اے افواج پاکستان

عمر میرزا

محفلین
اے افواج پاکستان کے مسلمانو!
اس مشرف کو اکھاڑ پھینکو جو امریکی راج کا تحفظ کر رہا ہے

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا !
" بے شک فرعون نے زمین میں سر اٹھا رکھا تھا اور وہاں کے باشندوں کو گروہوں میں بانٹ رکھا تھا ۔ (فرعون نے ) ان میں میں سے ایک گروہ کو کمزور کر دیا تھا، حتیٰ کہ وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا،بے شک وہ فساد پھیلانے والوں میں سے تھا " (القصص :4)

ماہ رمضان کے دوران ، جو مسلمانوں کے لئے فتوحات کا مہینہ ہوا کرتا تھا ، پرویز مشرف نے آپ کو حکم دیا کہ آپ قبائلی علاقوں میں اپنے مسلمانوں بھائیوں کے خلاف جنگ کریں ، جن کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ جرم یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ظالمانہ قبضے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں کے گاؤں اور قصبوں پر بمباری کرکے عورتوں ، بچوں اور بزرگوں کو ہلاک کیا گیا ، سینکڑوں معصوم مسلمانوں کا پاک لہو بے دریغ بھایا گیا ، وہ خون جس کا ایک ایک قطرہ اللہ اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر میں قیمتی ہے ۔اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہزاروں مسلمان جاں بحق یا زحمی ہو چکے ہیں۔
بلاشبہ مشرف نے اپنے جرائم میں فرعون کو بھی مات دے دی ہے ۔فرعون کے برعکس ،مشرف نے کچھ لوگوں کو ہی کمزور نہیں کیا بلکہ وہ مسلمانوں کے درمیان گنگ کروا کر تمام مسلمانوں کو کمزور کر رہا ہے ، تاکہ اسلامی علاقوں پر امریکی راج مستحکم ہو جائے۔ اور فرعون کے برعکس مشرف نے عورتوں کو بھی نہیں چھوڑا ، کیونکہ اس نے بورھوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے قتل کا بھی حکم دیا جیسا کہ اس نے لال مسجد میں کیا تھا۔
تا ہم یاد کیجئیے کہ فرعون نے خود لوگوں کو تقسیم نہیں کیا تھا اور خود اپنے ہاتھوں سے تمام معصوم لوگوں کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ اس نے دوسروں سے یہ کام کروایا تھا ۔ چناچہ فرعون کے ماتحت بھی فرعون کے جرم اور گناہ میں شریک ہو گئے ، اور زلت ورسوائی میں بھی شریک تھے جو فرعون کو دنیا میں ملی اور آخرت میں فرعون کو جو عزاب ملے گا وہ اس میں بھی شریک ہوں گے۔

اے مسلمانان افواج پاکستان !
آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ مسلمانوں کے محافظ رہیں گے اور اسلامی علاقوں کا دفاع کریں گے۔ قبائلی علاقوں کے مسلمان آپ کے بھائی ہیں ۔ اور اسلام نے اپنے مسلمان بھائی کو ناحق قتل کرنے کو ایک عظیم جرم قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر )) " مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے " ( بخاری)

اور یاد رکھئے اسلام نے مسلمان پر حرام کیا ہے کہ وہ کسی انسان کی حاطر اللہ کی نافرمانی کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لا طاعتہ لمخلوق فی معصیہ اللہ )) " اس کام میں مخلوق کی اطاعت نہ کرو جو اللہ کی نافرمانی پر مبنیٰ‌ہو "( مسند احمد )

اے مسلمانان افواج پاکستان !
رمضان کے مہینے میں اور عید کے دوران حزب التحریر کے نوجوان ، مسلمانوں اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف اس جرم پر احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلے ۔آپ حزب التحریر سے اچھی طرح واقف ہیں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ حزب اس وقت تک نہیں رکے گی۔جب تک اللہ کا دین غالب نہ آجائے یا ھمارا سر تن سے جدا نہ ہو جائے ۔پس ہم اپنے وقت کے فرعون کے ھاتھوں تمام تر ظلم وجبر کے باوجود آپ کو مسلسل پکارتے رہیں گے۔ انشاءاللہ ہم اللہ سے کئے ھوئے وعدے کو پورا کریں گے اور ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ بھی اپنے وعدہ کو پورا کرو ۔

اے خالد بن ولید ،طارق بن زیاد کے بیٹو! کیا آپ تمنا نہیں کرتے کہ اللہ آپ کو فتح یا شہادت میں سے ایک سعادت عطا کرے ؟ کیا آپ تمنا نہیں کرتے کہ آپ کا خون اللہ کے دین کو غالب کرنے میں کام نہ آئے نہ کہ آپ کا قیمتی خون اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنے میں ضائع ھو جائے۔ آج ہمارے مسلمان بھائیوں کے خلاف جو شر ہو رہا ہے اور اگر امریکہ ہم سب پر اپنا راج مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کے جو بھیانک نتائج نکلیں گے ،آپ سے قیامت کے دن اس سے متعلق پوچھا جائے گا ۔پس معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔آپ اس ظالم حکمران کو ہٹانے اور اس کی بجائے خلافت کو قائم کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں ۔۔تو کیا آپ جواب نہیں دیں گے؟


15 اکتوبر 2007
حزب التحریر
ولایہ پاکستان
 

خرم

محفلین
السلام علیکم،

آپ کی تحریر کی کچھ باتوں پر اظہار رائے کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ برداشت فرمائیں گے۔ کچھ عرصہ سے ہم سب کا رواج ہو گیا کہ ہر کوئی احادیث کا مطلب اپنی مرضی کے مطابق نکالتا ہے اور اس پر اصرار کو عین اسلام گردانتا ہے۔ معذرت کے ساتھ لیکن آپ کے خیالات بھی کچھ اسی قسم کے ہیں۔ جذباتیت بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر مثبت ہو۔ اگر جذباتی ہو کر اپنے ہی آپ کو آگ لگا دی جائے تو عین حرام ہے۔
" بے شک فرعون نے زمین میں سر اٹھا رکھا تھا اور وہاں کے باشندوں کو گروہوں میں بانٹ رکھا تھا ۔ (فرعون نے ) ان میں میں سے ایک گروہ کو کمزور کر دیا تھا، حتیٰ کہ وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا،بے شک وہ فساد پھیلانے والوں میں سے تھا " (القصص :4)
جن لوگوں نے مسلمانوں کو بھی صحیح مسلمان اور غلط مسلمانوں میں‌تقسیم کر دیا ہے ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ جن کے نزدیک عورتوں کا تعلیم حاصل کرنا ہی غلط وہ کون ہیں؟ جن کے نزدیک داڑھی منڈوانا قابل تعزیر جرم ہے، جن کے نزدیک موسیقی سُننا قابل گردن زنی ہے، یہ لوگ فساد پھیلانے والے نہیں؟ جو لوگوں کو ذبح کرتے ہیں یہ مفسد نہیں؟
ماہ رمضان کے دوران ، جو مسلمانوں کے لئے فتوحات کا مہینہ ہوا کرتا تھا ، پرویز مشرف نے آپ کو حکم دیا کہ آپ قبائلی علاقوں میں اپنے مسلمانوں بھائیوں کے خلاف جنگ کریں ، جن کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ جرم یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ظالمانہ قبضے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
کس کے حکم سے مزاحمت کر رہے ہیں؟ ایک حدیث نکال کر دکھا دیجئے جس میں لکھا ہو کہ ایک ریاست کے ہوتے ہوئے خود سے ایسے فیصلے کرنا جائز ہے۔ افغانستان میں‌امریکہ کا ظالمانہ قبضہ۔ کہاں کا قبضہ؟ کتنی فوج ہے امریکہ کی افغانستان میں اور کہاں کہاں ہے؟ کچھ یہ بھی تو ارشاد فرمائیے۔ افغان خود تو آرام سے ہیں آپ لوگ انکی محبت میں اپنے گھر کو آگ لگائیں۔ کونسا اسلام کہتا ہے کہ آپ اپنی قوم کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرو اور ان معاہدوں کی بھی جو آپ کی قوم نے کیے تھے؟ آپ کے ملک میں تمام بیماریاں تمام خرابیاں ختم ہو گئی ہیں جو آپ کو ہمسایہ ملک میں جہاد کا شوق کودا ہے؟ پہلے اپنے آپ کو تو درست کر لو۔ پہلے اپنی جہالت تو دور کرلو پھر کسی اور کی طرف سوچنا۔ آج اگر آپ کے گھر میں کسی کو کینسر ہو جائے تو امریکی مشینوں‌پر امریکی دوائیوں سے اور امریکہ پلٹ ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہو۔ ارے آپ کے پاس تو وہ اسلحہ بھی اپنا نہیں جس سے آپ یہ "جہاد" کر رہے ہو اور ڈینگیں مارتے ہو۔ کیسے مسلمان ہو جنہیں‌علم و وعمل سے دور کی بھی نسبت نہیں؟ کیسے امتی ہو رحمت اللعالمین کے جنہیں انسانیت سے پیار ہی نہیں؟ بندوق اٹھا کر دوسرے کو گولی مارنا بہت آسان ہے، اپنے اندر کے انسان کو فتح کرو۔ بڑھکیں نہیں مارو عمل کرو۔ پہلے اپنے آپ کو درست کرو پھر کسی اور کی سوچنا۔ پہلے اپنے نفس کی اکڑ تو فتح کرلو پھر امریکہ کو فتح کر لینا۔ ویسے ایک بات بتاؤں؟ اگر اپنے اندر کی خرابیاں‌دور کرلو نا تو پھر تمہی امریکہ ہوگے۔ اور ویسے جن افغان "بھائیوں" کی خاطر آپ لوگوں‌کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے نا یہ وہی ہیں جو آپ "غیر افغانی" لوگوں‌کو چھوڑ کر خود راتوں رات غائب ہو گئے تھے۔
بلاشبہ مشرف نے اپنے جرائم میں فرعون کو بھی مات دے دی ہے ۔فرعون کے برعکس ،مشرف نے کچھ لوگوں کو ہی کمزور نہیں کیا بلکہ وہ مسلمانوں کے درمیان گنگ کروا کر تمام مسلمانوں کو کمزور کر رہا ہے ، تاکہ اسلامی علاقوں پر امریکی راج مستحکم ہو جائے۔ اور فرعون کے برعکس مشرف نے عورتوں کو بھی نہیں چھوڑا ، کیونکہ اس نے بورھوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے قتل کا بھی حکم دیا جیسا کہ اس نے لال مسجد میں کیا تھا۔
اسلامی علاقوں پر امریکی راج۔ کیا بات ہے۔ امریکہ کو اگر اسلام سے اتنی ہی دشمنی ہے تو پھر اسلام امریکہ میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب کیوں‌ہے؟ مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جب امریکہ مسلمان ہوگا اور ہم لوگ تباہ حال کہ اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تم اللہ کا فرمان نہ مانو گے تو تمہیں ایسی قوم سے بدل دیا جائے گا جو تم سے بہتر ہو۔ لال مسجد، لال مسجد، کان پک گئے یہ سُن سُن کر۔ اگر آپ لوگوں کا اسلام وہی ہے جو لال مسجد والوں کا تھا تو کان کھول کر سُن لو "محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم" کے لائے ہوئے اسلام کی روح سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور روح کے بغیر سب کچھ مردہ ہے۔ میری بات پر شک ہے؟ پہلے آپ قرآن کی اس آیت پر ایمان لے آئیے جو غازی شہید والے دھاگہ میں بتائی تھی پھر باقی اسلام کی بات کریں گے۔
آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ مسلمانوں کے محافظ رہیں گے اور اسلامی علاقوں کا دفاع کریں گے۔ قبائلی علاقوں کے مسلمان آپ کے بھائی ہیں ۔ اور اسلام نے اپنے مسلمان بھائی کو ناحق قتل کرنے کو ایک عظیم جرم قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر )) " مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے " ( بخاری)

اور یاد رکھئے اسلام نے مسلمان پر حرام کیا ہے کہ وہ کسی انسان کی حاطر اللہ کی نافرمانی کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لا طاعتہ لمخلوق فی معصیہ اللہ )) " اس کام میں مخلوق کی اطاعت نہ کرو جو اللہ کی نافرمانی پر مبنیٰ‌ہو "( مسند احمد )
کسی حدیث سے نکال کر دکھائیے کہ جو تین فوجی آپ کے محبوب طالبان نے گولی مار کر ہلاک کئے اور ان کی تصاویر و ویڈیو بنائی، وہ جائز ہے۔ کسی آیت سے ثابت کیجئے کہ عورتو‌ں کا تعلیم حاصل کرنا ناجائز ہے۔ کسی صحابی کے قول سے ثابت کیجئے کہ مسلمان اکثریت کے خلاف تلوار اٹھانا جائز ہے؟ آپ لوگ تو لوگوں کو اللہ کی نافرمانی پر اکساتے ہو۔ کیا اسلام نے اطاعت امیر کا حکم نہیں دیا؟ اپنی مطلب کی احادیث آپ سب کو بہت آتی ہیں۔ کن لوگوں‌کی خاطر آپ لوگ جہاد کر رہے ہیں؟ کبھی ان کے کردار پر بھی سوچا؟ اس کی خاطر تمام امت کو مار رہے ہیں اور مروا رہے ہیں جس کے اپنے گھر والے دنیا جہان کا عیش کرتے ہیں۔ اسامہ کی ماں کا مذہب پتا ہے آپ کو؟ بات کرتے ہیں اسلام کی۔
رمضان کے مہینے میں اور عید کے دوران حزب التحریر کے نوجوان ، مسلمانوں اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف اس جرم پر احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلے ۔آپ حزب التحریر سے اچھی طرح واقف ہیں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ حزب اس وقت تک نہیں رکے گی۔جب تک اللہ کا دین غالب نہ آجائے یا ھمارا سر تن سے جدا نہ ہو جائے
جاؤ بھائی جاؤ پہلے جاکر کسی سے دین سیکھو۔ اپنے نفس پر قابو پانا سیکھو انسانوں سے پیار کرنا سیکھو پھر اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا دعوٰی کرنا۔ سر تن سے جدا کروانے والو پہلے اپنے گلی محلہ سے اپنے خاندان سے رشوت خوری، ناجائز منافع خوری، ملاوٹ، جھوٹ اور ظلم جدا کروا دو پھر کوئی اور بات کرنا۔ فٹافٹ سر تن سے جدا کروانے آجاتے ہیں۔ خالی ڈھول، باتیں ہی باتیں عمل صفر۔
اگر آگ بجھا نہیں‌سکتے تو اس پر تیل مت ڈالو۔ اپنی جہالت کو دور کرنے کی سوچو، جاؤ کسی سے علم سیکھو ایسے ہی مزید جاہلوں کا خون اپنے سر نہ لو۔ مشرف انتہائی درجہ کا کمینہ شخص ہے مگر جو اس کے خلاف ہیں ان کی اکثریت بھی اسی کی قماش کے ہیں۔ دین سے دونوں اطراف کو ایک جیسی رغبت اور واقفیت ہے۔ اسلام کے دونوں خلاف ہیں اور دونوں ہی حزب الشیطان میں ہیں۔ اللہ دونوں‌کے شر سے بچائے۔ آمین۔
 

