اے ٹی ایم کی طرز پر کتابیں فراہم کرنے والی مشین

عثمان

محفلین
نہیں جی! چھپی ہوئی کتاب کے پڑھنے میں اپنا مزا ہے۔۔۔ ۔۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ٹیکنالوجی جتنی ترقی کرے ۔۔۔ ۔۔۔ پرنٹڈ کتابوں کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوگی۔۔۔
آپ کو مزا آئے نہ آئے آپ کی اگلی نسل اسے اڈاپٹ کرے گی۔
امریکہ کے دو بڑے بک سٹورز کی چین پرنٹڈ کتابوں میں اپنا بزنس گنوا چکی ہیں۔
دنیا میں کتابیں بیچنے کی سب سے بڑی سائٹ ایمازان ڈاٹ کام اعلان کر چکی ہے کہ اس کی ای بکس کی سیل پرنٹ بکس سے بڑھ گئی ہے۔
جدید یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد اب پرنٹدڈ بکس کی بجائے ای بکس کی طرف جارہی ہے۔
کاغذ کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے ، آپ کتاب کی بات کرتے ہیں۔ :)
 

حسینی

محفلین
آپ کو مزا آئے نہ آئے آپ کی اگلی نسل اسے اڈاپٹ کرے گی۔
امریکہ کے دو بڑے بک سٹورز کی چین پرنٹڈ کتابوں میں اپنا بزنس گنوا چکی ہیں۔
دنیا میں کتابیں بیچنے کی سب سے بڑی سائٹ ایمازان ڈاٹ کام اعلان کر چکی ہے کہ اس کی ای بکس کی سیل پرنٹ بکس سے بڑھ گئی ہے۔
جدید یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد اب پرنٹدڈ بکس کی بجائے ای بکس کی طرف جارہی ہے۔
کاغذ کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے ، آپ کتاب کی بات کرتے ہیں۔ :)

لیکن عثمان بھائی۔۔۔۔۔ ُ آپ ای بکس میں کتنے وقت تک پڑھ سکتے ہیں؟؟؟ اکثر لوگ تو کہتے ہیں کہ ای بکس پر ایک گھنٹے پڑھنے کے بعد آنکھیں تھک جاتی ہیں۔
پرنٹڈ بکس کو آپ کسی بھی زاویے سے اور مختلف انداز ٰ میں پڑھ سکتے ہیں۔۔۔۔ اور ٰ بڑی آسانی رہتی ہے۔۔۔
 

arifkarim

معطل
لیکن عثمان بھائی۔۔۔ ۔۔ ُ آپ ای بکس میں کتنے وقت تک پڑھ سکتے ہیں؟؟؟ اکثر لوگ تو کہتے ہیں کہ ای بکس پر ایک گھنٹے پڑھنے کے بعد آنکھیں تھک جاتی ہیں۔
پرنٹڈ بکس کو آپ کسی بھی زاویے سے اور مختلف انداز ٰ میں پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ ۔ اور ٰ بڑی آسانی رہتی ہے۔۔۔
Amazon Kindle, Ipad وغیرہ کی آمد کے بعد بھی آپ کو کاغذی کتب سے دلچسپی ہے؟
 
تیسری دنیا کے علاوہ باقی دنیا کو میسر ہے یہ سب۔ یہاں ہر گھر میں سب کے پاس ای بک ریڈرز موجود ہیں۔
تو آپ نیٹ سے متصل ہیں ۔ یہاں تیسری دنیا کے لوگ موجود ہیں پھر شوخیاں مارنے کی کیا ضرورت ہے ؟ تیسری دنیا میں بھی بہت گھروں میں ای بک ریڈر ہیں۔
 

عثمان

محفلین
لیکن عثمان بھائی۔۔۔ ۔۔ ُ آپ ای بکس میں کتنے وقت تک پڑھ سکتے ہیں؟؟؟ اکثر لوگ تو کہتے ہیں کہ ای بکس پر ایک گھنٹے پڑھنے کے بعد آنکھیں تھک جاتی ہیں۔
پرنٹڈ بکس کو آپ کسی بھی زاویے سے اور مختلف انداز ٰ میں پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ ۔ اور ٰ بڑی آسانی رہتی ہے۔۔۔
لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کی سکرین پر کتاب پڑھتے نظر تھکتی ہے۔
لیکن ای ریڈرز مختلف ہیں۔ ان پر ای انک ٹیکنالوجی کام کرتی ہے۔ اسے پڑھتے نظر نہیں تھکتی بلکہ کتاب کا صفحہ پڑھنے جیسا احساس ہوتا ہے۔
اگر آپ کمرے کی لائٹ بند کردیں تو آپ کو ای ریڈر کی سکرین دکھائی نہ دے گی (جیسے آپ کو کتاب دیکھائی نہ دے گی)۔ لیکن لیپ ٹاپ کی سکرین دکھائی دے گی۔ اس لیے کہ وہ بیک لٹ ہے۔ جبکہ ای ریڈر بیک لٹ نہیں۔ یہ بہت بڑا اور اہم فرق ہے۔
اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ یہ انٹریکٹیو ڈیوائسز ہیں۔ یعنی کتاب پڑھنے کے دوران آپ کو کتاب ایک طرف رکھ کر مختلف ریفرنسز ، سرچ اور لغت وغیرہ دیکھنا پڑتی ہے۔
جبکہ ای ریڈر آپ کو یہ سب آل ان ون مہیا کرتا ہے۔ ایک جنبش پر کتاب ، نیٹ ، ریفرنس ، لغت سب آپ کے سامنے! :)

