اے آئی سے لکھی غزل !

اے آئی کی مدد سے لکھی گئی غزل!
ڈاکٹر محمد خرم یاسین
میں نے بحر متدارک مثمن سالم کے وزن کے تحت اے آئی سے ایک غزل لکھوائی اور متعدد تجربات کیے۔ چند بنیادی غلطیوں کے بعد اس نے نہ صرف میرے خیالات کو درست سمت میں جانچنے کی کوشش کی بلکہ وزن کی پابندی بھی کی۔ بنیادی خیالات تو میرے ہی تھے، میں اسے خود بہتر انداز میں لکھ بھی سکتا تھا لیکن تجسس اورتجربات الگ ہی مزا دیتے ہیں۔ غزل ملاحظہ کیجیے اور رائے بھی دیجیے:

خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر
زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں بھرا

یہ مسافر تو منزل سے محروم تھا
کچھ نصیبوں کا لکھا تھا لمحہ کڑا

خون دل کا بہا کر وہ دنیا گئی
رہ گیا یاد میں اک غموں کا دھرا

راہِ دنیا میں ہر موڑ اک راز ہے
پھر بھی انسان دھوکے میں کیوں جا رہا؟

جو ہے حاصل وہی تو مقدر میں تھا
وقت کی قید میں کون ٹھہرا یہاں؟

ہم سفر کا تو مقصد تھا رستہ فقط
منزلیں کیا ہیں، یہ کس نے سمجھا یہاں؟


No photo description available.
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سر کوتاہیوں کے باوجود باوزن کہنا ٫ بڑی اہم پیش رفت ہے۔

آپ براہ کرم ردیف وقوافی پر گفتگو کیجیے٫ بہت سے لوگ سیکھیں گے۔ بہت شکریہ ۔جزاک اللہ خیرا
مطلع نہیں ہے اس لئے صرف آخری الف کا نظم ہونا چاہیے قافیے میں، لیکن پہلے اور تیسرے کے قوافی میں مشترک حروف َ را، ہیں( روی) تب کہا جا سکتا ہے کہ ڑا والا قافیہ درست نہیں۔
آخری دو شہروں میں قافیے میں ں کا اضافہ ہو گیا ہے،اسے قافیہ ہی مانا جائے تو دونوں مسلسل اشعار میں ایک ہی قافیہ اچھا نہیں۔ بلکہ زیادہ درست بات یہ ہو گی کہ "یہاں" ان دونوں اشعار میں ردیف بن گئی ہے، اور اس سے پہلے قافیہ وہی پہلے والا قافیے کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے، یعنی ٹھہرا اور سمجھا، آخری الف والا!
ویسے درست ردیف و قوافی والی غزل بھی جنریٹ کی گئی ہے، ادریس آزاد کے تجربات دیکھیں میرے سَمت والے مضمون میں۔ انہوں نے تو چیٹ جی پی ٹی سے اپنی بات چیت بھی بیان کی ہے
 
خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر مصنوعی ذہانت فرمارہی ہےکہ زندگی کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ۔۔۔۔۔
زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں بھرا دنیا دکھوں اور تکلیفوں کا گڑھ ہے۔۔۔
یہ مسافر تو منزل سے محروم تھا مصنوعی ذہانت نے مسافر کو انسان کا استعارہ کیا ہے اور اُسے ازل سے منزل سے محروم بتایاہے۔۔۔۔
کچھ نصیبوں کا لکھا تھا لمحہ کڑا یہ محرومی نصیبوں میں پہلے سے درج تھی۔۔۔
خون دل کا بہا کر وہ دنیا گئی مشین نے ارمانوں کے پورا نہ ہونے کو دل کا خون ہونا بتاتے ہوئے اِسے انسان کی زندگی کا لازمہ قراردیا ہے۔۔۔۔
رہ گیا یاد میں اک غموں کا دھرا کہ زندگی کے بارے میں اُس کا یہ خیال صحیح ہے کہ زندگی دکھوں کا گھر، غموں کی آماج گاہ اور رنج والم کا نگرہے اس کے سوا اِسے کچھ اور سمجھنا عبث ہے۔۔۔۔
راہِ دنیا میں ہر موڑ اک راز ہے دنیا میں ہونیوالا ہر واقعہ ہونے سے پہلے ایک راز ہے ۔۔۔۔۔۔
پھر بھی انسان دھوکے میں کیوں جا رہا؟اِس کے باوجود انسان کی زندگی کا سفر جاری ہے۔۔۔۔یعنی انسان آیندہ واقعات کا علم پہلے سے پالینے کی جستجومیں سرگرداں ہے
جو ہے حاصل وہی تو مقدر میں تھا مشین نے کہا آج جو کچھ بھی سامنے ہے وہ پہلے سے مقدر تھا۔۔۔۔
وقت کی قید میں کون ٹھہرا یہاں؟یہ وقت کی طاقتور روش ہے کہ جب چاہتا ہے کچھ ظاہر کردیتا ہے اور بہت کچھ چھپائے رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔(اُسے وقت سے پہلے کھول نہیں سکتے)دیکھا جائے تو یہاں مشین نے بڑی گہری بات کہی ہے وقت کی قید میں زندگی ہے مگر ، چند گھڑیا ں یہی ہیں جو آزاد ہیں:فیاض ہاشمی: اِسے اِس طرح سے بھی سمجھنے کی کوشش کریں :وقت سے دن اور رات وقت سے کل اور آج ، وقت کی ہر شے غلام وقت کا ہرشے پہ راج۔۔۔۔گویا ہر ہر لمحہ وقت کا قیدی ہے اور ہر ہرلمحے پر وقت کو یہ اختیار ہے کہ کھول دے یا قید رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں مشین کو داد دینا پڑے گی۔۔۔۔مگر یہ دیکھنا ہے کہ واقعی مشین نے یہ باتیں اِسی تناظر میں کہی ہیں یا شعر برائے شعر ہے۔۔۔۔۔
ہم سفر کا تو مقصد تھا رستہ فقط۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں بھی مشین بات کو کئی پردوں میں لپیٹ کر بیان کرتی نظر آتی ہے ۔ ذرااِس کے شاعرانہ پردوں کا جائزہ لیں ۔ہم سفر کا مطلب خوشی اور مسرت کی چند گھڑیاں ہے،رستے کا مفہوم بجائے خود زندگی ہے ،منزلوں سے مرادوہ حقیقی خوشیاں ہیں جنھیں حاصل کرنے کے لیے بقول مشین انسان اندھیرے میں تیرچلارہا ہے۔۔۔۔۔۔
منزلیں کیا ہیں، یہ کس نے سمجھا یہاں؟
مشینی تُک بندی میں خیال آفرینی کی کوشش
خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر۔۔۔خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر
زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں بھرا۔۔۔زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں کا گھر
یہ مسافر تو منزل سے محروم تھا۔۔۔یہ مسافر جو منزل سے محروم ہے
کچھ نصیبوں کا لکھا تھا لمحہ کڑا۔۔۔ہے نصیبوں کے لکھے کا ہی یہ اثر
خون دل کا بہا کر وہ دنیا گئی ۔۔۔خون دل کا ہوا زندگی لُٹ گئی
رہ گیا یاد میں اک غموں کا دھرا ۔۔۔رہ گیا یاد ،تھا ایک غم کا نگر
راہِ دنیا میں ہر موڑ اک راز ہے۔۔۔زندگی کیا ہے کوئی نہ سمجھا اسے
پھر بھی انسان دھوکے میں کیوں جا رہا؟۔۔۔گویا انجان رستوں کا ہے یہ سفر
جو ہے حاصل وہی تو مقدر میں تھا ۔۔۔۔۔۔جو ملا بس وہی تھا مقدر ترا
وقت کی قید میں کون ٹھہرا یہاں؟۔۔۔وقت کے جبر سے یاں کسے ہے مُفر
ہم سفر کا تو مقصد تھا رستہ فقط ۔۔۔۔۔ہم سفر اِس لیے ہے کٹے راستہ
منزلیں کیا ہیں، یہ کس نے سمجھا یہاں؟۔۔۔منزلوں کی کسی کو نہیں کچھ خبر
اب ہمیں دیکھنا ہے:
1۔ہماری بی مشین کا مذہب کیا ہے یعنی یہ اپنے اندر کے ڈیٹا کو کس نکتہ ٔ نظر سے دیکھ ، پرکھ اور برت رہی ہیں؟
2۔ مجھے تھامس گرے کی نظم ایلے جی (نوحہ ٔ غم )کا وہ ترجمہ یاد آگیا جو اُردُو زبان وادب کےایک جید ادیب حیدرعلی نظم طباطباعی نے کیاتھا اور اِس خوبصورتی سے کیا کہ اصل نظم اِس خوبصورت ترجمے کے آگے گہنا گئی تھی مگر اب بھی ’’ایلے جی ،ایلے جی‘‘ہے اور ’’گورِ غریباں ‘‘ محض اُس کا ترجمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مشین بھی ایک دن شعروادب کی اعلیٰ ترین خوبیوں سے لیس ہوکر ایسے ایسے شہکار تخلیق کرے گی ،جس کی داد رنگ و نسل ، فرقہ و مذہب اور دیار و امصار سے ہٹ کر ہر ذہین اپنے اپنے رنگ میں دینے پر مجبور ہوگا مگر نظم طباطباعی کے ترجمے کی طرح اِس کی تصنیفات بہرحال مشینی تصنیفات ہی کہلائیں گی۔۔۔۔