عمر میرزا

محفلین
کسی حدیث سے نکال کر دکھائیے کہ جو تین فوجی آپ کے محبوب طالبان نے گولی مار کر ہلاک کئے اور ان کی تصاویر و ویڈیو بنائی، وہ جائز ہے۔ کسی آیت سے ثابت کیجئے کہ عورتو‌ں کا تعلیم حاصل کرنا ناجائز ہے۔ کسی صحابی کے قول سے ثابت کیجئے کہ مسلمان اکثریت کے خلاف تلوار اٹھانا جائز ہے؟ آپ لوگ تو لوگوں کو اللہ کی نافرمانی پر اکساتے ہو۔ کیا اسلام نے اطاعت امیر کا حکم نہیں دیا؟ اپنی مطلب کی احادیث آپ سب کو بہت آتی ہیں۔ کن لوگوں‌کی خاطر آپ لوگ جہاد کر رہے ہیں؟ کبھی ان کے کردار پر بھی سوچا؟ اس کی خاطر تمام امت کو مار رہے ہیں اور مروا رہے ہیں جس کے اپنے گھر والے دنیا جہان کا عیش کرتے ہیں۔ اسامہ کی ماں کا مذہب پتا ہے آپ کو؟ بات کرتے ہیں اسلام کی۔

خرم بھائی ! مجھے نہ تو آپ کی کوئی بات بری لگی نہ کوئی بات برداشت کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ آپ نے کہا وہ صرف غلط فہمی کی بنیاد پر کہا ہو گا اور میں ان غلط فہمیوں کودور کرناچاہوں گا۔سب سے پہلے یہ کہ آپ کو پتا ہو گا کہ ہمارا مقصد امت مسلمہ کو متحد کرنا اور خلافت کا قیام ہے جو کہ اس وقت کا مسلمانوں کا اولین فرض ہے ۔اور اس فرض کی راہ میں رکاوٹ یہ ایجنٹ حکمران ہیں اور ان حکرانوں کو ہٹانا اور ان کا محاسبہ کرنا اللہ سبحان وتعالٰی نے فرض قرار دیا ہے ۔اور اس کام کا طریقہ کار نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت سے لیا گیا ہے کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مکہ میں دعوت دین کا آغاز کیا اور مدینہ میں ریاست کی بنیاد رکھی۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس طریقہ کار میں‌ بنا ہتھیار اٹھائے جدوجہد کی گئی۔اس لئے ہم بھی موجودہ کفریہ نطام کو ہٹانے کے لئے عسکری جدوجھد کو صحیح نہیں سمجھتے۔ اور جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جدوجہد مکہ میں سیاسی اور فکری تھی اس لئے ہم اس کا اپنانا فرض سمجھتے ہیں۔
اور جو ہم امت کو کال دیتے اس کا مقصد ان حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا نہیں بلکہ ان کو سیاسی طور پر متحد کر کے پر امن طریقے سے ہٹانا ہوتا ہے۔

اور آپ نے جو کہا نہ کہ ریاست کے اندر ریاست بنانا جائز یا ناجائز ہے یا امیر کی اطاعت فرض ہے ۔
بھائی یہ احکامات اس وقت پوچھے جاتے ہیں‌ جب ریاست میں‌ اسلام نافذ ہو رھا ھو مسلمانوں کا حلیفہ اسلام کے ذریعے حکومت کر رھا ہو یہ مشرف تو خود اقتدار پر ڈھاکہ ڈالنے والوں میں سے ہے اس وقت ریاست میں کفر کے قوانین نافذ ہیں اس کے بارے میں تو حکم ہے کہ ان کو نکال باہر کرو۔

رہی بات لال مسجد کے شہداء کی یا وزیرستان کے مسلمانوں پر استعماری کفار کی جنگ مسلط کرنے کی تو یہ اس حکومت کا ظلم عظیم ہے۔ان کے مسائل مذاکرات سے بھی حل کئے جاسکتے تھے مگر کفار کی ایماء پر ان کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی اس بات کی تصدیق تو یہ غدار خود بھی کرتے ہیں ۔امریکہ تو خود کہتا ہے کہ وار آن ٹیرر میں پاکستانی حکمران فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

کسی حدیث سے نکال کر دکھائیے کہ جو تین فوجی آپ کے محبوب طالبان نے گولی مار کر ہلاک کئے اور ان کی تصاویر و ویڈیو بنائی، وہ جائز ہے۔

یہ سب کچھ اس سلوک کا ردعمل ہے جو ان کے ساتھ روا رکھا جا رھا ہے۔ آپ ان کے علاقوں‌پر بمباری کریں اور ان سے یہ توقع کریں کہ جواب میں پھولوں کے گلدستے بھیجییں گے۔

ایک گزارش ہے کہ concepts ڈسکس کریں ذاتیات پر تو حملے نہ کریں ۔ یقین جانئے پاکستان کے حالات خراب کرنے میں میرا ھاتھ بلکل بھی نہیں ہے:(

والسلام
 
جناب یہ حزب التحریر کی خلافت کی تعریف پڑھی۔ سراسر خلاف اسلام ہے۔ یہ لوگ جذباتیت سے کھیل رہے ہیں۔ اور مسلم افواج کے خلاف جزبات بھڑکا رہے ہیں۔ مسلم امۃ کو یکجا کرنا تو بہت دور کی بات ہے ان کا خلافت کا تصور اسلام سے بہت دور ہے۔ اسلام اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کے تحت ایک مکمل جمہوری نظام ہے جہاں باہمی مشورے کی اہمیت کئی آیات سے ثابت ہے۔ باہمی مشورہ ایک جمہوری طرز عمل ہے۔ کہ انسان ہی باہمی مشورہ کریں گے - کوئی فرشتے یا جن تو آنے سے رہے۔ بھائی عمر میرزا آپ شدید غلط فہمیوں کا شکار ہیں اور ایک امۃ ایک سٹیٹ کے نعرے اور حزب التحریر کے پراپیگنڈے کا شکار ہیں۔ بغور دیکھئے اور دوبار پڑھئیے ، قرآن کی روشنی میں۔
 

عمر میرزا

محفلین
جناب یہ حزب التحریر کی خلافت کی تعریف پڑھی۔ سراسر خلاف اسلام ہے۔ یہ لوگ جذباتیت سے کھیل رہے ہیں۔ اور مسلم افواج کے خلاف جزبات بھڑکا رہے ہیں۔ مسلم امۃ کو یکجا کرنا تو بہت دور کی بات ہے ان کا خلافت کا تصور اسلام سے بہت دور ہے۔ اسلام اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کے تحت ایک مکمل جمہوری نظام ہے جہاں باہمی مشورے کی اہمیت کئی آیات سے ثابت ہے۔ باہمی مشورہ ایک جمہوری طرز عمل ہے۔

مخترم فاروق صاحب!
بھئی میں نے کیا کہ دیا ھے جو آپ نےجھٹ سے خلاف اسلام ہونے کا الزام لگا دیا میں‌ نے بار بار اپنی پوسٹ پرھی مجھے تو کچھ نظر نہیں‌ آیا ۔براہ کرم نشاندہی فرمایئے۔
حزب کے افکار حالصتا اسلامی ہیں حزب کو علما کی تائید حاصل ہے ۔آپ ھمارے بارے میں کسی بھی مکتب فکر کے عالم سے پوچھ لیں اگر کوئی شک ہے تو حزب کی کتب آن لائن موجود ہیں آپ ان کا مطالعہ کیجئے ھر بات کے قران وسنت سے دلائل دیے گئے ہیں اگرکوئی نقطہ سمجھ نہ آئےتو اس پر بحث کر لیتے ہیں۔

یہ لوگ جذباتیت سے کھیل رہے ہیں۔اور مسلم افواج کے خلاف جزبات بھڑکا رہے ہیں۔

بھائی ! کون مسلم افواج کے خلاف جذبات بھڑکا رھا ہے ۔یہاں تو مسلم افواج سے اپیل کی جارہی ھے کہ وہ اپنے مسلمان بھائییوں کے خلاف جنگ نہ کریں۔

اسلام اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کے تحت ایک مکمل جمہوری نظام ہے جہاں باہمی مشورے کی اہمیت کئی آیات سے ثابت ہے۔ باہمی مشورہ ایک جمہوری طرز عمل ہے۔ کہ انسان ہی باہمی مشورہ کریں گے - کوئی فرشتے یا جن تو آنے سے رہے۔

یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ " اسلام ایک جمہوری نظام ہے " یہ اسلام پر الزام ہے ۔جمہوریت تو دراصل ایک کفریہ نطام ہے جس کا اسلام کے ساتھ دور دور کابھی کوئی تعلق نہیں۔
جمہریت میں اصل خرابی اس میں قانون سازی کا اختیار انسانوں کو سونپ دینا اور جب انسان کو قانون سازی کا اختیار سونپ دیا جائے تو وہ ہمیشہ اپنا مفاد سوچ کے قانون بنائے گا۔ایک اور بات جس طرح آمریت یا بادشاہی میں ایک شخص کی حکمرانی ہوتی اسی طرح جمہریت میں انسانوں کا ایک گروہ کی بادشاہت ہوتی ہے ۔اس بات کو آپ تسلیم کریں گے نہ کہ جمہوریت اور آمریت مغرب کے دئے ھوئے تحفے ہیں ۔جمہوریت ، سرمایہ دارانہ نظام کا نظام حکومت ہے
جمہوریت اور آمریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

جبکہ اسلام کے نظام حکومت خلافت میں ایسا ہر گز نہیں اس بات پر تمام مسلمان کا ایمان ہے کہ اسلام ایک مکمل ضا بطہ حیات ہے اللہ سبحان وتعالٰی نے قرآن وسنت کے زریعے ہمیں زندگی میں پیش آنے والےتمام امور کے بارے میں رہنمائی کر دی ہے اسلام کا قانون 1400 سو سال پہلے بن چکا ہے اس میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔مثال کے طور پر معاشی نظام میں اراضی ،سود ، کرنسی ، ،عوامی ملکیت سے متعلق شرعی احکامات : خارجہ پالیسی میں جہاد ،بین الاقوامی معاھدات ،سفارتی تعلقات سے متعلق احکامات ،عدلیہ اور مجلس شوریٰ کے بارے میں‌تفصیلی احکامات موجود ہیں

نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کی پوری زندگی ھمارے لئے مشعل راہ ہے ان کے بعد اصحاب رسول ہیں اور کس چیز کے بارے میں جاننے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ۔

قران پاک میں ارشاد ہے :
" پس ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات ) کے مطابق حکومت کریں اور جو حق آ پ کے پاس آیا ہے اس کے مقابلے میں ان کی حواہشات کی پیروی نہ کریں ( المائدہ 48)

" اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہیں کرتے وہ کافر ہیں ( المائدہ 44)




ہمارےہاں جمہوریت کی پارلیمنٹ کو اسلام کی مجلس شوریٰ سے تشبیہ دے کر اسلام کا ٹپھہ لگا دیا جاتا ہے ۔ پھر اسےاسلامی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسے کوئی اسلامی شراب یا کافر شراب نہیں‌ہوتی ،شراب صرف شراب ھوتی ہے جو کہ حرام ہے ۔صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے جمہریت کے ساتھ "اسلامی " کا لاحقہ لگایا جاتا ہے۔
باھمی مشورہ کو جمہوریت نہیں کھا جاتا۔ " تشاور فی بینھم " کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اللہ کی حلال یا حرام ٹھرائی ھوئی اشیا کے بارے میں اپنی مرضی سے قانون سازی کرتا پھرے۔
خلافت میں مجلس شوریٰ صرف عوام کے مسائل کو حلیفہ تک پہنچاتی ہے اور صرف مباح امور کے بارے میں‌فیصلے کر سکتی ہے قانون سازی نہیں کرسکتی ۔مباح امور مثال کے طور پر سڑکیں بنانا ،یونیورسٹیز بنانا ۔ریسرچ لیبارٹریز بنانا یا ڈیم وغیرہ بنانے یا دوسرے ٹیکنیکل امور یا انتظامی امور شامل ہیں۔

جمہوریت کے پرچارک بھی اب اس سے خائف نظر آتے ہیں ۔اس سلسلے میں عابد للہ جان کی کتاب End of democracy کا مطالعہ ضرور کیجیئے گا۔ ‌