اور یہ ای ریڈر کوئی بہت مہنگے بھی نہیں۔ اس سے مہنگے تو پاکستان میں لوگوں نے سیل فون رکھے ہوئے ہیں۔ :)
 

عثمان

محفلین
معلومات کی خاطر ُ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں یہ سہولت یعنی ای ریڈر میسر ہے؟؟ اور قیمت کیا ہوگی؟؟؟
پاکستان کے متعلق میں گوگل ہی کر سکتا ہوں۔ وہاں کون کون سے ای ریڈر میسر ہیں ، اور کاپی رائٹس میٹریل تک رسائی کہاں تک ہے یہ تو وہیں پر کوئی بتا سکتا ہے۔
البتہ گوگل پر کچھ سرچ کر کے انداز ہوا ہے کہ مشہور زمانہ ایمازان کے کنڈل ریڈرز پاکستان میں دستیاب ہیں۔
اس لنک پر کنڈل 3 وائی فائی کے ساتھ کی قیمت تقریبا 16990 روپے بتائی گئی ہے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ اس سے کہیں کم قیمت کے سستے ورژن بھی دستیاب ہونگے۔
 

محمد امین

لائبریرین
محمد امین
پاکستان میں کنڈل سے متعلق معلومات درکار ہیں۔ :)

کنڈل موجود تو ہے مگر بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں۔۔۔ زیادہ تر لوگ اب اینڈروئڈ فونز رکھتے ہیں مگر اس کے بھی بہت سے فیچرز استعمال نہیں کرتے۔ خیر پھر بھی یہاں یہ تناسب بہت کم ہے۔ پاکستان میں اسمارٹ ڈیوائسز کا تعمیری اور مثبت استعمال لوگوں کو کرنا نہیں آتا۔ ای بک ریڈر اور کنڈل وغیرہ گدھا گاڑیوں والے ملک میں اتنے رواج نہیں پائے ابھی تک :)
 
کنڈل موجود تو ہے مگر بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں۔۔۔
کنڈل کی شکل ہی ایسی ہے پیسے ضائع کرنے کو دل نہیں چاہتا ۔

پاکستان میں اسمارٹ ڈیوائسز کا تعمیری اور مثبت استعمال لوگوں کو کرنا نہیں آتا۔
ایک دھاگا شروع کر کے سکھائیں مثبت استعمال ۔
 

محمد امین

لائبریرین
کنڈل کی شکل ہی ایسی ہے پیسے ضائع کرنے کو دل نہیں چاہتا ۔


ایک دھاگا شروع کر کے سکھائیں مثبت استعمال ۔

اینڈروئڈ کی مفید ایپلیکیشنز کے بارے میں ایک دھاگہ موجود ہے اس پر سب لوگوں نے اپنی اپنی آراء دی تھیں۔۔۔ کنڈل تو خیر سے میں بھی استعمال نہیں کرتا۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
کنڈل کی شکل ہی ایسی ہے پیسے ضائع کرنے کو دل نہیں چاہتا ۔


ایک دھاگا شروع کر کے سکھائیں مثبت استعمال ۔

یہ جملہ میں نے اس لیے لکھا تھا کہ ایک دن میں ایک ریسٹورنٹ پر بیٹھا تھا میرے پاس ہی ایک غیر تعلیم یافتہ سا بندہ گیلیکسی سیریز کا فون لیے بیٹھا تھا اور اس سے اس کا سائلینٹ موڈ نہیں ہٹ رہا تھا۔۔ تو میں نے اسے فون تھوڑا استعمال کرنا سکھایا۔ اسے اسمارٹ فون کی نہ ضرورت تھی اور نہ استعمال کا طریقہ آتا تھا۔
 
Top