سید عاطف علی
لائبریرین
عثمان ۔ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے ۔اگر ایسا ہو تو وہ ایتھیسٹ نہ ہو جائیں گے ؟نہیں۔ ایگناسٹک اس بات کے قائل ہیں کہ وہ دلیل بھی وجود نہیں رکھتی ہے۔
عثمان ۔ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے ۔اگر ایسا ہو تو وہ ایتھیسٹ نہ ہو جائیں گے ؟نہیں۔ ایگناسٹک اس بات کے قائل ہیں کہ وہ دلیل بھی وجود نہیں رکھتی ہے۔
بنیادی طور پر ایتھیسٹ اور ایگناسٹک دونوں ہی خدا کے وجود کو unfalsifiable سمجھتے ہیں۔ تاہم ایتھیسٹ خدا کے وجود نہ رکھنے کو زیادہ منطقی اور حتمی سمجھتے ہیں۔عثمان ۔ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے ۔اگر ایسا ہو تو وہ ایتھیسٹ نہ ہو جائیں گے ؟
ماشاء اللہعقل پرپردے پڑے ہیں
شائد خدا کے بارے میں یہ نکتہ نظر ایگناسٹک قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن میں خود کو ایگناسٹک نہیں سمجھتا کہ یہ لیبل میری فکر کا عکاس نہیں۔ شائد سعادت کا بیان کردہ لیبل زیادہ بہتر ہے۔زیک کی بیان کردہ تعریف کے مطابق بغیر کسی کنفیوژن کے یہ ماننا ہی اگنوسٹک ہونا ہے۔
ماشاء اللہ
وجہ پڑھنے کے بعد آپ پر رحم آ رہا ہے۔اس کی وجہ یہاں درج ہے۔
کسی بنیادی اصول پرتو فیصلہ تب ہی ہوگا جب اصول کی اپنی کوئی بنیاد ہو۔ فرشتوں، جنات، خداؤں، بعد الموت زندگی سے متعلق ہمارے پاس دین و مذہب کے علاوہ اور کوئی دوسری بنیاد موجود نہیں ہے جسپر فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا انکا کوئی وجود ہے یا نہیں۔ ایسے میں لاادریت خدا کے وجود پر ایمان لانے والوں (مومنین) اور اسے جھٹلانے والوں (ملحدوں) کے درمیان ایک ماڈریٹ پوزیشن ہے۔اسے ڈرپوک، کمزور کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ یہ دو شدید پوزیشنزکے مابین ایک درمیانی راہ ہے۔لیکن بہر حال کسی بنیاد ی اصول پر فیصلہ نہ کرنے اور فکر کو ایک درمیانی راہ پر معلق چھوڑنے کے لیے میرے پاس سوائے "ضعف "کے کوئی وسیلہ نہیں ۔
مجھے بہت حیرت ہوئی یہ سُن کر یہ اب آپ کی کلاس نہیں لیتے
مجھے شبہ ہے کہ آپکو سمجھ آگیا تھا اور آپ نے یہاں ڈنڈی ماری ہےمیری کم عقلی کے باعث آپ نے جو لکھنے کی کوشش کی ہے واقعتاً میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔
شاید عمر کا تقاضا ہےنبیل کی اب وہ پہلی سی دہشت نہیں رہی۔
جی ضرور بولیں پر روایتی تبلیغ کے بغیرمیں بولوں کے نہ بولوں ...
دنیا کے بہت سے عظیم لوگ ایک لمبی عمر گزارنے کے بعد اگناسٹک ہوئے ہیں۔ آپکے خیال میں انہوں نے تحقیق نہیں کی ہوگی؟میری رائے میں یہ لوگ خود پسند ہیں اور تحقیق سے جی چراتے ہیں اور مزید یہ کہ انسانیت کے اعلیٰ مقام پر پہنچنے کی جستجو نہیں رکھے۔ ایک درمیانی رہگزر کو منزل جانتے ہیں۔
اگر یہاں دلیل سے مرادکوئی منطقی، معقول یا سائنسی دلیل ہے تو درست ہے۔شاید ایتھیسٹ ہر قیمت پر خدا کے منکر ہوتے ہیں اور ایگناسٹک وہ جو اس ضمن میں دلیل کی گنجائش رکھتے ہیں، یعنی اگر دلیل لے آئیں تو شاید مان لیں
ہاہاہاہر شخص کو چاہے وہ مالک کائنات کے وجود کا جتنا بھی منکر ہو زندگی کے کسی نا کسی موڑ دانستگی یا نا دانستگی میں یا بے ساختہ ،تنہائی میں یا لوگوں کے سامنے اس عظیم ذات کی یاد ضرور آ جاتی ہے۔
رحم کیوں؟وجہ پڑھنے کے بعد آپ پر رحم آ رہا ہے۔