والسلام
 

خرم

محفلین
حزب کے افکار حالصتا اسلامی ہیں
تمثیلا کچھ فرما بھی دیجئے کہ اسلامی افکار سے آپکی کیا مراد ہے؟
بھائی ! کون مسلم افواج کے خلاف جذبات بھڑکا رھا ہے ۔یہاں تو مسلم افواج سے اپیل کی جارہی ھے کہ وہ اپنے مسلمان بھائییوں کے خلاف جنگ نہ کریں۔
اور ان مسلمان بھائیوں سے کیا اپیل کی جارہی ہے جو مسلم افواج کے خلاف جنگ کر رہے ہیں؟ یہ بھی بیان فرما دیجئے بھائی۔
یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ " اسلام ایک جمہوری نظام ہے " یہ اسلام پر الزام ہے ۔جمہوریت تو دراصل ایک کفریہ نطام ہے جس کا اسلام کے ساتھ دور دور کابھی کوئی تعلق نہیں۔
جمہریت میں اصل خرابی اس میں قانون سازی کا اختیار انسانوں کو سونپ دینا اور جب انسان کو قانون سازی کا اختیار سونپ دیا جائے تو وہ ہمیشہ اپنا مفاد سوچ کے قانون بنائے گا۔ایک اور بات جس طرح آمریت یا بادشاہی میں ایک شخص کی حکمرانی ہوتی اسی طرح جمہریت میں انسانوں کا ایک گروہ کی بادشاہت ہوتی ہے ۔
اسلام کا طرزِ حکومت بھی بیان فرما دیجئے پھر بات کریں گے شخصی حکمرانی کی اور ایک گروہ کی بادشاہت کی۔ باقی نکات پر انشاء اللہ بعد میں‌بات کریں‌گے۔
 
جناب من، تمام تر عزت و احترام اور ادب و محبت سے عرض ہے کہ ۔ ایک عدد ایسی آیت جو جمہوری طرز عمل کو حرام قرار دیتی ہے بیان فرمائیے۔ باہمی مشورے سے آپ کیا تصور کرتے ہیں اور 16 کروڑ افراد باہمی مشورہ کیسے کریں گے؟ فرد واحد کی حکومت جس شکل میں بھی ہو، اسلام سے ثابت نہیں۔ قرآن جس وقت نازل ہوا، اس وقت، ہر طرف فرد واحد کی حکومت تھی۔ لوگوں نے قرآن اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اور ہر طرح کے حیلے بہانوں سے فرد واحد کی حکومت اور ساتھ میں فرد واحد کی ملکیت جاری رکھی۔ ایسی کوئی بھی حکومت جو باہمی مشورہ کے خلاف ہو، اور فرد واحد کی حکومت کی تائید کرتی ہو خلاف قرآن اور خلاف اسلام تصور کی جاتی ہے۔ حرف التحریر کا تصور خلافت، اسی بادشاہت کی ایک شکل ہے۔ جس کو روکا گیا ہے تلوار سے؟ صاحب اگر ایک شخص کا نکتہ نظر مختلف ہو تو اس کی سزا موت؟ حتی کہ اگر ایمان بھی مختلف ہو تو اس کی سزا قرآن موت نہیں تجویز کرتا۔

خرم کے اور اپنے سوالات کے جواب کا انتظار رہے گا۔

ہم سب کی آسانی کے لئے، کہ میں قرآن کے کس مضموں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔ اس زمرے میں چند چنی ہوئی آیات۔ جو ایک گروپ کی شکل میں حکومت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ جو اصول و قوانین اللہ تعالی نے متعین کردئے ان سے آپ باہر نہیں جاسکتے۔ وہ تو مسلم قوانین کا حصہ ہوں گے ہی۔ لیکن اللہ تعالی جانتے ہیں کہ انسانوں کو بہت سے قوانین بنانے کی ضرورت پڑے گی۔ سڑک پر ڈرائیونگ کے قوانین ہی لے لیجئے۔

اصول قانون سازی۔ فیصلوں کے لئے باہمی مشورہ کا حکم۔ یعنی ایک مکمل قانون ساز اسمبلی کے قیام کی ضرورت۔ سولہ کروڑ افراد روز ووٹ تھوڑی دینے جائیں گے۔ اکیلے خلیفہ کا تو کہیں دور دور تک تصور نہیں۔کجا کہ اس خلیفہ کی بیعت اور پھر جو اس کی مخالفت کرے تو اس کی گردن زدنی؟:

[AYAH]42:38[/AYAH] اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں۔

ّعدلیہ کی ایک جماعت کی شکل قیام کی ضرورت:
[AYAH]7:181[/AYAH] عدل کرنے والوں کی ایک جماعت کی ضرورت، ایک مسلم معاشرے میں عدلیہ کانظام کے لئے دیکھئے :
اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں:

اصول قانون سازی۔ فیصلوں کے لئے مشورے کا حکم رسول کو۔ یعنی سنت رسول، جس پر عمل رسول صلعم نے کیا۔
[AYAH] 3:159[/AYAH]
(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے

انتظامیہ اور مقننہ، ایسی جماعت جو لوگوں کو اچھے کام کا حکم دے اور برے سے روکے :
[AYAH]3:104[/AYAH]
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں

انتظامیہ کے قیام کی ضرورت، جو کہ رسول اللہ کے بعد بھی تا قیامت رہے گی۔ اس بارے میں‌حکم، اللہ اور اس کے رسول کے تعین کردہ اصولوں‌کے پابندی ہی اس کی اطاعت ہے۔ اور اس سلسلے میں انتظامیہ کا قیام، رسول اللہ کی سنت ہے۔ یہ انتظامیہ بھی اکیلے فرد پر مشتمل نہیں۔

[AYAH]4:59[/AYAH] اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے


یہ صاحبان امر لوگ کس طرح صاحبان امر بنیں گے؟۔ اس سے پچھلی آیت [AYAH]4:58 [/AYAH]میں اس کی تفصیل عطا ہوئی ہے۔ کہ آپ اپنا اعتماد، اپنا ٹرسٹ جسے ووٹ بھی کہتے ہیں ان اہل لوگوں کا عدل کے ساتھ دیجئے۔ یعنی انتخاب کیجئے، اس جماعت کا جو قانون بنائے گی، جو منتظم اعلی ہوگی اور جو عدلیہ کے ممبرز ہونگے۔


[AYAH]4:58[/AYAH] بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

یہ لوگ کون ہوں گے؟ اور ان کے اعمال کا معیار کیا ہے؟ عزت کا معیار ہے پرہیز گاری:
[AYAH]49:13[/AYAH] اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے

قانون سازی پر حرف آخر، یہ کتاب۔
[AYAH]5:48[/AYAH]
اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے

اس مد میں [AYAH]5:49[/AYAH اور [AYAH]5:50[/AYAH] بھی دیکھیں۔

[AYAH]5:50[/AYAH]
کیا یہ لوگ (زمانہ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لئے حکم (دینے) میں اﷲ سے بہتر کون ہو سکتا ہے

قانون ساز اسمبلی، سینیٹ یا مجلس شوری کا قیام، تاریخ اسلام اور سنت رسول و صحابہ سے ثابت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی قریب کی حکومتوں میں ایسی کسی اسمبلی، پارلیمنٹ یا شوری کے کوئی آثار کیوں نہیں ملتے؟ اور حزب التحریر کی مجوزہ حکومت میں اس کے آثار کیوں نہیں ملتے؟

صاحبو، دوستو، یہ ایک تلخ‌ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے قرآن یعنی اللہ تعالی کے اس جمہوری نظام کو ترک کردیا اور صفحوں کے صفحے ملوکیت یعنی بادشاہت یا ایک فرضی خلافت پر لکھ ڈالے۔

آپ قومی دولت کا مکمل کنٹرول ایک شخص (یعنی بادشاہ یا خلیفہ ) کے ہاتھ میں دے دیجئے اور پھر اس دولتمند سے کہیئے کی بھائی اب تم یہ دولت چھوڑ کر چلے جاؤ تو کیا وہ یہ دولت چھوڑ دے گا؟ ہرگز نہیں، لیکن جمہوری نظام میں منتظم اعلی یعنی صدر، پرائم منسٹر کو اپنا وقت پورا ہونے پر بہر صورت حکومت چھوڑ کر ہٹنا ہوتا ہے۔ اور عوام اس شخصیت کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ تا عمر خلافت یا بادشاہت میں کوئی فرق نہیں۔ جو لوگ تا حیات خلافت کی تجاویز پیش کر رہے ہیں وہ عوام کی دولت کو ایک مخصوص طبقے میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ جب تک ایک شخص کو ایک مقررہ معیاد کا خوف نہیں ہوگا وہ عوام کے لیے کام ہی نہیں کرے گا۔

اس قدر جمہوری طرز عمل کو یہ جماعت حرام قرار دیتی ہے؟ مجھے اس فرد واحد کی حکومت ، جس کی تبلیغ حرف التحریر کر رہی ہے، کے لئے قرآن کی آیات کا انتظار رہے گا جو جمہوریت کو حرام قرار دہتی ہوں۔ بھائی یہ لوگ کچے ذہنوں پر اثر جماسکتے ہیں لیکن اگر آپ قرآن کا مطالعہ کرتے رہئیے تو یقیناً آپ درست تصویر دیکھ سکیں گے۔ تما تر خلوص و احترام سے میں بس یہی عرض‌کر سکتا ہوں۔ میں داعی ہی اس امر کا ہوں کہ " قرآن کی تعلیم سب کے لئے ہو" تاکہ ایسے فرد واحد کی حکومت کے ڈھکوسلوں سے جان چھوٹے۔

والسلام
 

عمر میرزا

محفلین
برادران گرامی السلام علیکم


تمثیلا کچھ فرما بھی دیجئے کہ اسلامی افکار سے آپکی کیا مراد ہے؟

اسلامی افکار یا احکامات سے مراد ایسے احکامات یا افکار جو صرف اور صرف قرآن ،سنت نبوی، اجماع صحابہ ، قیاس اور اجتہاد سےاخذ کردہ ہوں۔ کیونکہ شرعی احکامات اخذ کرنے کے لئے صرف یہی ذرائع مکمل اور معتبر ہوتے ہیں۔

اسلام کا طرزِ حکومت بھی بیان فرما دیجئے پھر بات کریں گے شخصی حکمرانی کی اور ایک گروہ کی بادشاہت کی۔ باقی نکات پر انشاء اللہ بعد میں‌بات کریں‌گے۔

مختصرا بیان کروں گا کہ ۔
اسلامی ریاست یا خلافت کیا ہے ؟
اسلامی ریاست صرف اسی وقت قائم ہوتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کردہ ہوں اور اتھارٹی بھی مسلمانوں کو حاصل ہو۔خلافت میں اقتصادی نظام ،حکومتی نظام ،معاشرتی نظام ،نظام عدل ،خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذ کردہ ہو ں۔

حکومتی نطام :
* خلیفہ عوام کے بلواسطہ یا بلا واسطہ انتخاب سے منتخب ہوتا ہے ۔منتحب ہونے والا امیدوار امت کی بیعت سے حلافت کے منصب پر فائز ہوتا ہے ۔اس انتحاب میں عوام الناس پر کسی قسم کا دباؤ یا جبر حرام ہے ، نیز بیعت اس شرط پر لی جائے گی کہ منتحب شخص ان پر مکمل اسلام نافذ کرے گا ۔
* اسلام نے نظام کے بارے اصولی ہی نہیں بلکہ جزوی قانون بھی دیئے۔ مثال کے طور پر معاشی نظام میں اراضی سود ،تجارت ،کرنسی ،بینکنگ ،عوامی ملکیت اور ذاتی ملکیت سے متعلق شرعی احکامات ؛ خارجہ پالیسی میں جہاد ،بین الاقوامی معاہدات ،سفارتی تعلقات سے متعلق احکامات ؛ نظام حکومت میں بیعت ،والیوں کے تقرر اور ان کی تنزلی سے متعلق احکامات وغیرہ میں شریعت کے تفصیلی احکامات موجود ہیں ۔
خلیفہ ان احکامات کو من وعن نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے ،نیز خلیفہ ان احکامات کو نافذ کرنے کے لئےنہ تو عوام کے نمائندوں کی اکثر یت درکار ہوتی ہے نہ ہی وہ ان معاملات میں اپنی ذاتی پسند و ناپسند پر عمل کر سکتا ہے۔چناچہ ان تمام معاملات میں خیلفہ اور عوامی نمائندوں کے پاس اپنی مرضی و منشاء سے قانون سازی کا اختیار نہیں ہوتا ۔لہذا خلافت میں اللہ اور اللہ کے رسول صلٰی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو ملکی قوانین بننے کے لئے اکشریت کی بیساکھی یا توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی جو کہ جمہوری طرز حکومت میں قانون سازی کے لئے لازمی شرط ہے۔ آج پاکستان میں اسلام کے نفاذ میں اکثریت کی شرط ہی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یوں خلافت میں " اقتدار اعلٰی " یا قانون سازی کا اختیار عملا عوام کی اکثریت کی بجائے اللہ تعالی کو حاصل ہوتا ہے یہ اس سے یکسر مختلف ہے جو پاکستان میں رائج ہے جس میں " اقتدار اعلٰی " پارلیمان میں بیٹھے افراد یا باوردی ڈکٹیٹر کے پاس ہوتا ہے۔

* اسلام انفرادی ڈکٹٹر شپ اور مخصوص گروہ کی ڈکٹیٹر شپ ( جمہوریت ) دونوں کو یکسر مسترد کرتا ہے اور قانون سازی کا اختیار رب کو سونپ کر اللہ کی حاکمیت کو عملا نافذ کرتا ہے۔یوں استعمار کے لئے قانون سازی کا چور دروازہ بند ہو جاتا ہے جس کے ذریعے داخل ہو کر وہ اپنے مفادات کی خفاظت کرتے ہیں ۔ڈکٹیٹر شپ میں ان کو ایک شخص خریدنا پڑتا ہے جب کہ جمہوریت میں ایک اکثریت کے گروہ کو ،جو آئینی ترامیم کے زریعے سیاہ کو سفید بنا سکے ۔
آج سترہویں ترمیم کے ذریعے ایک ڈکٹیٹر کے بنائے ہوئے کفریہ قوانین کو جمہوری طریقہ کار کے زریعے آئینی حیثیت دی گئ۔" جہاد " کو دہشتگردی قرار دیا گیا امریکی اڈوں کو ریاستی اور قانونی حثیت حاصل ہوئی ،افغانستان کی جنگ میں اپنے ہی مسلمان بھایئوں کا قتل ملکی مفاد میں جائز ٹھہرا ۔باوردی صدر کو دوبارہ منتحب کیا گیا اور مفاہمتی آرڈینینس کے ذریعے سیاستدانوں کو پارسا کیا گیا۔

