لڑکے کو اہل قلوب کی تلاش تھی۔

آٹھ سالہ درس نظامی میں زیادہ تر غرباء اپنے بچوں کو داخل کراتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس اپنے بچوں کو انجینئر یا ڈاکٹر کی تعلیم کے لیے رقم نہیں ہوتی۔

درس نظامی میں رہائش، تعلیم اور کھانا یہاں تک کہ کپڑے بھی مفت ہوتے ہیں۔

یہی بچے بڑے ہو کر مسجد کے خطیب، پیش امام اور مدرسوں کے استاد بنتے ہیں۔

عشاء کی جماعت ختم ہوتی ہے۔

سات یا آٹھ لڑکے ایک کنارے پر زمینی میزیں سرکانا شروع کر دیتے ہیں۔

شیخ تشریف لاتے ہیں اور عربی گرامر کی گردانوں کا سبق شروع ہوتا ہے۔

یہ کلاس کافی آگے نکل چکی ہوتی ہے۔

قریبا ایک سال سے جاری اس کلاس کی گردانیں دہرانے کی رفتار بے حد تیز تھی۔

ایک پرانے طالب علم نے کہا آپ اس کلاس سے کچھ سیکھ نہیں پائیں گے کیونکہ ہم کافی آگے نکل چکے ہیں۔

اس نے کہا چند ماہ بعد ایک اور کلاس بالکل ابتداء سے شروع ہوگی آپ اس میں آئیں۔

لڑکے کو بھی یہی لگا کہ سمجھ کچھ نہیں آ رہا۔ ساتھ ہی اسے عربی سیکھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔

وہ صحبت کی تلاش میں تھا نہ کہ مدرس کی۔



منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کے کے آفس کا ایک دوست شفیق موڑ پر ایک شیخ کا پتہ بتا تا ہے۔ شام قریبا سات بجے لڑکا اپنی گاڑی ایک پتلی گلی میں کھڑی کر کے شیخ کے گھر کی بیل بجاتا ہے۔

- میاں ظہوری
 
شیخ شفیق موڑ - ایک کہانی ۔ قسط 22


لڑکا ابوظہبی سے واپس آیا تھا۔

خلا کا معاملہ درپیش تھا سو وہ ابوظہبی چلا گیا تھا۔

دو مہینے ابوظہبی گزارنے کے بعد جب لڑکا کراچی آفس پہنچا تو وہاں ایک دوست نے ایک شیخ شفیق موڑ کا تذکرہ کیا۔

شیخ شام کواپنے گھر کے سب سے نچلی منزل پر ایک کمرے میں بیٹھتے تھے۔گھر تین منزلہ تھا۔اوپر انکے دوسرے بھائی رہتے تھے۔

وہ سعودی عرب سے واپس آئے تھے لیکن وہ قادری سلسلے سے وابستہ تھے۔

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ والد کی جانب سے امام حسن علیہ السلام سے ہوتے ہوئے جناب علی المرتضی علیہ السلام سے جا ملتے۔ جبکہ والدہ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام سے ہوتے ہوئے جناب ابو تراب علی المرتضی علیہ السلام سےجا ملتے۔ آپ کے ہاتھوں لاکھوں لوگوں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ نے ملتان پاکستان تک کا سفر کیا۔ علم حاصل کرنے کے بعد 25 سال عراق کے صحراوں اور جنگلوں میں طویل ریاضات کیں۔ آپ نے چار شادیاں کیں جن سے 49 بچے ہوئے۔آپ حنبلی تھے۔

شیخ رات بارہ بجے کے بعد اپنے احباب کے ساتھ مل کر کہیں جاتے اور کوئی عمل کرتے۔ ان کے قبضے میں چند جنات تھے جو غیر مسلم جنات کو مسلمان کرنے میں مدد کرتے۔اسکے علاوہ جو مرد عورت یا بچے عجیب و غریب آوازیں نکالتے وہ ان کے جنوں سے بات کرتے۔پھر یا تو وہ جن بات چیت سے چلے جاتے یاوہ انکو کسی کپڑے یا دوپٹے سے کستے اور وہ اپنے اس تکلیف دینے کی وجہ بذبان مریض ہی بتاتے۔

لڑکا کئی بار ان کے پاس گیا اور بارہا ایسے مناظر دیکھے۔

لڑکے کی باری آتی ہے۔

لڑکا اپنے ذاتی معاملے کو ان سے بیان کرتا ہے۔

وہ دعا کرتے ہیں ہیں۔ پھر آنکھ بند کر کے کچھ پڑھتے ہیں۔

پھر کہتے ہیں کہ کیا آپ کو اپنے کندھوں پر کچھ بوجھ محسوس ہوا۔

لڑکے کو کچھ بوجھ سا لگا تو تھا سو حامی میں سر ہلا دیا۔لیکن صد فیصد یقین نہ تھا۔

انہوں نے کچھ پڑھ کر پھونکا۔ پھر کہا کہ آپ یہ پانی استعمال کیجیے۔

اس اثناء میں ایک اور صاحب آتے ہیں اور آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔

وہ شیخ کو سلام نہیں کرتے۔

ان کے زلفیں تھیں۔

وہ سر سے ٹوپی اتارتے ہیں اور سر کو اوپر نیچے ہلانا شروع کر دیتے ہیں۔

لڑکے کے جانے تک وہ یونہی سر ہلاتے رہے۔

عشاء کا وقت ہوا تو شیخ اٹھے تو ایک عورت نے اعتراض کیا کہ ہم کو دیکھ کر جائیں۔

شیخ نے کہا اگر وہاں یعنی جماعت کو جائیں گے تو کچھ لے کر آپ کے لیے آئیں گے۔

شیخ کی محفل میں پردے کا انتظام نہ تھا۔

لڑکا بھی شیخ کے ساتھ ہو لیتا ہے۔ راہ چلتے ہوئے شیخ کہتے ہیں کہ جماعت میں ہر چالیس میں سےایک اللہ کا متقی بندہ ہوتا ہے۔ وہ اس سے نماز اور دعا کی قبولیت کا زیادہ امکان جماعت میں ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔

عشاء کے بعدایک اورلڑکا آتا ہے۔ وہ بمشکل ہی کچھ بول پاتا تھا۔ شیخ سے اسکی پرانی جان پہچان تھی۔ شیخ اس سے پچھلے دن کے جنوں کی تعداد پوچھتے ہیں جو مسلمان ہوئی۔ وہ بتاتا ہے 122۔ شیخ اس سے تین ہٹی پر نور علی شاہ بابا کے مزار پر حاضری کا پوچھتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ وہ گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی اس علت سے جان چھٹے سو کہتا ہے کہ اب اس سے یہ کام اور نہیں ہوتا۔ شیخ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم کو علمم نہیں کہ یہ کتنا بڑا کام کر رہےہو۔ مطلب غیر مسلم جنوں کو مسلمان کر کے۔

رات کافی ہو چکی ہوتی ہے۔ لڑکا مصافحہ کر کے شیخ سے اجازت لیتا ہے۔

اگلی شام لڑکا پھر شیخ کے گھر پہنچتا ہے تو ایک نو عمر لڑکی آئی ہوئی تھی۔ وہ بار بار غراتی تھی۔

شیخ لڑکے سے مصافحہ کرتے ہیں۔ انکو اندازہ ہو جاتا ہے کہ لڑکے کو بے پردگی پسند نہیں آ رہی۔

اب جو لڑکی غراتی ہے تو اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ شیخ بھی اٹھتے ہیں اور اپنے ہاتھ میں موجود ایک کپڑے کو موڑ موڑ کر بل دیتے جاتے اور کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکتے جاتے ہیں۔

شیخ اس لڑکی کے ذریعے اس جن سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اب ایسا کرے گا! لڑکی ادھ موہ ہوئی جا رہی تھی۔

لڑکی کہتی ہے کہ اب ایسا نہیں کروں گا۔ لیکن شیخ ایک اور بل اپنے ہاتھ کے کپڑے کو دیتے ہیں اور لڑکی ستھ ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ شیخ کپڑے کی گرفت ڈھیلی کرتے ہیں۔

سر کو اوپر نیچے ہلانے والے صاحب پھر آتے ہیں اور شیخ کو بغیر سلام کیے ٹوپی اتار کر سر اوپر نیچے ہلانا شروع کر دیتے ہیں۔

ایک مرد کے کمر پر مکی لگا کر کچھ عمل کرتے ہیں اور انکے ساتھ آئی عورت پر کچھ دم کرتے ہیں۔

شیخ لڑکے سے کہتے ہیں کہ عورتوں کو مطمئن کرنے کے لیے یہ پانی چھڑکنا پڑتا ہے اور منہ سے دم کی ہوا کی آواز نکالی پڑتی ہے کہ انکو مطمئن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ورنہ صرف دعا کرنا بھی کافی ہے۔

لڑکے سے کہتے ہیں کہ آپ جو کوششیں کر رہے ہیں محض انکا ہی نتیجہ ہے کہ دلہن کے گھر والے خلا سے باز آئے۔ اپنے بھائی کی بچی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہانہوں نے استخارہ کیا صحیح نہ آیا لیکن پھر بھی شادی کی سو اب کافی مسائل کا سامنا ہے۔

شیخ کے پاس کوئی مرد آتا ہے اور کچھ بات کہتا ہے۔ شیخ گہری گہری سانسیں لیتے ایسا جیسا کہ اوپر اڑنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

بہرحال اس قسم کے مناظر سے پر یہ مجالس رہیں۔

بالآخر ایک شام بطور شکریہ کے لڑکا اپنی دلہن کے ساتھ شیخ کے گھر جاتا ہے۔ وہ اس طرح دونوں کو ساتھ دیکھ کر بہت دعائیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں یوں آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔

لڑکا اپنے اولاد نہ ہونے کا تذکرہ کرتاہے۔ وہ تین ہٹی کے مزار سے گلاب کی چند کلیاں لانے کو کہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ دونوں جائیں۔ فاتحہ کریں اور کلیاں لائیں۔

لڑکا دیکھتا ہے کہ اسکی دولہن کچھ بے جان سے ہو رہی ہے۔ شاید اس پر اس محفل کے عجیب و غریب لوگوں کا اثر تھا یا پھر شیخ نے کسی جن سے اسکے کندھے پر زور ڈالا تھا۔

بہرحال لڑکا اجازت لیتا ہے اور دونوں گھر لوٹتے ہیں۔

ایک صبح لڑکا تین ہٹی کے مزار اپنی دولہن کے ساتھ جاتا ہے۔ ایک عجیب منظر تھا۔ مزار کے باہر گلاب کے پھول اور چادریں فروخت کرنے والوں کی آدھی درجن دکانیں تھیں۔ لڑکا مزار کے اصل حصے میں داخل ہوتا ہے اور دولہن عورتوں کے حصے میں۔ کئی لوگ زنجیروں میں بندھے تھے۔ کئی لوگ مزار کے ادگرد بیٹھے تھے۔ لڑکا فاتحہ پڑھتا ہے اور جلد واپس گلاب کی چند کلیاں قبر کے چہرے کی جانب سے اٹھا کر باہر آتا ہے۔ دولہن بھی واپس آتی ہے اور اسی قسم کی عورتوں کا تذکرہ کرتی ہے جو عجیب و غریب حالتوں میں تھیں۔

شام کر لڑکا شیخ کے پاس پہنچتا ہے۔ گلاب کی پتیاں دیکھ کر وہ مسکراتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ لڑکے کو یہ مزار کی پتیاں کھانا ذرا پسند نہیں آیا۔



منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا محسوس کر لیتا ہے کہ اگر شیاطین اور انکے ساتھیوں کو ایک طرف کرنا ہے تو کم از کم فقہ حنفی کے ماننے کو ایک کرنا ہو گا۔ پھر آہستہ آہستہ جوڑتے جوڑتے اس توحید تک پہنچا جائے جو جناب رسول عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی۔ لڑکا ایک دستاویز رفع رنجش تیار کرتا ہے اور شیخ ایف بی ایریا نمبر 15 کے پاس پہنچتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
شیخ ایف بی ایریا نمبر 15 - ایک کہانی۔قسط 23


بوجہ لڑکے نے اس کہانی کا عنوان سو لفظوں کی کہانی منتخب کیا تھا حالانکہ سو نہیں۔

جو اس تضاد کو جذب کر لیتا وہ ہی کہانی کی اصل تک پہنچ پاتا۔

دنیا تضادات کا مجموعہ ہے۔ اسکے کے خالق کے علاوہ ہر شئے کی ضد موجود ہے۔

لیکن اب سے یہ محض ایک کہانی کہ جو جذب نہیں کر پا رہے وہ آرام و تسکین پائیں۔



لڑکے نے کئی روز کی محنت کے بعد ایک دستاویز تیار کی اور اسکا نام مسلمانوں کے عقائد کی دستاویز رکھا۔

لڑکے نے اس دستاویز کا ایک اور نام رفع رنجش رکھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ محض انسانوں کے خاندان میں کچھ غلط فہمیاں ہیں۔

پانچ صفحوں پر مشتمل یہ دستاویز سادی سی تھی۔

اس میں حنفی علماء سے کہا گیا کہ سب نام چھوڑ کر اللہ کا تجویز کردہ نام مسلمان استعمال کریں۔

اس میں حنفی علماء کو تجویز دی گئی کہ مل کر کہیں کہ ہم سب حنفی المذہب ہیں اور قادری، چشتی، نقشبندی اور سہروردیہ سلسلوں سے فیضان حاصل کرتے ہیں۔

چارکتابوں ، تقویۃ الایمان، براہین قاطعہ، تحذیر الناس اور حفظ الایمان ،کے دفاع سے حنفی علماء دستبردار ہو جائیں اور ان کتابوں کے مصنفین پر فتوی تکفیر کی نشر و اشاعت سے بھی۔

اسی طرح ایک گروہ مزارات اولیاء، توسل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالیشان پر بیان کو معمول سے بڑھا لے جبکہ دوسرا اذان سے قبل درود، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ بنانا ترک کر دے۔ یوں حنفی مذہب کے اعتدال کو واضح کریں جو ابتدائی ہجری صدیوںمیں تھا۔

