اے یار سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
وسطِ خزاں کی ایک اداس سی شام تھی۔ درختوں کی سبز شاخیں کب کی سرخ ، زرد اور قرمزی جھالروں میں بدل چکی تھیں۔ خنک ہوا جب جب ان شاخوں سے الجھتی کچھ پتے توڑ کر اپنے ساتھ لے جاتی۔ سڑک کنارے ہر طرف رنگ برنگ خشک پتوں کے ڈھیر تہ بہ تہ بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اس شام کو گزرے تقریباً بیس سال ہوئے لیکن مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ میڈیسن شہر کے مضافات میں درختوں سے گھرے گوشے میں آباد ایک گھر کی روشن کھڑکیوں سے اندر کا منظر جھلک رہا تھا۔ کچھ لوگ فرشی قالین پر بیٹھے ، دبیز تکیوں سے ٹیک لگائے، بیتے دنوں کو یاد کر رہے تھے۔ گھر کے باہر تیز ہوا تو شور مچا کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہو چلی تھی لیکن اندر وقفے وقفے سے ایک شور سا بلند ہوتا تھا۔ یہ خوبصورت منظر کراچی کے شاعرِ خوش نوا ہاشم وارث شامؔ کی رہائش گاہ کے دیوان خانے کا تھا جہاں کچھ ہم ذوق دوست احباب ایک شعری نشست برپا کر رہے تھے۔ شعر خوانی اور داد و تحسین کا سلسلہ تھما تو اس کی جگہ چائے اور گپ شپ نے سنبھال لی۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے یاد آنے لگے ۔ گزرے دنوں اور بچھڑے دوستوں کا ذکر ہونے لگا تو ہاشم وارث شامؔ نے یہ شعر پڑھا۔
پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
یہ شعر کچھ ایسا برمحل تھا کہ آہ اور واہ کا ایک بے ساختہ غلغلہ بلند ہوا اور پھر دیر تک فضا کو خاموش کر گیا۔ پوری غزل کی فرمائش ہوئی تو ہاشم شامؔ نے بتایا کہ یہ شعر جامعہ کراچی کے دنوں کا اکلوتا شعر ہے اور کسی غزل کا حصہ نہ بن سکا۔ شہرِ ہجر کی اُس شام اور ماحول کے حوالے سے تیز ہوا کا یہ استعارہ دل و دماغ پر ایسا نقش ہوا کہ پھر غمِ ہجراں کی گفتگو ہو ،غمِ دوستاں کا ذکر یا شورشِ دوراں کا شکوہ ہر موقع پر یہ شعر بے ارادہ زبان پر جاری ہونے لگا۔ اس شعر نے اگرچہ کئی بار طبعِ شعری کو مہمیز دی لیکن اس کی مشکل زمین ہر بار ایک دیوارِ بے در ثابت ہوئی۔ گزشتہ سال خزاں کی ایک شام شمالی وسکانسن کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر گزارنے کا اتفاق ہوا۔ تنہائی میسر تھی۔ شام کی خنکی میں خزاں زدہ درختوں کے درمیان خشک پتوں پر خاموش چلتے ہوئے یہ شعر بار بار پردۂ خیال پر ابھرنے لگا۔ اور پھر کچھ اشعار اس زمین کے افق پر نمودار ہو ہی گئے۔ آج یہ غزل میڈیسن کی اُس شامِ سخن کے نام انتساب کرتے ہوئے آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
٭٭٭

اے یار سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
دل تھام کے چلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

تم شعلۂ الفت کو نمائش سے بچانا
چپ چاپ ہی جلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

رکھتے ہو سرِ عام گر اوراقِ فسانہ
پھر ہاتھ نہ ملنا کہ بہت تیز ہوا ہے

دستار بچانے میں اتر جائے نہ پوشاک
ہر گام سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

روشن جو دیئے طاقِ تمنا پہ کیے ہیں
مت اُن سے بہلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

جس سمت بریدہ نظر آتی ہوں ردائیں
وہ سمت بدلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
ان پر نہ مچلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

" پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے"

٭٭٭

ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱​
 

سیما علی

لائبریرین
جس سمت بریدہ نظر آتی ہوں ردائیں
وہ سمت بدلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
ان پر نہ مچلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
بہت خوب ،بہت خوب
ظہیر بھائی ڈھیروں داد و تحسین قبول فرمائیے ۔
واہ واہ کیا کہنے ؀
جس سمت بریدہ نظر آتیں ہوں ردائیں
وہ سمت بدلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
؀
یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
بہت زبردست بہت زبردست
سلامت رہیے آمین
 
