سید رافع
معطل
شیخ لیاقت نیشنل لائبریری - ایک کہانی ۔ قسط 21
عشاء سے قبل لڑکا پی ٹی وی اسٹیشن کی گلی میں دو سگنل چھوڑ کر دائیں ہاتھ پر موجود ایک مسجد کے سامنے گاڑی روکتا ہے۔
شیخ اول بنوری ٹاون نے لڑکے کو اس مسجد میں بعد از نماز عشاء مدرسہ بالغان میں شرکت کے لیے کہا تھا۔
ان کے حساب سے لڑکے کے لیے یہ جز وقتی دو، تین یا چار سالہ کلاسیں کافی تھیں۔
حالانکہ لڑکے کو اہل قلوب کی تلاش تھی۔
آٹھ سالہ درس نظامی میں زیادہ تر غرباء اپنے بچوں کو داخل کراتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس اپنے بچوں کو انجینئر یا ڈاکٹر کی تعلیم کے لیے رقم نہیں ہوتی۔
درس نظامی میں رہائش، تعلیم اور کھانا یہاں تک کہ کپڑے بھی مفت ہوتے ہیں۔
یہی بچے بڑے ہو کر مسجد کے خطیب، پیش امام اور مدرسوں کے استاد بنتے ہیں۔
عشاء کی جماعت ختم ہوتی ہے۔
سات یا آٹھ لڑکے ایک کنارے پر زمینی میزیں سرکانا شروع کر دیتے ہیں۔
شیخ تشریف لاتے ہیں اور عربی گرامر کی گردانوں کا سبق شروع ہوتا ہے۔
یہ کلاس کافی آگے نکل چکی ہوتی ہے۔
قریبا ایک سال سے جاری اس کلاس کی گردانیں دہرانے کی رفتار بے حد تیز تھی۔
ایک پرانے طالب علم نے کہا آپ اس کلاس سے کچھ سیکھ نہیں پائیں گے کیونکہ ہم کافی آگے نکل چکے ہیں۔
اس نے کہا چند ماہ بعد ایک اور کلاس بالکل ابتداء سے شروع ہوگی آپ اس میں آئیں۔
لڑکے کو بھی یہی لگا کہ سمجھ کچھ نہیں آ رہا۔ ساتھ ہی اسے عربی سیکھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔
وہ صحبت کی تلاش میں تھا نہ کہ مدرس کی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کے کے آفس کا ایک دوست شفیق موڑ پر ایک شیخ کا پتہ بتا تا ہے۔ شام قریبا سات بجے لڑکا اپنی گاڑی ایک پتلی گلی میں کھڑی کر کے شیخ کے گھر کی بیل بجاتا ہے۔
- میاں ظہوری
عشاء سے قبل لڑکا پی ٹی وی اسٹیشن کی گلی میں دو سگنل چھوڑ کر دائیں ہاتھ پر موجود ایک مسجد کے سامنے گاڑی روکتا ہے۔
شیخ اول بنوری ٹاون نے لڑکے کو اس مسجد میں بعد از نماز عشاء مدرسہ بالغان میں شرکت کے لیے کہا تھا۔
ان کے حساب سے لڑکے کے لیے یہ جز وقتی دو، تین یا چار سالہ کلاسیں کافی تھیں۔
حالانکہ لڑکے کو اہل قلوب کی تلاش تھی۔
آٹھ سالہ درس نظامی میں زیادہ تر غرباء اپنے بچوں کو داخل کراتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس اپنے بچوں کو انجینئر یا ڈاکٹر کی تعلیم کے لیے رقم نہیں ہوتی۔
درس نظامی میں رہائش، تعلیم اور کھانا یہاں تک کہ کپڑے بھی مفت ہوتے ہیں۔
یہی بچے بڑے ہو کر مسجد کے خطیب، پیش امام اور مدرسوں کے استاد بنتے ہیں۔
عشاء کی جماعت ختم ہوتی ہے۔
سات یا آٹھ لڑکے ایک کنارے پر زمینی میزیں سرکانا شروع کر دیتے ہیں۔
شیخ تشریف لاتے ہیں اور عربی گرامر کی گردانوں کا سبق شروع ہوتا ہے۔
یہ کلاس کافی آگے نکل چکی ہوتی ہے۔
قریبا ایک سال سے جاری اس کلاس کی گردانیں دہرانے کی رفتار بے حد تیز تھی۔
ایک پرانے طالب علم نے کہا آپ اس کلاس سے کچھ سیکھ نہیں پائیں گے کیونکہ ہم کافی آگے نکل چکے ہیں۔
اس نے کہا چند ماہ بعد ایک اور کلاس بالکل ابتداء سے شروع ہوگی آپ اس میں آئیں۔
لڑکے کو بھی یہی لگا کہ سمجھ کچھ نہیں آ رہا۔ ساتھ ہی اسے عربی سیکھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔
وہ صحبت کی تلاش میں تھا نہ کہ مدرس کی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کے کے آفس کا ایک دوست شفیق موڑ پر ایک شیخ کا پتہ بتا تا ہے۔ شام قریبا سات بجے لڑکا اپنی گاڑی ایک پتلی گلی میں کھڑی کر کے شیخ کے گھر کی بیل بجاتا ہے۔
- میاں ظہوری