کسی نے اسی محفل پر کہا تھا کہ میرے پاس سابقہ منتظم ہونے کی حیثیت سے سپرپاورز ہیں۔مجھے بہت حیرت ہوئی یہ سُن کر یہ اب آپ کی کلاس نہیں لیتے
جب خالق کو اپنی ہی تخلیق سے دور جانا پڑے تو افسوس تو ہوتا ہے۔ اسی ضمن میں کہا تھا۔رحم کیوں؟
میرے نزدیک یہاں سے ایک دوسری بحث کا آغاز ہو تا ہے ۔ اور وہ یہ کہ مشاہدات کی حدود اور عقلیات کا مشاہدات پر حاکم ہونا اور ان دونوں کی حدود اس کے علاوہ کسی علمی وسیلے یا زریعے کی موجودگی۔(جیسا کہ آسمانی مذاہب میں الہام و وحی)کسی بنیادی اصول پرتو فیصلہ تب ہی ہوگا جب اصول کی اپنی کوئی بنیاد ہو
یہ پہلے والے نقطے پر منحصر ہے۔ اور اس انفرادی تجربے پر جس پر کوئی ایسی واردات ہوتی ہو۔فرشتوں، جنات، خداؤں، بعد الموت زندگی سے متعلق ہمارے پاس دین و مذہب کے علاوہ اور کوئی دوسری بنیاد موجود نہیں ہے جسپر فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا انکا کوئی وجود ہے یا نہیں
ایسے میں لاادریت خدا کے وجود پر ایمان لانے والوں (مومنین) اور اسے جھٹلانے والوں (ملحدوں) کے درمیان ایک ماڈریٹ پوزیشن ہے
خدا پر یقین کرنے کا سبب محض مشاہدات یا محض عقلیات ہوتا تو تمام عقلیات والے اور تمام مشاہدات والے خدا پر ایمان والے ہوتے۔ آپ اگر اپنے موقف کی ماڈریٹ پوزیشن اختیار کر نے والے آپشن پر ذرا گہرائی سے غور کریں اور دیکھیں کی اس درمیانی راہ ضرورت کیوں پیش آتی ہے ۔مشاہدات اور عقلیات کے ساتھ ساتھ انسان پر ایک اور قوت یا ملکہ حاصل ہوتا ہے جو اس کے فکری نظام کے ڈھانچے کو متعین کرتا اور جس طرح مشاہدات پر عقل حاکم ہوتی ہے یہ قوت عقلی اور تجزیاتی اقدار پر حاکم ہوتی ہے۔ اور اسے اس کے اعلی تر مقاصد سے روشناس کراتی اور انسان اپنی نظریاتی بنیادڈالتا ہے۔اسے ڈرپوک، کمزور کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ یہ دو شدید پوزیشنزکے مابین ایک درمیانی راہ ہے
انتظامیہ محفل کی آزادی برداشت کر سکتی ہے آپ کی جدائی نہیںکسی نے اسی محفل پر کہا تھا کہ میرے پاس سابقہ منتظم ہونے کی حیثیت سے سپرپاورز ہیں۔
بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پر یہاں اختلاف اور بحث ہو سکتی ہے مگر مجھے اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ صرف یہ پوائنٹ آؤٹ کرتا چلوں کہ یہ پوسٹ کسی مذہبی ٹرول کی نہیں بلکہ عاطف کی ہے۔ اگر ایتھیئسٹ کو حیوان کہنا حقارت نہیں تو معلوم نہیں اس لفظ کا مطلب کیا ہے۔میرے نزدیک یہاں سے ایک دوسری بحث کا آغاز ہو تا ہے ۔ اور وہ یہ کہ مشاہدات کی حدود اور عقلیات کا مشاہدات پر حاکم ہونا اور ان دونوں کی حدود اس کے علاوہ کسی علمی وسیلے یا زریعے کی موجودگی۔(جیسا کہ آسمانی مذاہب میں الہام و وحی)
یہ پہلے والے نقطے پر منحصر ہے۔ اور اس انفرادی تجربے پر جس پر کوئی ایسی واردات ہوتی ہو۔
خدا پر یقین کرنے کا سبب محض مشاہدات یا محض عقلیات ہوتا تو تمام عقلیات والے اور تمام مشاہدات والے خدا پر ایمان والے ہوتے۔ آپ اگر اپنے موقف کی ماڈریٹ پوزیشن اختیار کر نے والے آپشن پر ذرا گہرائی سے غور کریں اور دیکھیں کی اس درمیانی راہ ضرورت کیوں پیش آتی ہے ۔مشاہدات اور عقلیات کے ساتھ ساتھ انسان پر ایک اور قوت یا ملکہ حاصل ہوتا ہے جو اس کے فکری نظام کے ڈھانچے کو متعین کرتا اور جس طرح مشاہدات پر عقل حاکم ہوتی ہے یہ قوت عقلی اور تجزیاتی اقدار پر حاکم ہوتی ہے۔ اور اسے اس کے اعلی تر مقاصد سے روشناس کراتی اور انسان اپنی نظریاتی بنیادڈالتا ہے۔
