سید رافع
محفلین
دعا گو ہوں کہ اللہ جی آپ کو سوہنی، من موہنی سی ووہٹی عطا فرمائیں جو آپ کے عشق مجازی کو خوب دوام و استحکام عطا فرمائے۔ آمین
آمین ثم آمین۔
دعا گو ہوں کہ اللہ جی آپ کو سوہنی، من موہنی سی ووہٹی عطا فرمائیں جو آپ کے عشق مجازی کو خوب دوام و استحکام عطا فرمائے۔ آمین
صرف ایک؟ اور لڑکی اس عمر میں؟اس سے مراد ایک بے حد دین دار اور خوبصورت لڑکی سے نکاح کرنا ہے۔
صرف ایک؟
اور لڑکی
اس عمر میں؟
لڑکی کا مطلب ہے عمر 15 سے 27 سال تک ہو
لڑکی کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔ میرے ایک دوست کا فارمولا ہے کہ اپنی عمر کو دو سے تقسیم کریں اور پھر اس میں سات جمع کر دیں۔ جو نتیجہ آئے وہ کم از کم عمر ہے جس سے آپ شادی کر سکتے ہیں۔میری پیدائش 1974 کی ہے۔ سو کوئی 46 سال عمر ہوئی۔ یہ کوئی زیادہ عمر تو نہیں!
لڑکی کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔ میرے ایک دوست کا فارمولا ہے کہ اپنی عمر کو دو سے تقسیم کریں اور پھر اس میں سات جمع کر دیں۔ جو نتیجہ آئے وہ کم از کم عمر ہے جس سے آپ شادی کر سکتے ہیں۔
اب سمجھ گیا کہ آپ کی اب تک شادی کیوں نہیں ہوئی46/2 + 7 = 23 + 7 = 30 سال
30 سال کی باکرہ لڑکی 15 یا 18سال کی طلاق یافتہ یا بیوہ کی مانند ہی ہوتی ہے۔ جو لڑکیاں نسوانی عیب سے پاک ہوں وہ 30 سال کی عمر سے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں الا یہ کہ پی ایچ ڈی یا میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں۔ 30 سال کی عمر تک باکرہ وہی لڑکیاں بچتی ہیں جن میں نسوانی حسن کی بے حد کمی ہو۔ یا کسی بیماری میں مبتلا ہوں۔
اب سمجھ گیا کہ آپ کی اب تک شادی کیوں نہیں ہوئی
۱۸ جنوری ۲۰۰۰ کی شام وہ پریوں جیسی لگ رہی تھی۔
یہ اسکی شادی کا دن تھا۔
اب سمجھ گیا کہ آپ کی اب تک شادی کیوں نہیں ہوئی
اب سمجھ گیا کہ آپ کی اب تک شادی کیوں نہیں ہوئی
بیگم کی تربیت پر تو اتنا کچھ لکھ دیا اور شوہر کی تربیت کا ذکر ہی نہیںاپنی بیوی کے ساتھ رہنے کا اصل قاعدہ یہ ہے کہ "ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو"۔ اسی اصول کے تحت صبر آتا ہے اور اس تصور سے کہ آگے جنت میں حوریں ہیں۔ ورنہ دنیا کی محبت انسان سے نا جانے کس راستے پر چلا دے۔
4:19 فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْ۔۔ًٔ۔ا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا
ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
انسان کا سعادت مند یا دین دار ہونا اسکا مقدر ہے۔ اس پر کلام کرنا بے فائدہ ہے۔ مثلاً عین ایک دین دار گھرانے میں ایک کافرہ لڑکی پیدا ہو سکتی ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں سورہ کہف میں ہے۔ یہاں تک کہ نبی کے یہاں بھی اسکا بیٹا کافر پیدا ہو سکتا ہے۔ اسکے برعکس عین امت محمدیہ ﷺ کے فرعون یعنیٰ ابو جہل کے گھر جناب عکرمہ بن ابو جہل پیدا ہو سکتے ہیں جو ایمان لا کر جہاد میں شہید ہوئے۔
18:80 اور وہ جو لڑکا تھا تو اس کے ماں باپ صاحبِ ایمان تھے پس ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (اگر زندہ رہا تو کافر بنے گا اور) ان دونوں کو (بڑا ہو کر) سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔
11:42 نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ ان سے الگ (کافروں کے ساتھ کھڑا) تھا: اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ۔
لیکن ایک سطحی تجزیہ یہ ہے۔ غور کیجیے گا کہ تقدیر کس قدر گہرا اور سیاہ سمندر ہے کہ ہم ذیل کی گفتگو میں خاندان، آباو اجداد کے کروموسوم، موسم اور علاقے کے اثرات، دوست و معاشرے کے اثرات، غذا اور اسکول کے اثرات اور نہ جانے کیا کیا چیزیں ہیں سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہ لہر در لہر انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسی لیے مقدر پر ایمان لایا جاتا ہے۔ لفظ کیوں کے ذیل میں جو سوال آتے ہیں وہ اکثر مقدر پر ایمان کے علم میں کمزوری کے باعث ہوتے ہیں۔