بلند پایا لطیف مسائل جو خواص کے لیے ہیں ان کو عام لوگوں میں نہ لایا جائے جیسے کہ حاضر و ناضر، نور و بشر، علم غیب اور مختار کل۔

کیونکہ حق طرفین میں بٹا ہوا ہے سو کوئی کسی پر فتح حاصل نہیں کر سکتا۔ جب تک یہ دو حنفی گروہ رنجش ختم نہیں کر لیتے نہ ہی اہل حدیث اور نہ ہی اہل تشیعہ کے علم سے انصاف کیا جا سکتا ہے۔

لڑکے نے اسی طرح حنفی مذہب کے 15 عقائد جو وجہ نزع ہیں کتاب المہند المفند کی مدد سے تیار کیے۔



شعبان کی ایک صبح یہ دستاویز لے کر لڑکا شیخ ایف بی ایریا نمبر 15 کے مدرسے کے سامنے گاڑی روکتا ہے۔

رمضان 2011 آنے میں محض گیارہ دن رہ گئے تھے۔

لڑکے کا اصل مقصد کامل مخبوط الحواس مردوں کے مقابلے کےلیے تمام صالح انسانی روحوں کو جمع کرنا تھا۔

جوجو صلح طلب ہو اسکو ایک پکار دے دی جائے۔

جہاں جہاں نیند ہے وہاں ایک صدا لگا دی جائے۔

تاکہ مقابلہ حقیقی مخبوط الحواس مردوں سے ہو۔

سو لڑکے کو کہیں سے تو اس کام کا آغاز کرنا تھا۔

لڑکے کے علم میں تھا کہ مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ فقہ حنفی کی تحقیقات پر یقین رکھنے والا تھا لیکن کوئی سو سال قبل ان میں ایک دراڑ پڑی۔



لڑکا شیخ کے دفتر پہنچتا ہے جہاں وہ اور ان کے اصحاب تشریف فرما تھے۔

لڑکا شیخ سے مصافحہ کرتا ہے۔

وہ ایک بلند پایا عالم، محقق اور درجنوں تنظیمات کے روح رواں تھے۔

بعد از سلام لڑکا شیخ سے عرض کرتا ہے کہ مسلمانوںمیں یہ ایک دراڑ ہے اسکے لیے لڑکے نے یہ دستاویز تیار کی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ اس پر انکی مہر تصدیق ثبت ہو۔

شیخ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کیونکر حق اور غیر حق ایک ہو سکتا ہے اور پھر سورہ الکافرون کی تلاوت فرماتے ہیں۔

شیخ نے درد دل سے فرمایا کہ اگر اس معاملے کو رفع کرنے کی کوئی صورت ہوتی تو وہ ضرور لڑکے پر سبقت کر جاتے۔

جب لڑکا اپنی لاعلمی کے باعث اصرار کرتا ہے تو فرماتے ہیں کہ اچھا آپ شیخ گارڈن سے ملیں وہ ہمارے بڑے ہیں۔

لڑکا شیخ سے مصافحہ کرتا ہے اور اب اسکی گاڑی گھر کی جانب جا رہی ہے۔

منظر تبدیل ہوتا لڑکا شیخ احسن سے ملاقات کرتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
شیخ احسن رب میڈیکل - ایک کہانی۔قسط 24


شیخ احسن ہر سال کی طرح عمرہ کر کے آ چکے ہوتے ہیں اور شعبان سے ہی تین گھنٹے کا درس قرآن روز دے رہے تھے۔

وہ مولانا بنوری کے شاگرد اور مولانا انور شاہ کشمیری کی طرز پر یہ درس دیتے۔

لڑکا کئی سال ان دروس میں شریک رہا۔

کئی ہزار طالب علم اور شہری اس درس میں شریک ہوتے۔

اونگتے ہوئے طالب علم کی کمرپر مسجد میں گھومتے نگران دوہتھڑرسید کرتے۔

دینی، سیاسی اور عام زندگی کے مسائل سبھی قرآن کی تفسیر کے ذیل میں آ جاتے۔



عام دنوں میں شب جمعہ کو بعد از عشاء تصوف کی تعلیم دیتے اور نوک والی خانقاہی ٹوپی پہنتے۔

وہ افغان جہاد کے حامی، مزاروں پر کی جانے والی ناشائستہ حرکتوں کے خلاف اور ظاہر شریعت میں حد درجے شدت رکھتے تھے۔

برملا اسلامک بینکنگ، سیاسی لوگوں اور اپنی دینی تعبیر سے مختلف لوگوں کا تمسخر اڑاتے۔

چند مسائل میں عام علماء سے مختلف رائے تھی۔ الٹے ہاتھ پر تسبیح سے منع کرتے۔

مغرب کی سنتوں سے پہلے کسی کو تسبیح پڑھتا دیکھ لیں تو سختی سے منع کرتے، بے داڑھی والے کو پہلی صف سے پیچھے بھیج دیتے ۔

قمیض کے کاج انگریزوں کی مخالفت میں دائیں کو بائیں تہہ کے اوپر رکھنے پرگرفت کرتے۔

وہ بعد از نماز جمعہ لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے۔ لڑکے نے بھی بارہا کاغذ کی پرچی پر سوال لکھ کر دیے اور جواب حاصل کیے۔

کیونکہ ایک طبقہ سے سخت مخاصمت تھی سو انکے مدرسے کے کئی طالب علم اور استاذہ قتل ہوئے۔

خوابوں کی تعبیر بھی بتاتے سو ایک دفعہ لڑکے نے ایک خواب کی تعبیر بھی ڈرتے ڈرتے بل مشافہ پوچھی۔وہ جلد غصہ میں آجانے والے تھے۔

وہ اکثر اظہار کرتے کہ لوگوں کی تربیت سخت مشکل کام ہے۔ دین کے بلند احکامات میں نرمی کے ساتھ چلنا انکو سخت دشوار معلوم ہوتا۔

شیخ سادہ طبعیت کے تھے۔

کبھی اپنی مسجد کے چوکیدار کے بارے میں کہتے کہ یہ آٹھ گھنٹے سوتا ہے۔کبھی طالب علم کے لائے ہوئےقندھاری سے دو گلاس جوس نکالنے کا تذکرہ ۔کبھی طالب علم کے لائے ہوئے پچیس کلو شہد کا تذکرہ۔ ایک ارب پتی صنعت کار سے مہر کروڑہا روپے طے کرائے ۔ اکثر عرب شریف میں اپنے دیوانوں کا تذکرہ جو عمرے کے لیے بلاتے۔ اپنی جوانی اور طالب علمی کے دور کا محض کتابوں میں گزر جانے کا تذکرہ کرتے کہ اپنے اصل وطن سے دور اور کراچی کے رشتے دار انکے آنے سے زیادہ خوش نہ ہوتے۔

لڑکا بعداز سلام شیخ کی خدمت میں ایک ہاتھ سے لکھا ورق حوالے کرتا ہے۔

شیخ سے مصافحے کی نوبت کبھی نہ آئی۔

جوں جوں شیخ تحریر پڑھتے جاتے انکی ناگواری بڑھتی جاتی۔

لڑکے نے کاغذ پر تقویۃ الایمان کے دفاع سے دستبردار ہونے کے لیے کہا تھا اور اس پر وزارت مذہنی امور سے پابندی لگوانے میں معاونت کو کہا تھا۔

شیخ دائیں جانب ہوا میں ورق کوپھینکتے ہیں۔

لڑکے سے لاعلمی میں غلطی ہوئی کہ محض ایک کتاب جو وجہ نزع ہے صرف اسکا نام تحریر کیا۔

شیخ کی شریعت میں اس سختی کی ایک تاریخ ہے۔



شیخ نقشبندیہ سلسلے سے تھے جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تک جاتا ہے۔

ابتداء میں صدیقیہ کہلاتا تھا یہاں تک کے سات سو برس قبل خواجہ بہاؤالدین نقش بندرحمہ اللہ ظاہر ہوئے اور یہ سلسلہ نقشبندیہ کہلایا۔

باقی باللہ رحمہ اللہ تعالی نقشبندیہ سلسلے کے بزرگ تھے اور مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالی کے شیخ تھے۔

باقی باللہ کابل میں پیدا ہوئے ۔

وہی کابل جہاں شیخ احسن نے کلاشنکوف سے حد جاری کرتے دیکھا تو منع کیا اور تلوار سے یہ کام اپنی موجودگی میں کرایا۔

آج سے چار سو برس قبل بوجہ دین اکبری کے باقی باللہ نے مجدد الف ثانی اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی کو تیار کیا کہ وہ شریعت کو واضح کریں جو معدوم ہوتی جا رہی تھی۔

اکبر نے سجدہ تعظیمی اختیار کیا، ہندو عورتوں سے شادی کی، سورج، درختوں اور جانوروں کی عبادت کو توحید کے ساتھ خلط ملط کیا اور جانوروں کو بطور غذا استعمال کرنا ممنوع ہوا۔

مجدد الف ثانی نے گوالیار میں قید ہونا منظور کیا لیکن بادشاہ جہانگیر کو سجدہ تعظیمی نہ کیا اور دین اکبری کا رد کیا۔

ہندوں اکثریتی علاقے پر مسلمان بادشاہ کو ہندووں کو راضی کرنا ضروری تھا۔

جہانگیر راہ راست پر آیا جس کی ماں جودھا بائی ایک ہندو عورت تھی۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو آزاد کیا۔

پھر شاہجہاں بادشاہ بنا اسکی ماں شہزادی مانمتی بھی ایک ہندو عورت تھی۔اسکے دور میں سکوں پر کلمہ لکھا جاتا، خوبصورت مقبرے بنائے جاتے۔

یہاں تک کہ اسکا بیٹا اورنگزیب بادشاہ ہوا۔

اس نے سجدہ ختم کیا اور سلام کا اسلامی طریقہ رائج کیا، فتوی عالمگیری شایع کرایا، خوبصورت مقبروں کی تعمیر روکی اور اسی نوع کی دیگر اسلامی اقدامات کیے۔

آج سے قریبا تین سو برس قبل اورنگ زیب کا بیٹا بہادر شاہ ظفر بادشاہ بنا لیکن اب مغلیہ سلطنت ختم ہونے جارہی تھی اور انگریزوں کی آمد ہوئی۔

ہر طرف افراتفری تھی۔ انگریز میجر ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کے سب بچوں کے سر قلم کر کے تھال میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کیے گئےاورگرم خون چلو بھر پیا۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا شیخ احسن سے ملاقات کرتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
شیخ گارڈن- ایک کہانی۔قسط 25


شام ہو رہی تھی۔ مغرب کا وقت قریب تھا۔

لڑکا شیخ گارڈن کا پتہ پوچھتے پوچھتے انکی مسجد پہنچتا ہے۔

بالآخر لڑکا مسجد پہنچتا ہے اورگارڈ سے شیخ کے بارے میں دریافت کرتا ہے۔

پتہ چلتا ہے کہ بعداز مغرب وہ نشست فرماتے ہیں۔

شیخ تفسیر و حدیث کے عالم اورکئی ملکوں کے مشائخ سے تفسیر و حدیث کی اجازت حاصل کر چکے تھے۔ شعر و خطاطی سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ نقشبندیہ سلسلے سے تھے اور دنیا بھر میں آپکے مریدین موجود ہیں۔ آپ کے والد گرامی بھی نقشبدی مجددی سلسلے کے بزرگ تھے اور ایک اندازے کے مطابق چالیس سال کے عرصے میں 18000 خطابات کیے۔شیخ اور آپ کے والد گرامی کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں بھی گراں قدر خدمات ہیں۔



ختم نبوت کی بھی ایک تاریخ ہے۔

غدر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد غلام احمد عیسائیوں سے ایک مناظر کی حیثیت سے ابھرا۔ اس پر علماء سے پذیرای ملی یہاں تک کہ علامہ اقبال تک غلام احمد کے بحیثیت مجتہد معتقد ہوگئے۔

لیکن پھر بات آگے بڑھی اور دعوی مجتہد سے مہدی، مہدی سے عیسٰی اور عیسیٰ سے ظلی بروزی نبی تک جا پہنچا۔ سو علماء نے ان تمام دعووں کو خارج از اسلام قرار دیا۔

پاکستان بننے کے بعد ربوہ غلام احمد کے معتقدین کی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ ربوہ فیصل آباد اور سرگودھا کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ انگریزگورنر سر مرانسس موڈی قادیانیوں کی ایک اسٹیٹ کا خواہش مند تھا جہاں انکی حفاظت کا بندوبست ہو۔سو سابق وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے ایک بہت بڑا قطعہ اراضی قادیانیوں لیے ربوہ میں مختص کیا۔ یہاں عام مسلمان زمین نہیں خرید سکتے تھے۔ جو قادیانی تائب ہو کر مسلمان ہوتا اسے بیوی بچوں اور گھر سے محروم کر کے ربوہ سے نکال دیا جاتا۔یہاں تک کہ ٹرین پر جاتے میڈیکل کے اسٹوڈینٹس نےقادیانی لٹریچر قبول کرنے سے انکار کیا جس پر قادیانیوں نے ان پر سخت تشدد کیا۔ مقدمہ چلا اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔

اب قادیانیوںکا مرکز برطانیہ ہے اور ان کے تبلیغ کے مقامات افریقا اور بلوچستان ہیں۔



مغرب کی نماز تمام ہوتی ہے اور لڑکا شیخ سے انکے آفس میں اندر آنے کی اجازت مانگتا ہے۔

بعداز سلام لڑکا ایک قریبی نشست پر بیٹھ جاتا ہے۔

شیخ متوجہ ہوتے ہیں تو لڑکا کہتا ہے کہ شیخ ایف بی ایریا 15 نے آپ کا تذکرہ کیا تھا جب وہ ان کے پاس مسلمانوں کی اس تقسیم کے متعلق ان کے پاس گیا۔

لڑکا مذید اپنی تیار کردہ دستاویز سے متعلق کہتا ہے کہ مسلمانوں کی یہ تقسیم اچھی نہیں۔

شیخ کہتے ہیں کہ آپ تو اکیلے آئیں ہیں اس سے قبل ایک تعداد میں لوگ انکے پاس اسی مسئلے کے ذیل میں آئے تھے۔