* مباح اور انتظامی سے متعلق حکومتی فیصلے قانون سازی)legislation سے مختلف ہیں کیونکہ یہ managment decision ہوتے ہیں اور ان امور کو اللہ سبحان وتعالٰی نے پہلے ہی حلال قرار دے دیا ہے ،حکومت فقط یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا ان حلال امور کو اختیار کیا جائے یا نہیں ،اور اللہ سبحان وتعالٰی نے
ہمیں اختیار دیا ہے کہ امت کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے ۔مباح امور کی دو قسمیں ہیں

(ا) وہ امور جن میں عوام خاطر خواہ علم رکھتے ہوں
(ب) وہ امور جن میں صرف اہل علم یا تکنیکی ماہرین ہی صحیح رائے دے سکتے ہوں اور عوام ان کے بارے زیادہ علم نہ رکھتے ہوں

(ا) وہ مباح امور جن میں عوام خاطر علم رکھتے ہوں ان میں‌عوام کی اکثریت کے کی رائے پرخلیفہ چلنے کا پابند ہوتا ہے مثلا اگر خلیفہ ایک شہر کے باسیوں سے یہ استفسار کر لے کہ انہیں ہسپتالوں یاا سکولوں میں سے کون شی شے کی زیادہ ضرورت ہے تو ایسی صورت میں عوام کی اکثریت ( یعنی ان کے نمائندوں کی اکثریت ) کا فیصلہ خلیفہ کے لئے کرنا لازم ہوتا ہے
(ب) دوسری طرف حلیفہ تکنیکی مسائل میں عوام الناس کی بجائے فقط ماہرین سے رجوع کرتا ہے اور ان سے مشورے کے بعد اس کی نظر میں جو بھی رائے زیادہ مناسب ہو گی وہ اسے اختیا ر کرتا ہے اس میں عوام کی یا تکنیکی ماہرین کی اکثریت کو ملخوظ نہیں رکھا جاتا ۔چناچہ اگر پانی کی قلت کا سامنہ ہو تو خلیفہ تکنیکی ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد حتمیٰ فیصلہ کرنے کا مجاز ہوگا کہ ڈیم کہاں اور کتنا بڑا بنایا جائے ۔لیکن ان تمام امور میں امت اور ان کے نمائندے خلیفہ کا محاسبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال عوامی بھلائی میں کرے نہ کہ ذاتی مفاد میں۔

++++ جمہوری نظام حکومت میں مزکورہ بالا تینوں جہتوں میں ( یعنی قانون سازی اور دونوں مباح امور میں ) آخری فیصلے کے لئے عوام کی اکثریت سے ہی رجوع کیا جاتا ہے
+++آمریت میں تینوں جہتوں کے بارے میں فرد واحد کا فیصلہ خرف آخر ہوتا ہے۔
+++ خلافت میں قانون سازی شریعت کے مطابق کی جاتی ہے ۔جبکہ ایک مباح امور میں عوام کی رائے فیصلہ کرتی ہے اور دوسرے تکنیکل امور کے بارے میں حلیفہ فیصلہ لیتا ہے۔

یوں خلافت نہ ہی آمریت ہے نہ ہی جمہوریت۔۔قوانین بنانے اور اہم امور کا پر فیصلہ کرنے کا یہ بنیادی فرق ایک ایسے نظام اور معاشرے کو جنم دیتا ہے جو اپنی اساس اور جزئیات آمریت اور جمہوریت سے جنم لینے والے نظام سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

عمر میرزا

محفلین
اسکے علاوہ ۔

++ خلیفہ مندرجہ بالا تینوں جہتوں میں مشاورت کا خیر مقدم کے گا اور ملک میں مثبت مشاورت کی فضا کو یقینی بنائے گا ۔

++ خلیفہ مطلق العنان نہیں ہوتا بلکہ اس کا محاسبہ کرنا عوام کا انفرادی اور اجتماعی اسلامی فریضہ ہوتا ہے۔ریاست کی کسی بھی عدالت سے حکومت کے کسی بھی عمل پر مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے نیز قاضی مظالم (چیف جسٹس) بد عنوانی کی صورت میں ایک دستحط کے زریعے حلیفہ کو معزول کر سکتا ہے۔

++ امت " کفرا بواحا " یعنی واضح کفر کے نفاز پر خلیفہ کو طاقت کے ساتھ اتارنے کی قانونا مجاز ہوتی ہے۔

++ " مجلس امت " عوام کے نمائندوں پر مشتعمل ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جس کی زمہ داریوں میں حکومتی معاملات میں مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی ذمہ داری خلیفہ کا محاسبہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن قانون سازی نہیں۔

++ایک سے زائد سیاسی جماعتیں قائم کرنے کی کھلی اجازت ہوتی ہے لیکن ان تمام سیاسی جماعتوں کی اساس اسلام پر ہونا لازمی ہے ۔سیکولر ،سوشلسٹ ۔نیشلسٹ۔کیپٹلسٹ یا کسی بھی اور نظریے پر پارٹی قائم کرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔

++ پوری مسلم امت کی ایک ہی ریاست اور ایک ہی خلیفہ ہوتا ہے ۔ایک سے زائد ریاست بنانا یا ایک سے زائد ریاست بنانا یا ایک خلیفہ کی موجودگی میں کوئی دوسرا خلیفہ مقرر کرنا حرام ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی وحدت اور طاقت ایک ریاست اور ایک امیر میں مضمر ہے جس کی اسلام بڑی سختی سے تلقین کرتا ہے۔ امت صرف اسی صورت میں استعماری تسلط اور صلیبی یلغار سے باہر نکل سکتی ہے جب وہ دنیا کے چالیس فیصد وسائل اور دیڑھ ارب سے زائد افرادی قوت کو ایک ریاست تلے متحد کرے۔( یہ وحدت ہی کافروں کی صفوں میں کھلبلی مچانے کے لئے کافی ہو گی)

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
صاحبو،
حرام اور حلال کا تعین صرف اور صرف اللہ تعالی ہی فرماسکتے ہیں۔ میں نے حزب التحریر کی ویب سایٹ جو آپ نے مہیا کی تھی تمام تحاریر پڑھی۔ یہ وہی نظام ہے جو خلافت کے نام پر ترک حکومت کی شکل میں کسی نہ کسی طور قرون وسطی سے جاری تھا۔ جو لوگ اس کے بارے میں‌پڑھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کس طرح حکومت، ملکیت میں‌تبدیل ہوتی تھی اور یہ نظام کس قدر بدقسمت نظام تھا۔ انتظامی امور کی کمی، طوائف الملوکیت، اور ہر طرح کی بے ایمانی اس نظام کی جڑ میں‌ بھری ہوئی تھی اور ہے۔ اس کے اثرات آج بھی سابقہ ترک خلافت سے منسلک، سابقہ ممالک میں پائے جاتے ہیں۔

جب تک منتخب خلیفہ کی مقررہ معیاد نہ ہو تو چاہے وہ خلیفہ ہو، بادشاہ ہو، پریزیڈنٹ ہو، اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ باہمی مشاورت خلیفہ طلب نہ کرے اور اس کے کنٹرول میں نہ ہو بلکہ اس باہمی مشاورت کے نتیجہ میں جو آئین جو قانوں برآمد ہو اس کا اطلاق خلیفہ پر بھی ہو تب ہی حکومت کارآمد ہو سکتی ہے۔ اب آپ اس معین معیاد اور قانون کے نیچے والے خلیفہ کو دل بہلانے کے لئے خلیفہ کہیں یا پریزیڈنٹ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ حزب التحریر کا منشا، ایک تا حیات اور قانون سے بالا تر خلیفہ ہے۔ اس کے خلاف کوئی لفظ ابان سے نکالنا گردن کٹوانے کے مترادف ہے۔ اور ایسی حکومت کی ایک بھی کامیاب مثال نہیں ہے۔ سابقہ ترکی حکومت کی جو مثال ہے وہ 'نسخہ تباہی' سے کم نہیں۔ اس کا نتیجہ کس قدر بے اطمینانی کی شکل میں برآمد ہوا، اور اس بے اطمینانی سے کتنی نئی ریاستیں وجود میں آئیں، سب کے سامنے ہے۔ اس آزمودہ فیلیور نظام میں کسی قسم کی تعلیم، ترقی اور مناسب انتظامیہ ممکن ہی نہیں۔ اور اس نظام کو کھینچ تان کر قرآن اور روایات سے ثابت کرکے اسلامی قرار دینا عالم اسلام کے ساتھ ظلم ہے۔

اگر ہمارا، پاکستانی نظام اتنا ہی خراب ہوتا تو آج ہم ترکی ، اردن، مصر اور ایران و لبنان سے کہیں پیچھے ہوتے۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ ان پس ماندہ ممالک سے کوئی فرسودہ نظام 'اسلامی نظام' کا لیبل لگا کر درآمد کریں۔ آج کا مفسر، آج کا عالم، آج کا محقق، کل کے مفسر، عالم و محقق سے بہت بہتر اور زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں کے کل کے قانون سازوں کے قوانین بلاوجہ اسلام کا لیبل لگا کر اپنے اوپر طاری کرلیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم خود یہ تعلیم حاصل کریں اور خود اس قابل ہوں کہ قوانین بنائیں۔ اپنی عسکری و علمی قوتوں کی تعمیر کریں۔ کسی بھی مسلم ملک میں‌ جاکر رائے لے لیجئے، پاکستان اپنی تمام تر واہیات حرکتوں کے باوجود دوسرے مسلم ممالک سے آگے ہے۔ جبکہ دیگر مسلم ممالک ابھی تک خطِ جاہلیت کے نیچے آباد ہیں۔ ہم خطِ جاہلیت کے نیچے سے 'نمبر دو اسلام ' کی درآمد کرکے اپنی جاہلیت پر ان لوگوں سے صرف مہر جاہلیت ہی لگوا سکتے ہیں۔

پاکستان کے حکومتی ڈھانچے کو بہتر بنائیے۔ اسلام انقلاب نہیں لاتا بتدریج بہتری کی راہ دکھاتا ہے۔ آپ کو اگر پاکستان کے قوانین میں‌ خرابی نظر آتی ہے تو اسکا تدارک ایک اچھا حل ڈھونڈ کر کیجئے۔ جس فوج کو تباہ ہوجانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ وہ فوج تباہ ہوجانے کے بعد دوبارہ قائم کرنا ممکن نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ فوج ہی پاکستان کی حفاظت کی ضامن ہے اور 'نمبر دو اسلام ' کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

والسلام
 
اے مسلمانان افواج پاکستان !
آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ مسلمانوں کے محافظ رہیں گے اور اسلامی علاقوں کا دفاع کریں گے۔ قبائلی علاقوں کے مسلمان آپ کے بھائی ہیں ۔ اور اسلام نے اپنے مسلمان بھائی کو ناحق قتل کرنے کو ایک عظیم جرم قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر )) " مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے " ( بخاری)

قاتلوں کو معصوم قرار دے رہے ہیں آپ۔ جنہوں‌ نے قتل و غارتگری کی مثالیں قائم کر رکھی ہیں؟ اور فوج کو بغاوت پر آمادہ کررہے ہیں؟ بھائی پراپیگنڈہ شروع کرنے سے پہلے کچھ تو خدا کا خوف کرو ! ہماری فوج مسلمانوں کی محافظت ہی کر رہی ہے اور اسلامی علاقوں کا دفاع ہی کر رہی ہے۔ جو لوگ لڑکیوں کے اسکول تباہ کررہے ہیں۔ درزیوں کی دکانیں جلارہے ہیں۔ نائیوں کی دکانیں بند کرارہے ہیں۔ ایسے انتہا پسندوں کو معصوم قرار دینا، دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں‌قتل نہیں کررہے تو اور کیا کررہے ہیں؟ یہ لوگ فساد فی الارض‌اللہ کررہے ہیں اور آپ اور حزب التحریر ان مفسدین کی تائید کرکے ان کے ساتھ ہیں۔ اس سے حزب التحریر کا کردار سامنے آگیا ہے۔ فساد روکنے پر تفرقہ ڈالا جارہا ہے؟

قتل و غارتگری و لاقانونیت کی چند مثالیں دیکھئے:
دیر: غیرت کے نام پر قتل میں اضافہ
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/07/060718_dir_honourkilling_sq.shtml
سرحد: جاسوسی کےالزام میں دو قتل
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/04/070429_nwfp_twokilled.shtml
جنوبی وزیرستان میں مزید 7 لاشیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/09/060925_dead_wazir_sen.shtml
وزیرستان میں طالبان کا ’انصاف‘
http://www.urduweb.org/mehfil/newreply.php?do=newreply&noquote=1&p=196743
’ دو امریکی جاسوس قتل‘
http://www.urduweb.org/mehfil/newreply.php?do=newreply&noquote=1&p=196743
دتاخیل: فوجی ٹھکانے پر فائرنگ
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/04/060409_waziristan_firing.shtml
قبائلی سردار، طالبان کی تفتیش
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/05/060521_taleban_sardars.shtml
ٹیلیفون ایکسچینج پر دھماکہ
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/03/060322_shakai_explosion.shtml
میران شاہ: مدرسہ بم سے اڑا دیا گیا
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/03/060315_miranshah_madrasa_uk.shtml
شوریٰ کا فیصلہ، گولی ماردی گئی
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/03/060327_shura_killing.shtml
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم

صاحبو، حرام اور حلال کا تعین صرف اور صرف اللہ تعالی ہی فرماسکتے ہیں۔
بے شک۔اس پر کوئی کلام نہیں