سب سے مضبوط گھرانا وہ ہوتا ہے جہاں رشتے داری کا خیال سب سے زیادہ ہو۔ یہاں صرف بہترین لوگوں کو ہی رشتے ملتے ہیں کیونکہ یہ رشتے داروں مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، تایا ،چچا ،پھوپھی، ماموں، خالہ اور دیگر رشتے داروں کا مسلسل خیال رکھ کر خود کو بہترین ثابت کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ گھرانے اپنے سب رشتے داروں کے نقطہ نظر سے لڑکے کو دیکھتے ہیں اور اکثر معاملات میں مشورہ بھی لیتے ہیں۔ ایسے گھرانے کم ہیں لیکن ناپید نہیں ہیں۔ ان گھرانوں پر مشورے اور لحاظ کی ایک قوی تہہ چڑھی ہوتی ہے۔ ان گھرانوں میں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے صرف خاص عقیدت مندی کی وجہ سے رشتہ ملتا ہے۔ یا لڑکی ہی نسوانی حسن سے محروم ہو۔ لیکن عموماً ان گھرانوں کی لڑکیاں خوب تربیت یافتہ ہوتی ہیں۔ اور اگر دینی تربیت کا انتظام ہے تو خوب دین دار ہوتی ہیں۔ یہ ایک اچھی رفیق حیات ثا بت ہو سکتی ہیں کیونکہ انکی تربیت پر پورا گھرانا لگا ہوا تھا۔شادی کے بعد آپکو اسکی بہت کم ہی تربیت کرنا ہو گی۔
اس سے کمزور گھرانا وہ ہوتا ہے جہاںصرف گھر کے افراد سے مشورہ لیا جاتا ہے۔ مثلاً ماں باپ، بیٹا، بیٹی، دادا، دادی۔ ان گھرانوں میں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے صرف خاص عقیدت مندی کی وجہ سے رشتہ ملتا ہے۔ یا لڑکی ہی نسوانی حسن سے محروم ہو۔ ان گھرانوں کی لڑکیا ں بھی خوب دین دار اور اگر جدید تعلیم کا انتظام ہے تو باشعور بھی ہوتی ہیں۔ یہ ایک اچھی رفیق حیات ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ انکی تربیت پر پورا گھرانا لگا ہوا تھا۔ شادی کے بعد آپکو اسکی بہت کم ہی تربیت کرنا ہو گی۔
ایسا گھرانا جہاں ماں یا باپ کا انتقال ہو چکا ہو وہاں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے لڑکی کچھ چھان پھٹک کے بعد مل جاتی ہے۔ ان گھرانوں میں لڑکی کی تربیت کا معقول انتظام نہیں ہوتا الا یہ کہ رشتے دار مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، تایا ،چچا ،پھوپھی، ماموں، خالہ لڑکی سے بے حد مخلص ہوں۔عموماً لڑکی اگر دین دار ہو بھی تو اسکے تصوارت خام ہوں گے ۔ اگر جدید تعلیم یافتہ ہے تو امکان ہے کہ اپنی تربیت کا انتظام نہ کر پائی ہو گی۔ خاص کر اگر صرف باپ ہو تو وہ اپنے بزنس یا جاب کی وجہ سے زائد توجہ شاید ہی دے پائے۔ اصل ہے کہ لڑکی پر کتنی توجہ دی گئی ہے اور اسکو کتنے مخلص رشتے میسر ہیں۔ اس کو ان مخلص لوگوں نے تربیت کے کن کن مراحل سے گزارا گیا ہے۔اگر ماں زندہ ہے اور باپ نہیں تو لڑکی گھریلو ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگر ماں یا باپ نے شادی کر لی ہے تب نئی آنے والی ماں یا باپ کی اپنی تربیت پر یتیم بچوں کی تربیت کا درومدار ہوتا ہے۔ نئے ہونے والے بچوں اور شادی سے قبل کے بچوں میں توازن رکھنا خوب صبر اور توجہ مانگتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایسے گھرانوں میں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے لڑکی مل جاتی ہے۔
اسی سے ملتا جلتا گھرانا وہ ہوتا ہے کہ اگر باپ دوسری شادی کر لے۔ ایسے گھرانوں میں کیونکہ باپ نے خود دوسری شادی کی ہوتی ہے چنانچہ وہ بھی کسی دوسری شادی کے خواہشمند فرد کو رشتہ دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ چھان پھٹک ہوتی ہے۔ رشتے داروں مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، تایا ،چچا ،پھوپھی، ماموں، خالہ سے مشورہ بھی ہوتا ہے ۔
اگر آپ شادی کے لیے ہر شرط ہٹا دیں تو دنیا بھر کی لڑکیاں آپکی کی دسترس میں ہیں۔ سکھ، ہندو، عیسائی خاص کر یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسڑیلیا کےعیسائی اور دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمان۔ ایسے میں آپ پر تربیت کی ذمہ داریاں بے حد بڑھ جائیں گی۔ مثلاً لڑکی کو مسلمان کرنا۔ بچوں کو مسلمان رکھنا۔ بچوں کے نانا نانی کے مذہب اور ان ممالک کے اثر ات سے بچوں کو محفوظ و مطمئن رکھنا۔ یہ سخت جدوجہد والا صبر آزما کام ہے۔ جاب، بزنس اور اس دور کی تیز رفتاری کے باعث ایسی شادی میں سرخرو ہونا بے حد دشوار ہے الا یہ کہ عورت سابقہ انبیاء کی اولادوں میں سے ہو۔ حق کو قبول کرنے والی ہو۔ جدید تعلیم سے آراستہ ہو اور خوب باشعور ہو۔ اپنے کئیرئیر سے زیادہ بچوں کو توجہ اور وقت دینا اہم سمجھتی ہو۔ اسلام کو دل وجان سے چاہتی ہو۔ لغو سے دور ہو۔
حد ہوتی ہے شہوت کیاس تصور سے کہ آگے جنت میں حوریں ہیں۔
بیگم کی تربیت پر تو اتنا کچھ لکھ دیا اور شوہر کی تربیت کا ذکر ہی نہیں
حد ہوتی ہے شہوت کی