لڑکا کہتا ہے کہ عبد بن ابی کی نماز جنازہ پڑھنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانا چاہتے تھے توہم کیونکر اخلاق کریمانہ نہیں دیکھا سکتے۔

شیخ لفظ ابی کا صحیح تلفظ لڑکے کو بتاتے ہیں۔

لڑکا سورہ کوثر کا حوالہ دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان تو اللہ نے خود محفوظ فرمائی ہے تو شیخ سر جھکا کر فرماتے ہیں مسئلہ تکفیر کی زنجیر کا ہے۔

یعنی اگر یہ عقدہ حل ہو جائے تو حنفی مسلمان پھر سے ایک ہو سکتے ہیں۔

لڑکے کو امید کی ایک کرن نظر آتی ہے ۔

یہ ایک ایسی کرن تھی کہ جس کو زمین پر اتارنا سخت دشوار عمل ہے۔

شیخ کی گفتگو کے بعد لڑکا شیخ کورنگی اول سے ملاقات کا ارادہ کرتا ہے۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا ظہر کی نماز سے قبل شیخ کورنگی اول سے ملاقات کے لیے انکے آفس میں انتظار کر رہا ہے۔

میاں ظہوری-
 
شیخ کورنگی اول بسلسلہ دستاویز - ایک کہانی۔قسط 26


بڑے بڑے ٹرکوں کے درمیان لڑکے کی گاڑی کورنگی کی سڑکوں پر دوڑے چلے جارہی تھی۔

لڑکے کو ظہر سے قبل شیخ کورنگی اول کے دفتر پہنچنا تھا۔

شیخ گیارہ بجے اپنے دفتر پہنچتے اور لوگوں سے قبل از ظہر تک ملاقات کرتے۔

لڑکا شیخ کے آفس میں داخل ہوتا ہے جہاں وہ چھ برس قبل بھی آیا تھا۔

شیخ کے پرسنل اسسٹنٹ لڑکے سے ملاقات کا مقصد پوچھتے ہیں اور ایک نشست پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

ظہر کی جماعت میں چند ہی منٹ رہ گئے تھے۔

لڑکا کرسی سے اٹھ کر برآمدے میں آجاتا ہے۔

وہیں کانفرنس روم کے باہر چپلیں آدھے سورج مکھی کے پھول کی صورت میں رکھیں ہوئی تھیں۔

لوگ بہت ترتیب سے اپنی چپلیں کمرے کے باہر اتارتے۔

شیخ برآمدے میں اپنے ایک رفیق کے ساتھ آتے ہیں وہ آستین کو بعد از وضو نیچے اتار رہے ہوتے ہیں۔

لڑکے کو ملاقات کی امید مدھم ہو تے دکھائی دینے لگی۔

لڑکا مسلمانوں کے عقائداور رفع رنجش کی دستاویز شیخ کے سیکرٹری کے سپرد کرتا ہے اور ظہر کی جماعت ادا کرتا ہے۔

لڑکے کو امید تھی کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تو قدیم بزرگوں میں سے ہیں کیونکر حنفی علماء ان کی تحقیقات پر متفق نہیں ہو سکتے۔ ضرور کوئی رنجش ہے جسے رفع کیا جا سکتا ہے۔

جماعت کے بعد لڑکا مسجد کے باہر شیخ کا انتظار کرنے لگا۔

شیخ اپنے رفیقوں کے جھرمٹ میں برآمد ہوئے۔

لڑکا ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

شیخ اپنے رفیق سے ان کے جامن کے درخت پر آنے والے پھل کے متعلق ہلکی پھلکی گفتگو کر رہے تھے۔

انکی منزل قریب ہی موجود انکا گھر تھا۔ رفیق تہہ بہ تہہ آتے جا رہے تھے اور لڑکے اور شیخ کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا تھا۔

اب جو کچھ مجمع چھٹا تو لڑکے نے باقاعدہ پکار کر پیچھے کی جانب سے کہا "مفتی صاحب"۔

شیخ نے پلٹ کر دیکھا اور اپنا سفر جاری رکھا۔

لڑکا شیخ کے بائیں بازو پر پہنچا اورسلام کیا۔

شیخ نے جواب دیا تو لڑکے نے کہا کہ میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔

شیخ نے کہا فرمائیے۔

لڑکے نے کہا کہ کہیں بیٹھ کر بات ہو سکتی ہے۔

شیخ نے جواب تو نہ دیا لیکن معمولی ساآنکھوں کو دبایا اور خفیف سے گردن کو جنبش دی۔

لڑکے کو تو معلوم نہ تھا لیکن یہ اور اس نوع اور اس سے بڑے مسائل شیخ کی ساری زندگی کے مشاغل تھے ۔

اس معمولی سے مسئلے کے لیے نشست کی چنداں ضرورت نہ تھی۔

لڑکے نے جب شیخ کونشست کی رائے پر تائید کرتے نہ پایا اور نہ ہی شیخ کے سفر کی رفتار میں کوئی کمی دیکھی تو عرض کیا۔

کیا کچھ تحفے آپکی طرف سے مل سکتے ہیں؟ لڑکا شیخ سے سوال کرتا ہے۔

شیخ پوچھتے ہیں وہ کس لیے؟

لڑکا کہتا ہے کہ میں یہ تحفے آپکی طرف سے دیگر حنفی علماء کو دوں گا۔

لڑکے کے دل میں تھا کہ تحفے کینہ دور کرتے ہیں۔

شیخ نے لڑکے سے کہا کہ یہ بغض ہے کبھی ایک طرح تو کبھی دوسری طرح ظاہر ہو گا۔ مطلب کہ تحفے سے اسکا علاج نہ ہو پائے گا۔

لڑکے کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ شیخ کی مذید رفقاء ان کو گھیرے لیتے تھے۔

لڑکے کی رفتار مدھم ہوتی جا رہی تھی۔ اب شیخ اس سے کافی فاصلے پر جا چکے ہوتے ہیں۔

لڑکا رخ تبدیل کر کے اپنی گاڑی کی طرف راہ لیتا ہے اور چند ہی لمحوں میں گاڑی واپسی کی راہوں پر دوڑی چلے جارہی تھی۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا شیخ امام تمیمہ‬ سفاری پارک کے پاس دستاویز لے جانے کا ارادہ کرتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
شیخ سفاری پارک- ایک کہانی۔قسط 27


لڑکا سفاری پارک سے کچھ پہلے ایک مدرسے کے گیٹ کے اندر داخل ہوتا ہے۔

ایک مٹی اور پتھر کے میدان کے دائیں سمت کچھ کمرے تھے۔

لڑکے کے قدم زمین میں ابھرے چکنے پتھروں اور مٹی کو روندتے ہوئے استقبالیہ کے کمرے کی طرف بڑھتے ہیں۔

لڑکے کے ہاتھ میں ایک دستاویز تھی جو اس قبل وہ کئی شیوخ کو دکھا چکا ہوتا ہے۔

شیخ سید نظیر حسین کی کوششوں کے سلسلے سے تھے ۔

سید نذیر حسین قریبا ڈیڑھ سو برس قبل شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبد العزیز اور سید احمد بریلوی سے متاثر ہوئے۔

سید نذیر حسین اشرف شیعہ تھے اور جناب امام حسن کی اولاد میں سے تھے اور مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے کام کو لے کر آگے بڑھے۔

تاج برطانیہ ناقابل تسخیر بنا جا رہا تھا۔

سورج سلطنت برطانیہ میں کبھی غروب نہ ہوتا تھا۔

مسلمانوں کے تمام مراکز یک بعد دیگرے تاج برطانیہ کے زیر نگین ہوتے جا رہے تھے۔

ساری اسلامی دنیا میں صوفیوں کا غلبہ تھا جو قرون اولی کے جہاد سے ناواقف تھے لیکن ٹمٹماتے روحانی نور سے روحوں کو سیراب کرنے میں مشغول تھے۔

عرب شریف میں سے مدھم نور سے رخ مڑا تو وہابی تحریک وجود میں آئی۔

مصر میں اس کمزور پڑتے نور کی مجلس سے کوئی اٹھا تو سلفی تحریک مصر میں برپا ہوئی۔

اور ہند میں صوفیوں کے طریقوں سے صرف نظر کیا تو سید نذیر حسین کی اہل حدیث کی تحریک شروع ہو گئی۔

دنیا میں اٹھتی ہوئی ان تحریکوں کا مقصد ہر پر تکلف اور بوجھل طریقے کو خیر باد کہہ کر تلوار ہاتھ میں اٹھانا تھا۔

زمانہ قیامت کی چال چل گیاتھا۔

دینا کی آبادی جو دو سو برس قبل محض ایک ارب تھی سات ارب جا پہنچی۔

لگتا تھا کہ اسلامی دنیا کے روحانی مراکز دجال سے مقابلے کے لیے تلوار ہاتھ میں اٹھانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔

لیکن ابھی تلوار اور نور ایک ہو رہےتھے۔

سید نذیر حسین کے شاگردوں میں امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی بانی دیوبند اور رشید احمد گنگھوی شامل ہیں۔

لڑکا شیخ کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک رفیق کھجوریں اور پانی لڑکے کو پیش کرتے ہیں۔

شیخ بھی سید نذیر حسین کی طرح صوفی طور طریقوں، مذہب اربعا سے دور اور تلوار سے نزدیک تھے۔

شیخ کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور اپنی کرسی پر تشریف رکھتے ہیں جو ایک پرنسپل کو دی جانے والی میز کے پیچھے تھی۔

میز پر ایک شیشہ تھا جس کے نیچے دسیوں کارڈ تھے۔

کمرہ ایک اجڑا دیار تھا۔ چیزیں ضرورت کے تحت جہاں جس جگہ سمجھ آئیں رکھ دی گئیں تھیں۔

شیخ مسکراتے ہوئے لڑکے سے مصافحہ کرتے ہیں۔

لڑکا اپنا تعارف کراتا ہے اور رفع رنجش کی دستاویز شیخ کو پیش کرتا ہے۔

لڑکا دستاویز کا تعارف کراتا ہے اور صوفی طریقوں میں سے ایک طریقہ بعد از جمعہ درود و سلام کا تذکرہ کرتا ہے۔

شیخ اس کو مردود گردانتے ہیں۔

شیخ قرن اول کے علاوہ عبادت کے ہر طور طریقے سے سخت بے زار و خائف تھے ۔

بات چیت سے اندازہ ہوا کہ بخاری و مسلم شریف سے انکوبے حد عقیدت تھی اور مذہب اربعا کی تحقیقات کو وہ قابل قبول نہ جانتے تھے۔

وہ آزادی کے ساتھ مذہب کی تشریح بذریعہ احادیث کرنا چاہتے تھے۔

لڑکے کی دستاویز کے اولین مخاظب حنفی علماء تھے سو یہ ملاقات محض ایک اور نقطہ نظر جاننے کے لیے تھا۔

لڑکا شیخ سے اجازت لیتا ہے اور ایک چھوٹے سے برآمدے سے گزر کر پھر وہ اسی مٹی اور پتھروں کی میدان میں جا پہنچتا ہے۔

لڑکے کو ہر ملاقات سے پہلے کثیر درود اور تسبیحات پڑھنی پڑتیں اور ہر شیخ سے کئی کئی دفعہ ملاقات کرنی پڑتیں۔

اب لڑکا شیخ بنوری ٹاون دویم سے ملاقات کا ارادہ کرتا ہے۔ وہ ایک نفیس انسان تھے۔بعد کے سالوں میں انکو طارق روڈ فلائی اوور پر قتل کیا جاتا ہے۔

منظر تبدیل ہوتا لڑکا ایک صبح شیخ بنوری ٹاون دویم کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
شیخ بنوری ٹاون دویم- ایک کہانی۔قسط 28


لڑکا ایک صبح بنوری ٹاون کی ایک مسجد پہنچتا ہے۔

یہاں اس سے قبل بھی وہ آیا تھا لیکن اس وقت اس نے رفع رنجش کی دستاویز انگریزی میں لکھی تھی۔

استقبالیہ پر موجود ایک نو عمر شیخ نے انگریزی کی دستاویز پڑھی اور وصولی کی ایک رسید لڑکے کو دے دی۔

اس رسید کو دکھا کر لکھا ہو ا جواب کچھ دنوں بعد حاصل کیا جا سکتا تھا۔

آج لڑکا انگریزی سے اردو ترجمہ کر کے کم و بیش آدھی درجن لوگوں کے ساتھ دوبارہ استقبالیہ پر بیٹھا ہوا تھا۔

لڑکے کا نمبر آتا ہے اور قبائلی علاقہ جات سے آئے ہوئے نوعمرشیخ کو بعد از سلام لڑکا اپنا مدعا عرض کرتا ہے۔

شیخ کہتے ہیں ہم نے تو اس کا اردو ترجمہ کر لیا ہے جس پر جواب دیا جائے گا۔

لڑکا عرض کرتا ہے کہ اسکا ترجمہ استعمال کر لیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو گا۔

شیخ اس بات کو کچھ رد وکد کے بعد قبول کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے ترجمہ کرنے میں ان کا وقت صرف ہوا تھا سو اب یہ نیا قصہ انکے لیے گراں تھا۔

آج کافی عرصے بعد وہ یہاں دوبارہ آیا تھا تاکہ اس اردو ترجمہ پر جواب حاصل کر سکے۔

نوعمر شیخ لڑکے کو شیخ بنوری ٹاون دویم کے سامنے لے جا کر بیٹھا دیتے ہیں۔

یہ با عمر شیخ تھے جن کو بعد میں طارق روڈ پر قتل کیا گیا۔

لڑکا شیخ کو سلام کرتا ہے۔ شیخ اپنی پیرانہ سالی کے باعث آہستہ حرکت کرتے تھے ۔ وہ ترمذی شریف اور ہدایہ کے استاذ تھے۔

شیخ سیدھی سادی طبعیت کے مالک تھے اور ہمیشہ لڑکے سے مسکرا کر بات کرتے۔

انکے آباو اجداد محمد بن قاسم کے ساتھ حجاز سے ہند آئے تھے اور پھر یہاں کے ہی ہو کر رہ گئے۔