میں نے حزب التحریر کی ویب سایٹ جو آپ نے مہیا کی تھی تما تھاریر پڑھی۔ یہ وہی نظام ہے جو خلافت کے نام پر ترک حکومت کی شکل میں قرون وسطی سے جاری تھا۔ جو لوگ اس کے بارے میں‌پڑھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کس طرح حکومت ملکیت میں‌تبدیل ہوتی تھی اور یہ نظام کس قدر بدقسمت نظام تھا۔ انتظامی امور کی کمی، طوائف الملوکیت، اور ہر طرح کی بے ایمانی اس نظم کی جڑ میں‌بھری ہوئی ہے۔ اس کے اثرات آج بھی سابقہ ترک خلافت سے منسلک ممالک میں پائے جاتے ہیں۔

فاروق صاحب ! میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے حزب کا لٹریچر نہیں پڑھا ! کیونکہ حزب کے لٹریچر میں بہت واضح طور پرصرف اور صرف نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ واسلم کے دور حکومت اور خلفاء راشدہ کے دور حکومت سے مثالیں دی گیئں ہیں اور انہیں کے ریاستی اقدامات کو مشعل راہ سمجھا گیا ہے ۔اور ہم بھی اسی خلافت راشدہ کے قیام کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں جو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ واسلم اور ان کے جلیل و قدر صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے دور میں تھی۔اور اس سلسلے میں مسلمان پر امید ہیں کہ یہ حلافت راشدہ ضرور قائم ہو گی ۔کیونکہ یہ اللہ سبحان وتعالٰی کا کیا ہوا وعدہ ہے کہ مسلمانوں کو وہ عروج دوبارہ ضرور عطا ہوگا۔
جہاں تک خلافت عثمانیہ کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے وقت میں وہی مسلمانوں کی نمائندہ حکومت تھی بر صغیرکے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی بھی اس کے ساتھ تھی اس کا ثبوت ہم دیکھ سکتے ہیں‌ کہ جب تمام استعماری کفار ملکرخلافت کو گرانے اور مسلمانوں کی سیاسی وحدت کو توڑنے کی کوششیں کر رہے تھے اس وقت برصغیر کے علما نے کس قدر زور دار " تحریک خلافت " چلائی ۔تاج برطانیہ کے خلاف یہ تحریک ایسی ہمہ گیر تھی کہ " گاندھی " کو بھی اس میں‌مجبورا شامل ہونا پڑا ۔اور حاص طور پر دارلعلوم دیوبند کے اس وقت کے منتظم " جناب مولانا محمود الحسن صاحب " کا نام قبل ذکر ہو گا جنہوں نے تحریک کے لئے چندے کی کمی کے پیش نظر مدرسہ دیوبند بند کردیا۔ استعماری کفار کے حملہ آور ہونے کے علاوہ خلافت عثمانیہ میں کچھ ریاستی بد انتطامیہ بھی تھیں جس کی وجہ سے وہ زوال کا شکار ہوئی۔
اس کے بارے ہمارے تجزیات بہت واضح ہیں اس سلسلے میں‌ حزب کی کتاب How khilafah was destroyed ضرور پڑھئیے گا۔

جب تک منتخب خلیفہ کی معیاد نہ ہو وہ خلیفہ ہو، بادشاہ ہو، پریزیڈنٹ ہو، اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ باہمی مشورت خلیفہ طلب نہ کرے اور اس کے کنٹرول میں نہ ہو بلکہ اس باہمی مشاورت کے نتیجہ میں جو آئین جو قانوں برآمد ہو اس کا اطلاق خلیفہ پر ہو تب ہی حکومت کارآمد ہو سکتی ہے۔ اب آپ اس معین معیاد اور قنون کے نیچے والے خلیفہ کو دل بہلانے کے لئے خلیفہ کہیں یا پریزیڈنٹ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہو گی اگر یہ سمجھا جائے طویل المعیادی کی گنجائش ایک خلیفہ کو با اختیار بنا دیتی ہے ۔جب کسی کو خلیفہ بنایا جاتا ہے تو اسے کسی کاغذ پر یہ لکھ کر نہیں دے دیا جاتا وہ پانچ سال ،دس سال یا تا زندگی حکمران رہے گا ۔اسلامی آئین اور محکمہ مظالم (سپریم کورٹ) خلیفہ کے سر پر ہر وقت ایک لٹکتی تلوار ہوتی ہے جو اسے کسی بھی غلط یا غیر اسلامی اقدام پر معزول کر سکتی ہے۔اور معزول ہونے کے بعد وہ شخص دوبارہ کبھی منتحب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ امت کا مجرم ہوتا ہے ۔اور اسلام میں مجرموں‌ کو حاکم نہیں بنایا جاتا۔
جمہوریت جیسے بلکل نہیں کہ آئین میں اپنی من چاہی تبدیلیاں کرایئں اور پھر صدر بن گئے۔ اور اپنے اپنے دور حکومتوں میں کرپشن کی انتہا کرنے کے باوجود یہ لوگ سہہ بارہ ھکمران بننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

اسلامی آئین قرآن و حدیث سے اخذ کردہ ہوتا ہے جس وجہ سے اس میں تبدیلی کی گنجائش قطی طور پر نہیں ہوتی۔
حکمرانی کی مدت متعین کر نے والی سوچ بھی مغرب سے درآمد کردہ ہے ۔اور یہ مغرب والوں کی مجبوری ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی فطرت میں‌ تغیرات و تناقض کی وجہ سے ایک انسان ھمیشہ اچھی قانون سازی نہیں کر سکتا ہے اور صرف اسی لیئے وہ ھکمرانی کی ایک مدت طے کرتے ہیں ۔
دوسری طرف انہیں آزادی سے اپنی من مانیا ں کرنے کا پروانہ مل جاتا ہے۔کہ وہ پانچ سال کے لئے آزاد ہیں اور جیسے چاہیں حکمرانی کے مزے لوٹیں۔

اگر ہمارا، پاکستانی نظام اتنا ہی خراب ہوتا تو آج ہم ترکی ، اردن، مصر اور ایران و لبنان سے کہیں پیچھے ہوتے۔

پاکستان کا نظام اتنا برا نہیں بلکہ بد ترین حد تک برا ۔یہاں غربت کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے ہی جسم کے اعضاء تک بیچ رہے ہیں اور 2006 کے اعداد وشمار کے مطابق ہر روز بیس بیس بندوں نے خود کشیاں کی جس میں‌اکژیت نوجوان بیروزگاروں‌کی تھی۔لاء انیڈ آڈر کی یہ صورتحال ہے کہ پچھلے سال صرف راولپنڈی ڈسٹرکت میں 450 قتل اور 1468 ڈکیتی کی وارداتیں‌ہوئیں ۔تعلیم کا یہ عالم ہے کہ ہر سو میں سے 74 چوہتر بچوں کے لئے سکول ہی نہیں‌ہیں ۔صحت عامہ کی یہ صورتحال ہے کہ اموات کی ایک بڑی وجہ گندہ پانی ہے ہر تیسرے چوتھے شخص کے جسم کے اندر ہیپا ٹا ئیتس سی کے وائرس ہیں ۔عدالتوں کا یہ عالم ہے کہ تین لاکھ مقدمات پینڈنگ پڑھے۔ حکمرانوں نے عوامی مفاد کے لئے کیا کرنا ہے انہیں اقتدار کی ہوس کچھ کرنے ہی نہیں دیتی ۔
جس ملک کی عوام کو پینے اور نہانے کے لئے پانی تک خریدنا پڑے اس ملک کے نطام کے بارے کیا کہنے۔

آج کا مفسر، آج کا عالم، آج کا محقق، کل کے مفسر، عالم و محقق سے بہت بہتر ہے۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں کے کل کے قانون سازوں کے قوانین اسلام کے نام پر لے کر اپن اوپر طاری کرلیں۔

ان کل کے علماء ،مفسروں‌ اور محققوں میں ہمارے " آئمہ اربعہ" امام ابو خنیفہ، امام حنبل ،امام مالک ،امام شافعی جیسے لوگ ہیں ۔ اور دوسرے بلند پایا آئمہ اکرام بھی جن میں امام جعفر صادق ، امام غزالی ،امام شامل ،امام یوسف، اور دوسرے بھی بہت سے شامل ہیں۔ ان جیسا کوئی ایک بھی سامنے آئے توسر آنکھوں‌ پر۔
ضرورت اس امر کی ہے ہم خود یہ تعلیم حاصل کریں اور خود اس قابل ہوں کہ قوانین بنائیں۔ اپنی عسکری و علمی قوتوں کی تعمیر کریں۔ کسی بھی مسلم ملک میں‌ جاکر رائے لے لیجئے،

بے شک ضرورت اسی امر کی ہے کہ کہ ہم خود تعلیم حاصل کریں‌ مگر اس لئے نہیں کہ دین میں جدت پسندی اور روشن حیالی کے نام پر نئی نئی تبدیلیاں کی جائیں بلکہ اس لئے کہ ہم ساینس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دیں ،ریسرچ لیبارٹریز بنایئے ،نئی نئی ایجادات کریں۔اعلٰی تعلیم کے حصول کو آسان تر بنا دیں ۔بڑی بڑی فیکٹریاں اور عمارات بنایئں ۔ دفاع اتنا مضبوط کر لیں کہ کوئی مسلمان علاقوں‌پر حملہ کرناتو دور کی بات دہشت گرد تک کہنے کی جراءت نہ کر سکے۔
اور امت کو انسانی تاریخ کی ترقی کی اس معراج تک لے جایئں‌کہ شاید ہی کسی انسان نے اس بارے کبھی سوچا بھی ہو۔

پاکستان اپنی تمام تر واہیات حرکتوں کے باوجود دوسرے مسلم ملک سے آگے ہے۔

تعجب ہے!

جبکہ دیگر مسلم ممالک ابھی تک خطِ جاہلیت کے نیچے آباد ہیں۔ ہم خطِ جاہلیت کے نیچے سے 'نمبر دو اسلام ' کی درآمد کرکے اپنی جاہلیت پر ان کی صرف مہر جاہلیت ہی لگوا سکتے ہیں۔

نمبر 1 اسلام وہ تو نہیں جو شاید چند سال پہلے وجود میں لایا گیا ہے۔اگر وہی ھے تو ہیمیں اپنے دو نمبر پر یقین کامل ہے جو 1400 سال پرانا ہے۔

پاکستان کے حکومتی ڈھانچے کو بہتر بنائیے۔ اسلام انقلاب نہیں لاتا بتدریج بہتری کی راہ دکھاتا ہے۔ آپ کو اگر پاکستان کے قوانین میں‌ خرابی نظر آتی ہے تو اسکا تدارک ایک اچھا حل ڈھونڈ کر کیجئے۔ جس فوج کو تباہ ہوجانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ وہ فوج تباہ ہوجانے کے بعد دوبارہ قائم کرنا ممکن نہیں۔ یہ فوج ہی 'نمبر دو اسلام ' کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

پاکستان کے نظام حکومت میں شامل ہونے کے لئے پھلے یا تو بندے کا کوئی چھوٹا موٹا کالا دحندہ ہونا چاہیے یاا سے قوم سے ایک بڑی غداری کرنے کی ضرورت پیش آئے گی تاکہ MNA ,MPA کی صف میں کھڑا ہوا جائے اس کے بعد اربوں‌ روپیہ ،واشنگٹن سے اچھے تعلقات ،اور مفاد پرستوں کی اکثریت چاہیے تب جاکر "حکومتی ڈھانچے میں ردوبدل کیا جاسکتا ہے مگر وہ بھی معمولی سا۔ اب اتنا تردد کون کرے۔

انقلاب کہتے ہیں‌ایک مکمل تبدیلی کو ۔اور وہ اسلام ہی ہے جو معاشروں میں ، زندگیوں میں، سوچوں میں انقلاب لاتاہے اور یہی اسلام ہے جو جہالت کے ظلمات سے نور کی طرف لے جاتا ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اپنے فقط 23 سالہ دور نبوت میں عرب جیسے معاشرے میں انقلاب نہیں‌لے آئے تھے۔

اسلام بتدریج بہتری کی راہ دکھاتا ہے

اسلام کا بتدریج نفاز ممکن ہی نہیں اور شرعا حرام بھی ہے۔ فرض کریں اگر آپ کو حکومت ملتی ہے تو کیاآپ کچھ احکامات نافذ کر کے باقی احکامات کو آنے والے وقت کے لئے پس پشت ڈال دیں گے۔

جس فوج کو تباہ ہوجانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ وہ فوج تباہ ہوجانے کے بعد دوبارہ قائم کرنا ممکن نہیں۔ یہ فوج ہی 'نمبر دو اسلام ' کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اس فوج کو تباہ کرنے کا عندیہ ہر گز نہیں دیا جا رہا ۔یہ افواج پاکستان نہیں افواج مسلمین ہے صرف پاکستانی مسلمانوں کو نہیں بلکہ پوری امت کو اس پر فخر ہے اس پر مان ہے ۔
یہ فوج ایک طاقت اور ایک قوت ہے جو کہ آجکل غلط ہاتھو ں میں ہے جس کی وجہ سے اس طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رھا ہے ہے۔

ؤالسلام
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم !

ماشاءاللہ آپ نے جتنے خبریں سنائیں سب Bbc کی ! صاحب پاکستان سے ہزاروں کوس دور بیٹھ کر 2*2* 2 کے مانیٹر پر اتنا اعتماد نہ کیجیے کہ جیسے اس میں سچائی کے فرشتے بیٹھے ہوئے ہیں جو صرف خرف حق ہی بتاتے ہیں۔
اور چند لمحوں کے لئے ذرا سوچئے کہ آخر" کیوں " امریکی ائیر فورس کے بہترین لڑاکا طیارے اپنا قیمتی ایندھن جلاتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود میں دندناتے ہوئے آتے ہیں اوراپنے مہنگے ترین میزائل اور بم مار کر واپس چلے جاتے ہیں ۔
آخر " کیوں " واشنگٹن سے بار بار یہ سندیسے آتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ قبائلی علاقوں کے لوگوں پر قابو پائے ۔
آخر " کیوں " امریکہ کے پیٹ میں اتنے مروڑ اٹھتے ہیں کہ وائٹ ھاؤس سے ایک پیانبر بھاگا بھاگاآتا ہے اور آکر ہمارے بیچارے حکمرانوں پر برستا ہے کہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں اسامہ کے ساتھیوں کو پکڑنے میں اتنی سستی کیوں برتی جارہی ہے۔

آخر " کیوں " پاک فوج میں جوانوں اور افسروں کا کورٹ مارشل کیا جا رھا ہے جنہوں نے یہ کہہ کر لڑنے سے انکار کر دیا تھا " کہ ہم نے پاک فوج اس لئے جوائن نہیں کی تھی کہ اپنے مسلمان بھایئوں کا خوں بہایئں۔

آخر " کیوں " وزیرستان والے واقعے کے بعد فوج کی بیرکوں کی دیواروں پر لکھی ہوئی جہاد کی آیتوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔
آخر "کیوں" اور کب تک امریکہ کی حوشنودی اور رضا کی حاطر لڑی جانے والی اس جنگ میں قبائلی عوام اور افواج پاکستان کے جوانوں کی بلی چڑھا ئی جاتی رہے گی۔

آخر " کیوں" بھارت جو کہ اسی ہزار مسلمانوں کا قاتل ہے ۔اس کے ساتھ بڑے امن پسند اور صلح جو انداز سے " مسلئلہ کشمیر جنگ سے نہیں مذاکرات سے حل ہو گا کانعرہ لگایا جاتا ہے " اوردوسری طرف اپنی ہی عوام کے لئے خوں آشام چمگادڑیں بن جاتے ہیں ۔کیا انہیں‌عوامی مسائل صرف بندوق کی گولی اور ڈنڈے سے ہی حل کرنا آتے ہیں۔

آخر " کیوں " ھم یہ بات نہیں سمجھتے کہ حکومت میڈیا کے ذریعے "ردعمل میں کی جانے والی ان حرکات" کو بڑھا چڑھا کر اس لئے پیش کرتی ہے تاکہ عوامی ہمدردیاں حاصل کر کے اس خانہ جنگی کا زمہ دار قبائیلیوں کو ٹھرایا جائے اورساتھ ہی اس جنگ کو جاری رکھنے کا قانونی جواز پیدا کیا جائے۔

اور پھر آخر کیوں ہم بار بار ان کی چرب زبانیوں کاشکار ہو کر بار بار بیوقوف بنتے ہیں۔

ابھی اور بھی۔۔۔۔ بے حدو حساب ۔۔۔۔کتنے ہی۔۔۔۔ " کیوں" باقی ہیں ۔
مگر اس وقت اتنے ہی " کیوں " اگر سمجھ میں آجایئں تو فدوی یہ حیال کر کے خوشی محسوس کرے گا ۔کہ اس کےصرف اتنے سے " کیوں" کام آ گئے۔

آپ اور حزب التحریر ان مفسدین کی تائید کرکے ان کے ساتھ ہیں۔ اس سے حزب التحریر کا کردار سامنے آگیا ہے۔ فساد روکنے پر تفرقہ ڈالا جارہا ہے؟

:eek:اب آپ خود بتایئں کہ حزب کا چہرہ بے نقاب کرنے پر آپ کو کون کون سے انعام و اکرام سے نوازا جائے۔

والسلام
 

خرم

محفلین
آخر " کیوں " امریکہ کے پیٹ میں اتنے مروڑ اٹھتے ہیں کہ وائٹ ھاؤس سے ایک پیانبر بھاگا بھاگاآتا ہے اور آکر ہمارے بیچارے حکمرانوں پر برستا ہے کہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں اسامہ کے ساتھیوں کو پکڑنے میں اتنی سستی کیوں برتی جارہی ہے۔
اچھا آپ کے گھر میں کوئی آ کر آپ کے گھر والوں کو صرف تھپڑ ہی مار کر چلا جائے تو آپ کیا کچھ نہ کر گزریں گے؟ امریکہ کی حمایت مقصود نہیں، مگر یہ بھی لازم ہے کہ اپنے افعال و کردار کا محاسبہ کیا جائے۔ جس شخص کی خاطر آپ سب نے یہ سب کچھ مول لیا، اس کا، اس کے گھر والوں کا کردار کیا ہے؟ یہ سوچا کبھی؟
آخر " کیوں " پاک فوج میں جوانوں اور افسروں کا کورٹ مارشل کیا جا رھا ہے جنہوں نے یہ کہہ کر لڑنے سے انکار کر دیا تھا " کہ ہم نے پاک فوج اس لئے جوائن نہیں کی تھی کہ اپنے مسلمان بھایئوں کا خوں بہایئں۔
اور ان تین فوجیوں کا بھی ذکر فرما دیں جو اسی دستے میں شامل تھے اور انہیں بتزک و احتشام آپ کے ممدوح "سچے مسلمان" طالبان نے گولی مار کر ہلاک کیا۔ ان کی ہلاکت کی ویڈیو بھی بنائی اور تصاویر بھی کھینچیں؟
آخر "کیوں" اور کب تک امریکہ کی حوشنودی اور رضا کی حاطر لڑی جانے والی اس جنگ میں قبائلی عوام اور افواج پاکستان کے جوانوں کی بلی چڑھا ئی جاتی رہے گی۔
قبائلی عوام کی جان و مال کا ہر قیمت پر تحفظ ہونا چاہئے اور اس میں ہر ناکامی ایک بہت بڑی ناکامی اور طمانچہ ہے۔ باقی رہ گئے طالبان تو وہ یا تو ہتھیار ڈال دیں وگرنہ مار دئیے جائیں۔
اب ذرا آپ کی حزب کی طرف آتے ہیں۔
یہ جو اسلام کے نام پر ملوکیت کی ایک بد ترین شکل آپ نافذ کرنا چاہتے ہیں یہ دُنیا میں کہیں رائج بھی ہے؟ اب آپ کہیں گے کہ جی اسلام کے شروع میں تھی تو کیا آپ یہ بتا سکیں گے کہ اس خلافت کا طریق کیا تھا اور اس کا دورانیہ کتنا تھا؟ وہ کیا وجوہات تھیں کہ صحابہ بھی تھے، مسلمان بھی تھے اور پھر بھی ملوکیت آ گئی؟ اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرما دیا کہ اسلام میں صرف ایک ملک ہوتا ہے۔ اللہ اکبر۔ یہ آپ نے کہاں سے لیا نقطہ؟ کہیں کوئی ایسی حدیث، کوئی ایسی آیت کوئی ایسا فتوٰی موجود ہے کہ اسلام میں صرف ایک ملک ہوگا اور باقی سب کفر؟ کیا اس کا یہ مطلب یہ لیا جائے کہ ما سوائے شروع کے چند سالوں کے تمام مسلمان حالتِ کفر میں رہے اور وفات پائی؟ خلیفہ کو سپریم کورٹ ہی معزول کر سکتی ہے اور کوئی نہیں۔ اچھا اب اگر خلیفہ اور سپریم کورٹ آپس میں‌مل جائیں تو آپ کی خلافت کے پاس کوئی پُرامن طریقہ ہے لوگوں کی حفاظت کرنے کا؟ یہ فیصلہ کون اور کب کرے گا کہ اب خلیفہ کے خلاف مسلح جدوجہد کی اجازت ہو گئی ہے؟ آپ کے بیان کردہ نکات ایک عجب چوں‌چوں کا مربہ ہیں۔ یوں‌لگتا ہے کہ جمہوریت کی نفی کے لئے ملوکیت اور جمہوریت کا ایک ملغوبہ سا تیار کیا جارہا ہے جس کا مقصد صرف ہیہی ہے کہ مسلمانوں کو ایک اور رومانوی غیر حقیقی تصور میں الجھا دیا جائے۔ نجانے کب تک اغیار کے یہ ایجنٹ مسلمانوں کو نیند کی یہ گولیاں دیتے رہیں گے۔ ویسے مجھے تو آج تک اسلامی نظام کی ہی سمجھ نہیں آئی کہ اس سے آپ لوگوں‌کی کیا مراد ہے؟ میرے خیال میں تو امریکی معاشرہ آپ سب اسلامی معاشروں سے زیادہ اسلامی ہے۔ یہاں‌کسی سے کسی بھی جگہ کسی بھی وجہ سے تعصب نہیں کیا جاتا، ہر کوئی ہر کسی کے کام آنے کی کوشش کرتا ہے، لوگ راست گو ہوتے ہیں، خوش اخلاق ہوتے ہیں، حقدار کو اس کا حق، محنت کش کو اس کا محنتانہ ملتا ہے۔ پینے کو صاف پانی ملتا ہے، کھانے کو خالص خوراک ملتی ہے، ریاست اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کرتی ہے اور اپنے عوام کی حفاظت کرتی ہے۔ ہر کسی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے جب تک اس کے اس عمل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ آپ کی بیرونی سفارت کاری لفظ "جہاد" پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ کیا اسلام میں جیو اور جینے دو کا بھی کوئی اصول ہے؟ کیا تلوار کے علاوہ کردار سے بھی فتح کرنے کی کوئی بات ہے؟ آپ لوگوں‌کی انہی باتوں کی وجہ سے امت آج اس حال میں ہے۔ بجائے اس کے کہ لوگوں‌کو کہا جائے کہ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور پوری طرح سے مملکت کے نظام میں دخیل ہوں آپ لوگ ایک نئی افیون لے کر سامنے آگئے ہیں خلافت کے نام پر تاکہ لوگ مزید مدہوش رہیں۔ کوئی پچاس برس سے لگا ہوا ہے اور کوئی پچھتر برس سے۔ وہ جو صاحب ہیں اس تنظیم کے بانی وہ پہلے اپنا ملک تو آزاد کروالیں اسرائیل سے پھر خلافت بھی قائم کر لیں۔ جو بات ضروری ہے اس کی ہوش نہیں اور ادھر اُدھر کی باتیں جتنی مرضی کروالو۔کام چور لوگ۔ پکی پکائی کھانے کے شوقین۔ ایک ملک ایک خلیفہ کے نظام میں کیا نماز بھی سب ایک طرح اور ایک ہی وقت پر پڑھیں گے؟ کس کا اسلام نافذ ہوگا اس سلطنت میں؟ قرآن اور احادیث میں تو چند جرائم کی حدود کا ذکر ہے، باقی جرائم کے لئے حدود کا تعین کون کرے گا؟ کون چُنے گا ان لوگوں کو جو ان حدود کا تعین کریں گے؟ سو باتوں کی ایک بات ہے، یہ جتنے بھی ہیں نا زبانی کلامی فلاسفر، انہیں پتہ ہے کہ لوگ کبھی بھی انہیں پسند نہیں کریں گے، کیونکہ ان کا عمل ہی سُنت نبوی پر نہیں ہے اور اکثر تو ویسے ہی گُستاخِ رسول صلعم ہوتے ہیں۔ اس لئے چور راستہ ڈھونڈتے ہیں اور اس میں اغیار ان کی بھرپور مدد کرتے ہیں تاکہ بچارے مسلمان کبھی بھی اپنی اصل مشکلات سے آگاہ ہی نہ ہو سکیں۔ اپنے گھر کی بجائے دوسرے ملکوں کی فکر ڈالتے ہیں تاکہ نہ اپنا گھر ٹھیک ہو سکے اور نہ دوسرے کا۔ ایک بات بتاؤں، یہ جتنی بھی احزاب ہیں نا یہ سب اپنا عمل سُنت نبوی صلعم پر کرلیں تو جمہوریت ہی ان کے لئے کافی ہو جائے گی۔ لوگ خود ہی انہیں منتخب کریں گے اور پھر جب یہ "اچھے" لوگ کام ہی اللہ کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق کریں گے تو اسلام بھی خود ہی نافذ ہوجائے گا۔ ویسے ایک طریقہ آپ نے بیان فرمایا پاکستان میں Mna, Mpa بننے کا۔ کیا صرف یہی طریقہ ہے؟ میرا تو یقین ہے کہ چپڑاسی سے لیکر صدر تک، وہی بندہ بنتا ہے جسے اللہ بنانا چاہے۔ آپ لوگوں‌پر اللہ کی ان لُٹیروں کو فوقیت دینے کی صرف ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کسی وجہ سے وہ لوگ آپ سے بہتر ہیں اللہ کے نزدیک وگرنہ اللہ کے دوستوں کے لئے تو دونوں جہانوں میں سرفرازی کا وعدہ ہے۔ سوچئے گا اس بات پر۔
 

فرضی

محفلین
وہ فوج تباہ ہوجانے کے بعد دوبارہ قائم کرنا ممکن نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ فوج ہی پاکستان کی حفاظت کی ضامن ہے اور 'نمبر دو اسلام ' کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

تھوڑی سی گڑ بڑ کر دی آپ نے لکھنے میں فاروق صاحب۔ ایسا ہونا چاہیے تھا۔ یہ فوج ہی پاکستان میں امریکی مفادات کی ضامن ہے;)
 

خرم

محفلین
تھوڑی سی گڑ بڑ کر دی آپ نے لکھنے میں فاروق صاحب۔ ایسا ہونا چاہیے تھا۔ یہ فوج ہی پاکستان میں امریکی مفادات کی ضامن ہے;)