 
آخری تدوین:
کیا مستقبل کے شعرا کی تخلیقی صلاحیتوں کا موازنہ اس بات سے ہو گا کہ کون سا شاعر ،اے آئی، کے ذریعہ بہتر غزل/نظم وغیرہ کہہ سکتا ہے؟ اور
مستقبل کے مشاعروں کی صورت کیا ہو گی؟
براہِ کرم رہنمائی فرمائیے۔ شکریہ
پہلے اِس ضمن میں اپنا نکتہ ٔ نظر تو ارشاد فرمائیں :
1۔ آپ نے اِسی مشینی کاوش کو کس نظر سے دیکھا اور اِس کے مصرعوں کی حیثیت آپ کے خیال میں کیا ہے؟
2۔ کیا فکر وخیال کا ایک مربوط نظام آپ کو اِس مشینی کاوش میں کہیں نظر آتا ہے ؟
3۔ خرم صاحب تو فرماتے ہیں کہ اِس کے خام مصرعوں کا بحر میں ہونا بھی ایک کارنامہ ہے تو عروض ڈاٹ اور تقطیع کی دیگر ویب سائٹیس یہ کام کرچکی ہیں جس سے غیر عروضیوں کی طرح اِس نے بھی استفادہ کیا ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اِس کے دو مصرعوں میں ایک منطقی ربط، زندگی کا تجربہ، حالات و واقعات کی تنقید اور تنقیح تو کہیں نظر آئے جو کہ ابھی اِس ابتدائی اسٹیج پر جو اِس مشین کے بچپن بلکہ نوزائیدگی کا زمانہ ہے ۔۔۔۔۔میں شاید ہی نظر آئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اِس سلسلے میں بشرطِ فرصت کچھ اور بھی کہنا چاہوں گا مگر آپ کی جو شعری مشقیں میں نے دیکھی ہیں اُن کی روشنی میں آپ بھی اِس مشینی کاوش کا جائزہ لیں اور اپنا تجربہ بیان کریں تاکہ تبصروں ، تجزیوں ، آراء ، تاثرات اور محسوسات کے تبادلے کی روایت یہاں پڑے ،بڑھے اور پھولے پھلے۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
پہلے اِس ضمن میں اپنا نکتہ ٔ نظر تو ارشاد فرمائیں :
1۔ آپ نے اِسی مشینی کاوش کو کس نظر سے دیکھا اور اِس کے مصرعوں کی حیثیت آپ کے خیال میں کیا ہے؟
2۔ کیا فکر وخیال کا ایک مربوط نظام آپ کو اِس مشینی کاوش میں کہیں نظر آتا ہے ؟
3۔ خرم صاحب تو فرماتے ہیں کہ اِس کے خام مصرعوں کا بحر میں ہونا بھی ایک کارنامہ ہے تو عروض ڈاٹ اور تقطیع کی دیگر ویب سائٹیس یہ کام کرچکی ہیں جس سے غیر عروضیوں کی طرح اِس نے بھی استفادہ کیا ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اِس کے دو مصرعوں میں ایک منطقی ربط، زندگی کا تجربہ، حالات و واقعات کی تنقید اور تنقیح تو کہیں نظر آئے جو کہ ابھی اِس ابتدائی اسٹیج پر جو اِس مشین کے بچپن بلکہ نوزائیدگی کا زمانہ ہے ۔۔۔۔۔میں شاید ہی نظر آئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اِس سلسلے میں بشرطِ فرصت کچھ اور بھی کہنا چاہوں گا مگر آپ کی جو شعری مشقیں میں نے دیکھی ہیں اُن کی روشنی میں آپ بھی اِس مشینی کاوش کا جائزہ لیں اور اپنا تجربہ بیان کریں تاکہ تبصروں ، تجزیوں ، آراء ، تاثرات اور محسوسات کے تبادلے کی روایت یہاں پڑے ،بڑھے اور پھولے پھلے۔۔۔۔۔۔۔​
محترم، میں تو ایک جاہل سا آدمی ہوں ۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ آپ جیسے اساتذہ سے سیکھنے کی غرض سے رہنمائی کی درخواست کی ہے ۔ تاہم مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فی الحال ،اے آئی، کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی ایسا شخص شعر کہنے کی ابتدائی کوشش کر رہا ہو جس میں شعر کہنے کی نہ تو قدرتی صلاحیت ہو اور نہ ہی وہ شعر کی بنت کے بارے میں زیادہ جانتا ہو ۔ اور ، اے آئی، شاید ہی کبھی خیال آفرینی اور احساسات میں انسان کا مقابلہ کر سکے ۔ لیکن ، اے آئی، میں ہونے والی ممکنہ ترقی کے پیشِ نظر مستقبل میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ واللّہ اعلم
 