محمد بن قاسم نے سمندری راستوں سے مسلمان مردوں اور عورتوں کو قید کرنے پر راجہ داہر سے جنگ کی اور سندھ سے لے کر ملتان سب مسلمانوں کے زیر اطاعت آ گیا۔

لڑکا بارہا شیخ سے ملا لیکن کبھی ان کو تندی کی حالت میں نہیں پایا۔

ایک دفعہ لڑکا انکے پاس سید اسماعیل شہید سے متعلق ایک باب پڑھ کر پہنچا۔

لڑکے نے سید اسماعیل شہید کی سیرت پر عمل کرنے کو کہا تو شیخ کچھ زیادہ خوش نہ ہوئے اور ان جذبات کو زمانے سے متعلق نہ پایا۔

ایک دفعہ لڑکا شیخ کی محفل میں داخل ہوتے ہوئے ذرا قدم اور نظروں میں توازن نہ رکھا سکا تو اپنے بجائے دوسرے کسی اورکی طرف بیٹھا دیا۔

یہ گویا سرزنش تھی۔

شیخ نے لڑکے کو مسکراتےہوئے سلام کا جواب دیا اور کہا آپ نے جو دستاویز لکھی ہے وہ ہم نے پڑھ لی ہے اور دعا ہے کہ اللہ آپ کو اسکا اجر دے۔

لڑکا اب تک مسئلے کو محض علماء کی علمی رنجش سمجھ رہا تھا حالانکہ یہ خشک سالی صدیوں میں دریا کے قطرہ قطرہ بھانپ بن کر اڑنے سے ہوئی تھی۔

جب لڑکا کئی دفعہ اصرار کرتا ہے اور شیخ وہی جواب دیتے ہیں تو بالآخر شیخ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے بڑے ہیں آپ ان سے مل لیں۔

یہ بات سن کر لڑکا نوعمر شیخ کو سلام کرتا ہے جو لڑکے اور شیخ کبیر کے درمیان نشست کیے ہوتے ہیں۔

ساتھ ہی شیخ کبیر کو بھی رخصتی سلام ہوتا ہے اور یوں یہ مجلس اختتام کو پہنچتی ہے۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا ایک صبح شیخ بنوری ٹاون سویم کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
شیخ بنوری ٹاون سویم- ایک کہانی۔قسط 29


اکیسویں صدی کی دوسری دہائی شروع ہو چکی تھی۔

ایک دن سورج عین نصف النہار سے گزر چکا ہوتا ہے۔

لڑکا بنوری ٹاون کی ایک مسجد ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے لیے پہنچتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب ایبٹ آباد سے کراچی تعلیم کے لیے آئے، پھر مدینہ یورنیورسٹی سے چار سال دینی علوم حاصل کیے اور بالآخر الازہر سے ڈاکٹریٹ کیا۔

مدینہ یورنیورسٹی میں مذہب اربعاء ایسے ہی پڑھائے جاتے ہیں جیسے ہماری سرکاری اسکولوں میں انگریزی۔

مدینہ یورنیورسٹی میں تعلیم کا اصل مقصد کتب حدیث سے مذہب برآمد کرنا ہے نہ کہ ائمہ اربعا سے۔

ڈاکٹر صاحب اسی کمرے میں ایک خصوصی نشست رکھتے تھے جہاں آج سے قریبا 8 برس قبل لڑکا شیخ اول بنوری ٹاون سے ملا تھا۔

لڑکا بلا کسی دستاویز کے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کسی سے محو گفتگو ہوتے ہیں۔

اب لڑکے کا نمبر آتا ہے۔

لڑکا اپنا مدعا عرض کرتا ہے کہ حنفی علماء سے اسکی ملاقات ہوئی جس میں لڑکا چاہتا ہے کہ وہ حنفی مسلک کی ایک تشریح اور ایک قائد منتخب کر لیں۔

اسی سلسلے میں وہ آپ کے پاس حاضر ہوا ہے۔

شیخ مناسب الفاظ میں لڑکے کو ٹالتے ہیں۔

لڑکا اصرار کرتا ہے۔

شیخ تبلیغی جماعت کے تعارف پر مبنی ایک کتابچہ لڑکے کو دیتے ہیں کہ آپ اس سے منسلک ہو جائیں۔

لڑکے کا اصرار بڑھتا ہے۔

لڑکا کہتا ہے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حریص علیکم یعنی ہم سب کی بھلائی اور خیر خواہی میں سب سے زیادہ حریص نہ تھے۔

اب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے وہیں کے ایک استاذ تشریف لاچکے تھے۔ وہ لنگی اور کرتے میں تھے۔

وہ لڑکے کی گفتگو سن رہے ہوتے ہیں۔

یکایک کہتے ہیں کہ شیطان بھی تو ہوتا ہے۔

مطلب انکا یہ تھا کہ لڑکا جو یہ اصرار کر رہا ہے وہ بجا ہے لیکن شیطان لوگوں کو ایک حنفی قائد پر متفق ہونے سے روک رہا ہے۔

لڑکا شیخ دستگیر 15 کا تذکرہ کرتا ہے کہ انہوں نے شیخ گارڈن سے ملنے کو کہا تھا کہ وہ انکے بڑے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب یہ سن کر کہتے ہیں کہ آپ شیخ شاہ فیصل کالونی سے ملیں کہ وہ ہمارے بڑے ہیں۔

دوپہر کا ابتدائی وقت گزر چکا ہوتا ہے۔

لڑکا ڈاکٹر صاحب سے رخصتی کا سلام کر کے اپنی گاڑی کی جانب روانہ ہوتا ہے۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا ایک صبح شیخ شاہ فیصل کالونی کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
شیخ شاہ فیصل کالونی - ایک کہانی۔قسط 30


لڑکے کی گاڑی وسیع کالے پل پر دوڑے جا رہی تھی۔

لیکن یہ وسعت اب تنگ سڑکوں میں بدلنے والی تھی۔

جونہی ریل کی پٹری کے پل کے نیچے سے گاڑی گزرتی ہےایک پیچ دار راستہ شروع ہو جاتا ہے۔

لڑکا کافی طویل فاصلہ طے کر کے پوچھتا پوچھتا شیخ شاہ فیصل کالونی کی مسجد پہنچتا ہے۔

لڑکا مسجد میں داخل ہوتا ہے اور استقبالیہ کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔

استقبالیہ پر موجود صاحب کو لڑکا اپنے آنے کا مقصد بیان کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لڑکے کو ان کی طرف بھیجا ہے۔ وہ ایک طرف بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب دسیوں دینی تنظیمات کے روح رواں تھے اور ان کو دینی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

شیخ شاہ فیصل نہ صرف شیخ بنوری ٹاون سویم کے بڑے تھے بلکہ شیخ کورنگی دویم کے بھی استاذ رہ چکے تھے۔

اب استقبالیہ پر موجود صاحب لڑکے کو ایک کمرے میں جانے کا کہتے ہیں۔

لڑکا کمرے میں داخل ہوتا ہے اور ایک جانب زمینی نشست اختیار کر لیتا ہے۔

کچھ دیر میں ایک شیخ کمرے میں داخل ہوتے ہیں ۔ لڑکا انکو نشست چھوڑ کر سلام کرتا ہے۔

اب دونوں زمینی نشست پر ہوتے ہیں۔

شیخ معذرت کرتے ہیں کہ شیخ شاہ فیصل کالونی اپنی پیرانہ سالی اور بیماری کے باعث آپ سے ملاقات نہیں کر سکتے۔

شیخ ان کے صاحبزادے تھے۔

شیخ لڑکے کا نام دریافت کرتے ہیں۔

لڑکا اپنا مکمل نام جس میں اسکے خاندان کا نام بھی شامل ہوتا ہے بتا دیتا ہے۔

اس پر شیخ صرف اپنا نام بتاتے ہیں۔ مختصر۔ جس میں نہ کوئی خاندان کا نام شامل اور نہ ہی سابقہ لاحقہ۔

یہ ایک ادب تھا جو شیخ نے سکھایا کہ اپنے نام سے بھی تمکنت نہ حاصل کرو۔

اب شیخ آنے کا مقصد دریافت کرتے ہیں۔

لڑکا دستاویز کا تذکرہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان کے والد محترم سے ملنے کو کہا تھا ۔ اس پر شیخ کہتے ہیں کہ دستاویز دکھائیں۔

لڑکا کہتا ہے کہ وہ اس وقت اس کے پاس نہیں لیکن بات سادی سی ہی اگر وہ سن لیں۔

شیخ کہتے ہیں کہ اگر مختصر ہے تو لکھ دیں میں والد گرامی کو دکھا کر جواب لے لوں گا۔

لڑکا ایک کاغذ پر مختصرا لکھ دیتا ہے کہ جب سب علماء حنفی ہیں تو کیوں نہ ان کا ایک قائد منتخب کرلیا جائے جو قوم کی رہنمائی قدیم حنفی اصولوں کے مطابق کرے۔

شیخ لڑکے سے کہتے ہیں کہ وہ دستاویز بھی پہنچا جائیں۔

یوں یہ مختصر سی ملاقات اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔

اگلے ہی دن لڑکا دستاویز بھی شیخ کو ایک لفافے میں دے جاتا ہے۔

کچھ ہفتوں بعد لڑکا پھر استقبالیہ کے صاحب کے پاس پہنچتا ہے۔ اب رمضان شروع ہو چکا ہوتا ہے۔

استقبالیہ کے صاحب بتاتے ہیں کہ شیخ موجود نہیں۔

لڑکا استقبالیہ سے نکل کر دار الاافتاء پہنچتا ہے۔

وہاں ایک صاحب سے بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس وقت رمضان ہے سو سب چھٹی پر ہیں۔لیکن آپ نے جو دستاویز بنائی ہے وہ قیمتی ہے۔

وہ صاحب مذید کہتے ہیں کہ آج کون نہیں جوکسی گروہ میں نہ ہو۔ کام کرنے کا چلن ہی گروہ بن کر کام کرنا ہو گیا ہے۔

اس بات کے بعد لڑکا وہاں سے رخصت ہوتا ہے۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا شیخ اسلامیہ کالج کے دفتر کے سامنے گاڑی روکتا ہے۔


میاں ظہوری-
 
شیخ اسلامیہ کالج - ایک کہانی۔قسط 31


بعض سفر کئی منزلیں لاتے ہیں۔

بعض سفر لا محدود ہوتے ہیں کبھی ختم نہیں ہوتے۔

بعض سفر بالآخر حیرت پر منتہج ہوتے ہیں۔

لڑکا جان چکا تھا کہ یہ انسانوں کے درمیان یکسانیت تلاش کرنے کا سفر ایسا ہی ایک سفر ہے۔

اگر ذات لامحدود ہے تو اسکو پہچاننے کے مسافر اور راستے جدا جدا ہو سکتے ہیں۔

بس انہی مخلص سفر کرنے والوں میں یکسانیت تلاش کر کے انکو ایک جتھا بنانا تھا تاکہ سفر کے مخالفین ایک طرف اور سفر کرنے والے دوسرے طرف ہوں۔

توجہ سفر پر ہو جائے۔

سفر کرنے والوں کی جان محفوظ ہو جائے۔

سفر کرنے والوں کے مال امان میں آ جائیں۔

سفر کرنے والوں کی عزتیں یکساں محترم ہو جائے۔

ہاں جو سفر کے مخالف ہیں وہ خوف کے مارے ڈرے رہیں۔

سفر کرنے والے اپنی اپنی کیفیت اپنی اپنی داستان ایک دوسرے کو سناتے رہیں اور سفر کو پر لطف بناتے رہیں۔

لڑکا چاہتا تھا کہ سفر کرنے والوں کی ایک حکومت بن جائے تاکہ سفر کرنے والوں کو کوئی دشواری پیش نہ آئے۔

حکومت سفر کے مخالفین کو ڈرا کر رکھے اور ہر اس انتظام کو جاری کرے جو اس سے پہلے پرلطف مسافروں کے احوال میں ملتا ہے۔

لڑکا اسلامیہ کالج کے سامنے بنے گلوب کے سامنے سے گزرتا ہے اور کچھ ہی فاصلے پر ایک گلی میں مڑ جاتا ہے۔

اب لڑکا ایک قدیم طرز کے بنے بنگلے میں داخل ہوتا ہے جو آج بھی طارق روڈ کے اطراف و اکناف میں کہیں کہیں دیکھے جا سکتے ہیں۔

لڑکا استقبالیہ پر موجود لڑکے کو بتاتا ہے کہ وہ ایک خاص وجوہ کی بنا پر اس ادارے کے انچارج سے ملنا چاہتا ہے۔

لڑکا سیدھے جا کر دائیں مڑنے کا اشارہ کرتا ہے۔

اب لڑکا ایک کمرے کے دروازے پر ہوتا ہے۔

اندر ایک نفیس انسان مانند ایک پرنسپل کے نشست کیے ہوتے ہیں۔

لڑکا سلام کرتا ہے اور جواب کے ساتھ سامنے موجود کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

لڑکا شیخ سے عرض کرتا ہے کہ وہ حنفی علماء کو ایک کرنے کی سعی کر رہا ہے۔

شیخ خوش ہو کر اس کو اتحاد بین المسلمین کی سعی کہتے ہیں۔

لڑکا سود سے متعلق پمفلٹ انکو دکھاتا ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کے لیے ان بنکوں سے وابستہ ہیں۔

انکا مطلب تھا کہ مجبوری کی وجہ سے معذوری ہے سو آپ اسقدر شدت سے کام نہ لیں کہ کہیں کہ سودی بینکوں سے رقم نکالیں اور تجارت میں لگائیں۔

شیخ پوچھتے ہیں کہ آپ کن کن حضرات سے مل لیے؟

لڑکا جن لوگوں سے ملا ہوتا ہے انکے نام گناتا ہے۔

شیخ لڑکے کو شیخ آرام باغ سے ملنے کا بھی کہتے ہیں جن کے کئی ساتھی دسیوں لوگوں کے ساتھ نشتر پارک میں محفل میلاد کے خود کش دھماکے میں ہلاک ہوئے۔