نہیں بھائی قصور ہمارا اپنا ہے۔ فوجی بھی تو ہمارے ہی بھائی ہیں۔ ہمیں نے انہیں طاقت دینی ہے اور ہمیں نے انہیں کمزور کرنا ہے۔ ہم جب اس فوج کی باگیں کبھی بے نظیر کے، کبھی نواز شریف کے اور کبھی پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھمائیں گے تو فوج کیا کرے؟ آپ میرٹ پر ووٹ دو، اپنی ذمہ داری ادا کرو تو فوج آپ کی بات مانے گی۔ جب آپ ووٹ دیتے ہو کسی کو صرف اس لئے کہ وہ آپ کی برادری کا ہے، یا آپ کی زبان بولتا ہے، یا اس کا باپ آپ کو پسند تھا یا اس سے آپ کو فائدہ ہوگا تو وہ لوگ فوج سے بھی اسی قسم کا کام کروائیں گے۔ اب جب نواز شریف پرویز مشرف کو صرف اس لئے منتخب کرے گا کہ ایک تو اس کا رنگ کالا ہے اور دوسرا اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں تو پھر یہی ہوگا نا جو ہوا۔ اگر میرٹ پر بات ہوتی تو نہ پرویز مشرف ہوتا اور نہ یہ سب کچھ۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ ملک میں تمام خرابی کے ذمہ دار ہم عوام ہیں۔ اگر ہم اپنا فرض صحیح طرح سے ادا کریں تو کچھ غلط ہو ہی نہ۔
 
صاحبو، اور دوستو۔ ایک بات پر میں آپ سے متق ہوں اور آپ سے اتفاق کی گزارش کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ ----- ہم یہاں کچھ بہتر سوچنے کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ بہتر نتائج نکلیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا ہمارا منشاء نہیں ہے ------ اس کے بعد میرا یہ وعدہ ہے کہ احترام کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دوں گا کہ آپ سب مجھے محترم ہیں، ہمارا نکتہ ارتکاز (فوکس) اپنے ملک کی بہتری کی طرف رہنا چاہیے۔ ہمارا دشمن کوئی بھی ہو ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں۔ میں نے اپنی تمام تعلیم کراچی میں مکمل کی، تو اس ملک نے ہی مجھے سب کچھ دیا، اب اگر میں آکر ٹکساس میں‌بیٹھا ہوں تو - سمجھئے

رہتے ہوں ہم کہیں بھی رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو ہمیں وہیں پہ دل ہو جہاں ہمارا​

یہ تو تھی میری بات، اب وہ موضوع جس پر ہم بات کررہے ہیں۔ عمر، حزب کا ایک ایک ڈاکومینٹ میں نے پڑھا، جب ہی پتہ چلا کہ ان کا منشاء ایک تا حیات خلیفہ کا ہے۔ اور جب ہی پتہ چلا کہ باہمی مشورے پر انہوں نے کیا لکھا اور کیا نہیں ۔ لیکن اسے چھوڑیے ۔ ہم مان لیتے ہیں‌کہ جو آپ کہہ رہے ہیں اس کا ایک ایک حرف درست ہے۔ اور یہ جماعت جو کچھ کرنا چاہتی ہے وہ ہر طور رسول اللہ کی سنت پر مشتمل ہے۔ یہ بات تو یہ لوگ کہتے ہیں۔ اور آپ نے بھی دہرائی۔ لیکن اس خلافت میں اور اس ترک خلافت میں کیا فرق ہے جو پہلی جنگ عظیم تک جاری و ساری تھی؟ اور آپ کس طو پر یقین دلائیں گے کہ لوگ ایمانداری سے اسی سنت پر عمل کریں گے، جس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ بھائی ہماری تاریخ‌اس بات کی گواہ ہے کہ کلرجی نے اسی سنت کے بہانے کیا کیا کیا ہے۔

ووسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلیفہ، پریزیڈنٹ، وزیر اعظم، امیرالمومنین اب نہ تو رسول ہوگا اور نہ ہی صحابہ کرام۔ تو نئی خلافت میں مسلمان باہمی مشاورت سے خلیفہ کے لئے ایک معیاد کیوں‌نہیں مقرر کرلیتے؟ پھر دوسرا یہ کہ اگر کوئی مخالفت کرے تو اس کی گردن اتار دو؟ صاحب تحریر و تقریر کی تو اجازت دیجئے؟

میرے ناقص علم کے مطابق، یہ ہولی کارپوریشن آف نمبر 2 اسلام من گھڑت روایات سے ہی وجود میں آئی ہے۔ اگر سارا من گھڑت نہیں ہے تو بہت سارا ضرور ایسا ہے۔ اسی ہولی کارپورایشن آف نمبر 2 اسلام کا طرز حکومت ایسا بھیانک تھا کہ ہمارے اجداد تو ہندوستان میں خلافت بچانے کے لئے تگ و دو کر رہے تھے اور اس کود اس ترک خلافت کے باسیوں میں جدو جہد ہو رہی تھی ترکوں کے خلاف۔ جا بجا ترک گورنر قتل کئے گئے۔ اور ترکی نے اسی نفرت کے باعث اپنا طرز تحریر عربی سے بدل کر رومن کر لیا ۔

بھائی، جو کچھ ان لوگوں نے لکھا ہے۔ پہلے تو وہ قابل بحث ہے۔ اور اس کے بعد اس بات کے لئے بہت مظبوط قیود درکار ہیں کے ان پر عمل ہوگا۔ فرد واحد کی حکومت اور فرد واحد کی قانون سازی، اللہ اور اس کے رسول کے نام پر اب بار بار مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ اس پر آپ دل سے غور کیجئے۔ اللہ کے قوانین دل سے قبول ہیں۔ لیکن اس بہانے چند لوگوں کو ہمیشہ کے لئے اقتدار مل جائے قبول نہیں۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ اراکین مقررہ معیاد کے لئے منتخب ہو کر آئیں اور اس کا ڈیزائین ایسا ہو کا خلاء نہ پیدا ہو۔ جو خلاف اسلام کام کرے وہ آئیندہ بار منتخب ہی نہ ہو۔ اس میں آپ کو کیا برائی نظر آتی ہے۔ ایک قانون ساز ادارہ کی ضرورت تو ہمیشہ رہے گی، یہی ادارہ منتخب شدہ ہو اور حکومت کا نگراں ہو اس میں کیا برائی ہے؟ کیا ایسی منتخب جماعت قتل کو، ریپ کو، فراڈ کو چوری کو جائز قرا دے دے گی؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ کے قانون کے خلاف کوئی جائے اور مسلمان اس کو منتخب کرتے رہیں۔

عوام کو اس میں برائی نہٰیں نظر آتی لیکن کلرجی (‌ملا، مولوی، آیت اللہ) اس جمہوری نظام میں بے بس ہو جاتے ہیں۔ کہ وہ من مانی نہیں کرسکتے۔ 40 ، 40 شادیاں نہیں کرسکتے اور کوئی بادشاہ ان کو ذاتی مفادات کے لئے، نوازنے والا نہیں ہوتا۔ ملوکیت خراب ہے۔ اس سے اتفاق ہے۔ لیکن جو حکومت تجویز کی گئی ہے وہ مکمل طور پر ملوکیت ہے، ہا ان لوگوں نے بہت کوشش کی ہے کہ اس کو آیات اور روایات سے ڈھانپ دیا جائے۔ جس کی سب سے بڑی وجوہات میں نے بتا دی ہیں۔ دنیا میں صرف دو نظام چلتے رہے ہیں، جمہوریت یا ملوکیت (‌بادشاہت، خلافت۔ امارت)‌ جو بھی کہہ لیں ۔اصول بہت سیدھا سادہ ہے۔ اگر یہ جمہوریت نہیں ہے تو پھر کوئی بھی نام ہو یہ حکومت فرد واحد کی ہے۔

ان لوگوں پھیلایا ہوا یہ خیال درست نہیں کہ جمہوریت ہوگی تو اللہ کے قانون کے خلاف قوانین بنیں گے۔ قتل ، فساد، چوری، ڈاکہ، جنسی بے رہ روی اور ریپ یا اللہ کے کسی قانون کے خلاف کوئی جا ہی نہیں سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بہتر لوگوں‌ کا انتخاب کیا جائے، اور قابل لوگوں کو اسمبلی میں بھیجا جائے۔ پھر عرض‌کروں‌گا۔ بنیادی سطح تعلیم کو بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تبدیلی جب ہی آئے گی۔ جب تک بیشتر لوگوں کی سوچیں تبدیل نہیں ہوں گی کسی اچانک تبدیلی کی توقع فضول ہے۔

جرائم و بے ایمانی، جنگ و جدل، انسانوں کی سوچ سے شروع ہوتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جرائم و بے ایمانی اور جنگ و جدل کے دفاع کے لئے سوچ کو نشانہ بنایا جائے، گردن اتار دینا اس کا علاج نہیں کہ مردہ انسان سوچ سے عاری ہوتے ہیں۔

والسلام
 

عمر میرزا

محفلین

سلامتی ہو ہر اس شحص پر جو ھدایت کا طلب گار بنے

السلام علیکم!


اور ان تین فوجیوں کا بھی ذکر فرما دیں جو اسی دستے میں شامل تھے اور انہیں بتزک و احتشام آپ کے ممدوح "سچے مسلمان" طالبان نے گولی مار کر ہلاک کیا۔ ان کی ہلاکت کی ویڈیو بھی بنائی اور تصاویر بھی کھینچیں؟

اس سلسلے میں میں اپنا موقف پھر سے دہرائے دیتا ہوں کہ وزیرستان کے مسلمانوں پر کی جانے والی فوج کشی
صرف اور صرف امریکہ کے ایماء اور امریکہ کے مفاد کی جارہی ہے۔جس کے نتیجے میں ردعمل کے طور پر ہونے والے عوامل کا حمیازہ معصوم لوگ اور فوج بھگت رہی ہے۔





یہ جو اسلام کے نام پر ملوکیت کی ایک بد ترین شکل آپ نافذ کرنا چاہتے ہیں اب آپ کہیں گے کہ جی اسلام کے شروع میں تھی تو کیا آپ یہ بتا سکیں گے کہ اس خلافت کا طریق کیا تھا اور اس کا دورانیہ کتنا تھا؟ وہ کیا وجوہات تھیں کہ صحابہ بھی تھے، مسلمان بھی تھے اور پھر بھی ملوکیت آ گئی؟

نہیں ایسی کوئی بات نہیں پچھلی پوسٹ اس بات کاتذ کرہ ہو چکا ہے کی جمہوریت ، آمریت یا ملوکیت اور خلافت میں کیا فرق ہوتا ہے ان کے درمیان سب سے اہم اور بنیادی فرق قانون سازی کا اختیار ہے۔ریاست خلافت میں اقتدار اعلٰی حقیقی طور پر شریعت کو حاصل ہوتا ہے جن کو ریاستی قوانین بنانے کے لئے نہ تو عوامی نمائندوں کی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی خلیفہ کی مرضی کی ۔
مثال کے طور پر جب امریکہ کوافغانستان میں جنگ کرنے کےلئے اڈے دینے یا نہ دینے کا مسلئلہ زیر بحث آیا۔ اگر پاکستان میں خلافت ہوتی تو اس فیصلے کو یکسر مسترد کر دیتی کیونکہ اسلام نے کفار کےمسلمانوں پر کسی بھی قسم کے غلبے کو حرام قرادیا ہے۔ اور اگر خلیفہ کسی دباؤ میں آکر امریکہ کو اڈے دے بھی دیتا ہے ۔تواسلامی آئین کی رو سے وہ اپنے منصب سے معزول ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا فعل غیر اسلامی تھا ۔

مگر ہم لوگوں‌کو یاد ہو گا کہ جب ماضی میں ایسا ہوا تو ہمارے حکمران نے "National interest کا نعرہ لگا کر امریکہ کو اڈے دے دئے۔اور ساتھ ہی پاکستانی آئین میں نئی ترمیم کے ذریعے اپنے اس اقدام کو تحفظ دیا ۔ آئین میں اس نئی شق کے مطابق کوئی شخص اس حکومتی موقف کونی تو کسی عدالت میں چیلنج کر سکتا ہے اور نہ کوئی جج اس پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
اصل ملوکیت تو یہ ہوتی ہے اور یہ اس نظام کی حامی ہے جس میں اقتدار اعلٰی لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔اور اقتدار اعلٰی پر ایسی دسترس ہی کسی حکمران کو مطلق العنان بناتی ہے۔

یہ دُنیا میں کہیں رائج بھی ہے؟

آج اسلام ریاست کی صورت میں پوری دنیامیں کہیں بھی نہیں ہے ۔گو کہ تقریبا سارے اسلامی ممالک میں چنیدا چنیدا قانون نافذ ہیں اور وہ بھی صرف عدالتوں میں سزاؤں کی صورت میں ۔کہیں کم کہیں زیادہ مگر ان کودارلسلام نہیں جا جاسکتا۔

خلافت کا طریق کیا تھا اور اس کا دورانیہ کتنا تھا؟
خلافت کا طریقہ کار نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کے ہی مطابق تھا ۔اور اس کا دورانیہ تب تک تھا جب تک اسلام مکمل طور پر نافذ ہوتا رہا۔
حلافت کے دورانئے کے بارے میں سوال اکثرذہن میں اس کو ایک ناقابل عمل نظام سمجھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
یاد رکھئے ! خلافت اگر حتم ہوئی تھی تو یہ ناکامی لوگوں کی تھی نہ کہ اس نطام کی۔

آپ نے ارشاد فرما دیا کہ اسلام میں صرف ایک ملک ہوتا ہے۔ اللہ اکبر۔ یہ آپ نے کہاں سے لیا نقطہ؟ کہیں کوئی ایسی حدیث، کوئی ایسی آیت کوئی ایسا فتوٰی موجود ہے کہ اسلام میں صرف ایک ملک ہوگا اور باقی سب کفر؟ کیا اس کا یہ مطلب یہ لیا جائے کہ ما سوائے شروع کے چند سالوں کے تمام مسلمان حالتِ کفر میں رہے اور وفات پائی؟