لیکن ، اے آئی، میں ہونے والی ممکنہ ترقی کے پیشِ نظر مستقبل میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ واللّہ اعلم
وہ پہلا شخص جس کے دل میں اُڑنے کا خیال آیا ہوگا اور وہ پہلا شخص جس نے اُڑنے کی کوشش میں اپنے ہاتھ پیر تڑوائے ہوں گے اور وہ پہلا شخص جو اِس ابتدائی ہوائی مشین میں بیٹھ کر اُڑتوگیا ہوگا مگر کچھ اُڑ کر گرپڑ ا ہوگا اور وہ پہلا شخص جو بڑے اعتماد سے اِس مشین کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسے لیکر اُڑ اہوگا اور بحفاظت منزل پر پہنچ گیا ہوگا اور وہ پہلا حادثہ جو اِس مشین کا ہوا ہوگا ،جس میں کتنے ہی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہوں گے اور یہ آج ہمارے دور میں آسمانوں پر ہر وقت ہزاروں کی تعداد میں جدید مسافربردار جہاز کہ فضا ایک لمحے کے لیے جن سے خالی نہیں ہوتی اور یہ بھی ہمارے زمانے کی بات کہ ہوائی جہازخلائی شٹل بن کر چاندستاروں کے سفر پر گامزن ہے تو بتائیے کیا یہ ہوائی مشین پرندہ بن گئی ؟ہر گز نہیں مشین ہی رہی ۔
روبوٹس اور طرح طرح کے روبوٹس اور اب مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس آج بھی اِن کی حیثیت مشین کی ہے اور رہتی دنیا تک اِن کی حیثیت یہی رہیگی۔یہ آپ کے دئیے ہوئے ڈیٹا کی محتاج ایک ایسی مشین ہے جوں جوں اِس کا ڈیٹا بڑھتا جائیگااِس کا دائرۂ کار بھی بڑھتا چلا جائیگا مگر کچھ پتا نہیں کس وقت یہ ہینگ ہوجائے ، ڈیٹا صاف ہوجائے ، کوئی پرزہ ہی کام کرنا بند کردے جیسے آج ہمارے بچوں کے کمپیوٹر، اُن کی گیمنگ مشینیں ، اُن کے موبائل آئے دن طرح طرح کی خرابیوں سے دوچارہیں اور اُن کے ٹھیک کرنیوالوں کی روزی روٹی کا سبب ہیں ۔ بالکل ایسے ہی کبھی ہم گھریلو ملازم روبوٹ کاکوئی مرض دورکرانے کے لیے ایک مکینک کے پاس جاتے ہوئے نظر آئیں گے اور کبھی دوسرے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو معلوم ہے وہ مکینک بھی کوئی انسان نہیں مصنوعی ذہانت کا حامل کوئی روبوٹ ہی ہوگا۔
کمپیوٹر کی ایجاد اور اس کی روزبروز ترقی سے مجھے یہ آسانی ہوگئی کہ جب کوئی مضمون لکھتا ہوں اور کہیں اٹکتا ہوں تو انٹر نیٹ لائبریریاں میری پہنچ میں ہیں ۔وہاں اگرکوئی کتاب میری مددگار مجھے نہ ملے تو گوگل پر وہ لفظ لکھ دیتا ہوں وہ جہاں جہاں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے میری رہنمائی کرتے ہوئے مجھے وہاں پہنچا دیتا ہے ۔ شاعروں کو قافیوں کی تلاش میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں رہی ،ادیبوں کو لفظ کے مستند استعمال کے لیے دوڑلگانے کی حاجت نہیں رہی ، کسی بھی علم کی باتیں جاننے کے لیےمیلو ں کا سفر کرکے اساتذہ تک پہنچنے کا یارا نہیں تو ہرج نہیں کمپیوٹر نے یہ مشکل بھی آسان کردی ہے ۔
وہ لوگ جو اِس مشین کی خوراک یعنی ڈیٹا اِسے دے رہے ہیں اپنے اپنے شعبے کے اعلیٰ درجہ کے ماہر ہیں لہٰذا ان کی ضرورت جیسی اب ہے آیندہ بھی رہیگی۔۔۔۔۔تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں ، یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

مقبول

محفلین
وہ پہلا شخص جس کے دل میں اُڑنے کا خیال آیا ہوگا اور وہ پہلا شخص جس نے اُڑنے کی کوشش میں اپنے ہاتھ پیر تڑوائے ہوں گے اور وہ پہلا شخص جو اِس ابتدائی ہوائی مشین میں بیٹھ کر اُڑتوگیا ہوگا مگر کچھ اُڑ کر گرپڑ ا ہوگا اور وہ پہلا شخص جو بڑے اعتماد سے اِس مشین کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسے لیکر اُڑ اہوگا اور بحفاظت منزل پر پہنچ گیا ہوگا اور وہ پہلا حادثہ جو اِس مشین کا ہوا ہوگا ،جس میں کتنے ہی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہوں گے اور یہ آج ہمارے دور میں آسمانوں پر ہر وقت ہزاروں کی تعداد میں جدید مسافربردار جہاز کہ فضا ایک لمحے کے لیے جن سے خالی نہیں ہوتی اور یہ بھی ہمارے زمانے کی بات کہ ہوائی جہازخلائی شٹل بن کر چاندستاروں کے سفر پر گامزن ہے تو بتائیے کیا یہ ہوائی مشین پرندہ بن گئی ؟ہر گز نہیں مشین ہی رہی ۔
روبوٹس اور طرح طرح کے روبوٹس اور اب مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس آج بھی اِن کی حیثیت مشین کی ہے اور رہتی دنیا تک اِن کی حیثیت یہی رہیگی۔یہ آپ کے دئیے ہوئے ڈیٹا کی محتاج ایک ایسی مشین ہے جوں جوں اِس کا ڈیٹا بڑھتا جائیگااِس کا دائرۂ کار بھی بڑھتا چلا جائیگا مگر کچھ پتا نہیں کس وقت یہ ہینگ ہوجائے ، ڈیٹا صاف ہوجائے ، کوئی پرزہ ہی کام کرنا بند کردے جیسے آج ہمارے بچوں کے کمپیوٹر، اُن کی گیمنگ مشینیں ، اُن کے موبائل آئے دن طرح طرح کی خرابیوں سے دوچارہیں اور اُن کے ٹھیک کرنیوالوں کی روزی روٹی کا سبب ہیں ۔ بالکل ایسے ہی کبھی ہم گھریلو ملازم روبوٹ کاکوئی مرض دورکرانے کے لیے ایک مکینک کے پاس جاتے ہوئے نظر آئیں گے اور کبھی دوسرے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو معلوم ہے وہ مکینک بھی کوئی انسان نہیں مصنوعی ذہانت کا حامل کوئی روبوٹ ہی ہوگا۔
کمپیوٹر کی ایجاد اور اس کی روزبروز ترقی سے مجھے یہ آسانی ہوگئی کہ جب کوئی مضمون لکھتا ہوں اور کہیں اٹکتا ہوں تو انٹر نیٹ لائبریریاں میری پہنچ میں ہیں ۔وہاں اگرکوئی کتاب میری مددگار مجھے نہ ملے تو گوگل پر وہ لفظ لکھ دیتا ہوں وہ جہاں جہاں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے میری رہنمائی کرتے ہوئے مجھے وہاں پہنچا دیتا ہے ۔ شاعروں کو قافیوں کی تلاش میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں رہی ،ادیبوں کو لفظ کے مستند استعمال کے لیے دوڑلگانے کی حاجت نہیں رہی ، کسی بھی علم کی باتیں جاننے کے لیےمیلو ں کا سفر کرکے اساتذہ تک پہنچنے کا یارا نہیں تو ہرج نہیں کمپیوٹر نے یہ مشکل بھی آسان کردی ہے ۔
وہ لوگ جو اِس مشین کی خوراک یعنی ڈیٹا اِسے دے رہے ہیں اپنے اپنے شعبے کے اعلیٰ درجہ کے ماہر ہیں لہٰذا ان کی ضرورت جیسی اب ہے آیندہ بھی رہیگی۔۔۔۔۔تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں ، یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
جی۔ متفق ہوں۔ غالب امکان یہی ہے۔
 
مطلع نہیں ہے اس لئے صرف آخری الف کا نظم ہونا چاہیے قافیے میں، لیکن پہلے اور تیسرے کے قوافی میں مشترک حروف َ را، ہیں( روی) تب کہا جا سکتا ہے کہ ڑا والا قافیہ درست نہیں۔
آخری دو شہروں میں قافیے میں ں کا اضافہ ہو گیا ہے،اسے قافیہ ہی مانا جائے تو دونوں مسلسل اشعار میں ایک ہی قافیہ اچھا نہیں۔ بلکہ زیادہ درست بات یہ ہو گی کہ "یہاں" ان دونوں اشعار میں ردیف بن گئی ہے، اور اس سے پہلے قافیہ وہی پہلے والا قافیے کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے، یعنی ٹھہرا اور سمجھا، آخری الف والا!
ویسے درست ردیف و قوافی والی غزل بھی جنریٹ کی گئی ہے، ادریس آزاد کے تجربات دیکھیں میرے سَمت والے مضمون میں۔ انہوں نے تو چیٹ جی پی ٹی سے اپنی بات چیت بھی بیان کی ہے
جی بالکل سر میں نے ادریس آزاد کا کام دیکھا ہے۔ اس سے قبل میں چند اشعار کے تجربات کرچکا تھا، اس بار میں نے اس غزل میں ہر شعرکے لیے اپنا خیال پیش کیا ہے تاکہ دیکھیں کہ یہ مطلوبہ خیال نظم کرسکتا ہے یا نہیں۔ آپ کا بے حد شکریہ آپ نے قوافی کے حوالے سے رہنمائی فرمائی۔ بہت شکریہ، جزاک اللہ خیرا
 
خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر مصنوعی ذہانت فرمارہی ہےکہ زندگی کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ۔۔۔۔۔
زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں بھرا دنیا دکھوں اور تکلیفوں کا گڑھ ہے۔۔۔
یہ مسافر تو منزل سے محروم تھا مصنوعی ذہانت نے مسافر کو انسان کا استعارہ کیا ہے اور اُسے ازل سے منزل سے محروم بتایاہے۔۔۔۔
کچھ نصیبوں کا لکھا تھا لمحہ کڑا یہ محرومی نصیبوں میں پہلے سے درج تھی۔۔۔
خون دل کا بہا کر وہ دنیا گئی مشین نے ارمانوں کے پورا نہ ہونے کو دل کا خون ہونا بتاتے ہوئے اِسے انسان کی زندگی کا لازمہ قراردیا ہے۔۔۔۔
رہ گیا یاد میں اک غموں کا دھرا کہ زندگی کے بارے میں اُس کا یہ خیال صحیح ہے کہ زندگی دکھوں کا گھر، غموں کی آماج گاہ اور رنج والم کا نگرہے اس کے سوا اِسے کچھ اور سمجھنا عبث ہے۔۔۔۔
راہِ دنیا میں ہر موڑ اک راز ہے دنیا میں ہونیوالا ہر واقعہ ہونے سے پہلے ایک راز ہے ۔۔۔۔۔۔
پھر بھی انسان دھوکے میں کیوں جا رہا؟اِس کے باوجود انسان کی زندگی کا سفر جاری ہے۔۔۔۔یعنی انسان آیندہ واقعات کا علم پہلے سے پالینے کی جستجومیں سرگرداں ہے
جو ہے حاصل وہی تو مقدر میں تھا مشین نے کہا آج جو کچھ بھی سامنے ہے وہ پہلے سے مقدر تھا۔۔۔۔
وقت کی قید میں کون ٹھہرا یہاں؟یہ وقت کی طاقتور روش ہے کہ جب چاہتا ہے کچھ ظاہر کردیتا ہے اور بہت کچھ چھپائے رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔(اُسے وقت سے پہلے کھول نہیں سکتے)دیکھا جائے تو یہاں مشین نے بڑی گہری بات کہی ہے وقت کی قید میں زندگی ہے مگر ، چند گھڑیا ں یہی ہیں جو آزاد ہیں:فیاض ہاشمی: اِسے اِس طرح سے بھی سمجھنے کی کوشش کریں :وقت سے دن اور رات وقت سے کل اور آج ، وقت کی ہر شے غلام وقت کا ہرشے پہ راج۔۔۔۔گویا ہر ہر لمحہ وقت کا قیدی ہے اور ہر ہرلمحے پر وقت کو یہ اختیار ہے کہ کھول دے یا قید رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں مشین کو داد دینا پڑے گی۔۔۔۔مگر یہ دیکھنا ہے کہ واقعی مشین نے یہ باتیں اِسی تناظر میں کہی ہیں یا شعر برائے شعر ہے۔۔۔۔۔
ہم سفر کا تو مقصد تھا رستہ فقط۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں بھی مشین بات کو کئی پردوں میں لپیٹ کر بیان کرتی نظر آتی ہے ۔ ذرااِس کے شاعرانہ پردوں کا جائزہ لیں ۔ہم سفر کا مطلب خوشی اور مسرت کی چند گھڑیاں ہے،رستے کا مفہوم بجائے خود زندگی ہے ،منزلوں سے مرادوہ حقیقی خوشیاں ہیں جنھیں حاصل کرنے کے لیے بقول مشین انسان اندھیرے میں تیرچلارہا ہے۔۔۔۔۔۔
منزلیں کیا ہیں، یہ کس نے سمجھا یہاں؟
مشینی تُک بندی میں خیال آفرینی کی کوشش
خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگرخواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر
زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں بھرازندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں کا گھر
یہ مسافر تو منزل سے محروم تھایہ مسافر جو منزل سے محروم ہے
کچھ نصیبوں کا لکھا تھا لمحہ کڑاہے نصیبوں کے لکھے کا ہی یہ اثر
خون دل کا بہا کر وہ دنیا گئی خون دل کا ہوا زندگی لُٹ گئی
رہ گیا یاد میں اک غموں کا دھرا رہ گیا یاد بس ایک غم کا نگر
راہِ دنیا میں ہر موڑ اک راز ہےزندگی کیا ہے کوئی نہ سمجھا اسے
پھر بھی انسان دھوکے میں کیوں جا رہا؟گویا انجان رستوں کا ہے یہ سفر
جو ہے حاصل وہی تو مقدر میں تھا جو ملا بس وہی تھا مقدر ترا
وقت کی قید میں کون ٹھہرا یہاں؟وقت کے جبر سے ہے کسے یاں مُفر
ہم سفر کا تو مقصد تھا رستہ فقط ہم سفر اِس لیے ہے کٹے راستہ
منزلیں کیا ہیں، یہ کس نے سمجھا یہاں؟منزلوں کی اِسے ہے نہ اُس کو خبر
اب ہمیں دیکھنا ہے:
1۔ہماری بی مشین کا مذہب کیا ہے یعنی یہ اپنے اندر کے ڈیٹا کو کس نکتہ ٔ نظر سے دیکھ ، پرکھ اور برت رہی ہیں؟
2۔ مجھے تھامس گرے کی نظم ایلے جی (نوحہ ٔ غم )کا وہ ترجمہ یاد آگیا جو اُردُو زبان وادب کےایک جید ادیب حیدرعلی نظم طباطباعی نے کیاتھا اور اِس خوبصورتی سے کیا کہ اصل کو پیچھے چھوڑدیا تھا مگر اب بھی ’’گورِ غریباں ‘‘ کی حیثیت ترجمے کی ہے تصنیف کی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مشین بھی ایک دن شعروادب کی اعلیٰ ترین خوبیوں سے لیس ہوکر ایسے شہکار تخلیق کرے گی ،جس کی داد رنگ و نسل ، فرقہ و مذہب اور دیار و امصار سے ہٹ کر ہر ذہین اپنے اپنے رنگ میں دینے پر مجبور ہوگا مگر نظم طباطباعی کے ترجمے کی طرح اِس کی تصنیفات کی حیثیت بہرحال مشینی تخلیقات کی ہی رہیگی جوانسانی تخلیق وتصنیف سے صاف طور پرمتمیز ہونگی۔۔۔۔۔۔۔۔