لڑکا بعد میں شیخ آرام باغ سے ایک دن ملنے جاتا بھی ہے لیکن ان کے صاحبزادے ان کی غیر موجودگی اور سفر کی اطلاع دیتے ہیں۔

شیخ گارڈن سے ملنے کا بھی کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ شیخ پرانی سبزی منڈی کےمقابلے میں وہ عالم دین ہیں۔

حقیت یہ ہے کہ شیخ گارڈن اور ان کے شیخ بالآخر مجددی سلسلے کو پسند کرنے کے باعث ایک دوسرے سے قدرے نزدیک تھے۔ جبکہ شیخ پرانی سبزی منڈی قادری سلسلے سے تھے۔

حالانکہ دونوں قادری اور مجددی سلسلے بالآخر جناب علی المرتضی علیہ السلام سے جا ملتے ہیں۔

نبوت کے علوم اسقدر کثیر اور لامحدود ہیں کہ ہر سلسلہ جو حصہ سنبھالے ہوئے ہےاسی علم کے گنجینے میں غرق ہے۔

حال یہ ہے کہ ہر سلسلے کے علوم سیلاب کی مانند ہیں ۔ اسی سے اندازہ کر لیں کہ اصل منبع کسقدر وسیع اور شدید ہو گا۔

جب وہ شیخ احسن رب میڈیکل کا سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے اسی ادارے نے نایاب قرآن کریم کے نسخوں کی نمائش کا اہتمام کیا ہے۔ کیا آپ انکو ہمارا دعوت نامہ پہنچا سکتے ہیں۔

لڑکا حامی بھر لیتا ہے اور ایک کارڈ شیخ لڑکے کو عنایت کرتے ہیں۔

شیخ احسن رب میڈیکل ان سے نظریاتی اور تفسیری اختلاف رکھتے تھے اور ان کی محافل میں نہ شریک ہوتے۔

شیخ لڑکے کو بھی اس نمائش میں مدعو کرتے ہیں۔

شیخ عامر لیاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلاوجہ لوگ انکے پیچھے لگ گئے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا فون نمبر بھی دیتے ہیں۔

لڑکا میسج کے ذریعے عامر لیاقت کو ملنے کا کہتا ہے جس کا وہ مثبت جواب دیتے ہیں لیکن بوجوہ لڑکا ان سے نہیں مل پاتا۔

لڑکا نمائش کے دن اس ادارے پہنچتا ہے تو واقعی قرآن پاک کے قدیم نسخے دنیا بھر سے جمع کر کے نمائش میں رکھے گئے تھے۔

شیخ نےاپنی کراچی جماعت کے ایک سرکردہ سیاسی لیڈراور رکن اسمبلی سے ملاقات کرائی۔

وہ لڑکے کو ٹی وی شو میں آنے کا مشورہ دیتے ہیں جو لڑکے کو کسی طور اپنے مقصد سے متعلق نظر نہیں آتا۔

بہرحال مغرب بعد لڑکا واپس آ جا تا ہے۔

شیخ اسلامیہ کالج سے لڑکے کی کئی ملاقاتیں ہوتیں ہیں۔ وہ بہت صحیح مشورہ دینے والے، مخلص انسان تھے۔

دستاویز کو کمپیوٹر ٹائپنگ میں لانے کا مشورہ بھی انہی کا تھا۔

ایک دفعہ ان کے کمرے میں ایک صاحب اور نشست رکھتے تھے۔ وہ کسی اخبار سے تعلق رکھتے تھے۔

لڑکے نے بینک کے پیسے کو سونے میں تبدیل کرنے کا تذکرہ کیا تو کہنے لگے یعنی آپ سناروں کا فائدہ کرانا چاہتے ہیں۔

لڑکے نے کہا وہ کسی کے لیے یہ کام نہیں کر رہا۔ وہ یہ اس لیے کر رہا ہے کہ اسکی اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے ان مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔

وہ صاحب کہنے لگے آپ کچھ کر لیں آپ کمپیوٹر والے صاحب کے نام سے ہی مشہور ہو جائیں گے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ حنفی علماء کو ایک کر تے کرتے آپ ایک اور گروہ بنا جائیں گے۔

اپنے والد صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ انہوں نے عالم دین کے علوم پڑھے اور بالآخر اپنی ہی قائم کردہ مسجد میں نماز پڑھاتے جس میں 200 سو نمازی ہوتے۔

شیخ نے کئی دفعہ کال کر کر کے لڑکے کی خیریت پوچھی وہ چاہتے تھے کہ لڑکا انکی جماعت میں شامل ہو جائے۔

لڑکے نے انکو اپنے کام میں شامل ہونے کے لیے کہا تو ذرا توقف کے بعد فرمایا ہمارا آدمی جھک تو سکتا ہے توڑا نہیں جا سکتا۔

ایک صاحب جو خود پی ایچ ڈی تھے ان سے شیخ نے لڑکے کے کام کا تذکرہ کیا کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے لیے کام کر رہے ہیں تو ان کا فون آیا اور ملنے کی درخواست کی لیکن یہ ملاقات نہ ہو پائی۔

رفتہ رفتہ شیخ سے تعلق ختم ہوتا گیا کہ لڑکے کو اندازہ ہو گیا تھا کہ دنیا کا انتظام اس وقت انسانوں کو تقسیم کرنے والے گروہ کے ہاتھوں میں ہے۔

علم محصور ہے اور اس گروہ نے بزور ہتھیار انسانوں کو تقسیم کر کے رکھا ہوا ہے۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا دستاویز کے سلسلے میں شیخ بیت المکرم کے خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔


میاں ظہوری-
 
شیخ بیت المکرم- ایک کہانی۔قسط 32


لڑکے کے ایک رشتے دار نے شیخ بیت المکر م سے اصلاحی تعلق قائم کیا تھا۔

شیخ مسجد میں موجود چندکچے گھروں میں سے ایک میں مقیم تھے۔

بعد از عصر ایک تخت پر بیٹھ جاتے اور لوگ اپنی اصلاح کے خطوط ان کو دیتے اور جواب حاصل کرتے یا زبانی ہی اپنی بات کر لیتے۔

لڑکا بارہا ان کے پاس گیا اور وہ تحمل سے ہر بات سمجھا دیتے تھے۔

اس بار البتہ لڑکا دستاویز کے سلسلے میں ان کے پاس پہنچا۔

شیخ نے لڑکے کی بات سن کر فرمایا کہ اگرہم یوں مل جل جائیں تو پھر دیکھیں مدینے میں کیا حال کریں یہ لوگ۔

ان کا مطلب تھا کہ دوسری طرف عقیدت اسقدر ہے کہ روضاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لوگ بوسے لیں، چادریں ملتے رہیں، مٹی اٹھا لائیں اور طرح طرح کی باتیں کریں جو وہاں کی شان سے فروتر ہوں۔

مسلمانوں کو بہرحال انصاف کے لیے کھڑے ہونے کا حکم ہے۔

محبت کی رعایت رکھتے ہوئے عمل کچھ بھی ہو بالآخر دنیا کی عدالت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔

ان کو جلد اس قابل بننا ہے کہ اقوام کے درمیان باوقار عدل اور محبت کے ساتھ کھڑے ہوں۔

شیخ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اصلاح کے لیے ایک اور صاحب بھی آتے ہیں اور انکا بھی کچھ اسی نوعیت کا پیغام ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر۔

مطلب یہ کو انہونی سعی آپ ہی نہیں کر رہے بہت سے لوگ ہیں لیکن ابھی فی الحال یہ ایک خواب ہی ہے۔

لڑکا عبارات کا تذکرہ کرتا ہے تو شیخ ایک جملے میں چوڑے چمار کا تذکرہ کرتے ہیں۔

وہ اس ڈنڈی کا اعادہ کرتے ہیں جو بعض مسلمانوں کی اصلاح کے لیے انہوں نے چھپا کر رکھی تھی۔

یہ نشست یوں تمام ہوتی ہے۔

اسکے بعد لڑکا کچھ دفعہ اور شیخ کی صحبت میں گیا اور ایک دفعہ لڑکے نے جانے کی جلدی کی تو شیخ اپنی نشست چھوڑ کر کھڑے ہو گئے اور اپنی بات کی تکمیل کی۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا دستاویز کے سلسلے میں شیخ شہزادی ہاوس کے پاس پہنچتا ہے۔


میاں ظہوری-
 
شیخ شہزادی ہاوس- ایک کہانی۔قسط 33

لڑکا بچپن سے ایک مسجد جمعہ پڑھنے والد کے ساتھ جاتا تھا۔
وہاں ایک سفید باریش بزرگ جمعہ کی تقریر کرتے اور جمعہ پڑھاتے۔
آج سے تین دھائی قبل 80 میں وہ بزرگ ایک مطالبہ کرتے تو سب لوگ خوشی خوشی حسب توفیق ان کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتے۔
ان کا انتقال ہوا تو ایک اور عالم دین اور مفسر قرآن جمعہ اور خطاب کرنے پر مامور ہوئے۔
وہ پولیس کی ایکسئز کی نوکری سے تائب ہوئے، عالم بنے اور پھر کیا ہی عالم بنے! قرآن کی تفسیر بیان کرنے کا وہ دلکش انداز اپنایا کہ لوگ چاہتے کہ وہ چپ نہ ہوں۔
ان کی صحبت میں وقت کا پتہ نہ چلتا۔
وہ رکن صوبائی اسمبلی بھی رہے۔
اب انکا بھی انتقال ہوا۔
انکی جگہ انہی کے ایک شاگرد نے لی جو دوران تعلیم سب سے زیادہ شدت سےکتابوں اور دروس سے دلچسپی رکھتے۔
وہ ایک مفتی، علامہ اور ڈاکٹر تھے۔
نقشبندی اور مجددی سلسلے کے تھے اور جناب مسعود رحمہ اللہ مجددی کے خلفاء میں سے تھے۔
لیکن وہ بیعت نہیں کرتے تھے۔
انکا کہنا تھا کہ انکے اندر وہ جراثیم نہیں کہ لوگوں کو بیعت سے باندھیں۔ یہ بات وہ بطور مزاح کہتے۔
گیارہ بجے جب پڑھائی کا وقفہ ہوا تو وہ اپنے آفس میں آکر بیٹھے۔
وہ بطور استاد مدرسے میں پڑھاتے بھی تھے۔ منتظم بھی تھے اور خطیب و مفتی بھی۔
لڑکا انکو سلام عرض کرتا ہے تو وہ مسکرا کر ایک نشست پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔
شیخ پان نوش فرماتے تھے۔
کبھی کبھی اپنی کرسی پر ہی ایک پاوں اوپر رکھ کرگھٹنے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ لیا کرتے۔
زیادہ دیر تک کسی کی زیادہ بولنے والے کی بات سننا پڑے تو انہی ہاتھوں کے درمیان اپنی تھوری رکھ لیا کرتے۔
شیخ کے پاس لڑکے کا آنا جانا تھا سو کہتے ہیں جی فرمائیے۔
لڑکا دستاویز سے متعلق ایک تہمید باندھتا ہے کہ وہ کیوں چاہتا ہے کہ حنفی علماء ایک قائد منتخب کر لیں تاکہ امت عدالت کے لیے کھڑی ہو۔
شیخ بغور بات کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ تقسیم کیوں شروع ہوئی؟
پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہیں عبارات کی وجہ سے۔
ان کا اشارہ تقویۃ الایمان اور حفظ الایمان کی عبارتوں کی طرف تھا۔
لڑکا کہتا ہے کہ یہ تقسیم انسانوں کے لیے سخت مضر ہے کہ مسلمان اپنے اندرونی تقسیم میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں۔
جب اسی نوع کی چند ایک باتیں اور لڑکا کرتا ہے تو شیخ جلال میں آ جاتے ہیں۔
لڑکا اپنے علم کی کمی کے باعث وہ باتیں کر رہا تھا جو سخت دشوار تھیں۔
شیخ کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ لڑکے کی ہر بات سے متفق ہیں اور اب من و عن اس پر عمل کرنے کو تیار ہیں۔
لیکن ساتھ ہی لڑکے کی زمینی حقایق سے ناواقفیت پر جلال میں ہیں۔
شیخ فرماتے ہیں آپ تو بین المسالک قائد کی بات کرتے ہیں جبکہ یہاں تو اپنے ہی مسلک میں ایک قائد ڈھونڈنا دشوار ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ اسوقت سو سال بعد یہ حنفی مسالک ایک سو اسی ڈگری زاویے پر مخالف سمتوں میں دوڑے چلے جا رہے ہیں۔
لڑکا سود ی اداروں کا تذکرہ کرتا ہے تو شیخ فرماتے ہیں کہ ان کے چلانے والے مردوں نے ہر جگہ اپنے گہرے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔
لڑکا کہتا ہے کہ کیوں نہ ان اداروں میں کام کرنے والوں کو متبادل نوکری حاصل کرنے میں مدد دی جائے تاکہ یہ ادارے کمزور پڑیں اور اس میں کام کرنے والوں کے ایمان بڑھیں۔
شیخ مسکراتے ہیں کہ ایک یہ الگ مہم ہو گی۔
لڑکا ایک گہری سوچ میں غرق ہو جاتا ہے۔
ساتھ ہی مسکرا کر شیخ سے کہتا ہے کہ اگر یہ کرنے کے کام نہ ہوئے تو اس میں بھری ہوئی ہوا خود بخود ہی نکل جائے گی۔
یعنی لڑکا نرمی سے ان کاموں کو کرے گا اور درپے نہیں ہو گا۔
اگر اللہ کو منظور ہو گا تو ہو جائیں گے اور اگر اسکے برعکس اللہ کا ارادہ ہے تو لڑکے کو کوئی اصرار تو نہیں۔
شیخ کی کلاس کا وقت شروع ہونے کو تھا۔
لڑکا شیخ سے مصافحہ کرتا ہے اور اجازت لیتا ہے۔
یوں یہ نشست اختتام کو پہنچتی ہے۔

منظر تبدیل ہوتا لڑکا دستاویز کے سلسلے میں شیخ کورنگی دویم کے پاس پہنچتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
شیخ کورنگی دویم- ایک کہانی۔قسط 34