اب ایتھیسٹ کو دیکھیں تو وہ خارجی دنیا یعنی مشاہدات اور عقلیات کے عنصر کے غلبے (اس کے بھی کئی مدارج ہوں گے یہ بائنری نظام کی طرح نہیں ) کی وجہ سے بظاہر خدا کا انکار کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ اس غلبے کی وجہ سے اس قوت کا انکار کر تا ہے جو عقلیات اور مشاہدات کے گوں نا گون (ڈائیورسٹی) تجربات میں "کھو" جاتی ہے یا " سو "جاتی ہے۔اور نتیجتاََ لامحالہ اسے اپنے آپ کو حیوان ماننا پڑتا ہے اوراسے انسانیت کی محترم منصب سے استعفی دینا پڑتا ہے لیکن بایں ہمہ وہ اس کی جراءت کرتا ہے ۔اب کیون کہ اس کے پاس سوائے عقلیات و مشاہدات کے کوئی اور چارہ نہیں سو اس لیے وہ اس کے جواز کے لیے خارجی دنیا میں سرگرداں رہتا ہے اور داخلی دنیا سے رجوع نہیں کر پاتا بہر حال سب سے بڑا نقصان اسے انسانیت کا مقام کھونے کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
اب دیکھیں ایگناسٹک کو کہ یہ ایتھیسٹ سے کس طرح مختلف ہے ۔ اس پر مشاہدات اور عقلیات کا غلبہ یقینا ہوتا ہے مگر اس کی وہ شدت نہیں ہوتی جو اس کے اندر انسانیت کے اس جوہر کو دبا سکے ۔ انسانیت وہ جوہر ہے جسے وہ کھونے کا خوف رکھتا ہے اور وہ خدا کا دیا ہوامقام کھونا افورڈ نہیں کرپاتا ) لیکنوہ در پردہ داخلی انتشار کا شکار رہتاہے اور ایک درمیانی راہ کو موقف کا درجہ دے کر مطمئن و مامون ہونا چاہتا ہے ۔یہی خوف یا کمزوری اسے ایتھیسٹ سے ممتاز کرتی ہے۔
میں نے اسے ڈر پوک یا ضعیف حقارتاََ ہر گز نہیں کہا تھا (جیسا کہ عثمان صاحب نے سمجھا تھا ) بلکہ وضاحتاََ کہا تھا ۔ اسے صرف میری رائے سمجھا جائے،
یہ فرنگی نہیں انگریزی کے الفاظ ہیںagnostic = لاادری
atheist = ملحد، خداناباور، بے خدا
لطفاً فرنگی الفاظ سے زبانِ اردو کو پاک رکھیے۔
فرنگی دخیلات کے اردو معادلات تجویز کرنا میری دوستانہ ذمہ داری ہے۔ استعمال کرنا یا نہ کرنا یا بالکل نظرانداز کرنا آپ کی صواب دید پر ہے۔
دخیلات اور معادلات جیسے الفاظ سن کر قے سی آنے لگی ہے۔agnostic = لاادری
atheist = ملحد، خداناباور، بے خدا
لطفاً فرنگی الفاظ سے زبانِ اردو کو پاک رکھیے۔
فرنگی دخیلات کے اردو معادلات تجویز کرنا میری دوستانہ ذمہ داری ہے۔ استعمال کرنا یا نہ کرنا یا بالکل نظرانداز کرنا آپ کی صواب دید پر ہے۔
لفظ لا ادریت میں ادریت کیا ادراک سے نکلا ہے؟ یعنی ایسا فرد جسے کسی حقیقت کا ادراک نہ ہو؟agnostic = لاادری
atheist = ملحد، خداناباور، بے خدا
لطفاً فرنگی الفاظ سے زبانِ اردو کو پاک رکھیے۔
فرنگی دخیلات کے اردو معادلات تجویز کرنا میری دوستانہ ذمہ داری ہے۔ استعمال کرنا یا نہ کرنا یا بالکل نظرانداز کرنا آپ کی صواب دید پر ہے۔
لا ادریت کا لفظ ادراک سے کوئی لفظی تعلق نہیں ۔ دونوں الگ الگ مادہ رکھتے ہیں۔لفظ لا ادریت میں ادریت کیا ادراک سے نکلا ہے؟ یعنی ایسا فرد جسے کسی حقیقت کا ادراک نہ ہو؟
اگر ایسا ہے تو پھر لاادریت انگریزی لفظ ایگناسٹک کا درست ترجمہ نہیں۔
ادراک کا مطلب بھی تو یہی ہے۔ کہ مجھے اس بات کا ادراک نہیں۔ یعنی اس بات کا علم نہیں۔لا ادریت کا لفظ ادراک سے کوئی لفظی تعلق نہیں ۔ دونوں الگ الگ مادہ رکھتے ہیں۔
لا ادری کا معنی ہے آئی ڈونٹ نو ۔