آپ کی اس بہترین پوسٹ کے بدلے میں، ماسوائے شکریہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔سلامت رہیں۔ جزاک اللہ خیرا۔ ممنونم۔
یہاں دو باتیں گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ اول تو یہ کہ ہر شعر کا خیال میں نے اسے خود دیا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ محض تک بندی کے بجائے یہ اسے مطلوبہ بحر میں نظم کرپاتی ہے یا نہیں۔ اس لیے ان خیالات کو اس سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری بات یہ کہ اگر میں اسے خیالات نہ بھی دیتا تومجھے یقین تھا کہ یہ کچھ اچھے خیالات ہی پیش کرتی جس کی وجہ اس کے پاس مواد کا بے بہا خزانہ ہے۔
آپ نے اس کی تک بندی کو جس قدر خوبصورت سے پابندی کیا ہے، وہ آپ ہی کا خاصا ہے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اس فن میں بھی ماہر ہیں۔ سلامت رہیں۔ آمین۔
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
از قلم :آفتاب شاہ
کتاب: تنقید کا ادبی سفر
قسط نمبر :02
ناقدین کا خوف اور مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلیجنس)
کچھ ناقدین کا دوسرا اعتراض اے آئی پر یہ کیا جاتا ہے کہ شاعری عام ہوجائے گی۔ ہر فرد شاعر بن جائے گا نظم اور غزل کا معیار گر جائے گا اور کھرا کھوٹے کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ اس اعتراض کو کرنے والے شاید زمین کی بجائے کسی اور سیارے پر رہتے ہیں جنہیں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ اُردو زبان بولنے والوں کے اعداد تو کم ہوسکتے ہیں لیکن اچھے شعراء، بہتر شعراء، بہترین شعراء، قومی شعراء، بین الاقوامی شعراء، آفاقی شعراء ، لافانی شعراء اور صرف شعراء کے اعداد وشمار تو ابھی تک کسی بھی کتاب میں درج نہیں ہوسکے اور اس کی محض ایک ہی وجہ سامنے آئی ہے کہ کسی بھی کتاب کا دامن ابھی تک اتنا وسیع نہیں ہوسکا کہ اتنے شعراء کو اخراجِ تحسین پیش کر سکے۔ اس لیے یہ کہنا کہ اے آئی سے شعراء میں اضافہ ہوگا دراصل زمینی شعراء سے نظریں چرانے کے مترادف ہوگا۔ ہندوستان اور پاکستان میں تو یہ رواج ہے کہ اگر کسی کو کوئی کام نہیں آتا تو ماسٹر (اچھے اساتذہ سے معذرت) اور شاعری میں اپنی بے فطرتی صلاحیت سےاقبال و فیض و غالب بن جاتا ہے ۔اس لیے اگر اے آئی سے مزید شعراء پیدا ہو جائیں گے تو کونسا اچنبھے کی بات ہوگی؟ بقول ظفر اقبال کے شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ ناقدین جو شعراء کی تعداد میں اضافے کا رونا رو رہے ہیں انہیں اس بات کی فکر کرنے کی بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ جو شعراء اے آئی کے بغیر بے وزن، بے بحر، لایعنی مضامین ،ردی کلام کتابوں میں چھاپے جارہے ہیں اور مشاعروں میں پڑھے جارہے ہیں ان کا کیا کرنا ہے؟ کیا سچ میں ان کا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ جب ان کا کچھ نہیں کیا جاسکتا تو اے آئی کی مدد سے لکھنے والوں کا بھی کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکے گا۔ کیوں کہ جدت جب طاقت کا چلن چلتی ہے تو خود کو منوانے کی صلاحیت بھی پیدا کرلیتی ہے۔
اب یہاں بات اس کلام کی ہوجائے جو اے آئی سے لکھا جاسکتا ہے ۔ یقیناً اے آئی کا ذخیرہِ الفاظ انسانوں کی یاداشت سے بہت زیادہ ہوگا اور یہ کوئی برائی نہیں ہے بلکہ اے آئی کی ایک مثبت خوبی ہے جس کو استعمال کیا جانا چاہئے ۔ اب ایک چوتھے درجے کا شاعر (جبکہ اول درجے کا شاعر بھی اے آئی سے مدد لے سکتا ہے صرف یہ کہہ دینا کہ چوتھے درجے والے شعراء ہی اس بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں انتہائی غلط بات ہے) جب اے آئی کو نظم تخیلق کرنے کی کمانڈ دے گا تو کیا اوسط درجے اور چوتھے درجے کا شاعر اے آئی سے شکوہ یا جوابِ شکوہ تخلیق کروائے گا؟ ایک اوسط درجے کا ذہن اپنی سوچ اور خیال کے مطابق الفاظ کی ترتیب سے خوش ہوگا۔ اسی طرح جیسے ایک عام قاری کمرشل شعراء کو پڑھ اور سن کر ناچتا ہے جبکہ حقیقت میں اہلِ علم اس وقت جل بھن کر تکہ کباب بن رہے ہوتے ہیں ۔ اب یہاں پر اے آئی کی تخلیق جب سامنے آئے گی تو اسی شاعر کی ذہنی کیفیت کی عکاسی کر رہی ہوگی۔ اور اس تخلیق کا پیمانہ وہی ہوگا جو اس شاعر کی دماغی صلاحیت کو پیش کرتا ہو۔ اس تخلیق سے کسی بھی فرد کو تسکین حاصل ہوتی ہے یا وہ اسے رد کرتا ہے یہ الگ بحث ہے۔ مصنوعی ذہانت سے شاعری میں سب سے آسان تخلیق نظم کو سمجھا جاتا ہے اور نظم کیوں کہ کئی اقسام کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتی ہے اس لیے ناقدین اور علمِ عروض کے ماہرین اس پر ہاتھ ہولا رکھتے ہیں ۔آزاد نظم اور نثری نظم کو اے آئی کی مدد سے لکھنا بہت آسان ہوگا لیکن کیا کسی بھی ذہین و فطین قاری، ناقد، عالم کو کسی عظیم اور بہترین شاعر کی آزاد یا نثری نظم یاد ہے؟ اگر یاد ہے تو کیا عوامی سطح پر بھی لوگوں کو کہیں ایک دوسرے کو سناتے دیکھا گیا ہے؟ اگر ان نظموں کو کسی بھی پلیٹ فارم پر مقبولیت حاصل نہیں ہے تو اے آئی سے تخلیق شدہ نظموں کا حال اور مستقبل بھی یہی ہوگا۔ نظم کا سب سے مشکل اور گنجلک پیرایہ پابند حصوں میں سامنے آتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پر اے آئی کی قابلیت بکھر جائے گی۔ اوسط درجے کی نظمیں ہوں یا اعلیٰ درجے کی نظمیں ہوں ان کو یاد رکھنا اور کی فنی حیثیت کا اعتراف بہت کم سامنے آتا ہے اگرچہ کہ ان کی تخلیق میں تمام صلاحتیں صرف کر دی جائیں پھر بھی یہ تخلیقات غزل کے مقابلے پر کم تر ہی تسلیم کی جاتی ہیں اب اگر اے آئی کی نظموں کی جانب رخ کریں تو اے آئی کی تخلیق شده نظمیں دقیق الفاظ، ثقالت ذدہ انداز، بے ربطی کا نمونہ اور عروضی غلطیوں سے بھری ہوں گی۔ اس کے باوجود یہ فرض کرلیتے ہیں کہ اے آئی نظم کے میدان میں انقلاب برپا کردے گی تو کیا عوامی طور پر غزل کا مقام کم ہوجائے گا؟ لوگ نظمیں یاد کرنا شروع کردیں گے؟ ایک دوسرے کو چوک چوراہوں میں سنایا کریں گے؟ اُردو ادب میں صرف نظم کا راج ہوگا؟ اگر ایسا کچھ نہیں ہوگا تو جس طرح لوگوں نے میرا جی، ن م راشد، مجید امجد اور اقبال جیسے نظم گو شعراء کا صرف نام سنا ہے اور ان کا کلام پڑھنے کی کبھی زحمت نہیں کی اسی طرح اے آئی کی شعلہ نوائی بھی ادبی روٹیاں پکانے کے کام آئے گی اور روز نظموں کے پیڑے اے آئی کے تندور سے صحت مند نطمیہ نانوں کی شکل میں عوام کے سامنے رکھے جائیں گے۔
(جاری ہے)
 
الف عین
شکیل احمد خان23
محمد خرم یاسین

کیا مستقبل کے شعرا کی تخلیقی صلاحیتوں کا موازنہ اس بات سے ہو گا کہ کون سا شاعر ،اے آئی، کے ذریعہ بہتر غزل/نظم وغیرہ کہہ سکتا ہے؟ اور
مستقبل کے مشاعروں کی صورت کیا ہو گی؟
براہِ کرم رہنمائی فرمائیے۔ شکریہ

آپ کا سوال بہت دلچسپ ہے ۔ یووال نوح کی ایک کتاب مصنوعی ذہانت کے حوالے سے شایع ہوئی ہے جس میں اس نے اس کے بارے میں بہت سے خدشات ظاہر کیے ہیں۔ یہ خدشات زندگی کے ہر میدان سے منسلک ہوگئے ہیں ۔ مجھے ذاتی طورپر لگتا ہے کہ ہم کسی بھی ٹیکنالوجی کو قبول کرنے میں کچھ پس و پیش سے کام لیتے ہیں اور اس سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ مستقبل میں بھی وہ شعرا جو محض تک بندی نہیں کرتے، اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور اپنے فن کو درجہ کمال تک پہنچا سکتے ہیں، وہ اے آئی سے ایک قدم آگے رہیں گے۔ اگر اصل شعرا ہی ختم ہوجائیں (جو کہ نا ممکنات میں سے ہے جیسا کہ کلاسیک شعرا اور قوال تا حال زندہ ہیں اور ان کا دور کئی مرتبہ گزرنے کے باوجود پھر سے لوٹ آتا ہے) اور شاعری محض اے آئی کی مرہونِ منت ہوجائے تو تب ایسا ممکن ہوسکتا ہے کہ اس کی مدد سے تخلیق کی گئی شاعری ہی سے شاعر کے تخیل یا کمانڈ کا اندازہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ اے آئی کا تخیل مستقبل قریب میں اس قدر زرخیز نہیں ہوسکتا کہ یہ شعرا کو بالکل ہی ختم کردے۔
 