اب لڑکا دستاویز کے سلسلے میں آخری آخری ملاقاتیں کر رہا ہوتا ہے۔

ایک صبح وہ شیخ کورنگی دویم کے دفتر پہنچتا ہے۔ وہ شیخ کورنگی اول کے بڑے بھائی اور ایک بڑے مفتی تھے۔

شیخ کے پرسنل سیکریٹری انکے سفر میں ہونے کی اطلاع دیتے ہیں اور بعد میں آنے کا کہتے ہیں۔

لڑکا دستاویز چھوڑ کر بعد از سلام رخصت ہوتا ہے۔

کچھ دن بعد جب لڑکا شیخ کے دفتر فون کرتا ہے تو ان کے آفس سے اطلاع ملتی ہے کہ شیخ نے دستاویز کے سلسلے میں دارالافتاء کے سب سے بڑے شیخ سے رجوع کرنے کو کہا ہے۔

لڑکا ایک دوپہر شیخ دارالافتاء سے فون پر بات کرتا ہےاور کہتا ہے کہ شیخ کورنگی دویم نے لڑکے کو ان سے رجوع کرنے کو کہا ہے۔

شیخ دارالافتاء کے سربراہ تھے۔

لڑکا تہمید باندھتا ہے کہ وہ حنفی علماء کے قدیم علوم اور پہلی صدی ہجری کے فقہ حنفی کی طرف لوٹنے کی سعی کر رہا ہے۔

جب سبھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خوشہ چیں ہیں تو جو بھی رنجش ہے وہ انہی قدیم اور مبارک علوم کی مدد سے طے کی جا سکتی ہے۔

لڑکا جب اس سادہ ذہن سے سوال کرتا ہے تو شیخ بھی سادہ جواب دیتے ہیں کہ بہت اچھی بات ہے کہ ایسا ہو جائے۔

شیخ کا لڑکے سے تفصیلی تعارف نہ تھا سو وہ سمجھے کہ کوئی زبردست قوت والا مرد جو سیاست میں بھی زیرک ہے اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے۔

لڑکا پھر سادگی سے بااصرار کہتا ہے کہ سب کا ایک ہو جانا بہت اہم ہے۔

لڑکے نے فون پر شیخ کو یہ تاثر دیا کہ سو فیصد ایک ہی علم پر متفق ہو جائیں۔

شیخ نے سنبھلتے ہوئے کہا کہ اگر چالیس فیصد، پچاس فیصد یا ساٹھ فیصد بھی ایک ہو جائیں تب بھی عمدہ ہے۔

وہ لڑکے کے زمینی حقائق سے بے خبر ہونے پر مطلع نہ تھے۔

لڑکا ان سے وقت مانگتا ہے سو وہ ایک دن چھوڑ کر ملنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔

اب لڑکا دیے گئے وقت پر کورنگی کی کھلی کھلی شاہراوں پر سفر کر رہا تھا۔

استقبالیے پر لڑکا بتاتا ہے کہ شیخ نے اسکو طلب کیا تھا۔

دارالافتاء کسی بینک کی برانچ سے کم معلوم نہ ہوتا تھا۔

زمینی نشستوں کے بجائے سب اپنے اپنے کیوبیکلز میں بیٹھے لوگوں کے مسئلے سلجھا رہے تھے۔

وہ صاحب لڑکے کو ایک آفس میں جانے کا اشارہ کرتے ہیں۔

لڑکا اندر جانے کی کوشش کرتا ہے تو باہر ایک صاحب رکنے کا اشارہ کرتے ہیں اور کام کی نوعیت دریافت کرتے ہیں۔

شیخ ایک ششے سے علحیدہ کیے گئے آفس میں تشریف فرما تھے اور کئی لوگ پہلے ہی اندر موجود تھے۔

جب ایک صاحب باہر تشریف لاتے ہیں تو لڑکے کو اندر جانے کا اشارہ ملتا ہے۔

لڑکا پہلے تو آفس میں کھڑا رہتا ہے لیکن ایک نشست جو شیخ کے سامنے تھی بیٹھتا ہے۔

جونہی لڑکا یہ کرتا ہے شیخ لڑکے پر تنبیہ نظر ڈالتے ہیں۔

شیخ کو لڑکے کی یہ بات ادب سے فروتر لگی کہ انکے کہے بغیر یا ان سے اجازت لیے بغیر انکے آفس میں نہ صرف حرکت کی گئی بلکہ اپنی من پسند نشست پر لڑکا بیٹھ گیا۔

شیخ نے ترتیب کو توڑا اور لڑکے کو اپنے برابر میں رکھی نشست پر بلایا۔

یہ نشست ایسی ہی تھی جیسی کہ ڈاکٹر کے ہاں اپنے مریضوں کو دیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔

لڑکا قدرے تیزی سے اپنی نشست سے اٹھتا ہے۔

یہ گویا سونے پر سہاگا ہو جاتا ہے کہ یہ جلد بازی شیخ کو ایک آنکھ نہ بھائی۔

جونہی لڑکا شیخ کے برابر کی نشست پر بیٹھتا ہے شیخ لڑکے پر عتاب فرماتے ہوئےکہتے ہیں کہ جی آپ کس لیے آئیں ہیں؟

لڑکا کہتا ہے کہ آپ سے فون پر بات ہوئی تھی پرسوں۔

شیخ مذید عتاب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ کام دکھائیں کام۔ کیا کام کیا ہے۔

لڑکا دستاویز نکال کر شیخ کی طرف بڑھاتا ہے۔

شیخ کے آفس میں کام اس فقہی تحقیق کو کہتے ہیں جو ریفرنس کے ساتھ کاغذپر منتقل ہو گئی ہو۔

شیخ فون کی گفتگو اور آج کی نشست و برخواست سے اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ یہ لڑکا ناواقف محض ہے ۔

وہ مذید جلدی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ یہ دستاویز دے جائیں اور فون کر کے پتہ کر لیجیے گا۔

شیخ مذید گفتگو نہیں کرنا چاہتے تھے۔

ان کے آفس کے باہر ملاقات کے امیدواروں کا جتھا بڑھتا جا رہا تھا۔

لڑکا رخصت کا سلام کرتا ہے اور گھر واپس آ جاتا ہے۔

چند ہفتوں بعد جب لڑکا دوبارہ فون کر کے شیخ سے بات کرنے کی التجا کرتاہے تو دوسری جانب سے کچھ انتظار کے بعد کہا جاتا ہے کہ آپ آجائیں اور اپنی دستاویز پر جواب لے جائیں۔

شیخ فی الحال آپ سے بات نہیں کر سکتے۔

لڑکا بے تابی سے شیخ کے آفس کے استقبالیےپر پہنچتا ہے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کرتا ہے۔

استقبالیےپر موجود صاحب ایک جوابی لفافہ نکال کر لڑکے کو تھما دیتے ہیں۔

یہ وہی لفافہ تھا جو لڑکے نے جمع کرایا تھا۔

اندر سے ایک اور لفافہ نکلتا ہے اور اس میں کچھ لکھا تھا کہ آپ کی تحریر پڑھ لی گئی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کو اسکا اجر دے۔ والسلام۔

لڑکا وہیں استقبالیےپر یہ جواب پڑھ لیتا ہے لیکن اسکی کچھ تسلی نہیں ہوتی سو وہ ان صاحب سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ شیخ سے مل سکتا ہے؟

وہ صاحب کہتے ہیں کہ شیخ سے تو نہیں البتہ شیخ کے نائب سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ وہ بعد از نماز ظہر جب دوبارہ دفتر کھلے گا تو آئیں گے۔

لڑکا ظہر وہیں احاطے میں بنی ایک وسیع مسجد میں پڑھتا ہے۔ سنا ہے اسکی لاگت 16 کروڑروپے ہے۔

اسکے بعد وہیں احاطے میں بنی مختلف تخصص فی الافتاء اور حدیث کی جدید اور خوبصورت عمارات کا جائزہ لیتا ہے۔

اب لڑکا ایک وسیع لائبریری میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسقدر کتب ہوتی ہیں کہ لڑکے نے اس سے زیادہ دینی کتب ایک ساتھ پہلے نہ دیکھی تھیں۔

اب چار بج چکے تھے۔ لڑکا دوبارہ استقبالیےپر پہنچتا ہے جہاں اسکو ایک طرف انتظار کا کہا جاتا ہے۔

عصر سے دس منٹ قبل لڑکے کی باری آتی ہے۔

لڑکا شیخ کے نائب کے کیوبیکل میں داخل ہوتا ہے اور مصافحے کے بعد ایک نشست پر بیٹھتا ہے۔

نائب شیخ سے لڑکا عرض کرتا ہے کہ لڑکا شیخ سے ملنا چاہتا ہے۔

نائب شیخ کہتے ہیں کہ جو جواب آپ کو اس پر لکھ کر دیا گیا ہے وہ کافی ہے اس میں مذید ملاقات کی کوئی ضرورت نہیں۔

اب لڑکا اصرار کرتا ہے کہ یہ تقسیم مسلمانوں کے لیے سخت ضرر رساں ہے۔

اسی اثناء میں عصر کی اذان شروع ہو جاتی ہے۔

نائب شیخ فرماتے ہیں کہ یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں۔ دونوں طرف شدت پسند موجود ہیں جو یہ نہ ہونے دیں گے۔

جوں جوں اذان ختم ہونے کے قریب آتی جاتی لڑکے کا اصرار بڑھتا جاتا اور شیخ کا اضطراب بھی بڑھتا جاتا۔

عصر دارالافتاء کے اوقات کار کے ختم ہونے کا وقت تھا۔

لڑکا چند مذید باتیں کہتا ہے تو شیخ ایک قطعی انداز میں کہتے ہیں کہ لوگ ہتھیار بند ہو کر آئیں گے اور پھر جو ہو گا سو ہو گا۔

اب لڑکا چپ ہو جاتا ہے۔

شیخ عصر کی جماعت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو لڑکا بھی کھڑا ہو جاتا ہے۔

رخصت کا سلام کر کے لڑکا بعد از عصر گھر لوٹ آتا ہے۔

چند ماہ بعد لڑکا مغرب سے قبل کورنگی کی احاطے میں بنی مسجد پہنچتا ہے۔ لڑکے کو معلوم تھا کہ شیخ مغرب کے بعد غیر رسمی ملاقات کر لیتے ہیں۔

لڑکا مغرب کی جماعت سے فارغ ہو کر ایک گارڈ سے شیخ کی بابت دریافت کرتا ہے تو وہ ایک مخصوص ستون کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

وہاں معلوم کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ شیخ اوابین کے نوافل ادا کر رہے ہیں۔

لڑکا وہیں ایک کونے میں ستون سے کمر ٹکا کر شیخ کے نوافل ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

شیخ کے محبین لڑکے کی گفتگو کے انداز سے جان گئے کہ یہ سوال جواب کرے گا اور یوں شیخ کو ہلکان کرے گا۔

سو شیخ کے احباب میں سے ایک شیخ کی محبت میں آگے آئے اور لڑکے کو سلام کیا۔

لڑکے نے جواب دیا تو ان صاحب نے انتہائی ملائمت سے لڑکے کی اس وقت ملاقات کا سبب دریافت کیا۔

لڑکے نے وجہ بتائی تو انہوں نے کہا کہ آپ صبح کے وقت میں آئیں کہ یہ وقت اس نوع کی باتوں کے لیے مناسب نہیں۔

صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ شیخ کو لڑکے کی ملاقات کی مشقت سے بچانا چاہتے تھے۔

ان صاحب کا اصرار بڑھتا ہے تو لڑکا گھر کی راہ لیتا ہے۔

اب چند ہفتوں بعد لڑکا ایک خط شیخ کو لکھتا ہے جس میں وہ انہیں لکھتا ہے کہ علماء تو باپ کی طرح ہوتے ہیں، کیا آپ مجھ پر ان تمام باتوں کی وضاحت نہیں فرمائیں گے۔

یہ خط لڑکا اگلی صبح شیخ کے پرسنل سیکریٹری کے سپرد کر آتا ہے۔

چند ہفتوں بعد شیخ کے دفتر سے لڑکے کو فون آتا ہے۔

انکے پرسنل سیکریٹری ایک خوشخبری کے انداز میں لڑکے سے مخاطب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیخ نے آپ کو ایک خط لکھا ہے اور کچھ کتابیں دیں ہیں وصول کر لیں۔

لڑکا فورا شیخ کے دوفتر پہنچتا ہے تو سیکریٹری خوش آمدید کہتے ہیں اور مسکراتے ہوئے شیخ کا خط اور چار کتابیں لڑکے کے سپرد کرتے ہیں۔

لڑکا سیکریٹری سے مصافحہ کر کے رخصت ہوتا ہے اور وہیں باہر برآمدے میں خط کر پڑھتا ہے۔

شیخ نےلکھا تھا کہ آپ نے کتاب المھند علی المفند کے بارے میں لکھا ہے۔ ہم اس کتا ب کے تمام عقائد سے پوری طرح متفق ہیں۔مسئلہ تکفیر سے متعلق بھی آپ کو کچھ کتابیں بھیج رہا ہوں۔ 1۔ ایمان اور کفر قرآن کی روشنی میں۔ 2۔ اختلاف رحمت ہے فرقہ بندی حرام۔ 3۔ مضمون برائے مجلہ المصطفی بہاولپور۔ 4۔درس مسلم جلد اول صفحہ 207 سے 218۔ اللہ تعالی نے نیک جذبہ آپکے دل میں ڈالا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ہر قدم پر رہنمائی دستگیری اور کامیابی عطا فرمائے۔ آپ ہی کا ایک اور خط دستاویز ملی ہے جس میں بعض تجاویز تحریر فرمائی ہیں۔ چونکہ حال ہی میں طویل غیر ملکی سفر سے واپسی ہوئی ہے اور صحت بھی پوری طرح بحال نہیں ہے۔ جب فرصت ہو گی تو انشا اللہ اسکا مطالعہ کرونگا، پھر ہی اسکا کوئی جواب دے سکوں گا۔