تم شعلۂ الفت کو نمائش سے بچانا
چپ چاپ ہی جلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

دستار بچانے میں اتر جائے نہ پوشاک
ہر گام سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

روشن جو دیئے طاقِ تمنا پہ کیے ہیں
مت اُن سے بہلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
بہت عمدہ ۔۔۔ یہ تین اشعار بطور خاص بہت پسند آئے۔
آخری شعر آپ نے اپنے دوست کا جوں کا توں شامل کر لیا ۔۔۔ کیا یہ صورت جائز ہے؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
وسطِ خزاں کی ایک اداس سی شام تھی۔ درختوں کی سبز شاخیں کب کی سرخ ، زرد اور قرمزی جھالروں میں بدل چکی تھیں۔ خنک ہوا جب جب ان شاخوں سے الجھتی کچھ پتے توڑ کر اپنے ساتھ لے جاتی۔ سڑک کنارے ہر طرف رنگ برنگ خشک پتوں کے ڈھیر تہ بہ تہ بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اس شام کو گزرے تقریباً بیس سال ہوئے لیکن مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ میڈیسن شہر کے مضافات میں درختوں سے گھرے گوشے میں آباد ایک گھر کی روشن کھڑکیوں سے اندر کا منظر جھلک رہا تھا۔ کچھ لوگ فرشی قالین پر بیٹھے ، دبیز تکیوں سے ٹیک لگائے، بیتے دنوں کو یاد کر رہے تھے۔ گھر کے باہر تیز ہوا تو شور مچا کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہو چلی تھی لیکن اندر وقفے وقفے سے ایک شور سا بلند ہوتا تھا۔ یہ خوبصورت منظر کراچی کے شاعرِ خوش نوا ہاشم وارث شامؔ کی رہائش گاہ کے دیوان خانے کا تھا جہاں کچھ ہم ذوق دوست احباب ایک شعری نشست برپا کر رہے تھے۔ شعر خوانی اور داد و تحسین کا سلسلہ تھما تو اس کی جگہ چائے اور گپ شپ نے سنبھال لی۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے یاد آنے لگے ۔ گزرے دنوں اور بچھڑے دوستوں کا ذکر ہونے لگا تو ہاشم وارث شامؔ نے یہ شعر پڑھا۔
پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
یہ شعر کچھ ایسا برمحل تھا کہ آہ اور واہ کا ایک بے ساختہ غلغلہ بلند ہوا اور پھر دیر تک فضا کو خاموش کر گیا۔ پوری غزل کی فرمائش ہوئی تو ہاشم شامؔ نے بتایا کہ یہ شعر جامعہ کراچی کے دنوں کا اکلوتا شعر ہے اور کسی غزل کا حصہ نہ بن سکا۔ شہرِ ہجر کی اُس شام اور ماحول کے حوالے سے تیز ہوا کا یہ استعارہ دل و دماغ پر ایسا نقش ہوا کہ پھر غمِ ہجراں کی گفتگو ہو ،غمِ دوستاں کا ذکر یا شورشِ دوراں کا شکوہ ہر موقع پر یہ شعر بے ارادہ زبان پر جاری ہونے لگا۔ اس شعر نے اگرچہ کئی بار طبعِ شعری کو مہمیز دی لیکن اس کی مشکل زمین ہر بار ایک دیوارِ بے در ثابت ہوئی۔ گزشتہ سال خزاں کی ایک شام شمالی وسکانسن کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر گزارنے کا اتفاق ہوا۔ تنہائی میسر تھی۔ شام کی خنکی میں خزاں زدہ درختوں کے درمیان خشک پتوں پر خاموش چلتے ہوئے یہ شعر بار بار پردۂ خیال پر ابھرنے لگا۔ اور پھر کچھ اشعار اس زمین کے افق پر نمودار ہو ہی گئے۔ آج یہ غزل میڈیسن کی اُس شامِ سخن کے نام انتساب کرتے ہوئے آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ راحیل فاروق بھائی نے اجرک کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ میں نے ان سے اس وقت یہ عرض کیا کہ چیزیں اتنی سندر اور من موہ لینے والی ہوتی نہیں ہیں، جتنا ایک سخنور اپنی لفاظی سے ان کو بنا دیتا ہے۔۔۔ اب آپ ہی کی تحریر لیجیے۔۔۔۔ مطلب کراچی میں درخت جو دو چار ہیں۔۔۔ ان سے ایک دو پتے گر گئے ہوں گے۔۔۔ مگر آپ نے ایسا دل لبھانے والا منظر لکھا ہے کہ میں اس میں کھو کر رہ گیا ہوں۔۔۔ اللہ پاک آپ کے قلم کو یوں ہی سرسبزوشاداب رکھے۔ آمین۔ بہت ہی سندر تحریر ہے۔۔۔ دل کو چھوتی ہوئی۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
٭٭٭