پہلے اِس ضمن میں اپنا نکتہ ٔ نظر تو ارشاد فرمائیں :
1۔ آپ نے اِسی مشینی کاوش کو کس نظر سے دیکھا اور اِس کے مصرعوں کی حیثیت آپ کے خیال میں کیا ہے؟
2۔ کیا فکر وخیال کا ایک مربوط نظام آپ کو اِس مشینی کاوش میں کہیں نظر آتا ہے ؟
3۔ خرم صاحب تو فرماتے ہیں کہ اِس کے خام مصرعوں کا بحر میں ہونا بھی ایک کارنامہ ہے تو عروض ڈاٹ اور تقطیع کی دیگر ویب سائٹیس یہ کام کرچکی ہیں جس سے غیر عروضیوں کی طرح اِس نے بھی استفادہ کیا ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اِس کے دو مصرعوں میں ایک منطقی ربط، زندگی کا تجربہ، حالات و واقعات کی تنقید اور تنقیح تو کہیں نظر آئے جو کہ ابھی اِس ابتدائی اسٹیج پر جو اِس مشین کے بچپن بلکہ نوزائیدگی کا زمانہ ہے ۔۔۔۔۔میں شاید ہی نظر آئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اِس سلسلے میں بشرطِ فرصت کچھ اور بھی کہنا چاہوں گا مگر آپ کی جو شعری مشقیں میں نے دیکھی ہیں اُن کی روشنی میں آپ بھی اِس مشینی کاوش کا جائزہ لیں اور اپنا تجربہ بیان کریں تاکہ تبصروں ، تجزیوں ، آراء ، تاثرات اور محسوسات کے تبادلے کی روایت یہاں پڑے ،بڑھے اور پھولے پھلے۔۔۔۔۔۔۔​

اس کے خام مصروعوں کا وزن میں ہونا ، میں اس لیے اہم سمجھتا ہوں کہ عروض ڈاٹ کام وغیرہ اصلاح دے سکتی ہیں، آپ کے کسی بھی خیال کو منظوم نہیں کرسکتیں۔ یہ تجربہ چوں کہ محض بحر بتا کر نہیں کیا گیا بلکہ اس میں ہر شعر کے لیے خیالات بھی میں نے خود دیے ہیں اس لیے میں اسے اہم سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے تخیل کو منظوم کررہی ہے۔
 
محترم، میں تو ایک جاہل سا آدمی ہوں ۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ آپ جیسے اساتذہ سے سیکھنے کی غرض سے رہنمائی کی درخواست کی ہے ۔ تاہم مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فی الحال ،اے آئی، کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی ایسا شخص شعر کہنے کی ابتدائی کوشش کر رہا ہو جس میں شعر کہنے کی نہ تو قدرتی صلاحیت ہو اور نہ ہی وہ شعر کی بنت کے بارے میں زیادہ جانتا ہو ۔ اور ، اے آئی، شاید ہی کبھی خیال آفرینی اور احساسات میں انسان کا مقابلہ کر سکے ۔ لیکن ، اے آئی، میں ہونے والی ممکنہ ترقی کے پیشِ نظر مستقبل میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ واللّہ اعلم
میں آپ کی دونوں باتوں سے متفق ہوں۔
 
وہ پہلا شخص جس کے دل میں اُڑنے کا خیال آیا ہوگا اور وہ پہلا شخص جس نے اُڑنے کی کوشش میں اپنے ہاتھ پیر تڑوائے ہوں گے اور وہ پہلا شخص جو اِس ابتدائی ہوائی مشین میں بیٹھ کر اُڑتوگیا ہوگا مگر کچھ اُڑ کر گرپڑ ا ہوگا اور وہ پہلا شخص جو بڑے اعتماد سے اِس مشین کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسے لیکر اُڑ اہوگا اور بحفاظت منزل پر پہنچ گیا ہوگا اور وہ پہلا حادثہ جو اِس مشین کا ہوا ہوگا ،جس میں کتنے ہی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہوں گے اور یہ آج ہمارے دور میں آسمانوں پر ہر وقت ہزاروں کی تعداد میں جدید مسافربردار جہاز کہ فضا ایک لمحے کے لیے جن سے خالی نہیں ہوتی اور یہ بھی ہمارے زمانے کی بات کہ ہوائی جہازخلائی شٹل بن کر چاندستاروں کے سفر پر گامزن ہے تو بتائیے کیا یہ ہوائی مشین پرندہ بن گئی ؟ہر گز نہیں مشین ہی رہی ۔
روبوٹس اور طرح طرح کے روبوٹس اور اب مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس آج بھی اِن کی حیثیت مشین کی ہے اور رہتی دنیا تک اِن کی حیثیت یہی رہیگی۔یہ آپ کے دئیے ہوئے ڈیٹا کی محتاج ایک ایسی مشین ہے جوں جوں اِس کا ڈیٹا بڑھتا جائیگااِس کا دائرۂ کار بھی بڑھتا چلا جائیگا مگر کچھ پتا نہیں کس وقت یہ ہینگ ہوجائے ، ڈیٹا صاف ہوجائے ، کوئی پرزہ ہی کام کرنا بند کردے جیسے آج ہمارے بچوں کے کمپیوٹر، اُن کی گیمنگ مشینیں ، اُن کے موبائل آئے دن طرح طرح کی خرابیوں سے دوچارہیں اور اُن کے ٹھیک کرنیوالوں کی روزی روٹی کا سبب ہیں ۔ بالکل ایسے ہی کبھی ہم گھریلو ملازم روبوٹ کاکوئی مرض دورکرانے کے لیے ایک مکینک کے پاس جاتے ہوئے نظر آئیں گے اور کبھی دوسرے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو معلوم ہے وہ مکینک بھی کوئی انسان نہیں مصنوعی ذہانت کا حامل کوئی روبوٹ ہی ہوگا۔
کمپیوٹر کی ایجاد اور اس کی روزبروز ترقی سے مجھے یہ آسانی ہوگئی کہ جب کوئی مضمون لکھتا ہوں اور کہیں اٹکتا ہوں تو انٹر نیٹ لائبریریاں میری پہنچ میں ہیں ۔وہاں اگرکوئی کتاب میری مددگار مجھے نہ ملے تو گوگل پر وہ لفظ لکھ دیتا ہوں وہ جہاں جہاں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے میری رہنمائی کرتے ہوئے مجھے وہاں پہنچا دیتا ہے ۔ شاعروں کو قافیوں کی تلاش میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں رہی ،ادیبوں کو لفظ کے مستند استعمال کے لیے دوڑلگانے کی حاجت نہیں رہی ، کسی بھی علم کی باتیں جاننے کے لیےمیلو ں کا سفر کرکے اساتذہ تک پہنچنے کا یارا نہیں تو ہرج نہیں کمپیوٹر نے یہ مشکل بھی آسان کردی ہے ۔
وہ لوگ جو اِس مشین کی خوراک یعنی ڈیٹا اِسے دے رہے ہیں اپنے اپنے شعبے کے اعلیٰ درجہ کے ماہر ہیں لہٰذا ان کی ضرورت جیسی اب ہے آیندہ بھی رہیگی۔۔۔۔۔تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں ، یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
آج مصنوعی ذہانت کی پوسٹ پر ایک دوست نے کمنٹ کیا کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اس غزل پر جو باتیں یعنی پوسٹ لکھی ہے وہ بھی مصنوعی ذہانت ہی سے لکھی ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر کچھ غصہ آیا اور کچھ اپنی فکر لاحق ہوئی۔ نئے تجربات کرنے اور پیش کرنے پر کچھ لوگ مجھ ایسے لوگوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ شاید ہم معمولی بات چیت بھی مصنوعی ذہانت ہی کی مدد سے کر رہے ہیں ۔۔۔یہ بہت خطرناک بات ہے اور ایک طرح سے الزام ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں تو یہاں اس فورم پر کئی سال گزارنے کے باوجود اس قابل بھی نہیں ہوں کہ اس کی فارمیٹنگ درست کردوں۔ یہ خدشہ مستقبل میں تمام غیر معروف شعرا اور ادبا کو بھی ہوگا۔ لوگ ان پر شک کریں گے یا الزام لگائیں گے۔ اس کی مستقبل میں صورتِ حال نہ جانے کیا ہو لیکن یہ بات بہرحال قدرتی ذہانت سے تخلیق کرنے والے شعرا و ادبا کے لیے تکلیف دہ ہے۔
 