مضمون برائے مجلہ المصطفی بہاولپور لڑکے کے لیے ایک کنجی ثابت ہوا۔

اس میں وضاحت کے ساتھ تمام مسالک کے حنفی علماء کو ایک کرنے کی کاوشوں کا تذکرہ تھا جو شیخ نے ازخود کیں تھی۔

یہ سب کوششیں اسی کی دھائی میں کی گئیں اور ایک طریقہ کار کے مطابق سب سے پہلے چند علماء کو ایک ہونا تھا ، پھر دونوں طرف کے علماء نسبتا بڑے اجلاسوں کے ذریعے ایک ہوں گے اور بالآخر ایک ملک گیر کنویشن کے ذریعے تمام حنفی علماء ایک عقیدے پر جمع ہو جائیں گے۔ یہ مضمون شخ نے خود تحریر فرمایا تھا اور لکھا تھا کہ امت میں یہ جو پھوٹ پڑی ہے بروز قیامت ہم علماء سے یہ سوال ہو گا۔ شیخ نے لکھا تھا کہ شیخ گارڈن کے والد گرامی کئی بار ان کے پاس تشریف لائے لیکن مسلمانوں کی سادہ لوحی اور دشمنان اسلام کی سازشوں کے باعث یہ کام نہ ہو پایا۔ یہاں تک کہ شیخ گارڈن کے والد محترم انتقال فرما گئے۔ ان للہ وان الیہ راجعون

لڑکے کو سمجھ آ گیا تھا کہ اگر مسلمان اپنی امنگوں کا اظہار علماء سے پورے اخلاص سے کرتے رہیں تو وہ دن دور نہیں کہ جب سب حنفی علماء اور سب مسلمان ایک عقیدے پر جمع ہو جائیں گے۔

یوں مسلمان اپنی اولین ذمہ داری یعنی انصاف کے لیے کھڑے ہونے کے قابل ہوں گے۔

سود سے نجات حلال کمائی کی برق مسلمانوںکی رگوں میں دوڑا دے گی اور ہر طرف خیر خواہی کا دور دورہ ہو گا۔

کسی چیز کی قلت نہ ہوگی۔ محبت، خیر خواہی اور سچ عام ہو جائے گا۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا اب شیطان سے بچنے اور صحبت کی تلاش میں شیخ دستگیر 15 کے پاس پہنچتا ہے۔


میاں ظہوری-
 
تلاش صحبت شیخ دستگیر 15- ایک کہانی۔قسط 35



یہ بات حرف با حرف صحیح ہے کہ خالی ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔

لڑکا چاہتا تھا کہ کسی ایسے نیک مرد کی مسلسل صحبت اسکو میسر آجائے کہ شیطان سے اسکا پیچھا چھٹے۔

علماء ہزار ہا ایسی چیزیں تجویز کر رہے تھے جو موجودہ دور میں شیطان کا ساتھی بننے کے زمرے میں آتیں۔

لڑکا سخت دباو میں تھا کہ ان سے کیسے نمٹے کہ ایک طرف تو علماء اس دور کو پر فتن کہتے تو دوسری طرف انہی لوگوں میں واپس جانے کو کہتے جہاں فتنہ ہے۔

ان سب کے مقابلے کے لیے انتہائی روشن دماغ اور بے انتہا متوکل قلب کی ضرورت تھی۔

اور یہ دونوں ہی جنس نایاب تھیں۔

ایک صبح لڑکا شیخ دستگیر 15 کے دفتر میں داخل ہوتا ہے۔

شیخ موجود نہیں تھے لیکن انکے نائب مفتی وہاں تشریف فرما تھے۔

لڑکا ان سے عرض کرتا ہے کہ وہ کسی ایسے بزرگ کا پتہ بتائیں کہ جن کی صحبت میں وہ اطمینان سے بیٹھا رہے۔

انہوں نے کہا ایسا تو کوئی اس دور میں نہیں۔

لڑکا اصرار کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا کوئی ہوتا تو وہ لڑکے پر سبقت کر جاتے۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا اب شیطان سے بچنے کے لیے شیخ رب میڈیکل دویم کے پاس پہنچتاہے۔


میاں ظہوری-
 
تلاش صحبت شیخ رب میڈیکل دویم- ایک کہانی۔قسط 36



لڑکا پانچ سال قبل شیخ رب میڈیکل دویم سے کچھ بار ہی ملا تھا لیکن اب کےمذید تفصیل سے کئی مہینے ان کے پاس آنا جانا رہا۔

پھر نعرہ مستانہ پھر اے دل دیوانہ۔ شیخ دویم مجذوب تھے اور یہ نظم مترنم اپنے شیخ کبیر کے سامنے پڑھتے تھے۔

شیخ کبیر فالج کے عارضے کے باعث سہارا لے کر چلتے اور مجلس میں اسلام و علیکم صرف ایک دفعہ آغاز میں اور ایک دفعہ اختتام پر کہتے۔

آج شیخ مجذوب شاید اپنا پاندان سمیٹنے میں مصروف تھے کہ شیخ کبیر مجلس میں نشست فرما چکے تھے اور اسلام و علیکم کی صدا بھی بلند ہو چکی تھی۔

شیخ کبیر نے مجلس کا ایک طائرانہ جائزہ لیا تو کہیں شیخ مجذوب دکھائی نہ دیے۔

مجلس شروع ہوئی اور ایک نعت خواں نے شیخ کبیر کا کلام مترنم پڑھنا شروع کیا۔

ابھی نعت خواں کتاب سے کلام منتخب ہی کر رہا تھا کہ شیخ مجذوب مجلس کے کناروں سے حرکت کرتے کرتے شیخ کبیر کے قریب اپنی مخصوص نشست کے پاس پہنچنے ہی کو تھے۔

کہ ایک ڈانٹ صدا بلند ہوئی کہ اب آ رہے ہیں آپ کہ جب مجلس شروع ہو چکی ہے۔

شیخ کبیر نے شیخ مجذوب کو ایک ڈانٹ پلائی تھی جس میں بدرانہ شفقت تھی۔

شیخ مجذوب شیخ کبیر کے ساتھ پچھلے 35 برسوں سے مقیم تھے۔

انہوں نے بوجہ شادی بھی نہ کی تھی۔

وہ اپنی نجی محفل میں کہتے کہ شیخ کبیر کے ساتھ ابتداء میں گزارے ہوئے وہ بیس دن انکو آج بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں۔

شیخ کبیر اپنے شیخ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے کہ ان کے پاس گھر نہ تھا سو ایک گڑھا زمین میں کھودااور وہیں چٹائی اوپر ڈال کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ بسے۔

بارش ہوئی تو وہ بھی بھر گیا۔

شیخ کبیر اپنے شیخ کا تذکرہ کرتے تو آبدیدہ ہو جاتے۔

وہ اور انکے شیخ ایک دن معارف مثنوی فجر سے لے کر ایک طویل وقت تک پڑھنا اور روتے رہے۔

شیخ مجذوب کہتے کہ سارے مجاہدے شیخ کبیر نے کیے اور ہم انہی کا کھا رہے ہیں۔

مجلس میں شیخ کبیر کا لکھا ہوا کلام پڑھا جاتا۔ اب جو جس کلام کو جتنا دل سے پڑھتا شیخ کبیر اسکو نوٹ فرما لیتے۔

اگر اسکی کلام پڑھنے پر یہ کیفیت برقرار رہتی تو گویا یہ کلام اسکا وظیفہ بن جاتا اور وہ اس کو سوز و گداز کے ساتھ مجلس میں سنتا۔

پھر نعرہ مستانہ پھر اے دل دیوانہ۔یہ کلام شیخ کبیر نے شیخ مجذوب کے لیے مخصوص کر دیا تھا اور واقعی وہ ایک عجیب کیفیت میں یہ کلام پڑھتے کہ مجلس پر اسکا اثر ہوتا اور حاضرین اللہ یا آہ اللہ کی صدائیں بلند کرنے لگتے۔

شیخ کبیر فالج میں انتقال فرما گئے اور چند سالوں بعد شیخ مجذوب بھی ڈائیا لسس ہوتے ہوتے گردے کے مرض میں چل بسے۔

وہ دونوں تہہ بند میں رہتے اور اکثر سر گنجا ہوتا۔ ان کے مریدین بھی سر منڈا کر رہتے اور خانقائی ٹوپی لگاتے اور سفید لباس زیب تن کرتے۔

لڑکا صبح گیارہ بجے، بعد از عصر اور بعد عشاء کی مجلسوں میں پابندی سے حاضر رہنے لگا۔

شیخ کبیر کے ایک مرید تعویذ دینے پر معمور تھے اور لڑکے کو کافی وقت دیتے اور اپنے شیخ کی باتوں کو دھراتے۔

شیخ کبیرکے یہاں میعار مرید یہ تھا کہ ایک مشت داڑھی ہو، پائنچہ ٹخنوں سے اوپر ہو ، سفید لباس ہو، خانقائی ٹوپی ہو، کتابیں صرف شیخ کی پڑھیں اور سر منڈا ہو۔

لڑکا جوں جوں اس میعار کے نزدیک ہوا شیخ مجذوب کے یہاں بھی اس کی منزلت بڑھنے لگی۔

ابتدائی دنوں میں لڑکا خط لکھتا اور شیخ کچھ ہفتوں میں اسکا جواب دے دیتے۔ یوں وقت گزر رہا تھا۔

اب ایک دن جب لڑکا سر منڈاکران تعویذ والے حضرت کے پاس پہنچا تو انہوں نے سینے سے لگا لیا۔

لڑکا بالکل خانقائی لباس میں تھا اور صد فی صد اس میعار کو پہنچ چکا تھا سو ان صاحب نے فرمایا کہ اب آپ ایک آدھ رات شیخ کی صحبت میں گزار لیں۔

لڑکے نے ایک دن دستاویز شیخ کو خط میں دی۔

انہوں نے جوابا لکھا کہ انہوں نے حروفا حروفا اس دستاویز کو پڑھا۔

لیکن آپ ایک طرف ہو جائیں۔ یعنی اس کام کے درپے نہ ہوں ورنہ گمراہ ہوں گے۔

ساتھ ہی المہند المفند کی ایک جیبی کتاب بھی دی جوعقائد سے متعلق قریبا انیسویں صدی کے اوائل میں لکھی گئی تھی۔

لڑکا شیخ کی خدمت میں دن رات حاضر رہتا اور انکی پر لطف صحبت کا مزہ اٹھاتا۔

دوپہر کے کھانے پر پہلے دن لڑکا مارے شرم کے ان کے کمرے سے باہر نکل گیا اور کتابوں کی دکان میں کتابیں دیکھنے لگا۔

آدھے گھنٹے بعد جب کھانا ہو چکا تو لڑکا دوبارہ ان کے کمرے پہنچا تو وہاں سب ہی لوگ پوچھنے لگے کہ آپ کہاں چلے گئے تھے۔

شیخ مجذوب نے بھی کہا آپ نے کھانا کھا لیا جس کا جواب لڑکے نے اثبات میں دیا۔

شیخ نے مذید کہا کہ آپ نے ہمارے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھایا تو لڑکے نے کہا کہ باہر کھا لیا۔

لڑکے کے ذہن میں تھا کہ وہ شیخ کے پاس اپنی اصلاح کے لیے آ رہا کھانا کھانے تو نہیں۔ لیکن جلد ہی لڑکے کو پتہ چل گیا کہ نہ صرف دن و رات کا کھانا کھائے بغیر چارہ نہیں بلکہ شام کی چائے اور سموسے بھی شیخ بااصرار کھلاتے۔

شیخ کے مریدین اکثر کھانا لے آتے، ساتھ ہی مطبخ کا بھی انتظام تھا جہاں شیخ سے پوچھ کر کچھ بھی بنا لیا جاتا۔

شیخ کو کچھ مریدین بند لفافہ بھی دے کر چلے جاتے جس میں کچھ رقم ہوتی اور اس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتے۔

ان کے بعض مرید ان کے کپڑے دھلوا کر لے آتے اور کچھ ان کی داڑھی اور بال تراش دیتے۔

ایک دفعہ ایک شخص انکے پاس آیا جس کی مونچھ اسکے ہونٹوں پر آ رہی تھی۔ شیخ نے اپنے ایک مرید سے کہا ذرا پہلے ان سے کہیں کہ اپنی مونچھیں تراشیں اور پھر ان کے پاس آئیں۔

کچھ ہی دیر بعد وہ صاحب تراشی ہوئی مونچھوں کے ساتھ حاضر ہوئے۔

شیخ بلا کم و کاست جو شریعت سے غیر متعلق ہوتا بیان فرما دیتے۔

ایک صاحب انگھوٹھی پہن کر حاضر ہوئے تو انکو بھی کہا کہ آپ یہ اتار دیں ۔ وہ شیخ سے کسی کے لیے دعا کرانے کے لیے آئے تھے سو جلدی میں یہ تو نہ کیا۔ شیخ نے بھی جلدی سے دعا کی اور وہ رخصت ہوئے۔

شیخ کبیر کی مجلس میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنے کا توڑ کیا جاتا اور اپنے آپ کو مٹانے کا درس دیا جاتا۔

مثلا اسکے لیے ایک صاحب بہت پستہ قد اور منہنی سے تھے سو دو افراد انکے بغل میں ہاتھ ڈال کر انکو ہوا میں جھلا دیتے۔ سب محذوز ہوتے اور انکی "میں" نکل جاتی۔

ایک شاعر انڈیا سے حاضر ہوئے۔ ظہر کا وقت قریب تھا تو شیخ کبیر نے کہا کہ آپ نے طویل وقت کلام پڑھا۔ اس پر وہ صاحب زور میں آ گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے تو ساری رات انڈیا کی درسگا ہ میں کلام پڑھا۔ شیخ کبیر کے چہرے پر مسکراہٹ اور ایک معمولی سی ناگواری ظاہر ہوئی اور فرمایا کہ اور پڑھیں۔ وہ مہمان کی سبکی نہیں چاہتے تھے۔ پھر وہ ظہر کی اذان تک اپنا پسندیدہ کلام سناتے رہے۔

لڑکا شیخ مجذوب جو جو کہتے جاتے کرتا جاتا۔ ایک دن کہنے لگے کہ آپ ہماری کتب کے علاوہ کوئی اور کتاب نہ پڑھیں۔

