انیس الرحمن
محفلین
زبر نہیں پیش لگے گا۔
چْنگی۔۔
زبر نہیں پیش لگے گا۔
لڑکیاں بدلہ بھی بہت بُرا لیتی ہے۔۔
کالج کے زمانے میں ایک دفعہ میں الیکشن میں کھڑا ہوا تھا۔۔ میرے مقابلے میں ایک لڑکی کھڑی تھی، میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کے پرس میں ایک نقلی چھپکلی رکھ دی۔۔ جب وہ تقریر کرنے ڈائس پر آئی اور تقریر والا کاغذ نکالنے کے لئے پرس میں ہاتھ ڈالا تو ٹھیک ساڑھے چار سیکنڈ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئ، اور پھر اچانک پوری ذمہ داری سے غش کھا کر گرگئ۔۔
اس بات کا بدلہ اس ظالم نے یوں لیا کہ میرے الیکشن والے پوسٹروں پر راتوں رات، جہاں جہاں بھی "نامزد امیدوار" لکھا تھا، وہاں وہاں "نامزد" میں سے 'ز' کا نقطہ اُڑا دیا۔۔ میں آج تک اس کی "سیاسی بصیرت" پر حیران ہوں۔۔۔ ۔۔۔
یونس بٹ کتاب شیطانیاں سے اقتباس
بہت سارے جن وں کے بچے ہوتے تھے نا، بار بار، اس لئے جنوں کو اکٹھا کر دیاجنوں کے نہیں "جن کے بچے"۔۔۔
میرے کچھ دوست ہیں، وہ انگریزی الفاظ کا تلفظ بڑے زبردست میں انداز میں ادا کرتے ہیں، مثال کے طور پہ
pencil کو پَنسَل
apple کو ایپول
کیسے ہو پروفیسر یار؟ اور کہاں گم ہوتے ہو۔ ہمارا کوچہ ملنگاں تمہارا منتظر ہےبائی دے وےامریکین پروناؤسیشن میں pencil (پَنسِل) کو پَنسَل اور apple ( ایپل) کو ایپول ہی کہتے ہیں ۔
کچھ عرصے قبل پاکستان گیا تو گلشنِ اقبال میں ایک جگہ دکانوں کی قطاروں کے وسط میں واقع ایک دکان پر صائمہ جُوس کارنر لکھا ہوا دیکھا ۔
میرے دستخط کے مطابق دوسرا دریا بھی تقریباً پارہوہی گیا ۔۔۔ ان شاءاللہ کوچہِ ملنگاں کوپھرسے آباد کرتے ہیں ۔کیسے ہو پروفیسر یار؟ اور کہاں گم ہوتے ہو۔ ہمارا کوچہ ملنگاں تمہارا منتظر ہے
بائی دے وےامریکین پروناؤسیشن میں pencil (پَنسِل) کو پَنسَل اور apple ( ایپل) کو ایپول ہی کہتے ہیں ۔
واہ کیا بات ہے۔
کچھ عرصے قبل پاکستان گیا تو گلشنِ اقبال میں ایک جگہ دکانوں کی قطاروں کے وسط میں واقع ایک دکان پر صائمہ جُوس کارنر لکھا ہوا دیکھا ۔
ہاہاہا
آپ نے یہ محاورہ باباجی پر تھوپنے کی تو بڑی کامیاب کوشش کی تھیاپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے لکھوں گا کہ بچپن میں میں اپنے ہم عصر طالبعلموں سے اردو پڑھنے اور لکھنے میں بس ذرا سا بہتر تھا لیکن ہمارے والد مرحوم تفاخرِ پدرانہ سے سرشار ہو کر اپنے جاننے والوں سے اس کا ذکر کیا کرتے ، یوں ہماری شہرت اردو میں ہماری ’قابلیت“ سے ہوئی۔ ایک دن ہمارے گھر میں والد مرحوم کے مرشد تشریف فرما تھے اور ان کے ساتھ دیگر مریدین بھی ہمارے مہمان تھے تو جناب ہماری قابلیت کی بات چلی تو ہمیں اردو کی ایک نسبتا مشکل کتاب پڑھنے کو دی گئی۔ شروع میں تو ہمیں کوئی مشکل پیش نہ آئی لیکن چند سطور پڑھنے کے بعد ہماری قابلیت کے کابلے ڈھیلے پڑ گئے اور ہم ایک بڑے سے لفظ کو پڑھنے کی کوشش میں اٹک گئے اور وہ لفظ ہماری نا اہلیت کی بدولت دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ......بنگلہ دیش کی طرح۔
ملاحظہ فرمائیے کہ فقرہ کچھ یوں تھا " وہ حالات سے بہت زیادہ دلبرداشتہ ہو گئی" اور ہماری ادبی بصیرت نے دلبر اور داشتہ میں ایسی جدائی ڈالی کہ ساری محفل اسے سنتے ہی زعفران زار بن گئی اور ہم خجالت کے مارے منہ لٹکائے بیٹھ گئے۔ لیکن یہ کسک پیدا ہو گئی کہ آخر کیا بات ہے ہماری غلطی کو درست کرنے کی بجائے زور کا قہقہہ بلند کیوں ہوا اور سب میری طرف عجیب نظروں سے کیوں دیکھ رہے تھے۔