از قلم :آفتاب شاہ
کتاب: تنقید کا ادبی سفر
قسط نمبر :02
ناقدین کا خوف اور مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلیجنس)
کچھ ناقدین کا دوسرا اعتراض اے آئی پر یہ کیا جاتا ہے کہ شاعری عام ہوجائے گی۔ ہر فرد شاعر بن جائے گا نظم اور غزل کا معیار گر جائے گا اور کھرا کھوٹے کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ اس اعتراض کو کرنے والے شاید زمین کی بجائے کسی اور سیارے پر رہتے ہیں جنہیں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ اُردو زبان بولنے والوں کے اعداد تو کم ہوسکتے ہیں لیکن اچھے شعراء، بہتر شعراء، بہترین شعراء، قومی شعراء، بین الاقوامی شعراء، آفاقی شعراء ، لافانی شعراء اور صرف شعراء کے اعداد وشمار تو ابھی تک کسی بھی کتاب میں درج نہیں ہوسکے اور اس کی محض ایک ہی وجہ سامنے آئی ہے کہ کسی بھی کتاب کا دامن ابھی تک اتنا وسیع نہیں ہوسکا کہ اتنے شعراء کو اخراجِ تحسین پیش کر سکے۔ اس لیے یہ کہنا کہ اے آئی سے شعراء میں اضافہ ہوگا دراصل زمینی شعراء سے نظریں چرانے کے مترادف ہوگا۔ ہندوستان اور پاکستان میں تو یہ رواج ہے کہ اگر کسی کو کوئی کام نہیں آتا تو ماسٹر (اچھے اساتذہ سے معذرت) اور شاعری میں اپنی بے فطرتی صلاحیت سےاقبال و فیض و غالب بن جاتا ہے ۔اس لیے اگر اے آئی سے مزید شعراء پیدا ہو جائیں گے تو کونسا اچنبھے کی بات ہوگی؟ بقول ظفر اقبال کے شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ ناقدین جو شعراء کی تعداد میں اضافے کا رونا رو رہے ہیں انہیں اس بات کی فکر کرنے کی بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ جو شعراء اے آئی کے بغیر بے وزن، بے بحر، لایعنی مضامین ،ردی کلام کتابوں میں چھاپے جارہے ہیں اور مشاعروں میں پڑھے جارہے ہیں ان کا کیا کرنا ہے؟ کیا سچ میں ان کا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ جب ان کا کچھ نہیں کیا جاسکتا تو اے آئی کی مدد سے لکھنے والوں کا بھی کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکے گا۔ کیوں کہ جدت جب طاقت کا چلن چلتی ہے تو خود کو منوانے کی صلاحیت بھی پیدا کرلیتی ہے۔
اب یہاں بات اس کلام کی ہوجائے جو اے آئی سے لکھا جاسکتا ہے ۔ یقیناً اے آئی کا ذخیرہِ الفاظ انسانوں کی یاداشت سے بہت زیادہ ہوگا اور یہ کوئی برائی نہیں ہے بلکہ اے آئی کی ایک مثبت خوبی ہے جس کو استعمال کیا جانا چاہئے ۔ اب ایک چوتھے درجے کا شاعر (جبکہ اول درجے کا شاعر بھی اے آئی سے مدد لے سکتا ہے صرف یہ کہہ دینا کہ چوتھے درجے والے شعراء ہی اس بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں انتہائی غلط بات ہے) جب اے آئی کو نظم تخیلق کرنے کی کمانڈ دے گا تو کیا اوسط درجے اور چوتھے درجے کا شاعر اے آئی سے شکوہ یا جوابِ شکوہ تخلیق کروائے گا؟ ایک اوسط درجے کا ذہن اپنی سوچ اور خیال کے مطابق الفاظ کی ترتیب سے خوش ہوگا۔ اسی طرح جیسے ایک عام قاری کمرشل شعراء کو پڑھ اور سن کر ناچتا ہے جبکہ حقیقت میں اہلِ علم اس وقت جل بھن کر تکہ کباب بن رہے ہوتے ہیں ۔ اب یہاں پر اے آئی کی تخلیق جب سامنے آئے گی تو اسی شاعر کی ذہنی کیفیت کی عکاسی کر رہی ہوگی۔ اور اس تخلیق کا پیمانہ وہی ہوگا جو اس شاعر کی دماغی صلاحیت کو پیش کرتا ہو۔ اس تخلیق سے کسی بھی فرد کو تسکین حاصل ہوتی ہے یا وہ اسے رد کرتا ہے یہ الگ بحث ہے۔ مصنوعی ذہانت سے شاعری میں سب سے آسان تخلیق نظم کو سمجھا جاتا ہے اور نظم کیوں کہ کئی اقسام کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتی ہے اس لیے ناقدین اور علمِ عروض کے ماہرین اس پر ہاتھ ہولا رکھتے ہیں ۔آزاد نظم اور نثری نظم کو اے آئی کی مدد سے لکھنا بہت آسان ہوگا لیکن کیا کسی بھی ذہین و فطین قاری، ناقد، عالم کو کسی عظیم اور بہترین شاعر کی آزاد یا نثری نظم یاد ہے؟ اگر یاد ہے تو کیا عوامی سطح پر بھی لوگوں کو کہیں ایک دوسرے کو سناتے دیکھا گیا ہے؟ اگر ان نظموں کو کسی بھی پلیٹ فارم پر مقبولیت حاصل نہیں ہے تو اے آئی سے تخلیق شدہ نظموں کا حال اور مستقبل بھی یہی ہوگا۔ نظم کا سب سے مشکل اور گنجلک پیرایہ پابند حصوں میں سامنے آتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پر اے آئی کی قابلیت بکھر جائے گی۔ اوسط درجے کی نظمیں ہوں یا اعلیٰ درجے کی نظمیں ہوں ان کو یاد رکھنا اور کی فنی حیثیت کا اعتراف بہت کم سامنے آتا ہے اگرچہ کہ ان کی تخلیق میں تمام صلاحتیں صرف کر دی جائیں پھر بھی یہ تخلیقات غزل کے مقابلے پر کم تر ہی تسلیم کی جاتی ہیں اب اگر اے آئی کی نظموں کی جانب رخ کریں تو اے آئی کی تخلیق شده نظمیں دقیق الفاظ، ثقالت ذدہ انداز، بے ربطی کا نمونہ اور عروضی غلطیوں سے بھری ہوں گی۔ اس کے باوجود یہ فرض کرلیتے ہیں کہ اے آئی نظم کے میدان میں انقلاب برپا کردے گی تو کیا عوامی طور پر غزل کا مقام کم ہوجائے گا؟ لوگ نظمیں یاد کرنا شروع کردیں گے؟ ایک دوسرے کو چوک چوراہوں میں سنایا کریں گے؟ اُردو ادب میں صرف نظم کا راج ہوگا؟ اگر ایسا کچھ نہیں ہوگا تو جس طرح لوگوں نے میرا جی، ن م راشد، مجید امجد اور اقبال جیسے نظم گو شعراء کا صرف نام سنا ہے اور ان کا کلام پڑھنے کی کبھی زحمت نہیں کی اسی طرح اے آئی کی شعلہ نوائی بھی ادبی روٹیاں پکانے کے کام آئے گی اور روز نظموں کے پیڑے اے آئی کے تندور سے صحت مند نطمیہ نانوں کی شکل میں عوام کے سامنے رکھے جائیں گے۔
(جاری ہے)
اچھے نکات اٹھائے گئے ہیں ۔ اکثر سے میں متفق ہوں لیکن یہاں یہ کہنا چاہوں گاکہ ابھی اے آئی ہم سے سیکھ رہی ہے اور پہلے فیز میں ہے، اسے تین فیز اور آگے جانا ہے۔ میرے ایک دوست ہیں جو کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں اور کینڈا سے پڑھ کر آئے تھے۔ نو سال سے یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ اے آئی کے ماہر ہیں اور بچوں کو سکھاتے بھی ہیں۔ اوپر بیان کیے گئے اکثر نکات پر میں ان سے گفتگو کرچکا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اے آئی مستقبل میں ایسی صلاحیتوں سے مالا مال ہوگی جن کی وجہ سے ادنیٰ درجے کے تخلیق کار وں کو سخت مشکل درپیش ہوگی۔ آپ اس وقت کا تصور بھی کرسکتےہیں جو کلاسیکی شعرا کو پڑھنے اور سمجھنے والے ہی نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے، اس وقت شاعری کی کیا صورت ہوگی اور کیا لوگوں میں اے آئی کی شاعری کا رجحان نہیں بڑھ جائے گا۔ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ یونیورسٹی میں مجھے اس بار نفسیات، انگلش اور ایجوکیشن کے شعبہ جات کے بچوں کو اردو زبان و ادب پڑھانے کے لیے کہاگیا ہے۔ پچاس ساٹھ کی ہر کلاس میں سے بمشکل تمام ہی کوئی بچہ اچھی اردو بول سکتا ہے یا پڑھ سکتا ہے ۔ لکھنے میں تو سینکڑوں اغلاط ہیں۔ان کے ہاں تخلیقی رویے معدوم ہیں ۔ شعبہ اردوکے بچوں کو ہر لیکچر میں کہتا ہوں، کچھ لکھیں، دکھائیں، اصلاح لیں۔ تخلیقی کام بھی دیتا ہوں لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ایک جھلک میٹرک تک کے بچوں کی بھی ملاحظہ کیجیے، سلیبس میں شامل تین غزلیں پڑھنا، ان کے معانی تک رسائی اور بین السطور کا مطالعے میں ایک سال چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انھیں طویل ریپ سونگز ، بھنگڑا سونگز اور سکھ گلوکاروں میں سے اکثریت کے گانے یاد ہیں۔ ٹک ٹاک اور فیس بک پربے تکی شاعری عام ہے۔۔۔اس ساری صورتِ حال کو مد نظر رکھیں تو مجھے اکثر لگتا ہے کہ کلاسیک شعرا شاید ہماری نسل تک ہی کلاسیک رہیں گے، اگلی ایک دو نسلوں کے بعد انھیں جاننے والے بھی کم ہی رہ جائیں گے۔ ایسے میں مصنوعی ذہانت جو اب وٹس ایپ پر میٹا تک کی صورت میں موجود ہے، عین ممکن ہے روایتی شاعری اور معیارات کے ادھورے خاتمے کا راستہ استوار کرے۔ ہم بہت آہستگی سے پہلے ہی اس جانب بڑھ بھی رہے ہیں۔
 