لڑکے نے اپنی لائبریری کی تمام کتب جن کی مالیت قریبا 70 ہزار روپے تھی شیخ کے مدرسے میں جمع کرا دیں۔

اب لڑکے کے پاس چند کتابچے رہ گئے تھے جو موقع بہ موقع شیخ نے لڑکے کو دیے تھے۔

شیخ نے فرمایا کہ وہ دن گئے کہ جب لوگ بارہ بارہ تسبیح روز پڑھتے۔ وہ مخصوص اوراد تھے جو ارادت مندوں کو بتاتے۔

انکے ایک مرید نے کہیں جانے کا تذکرہ کیا تو کہنے لگے کہ کیا گھر سے نکلنے کی دعا پڑھی تھی۔

شیخ کے بعض مریدین بہت فحش گو تھے۔ بعد از عشاء وہ جمع ہوتے اور بے سروپا کلام کرتے۔ یہ مجلس گویا ہنسے ہنسانے کی مجلس ہوتی۔ لیکن لڑکے کو یہ گراں گزرتی۔ ایک مرتبہ لڑکے نے اس مجلس پر توجہ کی تو شیخ نے ایک عجیب توجہ کی کہ لڑکے نے گردن گھما کر جو شیخ کو دیکھا تووہ تنبیہ کی نظروں سے لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔گویا وہ کہہ رہے تھے کہ انکو ٹھٹھا لگانے دو لیکن اس پر زائد توجہ نہ دو۔

دستر خوان پر بعض حضرات خوب کھاتے تو ایک دفعہ لوگوں کو متوجہ کر کے کہا کہ ایسے کھاو کہ جیسے لڑکا کھا رہا ہے کہ یہ سنت ہے۔ لڑکا اسوقت تین انگلیوں سے چا ول کھا رہا تھا۔

لڑکا شیخ کا عکس بنتا جا رہا تھا یہاں تک کہ ایک دفعہ اس کے حلق سے آواز بھی شیخ جیسی ہی نکلی تو شیخ چونکے۔

شیخ کے ایک قدیم دوست آئے ہوئے تھے۔ ان کے بیٹے سپر ہائی وے پر زخمی ہوئے تو وہ ضرور ت سے زائد پریشان نہ ہوئے بلکہ کہا کہ جو اولاد دین پر ہو وہی فائدہ مند ہے۔

شیخ کے پاس طرح طرح کے لوگ آتے۔ ایک دفعہ چند طالب علم محض ایک ایک کتاب حاصل کرنے آئے۔

کھانے سے قبل پوچھا جاتا کہ کس کے گھر سے آیا ہے تاکہ اطمینان ہو کہ کوئی انجان کھانے کی چیز تو دسترخوان پر نہیں جو ضرر رساں ہو۔

شیخ مجذوب تھے ایک دفعہ بغیر چپلوں کے ہی ایک دوست کو رخصت کرتے کرتے مسجد سے باہر انکی گاڑی تک چلے گئے۔

لڑکے کو شیخ کی محافل میں لفظ پاخانہ کا استعمال اچھا نہیں لگتا تھا۔ یہ ہر اس جگہ بولا جاتا جہاں کسی گناہ سے کراہیت دلانی مقصود ہو۔

اسی طرح شیخ کی مسجد میں کوئی پھول گملا نہ تھا۔ وضو خانے میں عین نل کے اوپر وضو کی دعائیں لگی تھیں جن پر پانی کی چھیٹں پڑتیں۔ اسی طرف سفید کپڑے کی صفیں ہوتیں جو اکثر میلی رہتیں۔ یہ تمام چیزیں لڑکے کو ناگوار گزرتیں۔ پھر وہاں کی سیاست بھی عجیب تھی۔ بمشکل ہی کسی پر اعتماد کیا جاتا۔

لڑکے نے بارہا چاہا کہ اسکو کوئی ذمہ داری مل جائے تاکہ اسکو بھی دین کی کچھ خدمت کا کچھ موقع میسر آئے لیکن یہ وقت کبھی نہ آیا ۔

شیخ کبیر کی طبعیت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی۔

لڑکے نے شیخ مجذوب کو ایک دستی خط دیا۔ شیخ نے پہلے تو اس خط کو ایک طرف رکھ دیا لیکن کیونکہ خط کا عنوان تھا کہ شیخ کبیر کی صحت سے متعلق چند مشورے۔

شیخ نے خط اٹھایا اور کھولا پھر کہا کہ آپ ہماری اصلاح کرنے آئے ہیں یا اپنی اصلاح کے لیے۔

لڑکے نے اس خط میں مختلف بیماریوں کے ذکر کے بعد مسنون دعا نہ پڑھنے کو شیخ کی بیماری کی وجہ بتایا تھا۔ ساتھ ہی اس نے لکھا تھا کہ مسجد کی دیوار پر اسے پاخانے کے چھیٹےدکھائی دیتے ہیں اور صفیں سفید کے بجائے عنابی رنگ کی ہوں تو گندگی جلد نہیں ہوں گی۔ اور اگر کچھ گملے رکھ دیے جائیں تو وہ اللہ کی حمد بھی کریں گے اور مسجد کا ماحول بھی خوشگوار ہو گا جس کا اثر شیخ کی طبعیت پر پڑے گا۔

شیخ کہنے لگے کہ یہاں بڑے بڑے بزرگ آئے لیکن کسی نے یہ نہیں کہا۔

شیخ خط کو ایک طرف رکھتے ہیں اور لڑکا مسجد سے باہر کی راہ لیتا ہے۔



یوں چند مہینوں کی صحبت بالآخر اختتام پزیر ہوئی۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا اب تلاش صحبت کے لیے شیخ ماڈل ٹاون کے پاس پہنچتاہے۔


میاں ظہوری-
 
تلاش صحبت شیخ ماڈل ٹاون- ایک کہانی۔قسط 37



لڑکا ایک صبح شیخ دستگیر 15 کے پاس پہنچتا ہے اور اتفاق سے وہ اپنے دفتر میں موجود بھی ہوتے ہیں۔

انکی موجودگی کا اندازہ گیٹ پر موجود پولیس اور اندر کھڑی پولیس موبائل سے ہو ہی جاتا تھا۔

لڑکا بعد از سلام شیخ کے دائیں جانب نشست لیتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ حضور آپ کسی ایسے بزرگ کا پتہ بتائیں کہ جن کی صحبت میں بیٹھا رہوں۔

شیخ لڑکے کو کئی سالوں پہلے کی ملاقات کے باوجود پہچان گئے تھے سو بغیر کسی مذید سوال کے کہا کہ آپ یہ فون نمبر نوٹ کریں۔یہ ایک شیخ کا فون نمبر ہے جو کہ ماڈل ٹاون میں مقیم ہیں۔ آپ ان سے ملیں۔

لڑکا کہتا ہے کہ کوئی ایسے شیخ قریب کے علاقے میں نہیں۔وہ عرض کرتے ہیں کہ میں آپ سے ان سے ملنے کا کہہ رہا ہوں سو آپ ان سے ہی ملیں۔

لڑکا پین اور کاغذ ہمراہ نہ ہونے پر شیخ سے معذرت کا اظہار کرتا ہے تو شیخ باوجود اپنی مصروفیت کے اپنے ہاتھوں سے ہی شیخ ماڈل ٹاون کا نمبر لکھ دیتے ہیں۔

لڑکا رخصت کا سلام کرتا ہے اور اپنی راہ لیتا ہے۔

لڑکا فون کرتا ہے اور ان کے ایک مصاحب سے شیخ ماڈل ٹاون کے گھر کا پتہ سمجھ لیتا ہے۔

اگلی صبح لڑکا کراچی ائیرپورٹ سے ہوتے ہوئے ماڈل کالونی کے اس حصے میں پہنچتا ہے جہاں شیخ کا گھر تھا۔

گلی کے لوگ بلکہ چند گلیوں کے دور کے لوگ بھی پیر صاحب کے گھر کو پہچانتے تھے۔ کچھ کچی پکی گلیوں سے ہوتے ہوئے بالآخر لڑکا شیخ کے گھر پہنچتا ہے۔

گھر کے دروازے کے اوپر وسط میں ایک تعویذ لٹک رہا ہوتا ہے۔ لڑکا بیل بجاتا ہے تو ایک کم عمر لڑکا دروازہ کھولتا ہے۔

لڑکا شیخ سے ملاقات کا کہتا ہے تو لڑکا جوابا کہتا ہے کہ کل آئیں اب وقت ختم ہو گیا ہے۔

لڑکا کہتا ہے کہ آپ شیخ سے پوچھ لیں کہ وہ بہت دور سے آیا ہے۔ لڑکا اندر جاتا ہے اور واپس آ کر کہتا ہے کہ آپ اندر آ جائیں۔

شیخ اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں تشریف فرما تھے اور ایک خاتون اور ایک حضرت ان کے سامنے نشست کیے ہوئے تھے۔وہ انکی اس دن کی آخری ملاقات تھے۔

شیخ نے ٹوپی اتار کر ایک جانب رکھی ہوئی تھی اور انکے دائیں ہاتھ پر انکا بریف کیس تھا جس میں انکے وظائف اور تعویذ رکھے تھے۔

شیخ عمر دار تھے اور عبادت کی رونق ان کے چہرے پر عیاں تھی۔ انکی کھال لٹک چکی تھی اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ مسکرا مسکرا کر بول رہے تھے اور آنے والے خاتون اور حضرت کے رنج اور ناامیدی کو اپنے پر امید جوابات سے رفع کر رہے تھے۔ وہ جتنی غم کی بات کرتے شیخ اتنا ہی زیادہ مسکراتے بلکہ ہنستے اور ان پر ایک سوال داغ دیتے جو انکی ناامیدی کو امید سے بدل دیتا۔ بالآخر شیخ سے وہ تعویذ و وظائف لے کر رخصت ہوئے۔

شیخ لڑکے کی طرف توجہ کرتے ہیں تو لڑکا انکو سلام کہتا ہے۔ شیخ جواب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کچھ لیٹ ہوگئے ہیں۔ لڑکا راستے کے نیا ہونے کا عذر ظاہر کرتا ہے تو شیخ مسکرا کر خوش دلی سے اسے قبول کر لیتے ہیں۔

لڑکا کہتا ہے کہ وہ شیخ دستگیر 15 کے پاس گیا تھا اور ان سے کسی بزرگ کی صحبت کی درخواست کی تو انہوں نے آپ کی طرف بھیجا۔

شیخ زور سے مسکراتے ہیں اور شیخ دستگیر 15 کے اخلاص اور محبت پر مبنی چند کلمات کہتے ہیں۔

شیخ کہتے ہیں کہ وہ بھی اپنے شیخ کی صحبت میں بیٹھے رہے اور کچھ سالوں میں ان پر انکا رنگ چڑھ گیا۔

لڑکا شیخ سے اپنی سابقہ ملاقاتوں کاحال بیان کرنا شروع کرتا ہے اور چند ہی منٹ میں سب کہہ ڈالتا ہے۔

شیخ کی توجہ گہری سے گہری ہوتی جا رہی تھی۔ جب لڑکا کلام ختم کرتا ہے تو شیخ اپنی سانس لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے تو ہمیں ارفع کر دیا اے بزرگ۔

شیخ کی گود میں انکا پوتا آ بیٹھا تھا وہ اس کے ذریعے اپنے بیٹے کو بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ اپنے احوال ان کو بھی سنائیں۔

لڑکا دوبارہ سناتا ہے۔

شیخ کہتے ہیں ابھی کچھ ہی دن قبل ایک جنازے میں وہ گئے تھے اور انکی توجہ کرنے سے اس قبر میں کشادگی ہوئی تھی۔ وہ اپنے ایک مرید کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جو انکو رقم بیرون ملک سے بھیجتا ہے لیکن اس بار کچھ دیر ہو گئی تھی۔

شیخ لڑکے کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ آپ اب جائیں اور اگلی بار اسی صورت میں آئیے گا کہ اس نشست سے سو فیصد مطمئن ہوں۔

شیخ وزن دار تھے اور اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھے زمین پر نشست کیے ہوئے تھے۔

لڑکا رخصت کا سلام کرتا ہے اور گھر واپس آ جاتا ہے۔

شیخ کی صد فیصد اطمینان کی سخت شرط نے لڑکے کو مضطرب کردیا تھا کیونکہ ٹانگ پر ٹانگ رکھنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تھی۔

لڑکا ایک صبح شیخ دستگیر 15 کے پاس پہنچتا تا کہ اس سلسلے میں ان سے مشورہ کرے۔

شیخ دستگیر کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور ضرور جائیں اور ان سے یہ بات بیان کریں۔

لڑکا شیخ ماڈل ٹاون کے پاس دوبارہ بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔

شیخ ایک عورت کو مسکرا کر سمجھا رہے ہوتے ہیں۔ اس کا خاوند اسقدر غریب ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماں کے ہاں کئی برس سے مقیم تھی۔

جب شیخ اس عورت سے فارغ ہوتے ہیں تو لڑکے سے کہتے ہیں آئیے اے بزرگ۔

لڑکا شیخ کو سلام کرتا ہے۔ وہ جواب کے ساتھ ہی وہی صد فی صد اطمینان کا سوال رکھ دیتے ہیں۔

قبل اسکے کہ لڑکا کچھ جواب دیتا وہ لڑکے کے چہرے کے تاثرات اور جواب کی سستی سے پہچان جاتے ہیں کہ لڑکا مطمئن نہیں۔

شیخ دوسری طرف بیٹھے لوگوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

جب کافی وقت گزر جاتا ہے تو شیخ ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ صبح شام 500 مرتبہ لا حول و لا قوة الا بالله العلى العظیم پڑھیں اور پھر آئیں۔

اسکے بعد لڑکا بارہا شیخ کو فون کرتا ہے اور انکے گھر جاتا ہے لیکن وہ مل نہ پائے۔

یوں انکے ساتھ نشست دو بار ہی ہو سکی۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا اب تلاش صحبت کے لیے شیخ واٹر پمپ کے پاس پہنچتاہے۔


میاں ظہوری-
 
Top