اے یار سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
دل تھام کے چلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

تم شعلۂ الفت کو نمائش سے بچانا
چپ چاپ ہی جلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

رکھتے ہو سرِ عام گر اوراقِ فسانہ
پھر ہاتھ نہ ملنا کہ بہت تیز ہوا ہے

دستار بچانے میں اتر جائے نہ پوشاک
ہر گام سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

روشن جو دیئے طاقِ تمنا پہ کیے ہیں
مت اُن سے بہلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

جس سمت بریدہ نظر آتی ہوں ردائیں
وہ سمت بدلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
ان پر نہ مچلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

" پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے"

٭٭٭

ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱​
بہت ہی خوبصورت غزل ہے۔۔۔ شاندار۔۔۔ لاجواب۔۔۔ بالخصوص یہ اشعار

تم شعلۂ الفت کو نمائش سے بچانا
چپ چاپ ہی جلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
ان پر نہ مچلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
کیا بات ہے ظہیر بھائی۔۔۔ اللہ پاک آپ کو شاداب رکھے۔ کہ ہم کو اچھی شاعری پڑھنے کو مل جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
وسطِ خزاں کی ایک اداس سی شام تھی۔ درختوں کی سبز شاخیں کب کی سرخ ، زرد اور قرمزی جھالروں میں بدل چکی تھیں۔ خنک ہوا جب جب ان شاخوں سے الجھتی کچھ پتے توڑ کر اپنے ساتھ لے جاتی۔ سڑک کنارے ہر طرف رنگ برنگ خشک پتوں کے ڈھیر تہ بہ تہ بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اس شام کو گزرے تقریباً بیس سال ہوئے لیکن مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ میڈیسن شہر کے مضافات میں درختوں سے گھرے گوشے میں آباد ایک گھر کی روشن کھڑکیوں سے اندر کا منظر جھلک رہا تھا۔ کچھ لوگ فرشی قالین پر بیٹھے ، دبیز تکیوں سے ٹیک لگائے، بیتے دنوں کو یاد کر رہے تھے۔ گھر کے باہر تیز ہوا تو شور مچا کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہو چلی تھی لیکن اندر وقفے وقفے سے ایک شور سا بلند ہوتا تھا۔ یہ خوبصورت منظر کراچی کے شاعرِ خوش نوا ہاشم وارث شامؔ کی رہائش گاہ کے دیوان خانے کا تھا جہاں کچھ ہم ذوق دوست احباب ایک شعری نشست برپا کر رہے تھے۔ شعر خوانی اور داد و تحسین کا سلسلہ تھما تو اس کی جگہ چائے اور گپ شپ نے سنبھال لی۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے یاد آنے لگے ۔ گزرے دنوں اور بچھڑے دوستوں کا ذکر ہونے لگا تو ہاشم وارث شامؔ نے یہ شعر پڑھا۔
پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
یہ شعر کچھ ایسا برمحل تھا کہ آہ اور واہ کا ایک بے ساختہ غلغلہ بلند ہوا اور پھر دیر تک فضا کو خاموش کر گیا۔ پوری غزل کی فرمائش ہوئی تو ہاشم شامؔ نے بتایا کہ یہ شعر جامعہ کراچی کے دنوں کا اکلوتا شعر ہے اور کسی غزل کا حصہ نہ بن سکا۔ شہرِ ہجر کی اُس شام اور ماحول کے حوالے سے تیز ہوا کا یہ استعارہ دل و دماغ پر ایسا نقش ہوا کہ پھر غمِ ہجراں کی گفتگو ہو ،غمِ دوستاں کا ذکر یا شورشِ دوراں کا شکوہ ہر موقع پر یہ شعر بے ارادہ زبان پر جاری ہونے لگا۔ اس شعر نے اگرچہ کئی بار طبعِ شعری کو مہمیز دی لیکن اس کی مشکل زمین ہر بار ایک دیوارِ بے در ثابت ہوئی۔ گزشتہ سال خزاں کی ایک شام شمالی وسکانسن کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر گزارنے کا اتفاق ہوا۔ تنہائی میسر تھی۔ شام کی خنکی میں خزاں زدہ درختوں کے درمیان خشک پتوں پر خاموش چلتے ہوئے یہ شعر بار بار پردۂ خیال پر ابھرنے لگا۔ اور پھر کچھ اشعار اس زمین کے افق پر نمودار ہو ہی گئے۔ آج یہ غزل میڈیسن کی اُس شامِ سخن کے نام انتساب کرتے ہوئے آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
سبحان اللّہ۔۔۔ کیا ہی منظر کشی ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
٭٭٭