مقبول

محفلین
اچھے نکات اٹھائے گئے ہیں ۔ اکثر سے میں متفق ہوں لیکن یہاں یہ کہنا چاہوں گاکہ ابھی اے آئی ہم سے سیکھ رہی ہے اور پہلے فیز میں ہے، اسے تین فیز اور آگے جانا ہے۔ میرے ایک دوست ہیں جو کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں اور کینڈا سے پڑھ کر آئے تھے۔ نو سال سے یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ اے آئی کے ماہر ہیں اور بچوں کو سکھاتے بھی ہیں۔ اوپر بیان کیے گئے اکثر نکات پر میں ان سے گفتگو کرچکا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اے آئی مستقبل میں ایسی صلاحیتوں سے مالا مال ہوگی جن کی وجہ سے ادنیٰ درجے کے تخلیق کار وں کو سخت مشکل درپیش ہوگی۔ آپ اس وقت کا تصور بھی کرسکتےہیں جو کلاسیکی شعرا کو پڑھنے اور سمجھنے والے ہی نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے، اس وقت شاعری کی کیا صورت ہوگی اور کیا لوگوں میں اے آئی کی شاعری کا رجحان نہیں بڑھ جائے گا۔ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ یونیورسٹی میں مجھے اس بار نفسیات، انگلش اور ایجوکیشن کے شعبہ جات کے بچوں کو اردو زبان و ادب پڑھانے کے لیے کہاگیا ہے۔ پچاس ساٹھ کی ہر کلاس میں سے بمشکل تمام ہی کوئی بچہ اچھی اردو بول سکتا ہے یا پڑھ سکتا ہے ۔ لکھنے میں تو سینکڑوں اغلاط ہیں۔ان کے ہاں تخلیقی رویے معدوم ہیں ۔ شعبہ اردوکے بچوں کو ہر لیکچر میں کہتا ہوں، کچھ لکھیں، دکھائیں، اصلاح لیں۔ تخلیقی کام بھی دیتا ہوں لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ایک جھلک میٹرک تک کے بچوں کی بھی ملاحظہ کیجیے، سلیبس میں شامل تین غزلیں پڑھنا، ان کے معانی تک رسائی اور بین السطور کا مطالعے میں ایک سال چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انھیں طویل ریپ سونگز ، بھنگڑا سونگز اور سکھ گلوکاروں میں سے اکثریت کے گانے یاد ہیں۔ ٹک ٹاک اور فیس بک پربے تکی شاعری عام ہے۔۔۔اس ساری صورتِ حال کو مد نظر رکھیں تو مجھے اکثر لگتا ہے کہ کلاسیک شعرا شاید ہماری نسل تک ہی کلاسیک رہیں گے، اگلی ایک دو نسلوں کے بعد انھیں جاننے والے بھی کم ہی رہ جائیں گے۔ ایسے میں مصنوعی ذہانت جو اب وٹس ایپ پر میٹا تک کی صورت میں موجود ہے، عین ممکن ہے روایتی شاعری اور معیارات کے ادھورے خاتمے کا راستہ استوار کرے۔ ہم بہت آہستگی سے پہلے ہی اس جانب بڑھ بھی رہے ہیں۔
آپ نے درست منظر کشی کی ہے۔ پاکستان میں اردو کی قومی زبان کے طور پر اور باقی علاقائی زبانوں کی اس زبوں حالی کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ پالیسیاں کچھ اس طرح کی ہیں کہ ہر شخص آج اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھانا چاہتا ہے ۔ گھروں میں زبانوں کا ملغوبہ بولا جاتا ہے اور اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ کل کو ہم شاید چینی زبان پر چڑھ جائیں گے۔ اردو کے اساتذہ بھی گفتگو میں انگریزی کے تڑکے لگاتے ہیں ۔تمام میڈیا اس دوغلہ پن کے ذریعہ معاشرے پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر جس کا دل کرتا ہے اپنے بے وزن اشعار علامہ اقبال ، غالب اور فراز کے نام سے پوسٹ کر دیتا ہے۔ اس ماحول میں فقط بچوں کو کتنا قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ہم من حیث القوم ہی قصور وار ہیں شاید۔
میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے وزن اور شاعری کے بنیادی لوازمات کا علم نہیں ہے لیکن کچھ شعرا کی مدد سے انہوں نے اپنی کتاب بھی شائع کر لی ہے۔ آج کل ان سے انٹر نیشنل مشاعروں کی صدارت کروائی جا رہی ہے اور بڑے بڑے مستند شعرا ان کی صدارت میں مشاعرے پڑھ رہے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!
 
Top