جی بلکل اسلام نے مسلمانوں کی صرف ایک ریاست ہونے کو لازم قرار دیا ہے اور مسمانوں کے محتلف گروہوں اور ملکوں میں بٹنے کی سوچ کو ہی غلط گردانا ہے ۔آج دیکھ لیں مسلمانوں کے زوال کی وجہ ان میں وحدت کا نہ ہونا بھی ہے۔
اس سلسلے میں نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث بڑی واضح ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ۔مسلمانوں کے ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا آ جائے تو اس گردن اڑا دو ۔۔
یہ حکم ایسے شحص کے بارے میں ہے جو ایک حلیفہ کی موجودگی میں کسی علاقے پر قبضہ کر کے حود کو حلیفہ المسلمین کہلوانا شورع کر دے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان کے مطابق اگر کسی مسلمان کے گلے میں حلیفہ کی بیعت نہیں ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
اس حدیث سے یہ مراد ہر گز ہیں ہے کہ وہ مسلمان حالت کفر میں مرے گا بلکہ یہ حدیث اس بات پر زور دیتی ہے کہ مسلمانوں کو خلیفہ کی بیعت ضرور کرنی چاہیے۔ اور اس کا سب سے زیادہ اطلاق آجکل ہم مسلمانوں پر ہوتی ہیں۔جب پوری دنیا میں کوئی بھی خلیفہ المسلمین موجود نہیں۔

نیز یہ بھی کہ دارلسلام صرف اس ریاست کو کہا جاتا ہے جہاں تمام کے تمام قوانینن اسلامی ہوں،ریاست پر اتھارٹی بھی مسلمانوں کے پاس ہو ۔اور خلیفہ امت کی بیعت سے منتحب ہوا ہو۔اگر ایک بھی قانون اسلام سے ہٹ کر کفر کا داحل کیا جائے گا تو ریاست دارلسلام کی بجائے دارلکفر میں بدل جائے گی ۔اگرچہ اس ریاست کی اکژریت 100 فیصد مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ نیز ایسی صورت میں مسلمان مسلمان ہی رہتے ہیں کافر نہیں ہوتے۔

خلیفہ کو سپریم کورٹ ہی معزول کر سکتی ہے اور کوئی نہیں۔ اچھا اب اگر خلیفہ اور سپریم کورٹ آپس میں‌مل جائیں تو آپ کی خلافت کے پاس کوئی پُرامن طریقہ ہے لوگوں کی حفاظت کرنے کا؟
ریاست خلافت کوئی ریاست الیہہ نہیں ھوتی کہ جس میں غلطی کی گنجائش نہ ہو ۔بہر احال یہ ایک انسانی ریاست ہی ہوتی جس میں ایسے صورتحال کا سامنا کیا جاسکتا ہے ۔
اسلام نے ہی اس کا حل دیا ہے۔ اللہ سبحان وتعالٰی نے ھکمران کا محاسبہ کرنے کو امت کی پسند ناپسند پر نہی چھوڑا بلکہ فرض قرار دیا ہے اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کو افضل جہاد کہا گیا ہے ۔ دوسرے سیاسی جماعتوں کی موجودگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ خلیفہ مطلق العنان حکمران نہیں ہوسکتا ۔
ایسی صورت میں امت سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر ایک تحریک کی صورت میں ھکمران اور اس کے ساتھیوں کو ہٹا سکتی ہیں۔

آپ کے بیان کردہ نکات ایک عجب چوں‌چوں کا مربہ ہیں۔ یوں‌لگتا ہے کہ جمہوریت کی نفی کے لئے ملوکیت اور جمہوریت کا ایک ملغوبہ سا تیار کیا جارہا ہے جس کا مقصد صرف ہیہی ہے کہ مسلمانوں کو ایک اور رومانوی غیر حقیقی تصور میں الجھا دیا جائے۔ نجانے کب تک اغیار کے یہ ایجنٹ مسلمانوں کو نیند کی یہ گولیاں دیتے رہیں گے۔

دیکھیں آپ کا یہ رویہ کسی صحت مندانہ سوچ کی عکاسی نہی کرتا ! نظاموں کا مطالعہ اور ان باریکیوں کی حد تک سمجھنا اتنا آسان نہیں کہ ایک دو حطوط میں پورے کا پورا سمجھ آ جائے۔ اس کے لئے شائد مسلسل مطالعہ اور لمبی لمبی بحثیں درکار ہونگی۔
فرض کریں ایک انجنیر نگ کا سٹوڈنٹ ۔انجنیر نگ کو پانچ سال پڑھے بغیر اور امتحان دیئے بغیر یونیورسٹی کے پہلے ہی دن پہلا پیریڈ پڑھنے کہ بعد انجنیر نگ کو بےکار اور فرسودہ سمجھنا شروع کر دے ۔تو قصور اس کی جہالت کا ہے نہ کہ انجنیر نگ کا۔
دوسرا اسلام کے سب سے اہم پہلو سیاست کوبذات خود سمجھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ وہ علم ہے جس کو ناپید اور کمیاب کردیا گیا ہے۔

والسلام
باقی باتیں آئندہ۔۔۔
 

خرم

محفلین
اس سلسلے میں میں اپنا موقف پھر سے دہرائے دیتا ہوں کہ وزیرستان کے مسلمانوں پر کی جانے والی فوج کشی
صرف اور صرف امریکہ کے ایماء اور امریکہ کے مفاد کی جارہی ہے۔جس کے نتیجے میں ردعمل کے طور پر ہونے والے عوامل کا حمیازہ معصوم لوگ اور فوج بھگت رہی ہے۔
بھائی آپ سے تو دو لفظ مذمت کے بھی نہ بولے گئے۔ اب اس سے زیادہ اور کیا کہوں حزب کے اسلام کے بارے میں۔ اگر امریکہ نہ رہا تو پھر آپ لوگ نجانے کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں پچھلی پوسٹ اس بات کاتذ کرہ ہو چکا ہے کی جمہوریت ، آمریت یا ملوکیت اور خلافت میں کیا فرق ہوتا ہے ان کے درمیان سب سے اہم اور بنیادی فرق قانون سازی کا اختیار ہے۔ریاست خلافت میں اقتدار اعلٰی حقیقی طور پر شریعت کو حاصل ہوتا ہے جن کو ریاستی قوانین بنانے کے لئے نہ تو عوامی نمائندوں کی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی خلیفہ کی مرضی کی ۔
مثال کے طور پر جب امریکہ کوافغانستان میں جنگ کرنے کےلئے اڈے دینے یا نہ دینے کا مسلئلہ زیر بحث آیا۔ اگر پاکستان میں خلافت ہوتی تو اس فیصلے کو یکسر مسترد کر دیتی کیونکہ اسلام نے کفار کےمسلمانوں پر کسی بھی قسم کے غلبے کو حرام قرادیا ہے۔ اور اگر خلیفہ کسی دباؤ میں آکر امریکہ کو اڈے دے بھی دیتا ہے ۔تواسلامی آئین کی رو سے وہ اپنے منصب سے معزول ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا فعل غیر اسلامی تھا
اور شریعت سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اسی طرح کیا بین الاقوامی معاہدوں کی بھی کوئی اہمیت ہوتی ہے؟ ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کے مشورہ کی بھی کوئی اہمیت ہوتی ہے؟ صلح حدیبیہ کے متعلق بھی ارشاد فرمائیے گا۔ اس میں بھی ایک مسلمان کو کفار کے غلبے میں دے دیا گیا تھا۔ نعوذ باللہ وہ بھی حرام تھا؟ اسلامی آئین کی اصطلاح آپ نے بیان کی، یہ بھی بیان فرما دیجئے کہ آئین کا لفظ اسلام میں کب سے آیا؟ کیا آئین اور شریعت ایک ہی چیز ہیں؟
خلافت کا طریقہ کار نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کے ہی مطابق تھا ۔اور اس کا دورانیہ تب تک تھا جب تک اسلام مکمل طور پر نافذ ہوتا رہا۔
حلافت کے دورانئے کے بارے میں سوال اکثرذہن میں اس کو ایک ناقابل عمل نظام سمجھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
یاد رکھئے ! خلافت اگر حتم ہوئی تھی تو یہ ناکامی لوگوں کی تھی نہ کہ اس نطام کی۔
آپ نے دورانیہ نہیں بیان فرمایا بس ایک مبہم سی بات کر کے سوال ٹال دیا۔ چلیں ایک اور طرح سے سوال پوچھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ خلافت کی ناکامی لوگوں کی ناکامی تھی، اب اگر آپ خلافت کا دورانیہ بیان فرما دیں تو بات کھُلے کہ آپ کے نزدیک کونسے لوگ ناکام ہوئے۔ اس سوال کا جواب ضرور دیجئے پلیز۔ ویسے میرے ناقص علم کے مطابق اسلام نے کوئی بھی Governing Institution نہیں بنایا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے شروع کی کئی دہائیاں قرآن کا رسم الخط اور اعراب بھی Instutionalized نہ تھے۔ وقت کے تقاضوں کے تحت یہ چیزیں‌"ایجاد" کی گئیں اور مروج ہوئیں۔ شاید یہ ایک طرزِ حکمرانی کو Institutionalize نہ کرسکنا ہی آنے والے وقتوں میں ایک مسئلہ بنا۔ بہرحال اس پر تو بعد میں‌بات کریں گے پہلے مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان کے مطابق اگر کسی مسلمان کے گلے میں حلیفہ کی بیعت نہیں ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
اس حدیث سے یہ مراد ہر گز ہیں ہے کہ وہ مسلمان حالت کفر میں مرے گا بلکہ یہ حدیث اس بات پر زور دیتی ہے کہ مسلمانوں کو خلیفہ کی بیعت ضرور کرنی چاہیے۔ اور اس کا سب سے زیادہ اطلاق آجکل ہم مسلمانوں پر ہوتی ہیں۔جب پوری دنیا میں کوئی بھی خلیفہ المسلمین موجود نہیں۔
چلیں جی آپ نے تو کام ہی تمام فرما دیا۔ اکثریت اولیائے کرام، علماء حق اور کروڑہا لوگ آپ نے جاہلیت کی موت مار دئے۔ ویسے ایک سوال کا جواب تو دیجئے۔ قرآن کہتا ہے کہ جب جمعہ کی اذان دی جائے تو مسجد کی طرف دوڑو۔ آپ کیسے جاتے ہیں مسجد؟
نیز یہ بھی کہ دارلسلام صرف اس ریاست کو کہا جاتا ہے جہاں تمام کے تمام قوانینن اسلامی ہوں،ریاست پر اتھارٹی بھی مسلمانوں کے پاس ہو ۔اور خلیفہ امت کی بیعت سے منتحب ہوا ہو۔اگر ایک بھی قانون اسلام سے ہٹ کر کفر کا داحل کیا جائے گا تو ریاست دارلسلام کی بجائے دارلکفر میں بدل جائے گی ۔اگرچہ اس ریاست کی اکژریت 100 فیصد مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
چلیں جی بات ہی ختم۔ دُنیا میں نہ کسی کو جمعہ پڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی دیگر امور سے مکلف ہونے کی۔ تمام احکامِ شرعی جو صرف ایک اسلامی مملکت پر نافذ ہوتے ہیں وہ سب ساقط۔ تو جب ملک ہی اسلامی نہ ہوا تو فوج بھی اسلامی نہ رہی۔ اب جب فوج ہی اسلامی نہ رہی تو اس کی فتوحات بھی اسلامی نہ رہیں۔ اب آپ یہ ایلگوردھم ذرا بنو امیہ سے لیکر آج تک چلادیں۔ نہ کوئی مسلمانوں کی فتح اور نہ کوئی مسلمانوں کی جیت۔
دوسرے سیاسی جماعتوں کی موجودگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ خلیفہ مطلق العنان حکمران نہیں ہوسکتا ۔
ایسی صورت میں امت سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر ایک تحریک کی صورت میں ھکمران اور اس کے ساتھیوں کو ہٹا سکتی ہیں۔
یہ سیاسی جماعتیں کدھر سے آگئیں آپ کے نظامِ خلافت میں؟ کیا خلفائے راشدین کے دور میں سیاسی جماعتیں تھیں؟ یہ تو ایک عجب "بدعت" و "ندرت" ڈال دی آپ نے "کلاسک خلافت" میں۔
دیکھیں آپ کا یہ رویہ کسی صحت مندانہ سوچ کی عکاسی نہی کرتا ! نظاموں کا مطالعہ اور ان باریکیوں کی حد تک سمجھنا اتنا آسان نہیں کہ ایک دو حطوط میں پورے کا پورا سمجھ آ جائے۔ اس کے لئے شائد مسلسل مطالعہ اور لمبی لمبی بحثیں درکار ہونگی۔
بھائی پنجابی میں ایک مثل ہے کہ دیگ کا ایک دانہ ہی بتا دیتا ہے کہ دیگ کیسی پکی ہے۔ یہ جو بات آپ فرما رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہارے ہوئے لوگ اور پٹے ہوئے مُہرے ایسی باتیں عرصہ دراز سے کرتے آ رہے ہیں۔ میں آپ کو ایک ہارا ہوا مہرہ نہیں کہہ رہا، یہ جن لوگوں کی آئیڈیالوجی کی آپ بات کر رہے ہیں ان کی بات کر رہا ہوں۔ میدانِ عمل میں کودنا بہت مشکل ہے، بڑی بڑی افسانوی اور تخیلاتی باتیں کرنا بہت آسان۔ انہی لوگوں کی وجہ سے آج مسلمانوں کی یہ حالت ہے۔ بجائے اس کے موجودہ حالات سے نکلنے اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کریں، ایک نیا نسخہ لیکر مارکیٹ میں آجاتے ہیں۔ جس خلافت کی آپ بات کرتے ہیں نا، اس کے لئے ابوبکر و عمر و عثمان و علی کا زُہد چاہئے پھر اسی طرح کے مشیران جو تربیتِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم سے سرفراز و شاداب ہوں پھر بنتی ہے ایسی حکومت (خلافت)۔ صرف نام رکھ دینے سے نہیں بن جاتی خلافت۔ اور اگر آپ ان جید مخدومین کی خاکِ پا بھی ہو جائیں نا تو غلبہ بھی آپکا ہی ہوگا اور نام چاہے کوئی بھی ہو، آپ کی حکومت اسلامی ہی ہوگی۔ بات اندر کو بدلنے کی ہے مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ سو خلافت زندہ باد۔
 
Top