اے یار سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
دل تھام کے چلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

تم شعلۂ الفت کو نمائش سے بچانا
چپ چاپ ہی جلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

رکھتے ہو سرِ عام گر اوراقِ فسانہ
پھر ہاتھ نہ ملنا کہ بہت تیز ہوا ہے

دستار بچانے میں اتر جائے نہ پوشاک
ہر گام سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

روشن جو دیئے طاقِ تمنا پہ کیے ہیں
مت اُن سے بہلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

جس سمت بریدہ نظر آتی ہوں ردائیں
وہ سمت بدلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
ان پر نہ مچلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

" پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے"

٭٭٭

ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱​
اچھی غزل ہے ماشاءاللہ
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آخری شعر آپ نے اپنے دوست کا جوں کا توں شامل کر لیا ۔۔۔ کیا یہ صورت جائز ہے؟
اس کا جواب تو ظہیر بھائی ہی دیں گے لیکن علامہ نے بھی "کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے" کا آخری شعر "غنی کاشمیری" کا جوں کا توں شامل کیا ہوا ہے۔
“غنیؔ! روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کُن
کہ نُورِ دیدہ اش روشن کُند چشمِ زلیخا را"
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیا یہ صورت جائز ہے؟

اس کا جواب تو ظہیر بھائی ہی دیں گے لیکن علامہ نے بھی "کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے" کا آخری شعر "غنی کاشمیری" کا جوں کا توں شامل کیا ہوا ہے۔
“غنیؔ! روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کُن
کہ نُورِ دیدہ اش روشن کُند چشمِ زلیخا را"
اسے تضمین نہیں کہتے ہیں ؟ اور یہ تو کافی عام ہے ۔
 
اس کا جواب تو ظہیر بھائی ہی دیں گے لیکن علامہ نے بھی "کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے" کا آخری شعر "غنی کاشمیری" کا جوں کا توں شامل کیا ہوا ہے۔
“غنیؔ! روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کُن
کہ نُورِ دیدہ اش روشن کُند چشمِ زلیخا را"
اسے تضمین نہیں کہتے ہیں ؟ اور یہ تو کافی عام ہے ۔
مجھے اس کا واقعی معلوم نہیں تھا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
٭٭٭

اے یار سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
دل تھام کے چلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

تم شعلۂ الفت کو نمائش سے بچانا
چپ چاپ ہی جلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

رکھتے ہو سرِ عام گر اوراقِ فسانہ
پھر ہاتھ نہ ملنا کہ بہت تیز ہوا ہے

دستار بچانے میں اتر جائے نہ پوشاک
ہر گام سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

روشن جو دیئے طاقِ تمنا پہ کیے ہیں
مت اُن سے بہلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

جس سمت بریدہ نظر آتی ہوں ردائیں
وہ سمت بدلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
ان پر نہ مچلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

" پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے"

٭٭٭

ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱​
ظہیر بھائی ماشاء اللہ بہت خوب ۔
ہر شعر عمدہ ہر شعر عالی ۔دل سے پسند آئی آپ کی غزل ۔دلی داد اور دلی دعائیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و عافیت سے رکھے۔آمین
 