اگلی دوپہر کو والد مرحوم کھانا کھانے بیٹھے تو ہم نے چائے کی پیالی ہاتھ میں پکڑی اور دوسرے کمرے میں موجود ان کی کتابوں میں سے فیروزاللغات اٹھائی اور چارپائی کے ایک کونے میں چائے کی پیالی کو رسیوں میں پھنسا کر لغت میں سے دلبر کے معانی الگ اور داشتہ کے الگ سے دیکھنا شروع کر دئیے۔ پتہ ہوتا کہ یہ ایک ہی لفظ ہے تو بھری محفل میں ہی کیوں غلطی کرتے ؟۔دلبر کا معنی تو تھوڑا سمجھ میں آ گیا لیکن جب داشتہ کا معنی دیکھا تو ہنسی کا زوردار فوارہ ہمارے منہ سے نکلا جو ہمارے منہ میں موجود چائے کی صورت میں برآمد ہوا اور ابو کی باقی کتابوں پر تجریدی آرٹ کا نادر نمونہ ثبت کر گیاساتھ ہی خالص فیصل آبادی سٹائل میں ہمارے وردِ زبان ہو "او تہاڈی.......نوں"۔
اس ڈرامے کے دوران ہماری بھاری جسامت میں مدو جذر پیدا ہونے کے دوران گرم چائے کی پیالی ہماری قدم بوسی پہ اتر آئی یوں قہقہے اور چیخ کا ایک ایسا امتزاج وجود میں آیا کہ فیصلہ نہ کر پائے کہ اب دونوں میں سے کسے کیا نام دیں۔ دوسرے کمرے میں ہماری پراسرار کاررائیوں کی تھوڑی بھنک پڑی تو والدہ مرحومہ اندر آئیں جو چائے گری دیکھ کر یہ سمجھیں کہ شاید ان کے لائق پتر کی کارروائی بس یہیں تک تھی لیکن ان کے جانے کے بعد ہمیں پھر سے ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور داشتہ کا مطلب بار بار ہماری بے وقوفی پر ہمیں ہی ہنسنے پر مجبور کر رہا تھا۔
کمرے سے باہر قدم رنجہ فرمایا تو والد صاحب کی طرف سے سوال ہوا "ااندر کیا کر رہے تھے"۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ سنجیدگی سے اس سوال کا جواب دیں لیکن باوجود کوشش کے پھر سے ہنسی نکل گئی ۔ اب یہ صورتحال کہ سب پریشان کہ گرم چائے پیروں پر گرنے سے کوئی بھلا کیوں کر ہنس سکتا ہے۔ وہ تو والد صاحب کھانے سے فارغ ہو کر جب کتابوں والے کمرے میں گئے تو اپنی کتابوں پر بنے نقوش دیکھ کر مجھے نقوش والے محمد طفیل کے پاس پہنچانے والے تھے کہ ہم نے سمجھداری کا ثبوت دیا اور اچھے بچوں کی طرح شرم سے آنکھیں نیچی رکھتے ہوئے انہیں پچھلے دن ہونے والی مطالعاتی غلطی اور اس کے بعد ہونے والی تحریک اورا س کے کتابوں پر نقش نتائج کے بارے میں سچ سچ بتا دیا۔ شفقتِ پدری نے نہ صرف ہمیں معاف کر دیا بلکہ اسے بھی اپنے تفاخر میں شامل کر لیا۔
جو کامیاب ہو جائے وہ کامیابی کہلاتی ہے کوشش کہہ کر اس کو گہنائیں متآپ نے یہ محاورہ باباجی پر تھوپنے کی تو بڑی کامیاب کوشش کی تھی
یہی آپ سے کہلوانا چاہ رہا تھاجو کامیاب ہو جائے وہ کامیابی کہلاتی ہے کوشش کہہ کر اس کو گہنائیں مت
آ جائیں پھر ہماری ٹیم جوائن کریں۔ بہت ضرورت ہے آپ کییہی آپ سے کہلوانا چاہ رہا تھا
بطور Victim کہ بطور چھاپہ مار یا پھر بطور وہ والی پخ جس کی وجہ سے وکٹم بنتے ہیں؟آ جائیں پھر ہماری ٹیم جوائن کریں۔ بہت ضرورت ہے آپ کی
دیکھیں جناب ٹیکنیکل بات ہے پخ کے تصویری ثبوتوں کے موجود ہوتے ہوئے دیگر سوالات اٹھانے سے آپ کیس کا رخ غلط سمت کی طرف موڑنے کی دانستہ کوشش کر رہے ہیں۔معزز عدالت سے التماس ہے کہ میرے دوست کو ٹریک پر رہنے کی ہدایت جاری فرمائے۔بطور Victim کہ بطور چھاپہ مار یا پھر بطور وہ والی پخ جس کی وجہ سے وکٹم بنتے ہیں؟
آپ نے یہ محاورہ باباجی پر تھوپنے کی تو بڑی کامیاب کوشش کی تھی
واقعی اکثر منہ سے یہی نکلتا ہے۔ اس لیے اب میں چنگی ہی کہتا ہوں۔۔۔
چ کے اوپر پیش ہےچُونگی
اوہ آپ پہلے ہی تصحیح کر چکے ہیںزبر نہیں پیش لگے گا۔
چْنگی۔۔