یاسر شاہ

محفلین
وسطِ خزاں کی ایک اداس سی شام تھی۔ درختوں کی سبز شاخیں کب کی سرخ ، زرد اور قرمزی جھالروں میں بدل چکی تھیں۔ خنک ہوا جب جب ان شاخوں سے الجھتی کچھ پتے توڑ کر اپنے ساتھ لے جاتی۔ سڑک کنارے ہر طرف رنگ برنگ خشک پتوں کے ڈھیر تہ بہ تہ بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اس شام کو گزرے تقریباً بیس سال ہوئے لیکن مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ میڈیسن شہر کے مضافات میں درختوں سے گھرے گوشے میں آباد ایک گھر کی روشن کھڑکیوں سے اندر کا منظر جھلک رہا تھا۔ کچھ لوگ فرشی قالین پر بیٹھے ، دبیز تکیوں سے ٹیک لگائے، بیتے دنوں کو یاد کر رہے تھے۔ گھر کے باہر تیز ہوا تو شور مچا کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہو چلی تھی لیکن اندر وقفے وقفے سے ایک شور سا بلند ہوتا تھا۔ یہ خوبصورت منظر کراچی کے شاعرِ خوش نوا ہاشم وارث شامؔ کی رہائش گاہ کے دیوان خانے کا تھا جہاں کچھ ہم ذوق دوست احباب ایک شعری نشست برپا کر رہے تھے۔ شعر خوانی اور داد و تحسین کا سلسلہ تھما تو اس کی جگہ چائے اور گپ شپ نے سنبھال لی۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے یاد آنے لگے ۔ گزرے دنوں اور بچھڑے دوستوں کا ذکر ہونے لگا تو ہاشم وارث شامؔ نے یہ شعر پڑھا۔
پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
یہ شعر کچھ ایسا برمحل تھا کہ آہ اور واہ کا ایک بے ساختہ غلغلہ بلند ہوا اور پھر دیر تک فضا کو خاموش کر گیا۔ پوری غزل کی فرمائش ہوئی تو ہاشم شامؔ نے بتایا کہ یہ شعر جامعہ کراچی کے دنوں کا اکلوتا شعر ہے اور کسی غزل کا حصہ نہ بن سکا۔ شہرِ ہجر کی اُس شام اور ماحول کے حوالے سے تیز ہوا کا یہ استعارہ دل و دماغ پر ایسا نقش ہوا کہ پھر غمِ ہجراں کی گفتگو ہو ،غمِ دوستاں کا ذکر یا شورشِ دوراں کا شکوہ ہر موقع پر یہ شعر بے ارادہ زبان پر جاری ہونے لگا۔ اس شعر نے اگرچہ کئی بار طبعِ شعری کو مہمیز دی لیکن اس کی مشکل زمین ہر بار ایک دیوارِ بے در ثابت ہوئی۔ گزشتہ سال خزاں کی ایک شام شمالی وسکانسن کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر گزارنے کا اتفاق ہوا۔ تنہائی میسر تھی۔ شام کی خنکی میں خزاں زدہ درختوں کے درمیان خشک پتوں پر خاموش چلتے ہوئے یہ شعر بار بار پردۂ خیال پر ابھرنے لگا۔ اور پھر کچھ اشعار اس زمین کے افق پر نمودار ہو ہی گئے۔ آج یہ غزل میڈیسن کی اُس شامِ سخن کے نام انتساب کرتے ہوئے آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
ماشاء اللہ شاعری شاندار ہے تو نثر بھی جاندار۔لطف آیا پڑھ کر ۔
 

جاسمن

لائبریرین
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ راحیل فاروق بھائی نے اجرک کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ میں نے ان سے اس وقت یہ عرض کیا کہ چیزیں اتنی سندر اور من موہ لینے والی ہوتی نہیں ہیں، جتنا ایک سخنور اپنی لفاظی سے ان کو بنا دیتا ہے۔۔۔ اب آپ ہی کی تحریر لیجیے۔۔۔۔ مطلب کراچی میں درخت جو دو چار ہیں۔۔۔ ان سے ایک دو پتے گر گئے ہوں گے۔۔۔ مگر آپ نے ایسا دل لبھانے والا منظر لکھا ہے کہ میں اس میں کھو کر رہ گیا ہوں۔۔۔ اللہ پاک آپ کے قلم کو یوں ہی سرسبزوشاداب رکھے۔ آمین۔ بہت ہی سندر تحریر ہے۔۔۔ دل کو چھوتی ہوئی۔۔۔
کراچی نہیں، میڈیسن ہے۔
ہمارے ہاں تو خزاں واقعی خزاں ہوتی ہے۔اگر کہیں درخت پودے لگے ہوں تو وہاں ہر طرف نسواری، سوکھے سڑے پتے بکھرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ درختوں، پودوں پہ اتنی گرد ہوتی ہے کہ ان کا حسن ہی ماند پڑ چکا ہوتا ہے۔
اتنی رنگ برنگی خزاں ہم تو بس دوسرے کئی ممالک کی تصاویر میں دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں۔ وہاں کی خزاں بھی بہار لگتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوبصورت نثر، اتنی لاجواب منظر نگاری۔
اور ویسے ہی اعلیٰ پائے کی غزل۔
آپ نے تو خوب مزے کی ڈش بنا دی۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ،بہت خوب
ظہیر بھائی ڈھیروں داد و تحسین قبول فرمائیے ۔
واہ واہ کیا کہنے ؀
جس سمت بریدہ نظر آتیں ہوں ردائیں
وہ سمت بدلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
؀
یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
بہت زبردست بہت زبردست
سلامت رہیے آمین
بہت ممنون ہوں ، آپا ! بہت نوازش ، کرم نوازی!
دعا کےلیے خصوصاً ممنونِ کرم ہوں ۔ اللّٰہ کریم آپ کے لیے بھی قبول فرمائے! آمین
 
Top