ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
وسطِ خزاں کی ایک اداس سی شام تھی۔ درختوں کی سبز شاخیں کب کی سرخ ، زرد اور قرمزی جھالروں میں بدل چکی تھیں۔ خنک ہوا جب جب ان شاخوں سے الجھتی کچھ پتے توڑ کر اپنے ساتھ لے جاتی۔ سڑک کنارے ہر طرف رنگ برنگ خشک پتوں کے ڈھیر تہ بہ تہ بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اس شام کو گزرے تقریباً بیس سال ہوئے لیکن مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ میڈیسن شہر کے مضافات میں درختوں سے گھرے گوشے میں آباد ایک گھر کی روشن کھڑکیوں سے اندر کا منظر جھلک رہا تھا۔ کچھ لوگ فرشی قالین پر بیٹھے ، دبیز تکیوں سے ٹیک لگائے، بیتے دنوں کو یاد کر رہے تھے۔ گھر کے باہر تیز ہوا تو شور مچا کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہو چلی تھی لیکن اندر وقفے وقفے سے ایک شور سا بلند ہوتا تھا۔ یہ خوبصورت منظر کراچی کے شاعرِ خوش نوا ہاشم وارث شامؔ کی رہائش گاہ کے دیوان خانے کا تھا جہاں کچھ ہم ذوق دوست احباب ایک شعری نشست برپا کر رہے تھے۔ شعر خوانی اور داد و تحسین کا سلسلہ تھما تو اس کی جگہ چائے اور گپ شپ نے سنبھال لی۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے یاد آنے لگے ۔ گزرے دنوں اور بچھڑے دوستوں کا ذکر ہونے لگا تو ہاشم وارث شامؔ نے یہ شعر پڑھا۔
پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
یہ شعر کچھ ایسا برمحل تھا کہ آہ اور واہ کا ایک بے ساختہ غلغلہ بلند ہوا اور پھر دیر تک فضا کو خاموش کر گیا۔ پوری غزل کی فرمائش ہوئی تو ہاشم شامؔ نے بتایا کہ یہ شعر جامعہ کراچی کے دنوں کا اکلوتا شعر ہے اور کسی غزل کا حصہ نہ بن سکا۔ شہرِ ہجر کی اُس شام اور ماحول کے حوالے سے تیز ہوا کا یہ استعارہ دل و دماغ پر ایسا نقش ہوا کہ پھر غمِ ہجراں کی گفتگو ہو ،غمِ دوستاں کا ذکر یا شورشِ دوراں کا شکوہ ہر موقع پر یہ شعر بے ارادہ زبان پر جاری ہونے لگا۔ اس شعر نے اگرچہ کئی بار طبعِ شعری کو مہمیز دی لیکن اس کی مشکل زمین ہر بار ایک دیوارِ بے در ثابت ہوئی۔ گزشتہ سال خزاں کی ایک شام شمالی وسکانسن کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر گزارنے کا اتفاق ہوا۔ تنہائی میسر تھی۔ شام کی خنکی میں خزاں زدہ درختوں کے درمیان خشک پتوں پر خاموش چلتے ہوئے یہ شعر بار بار پردۂ خیال پر ابھرنے لگا۔ اور پھر کچھ اشعار اس زمین کے افق پر نمودار ہو ہی گئے۔ آج یہ غزل میڈیسن کی اُس شامِ سخن کے نام انتساب کرتے ہوئے آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
یہ شعر کچھ ایسا برمحل تھا کہ آہ اور واہ کا ایک بے ساختہ غلغلہ بلند ہوا اور پھر دیر تک فضا کو خاموش کر گیا۔ پوری غزل کی فرمائش ہوئی تو ہاشم شامؔ نے بتایا کہ یہ شعر جامعہ کراچی کے دنوں کا اکلوتا شعر ہے اور کسی غزل کا حصہ نہ بن سکا۔ شہرِ ہجر کی اُس شام اور ماحول کے حوالے سے تیز ہوا کا یہ استعارہ دل و دماغ پر ایسا نقش ہوا کہ پھر غمِ ہجراں کی گفتگو ہو ،غمِ دوستاں کا ذکر یا شورشِ دوراں کا شکوہ ہر موقع پر یہ شعر بے ارادہ زبان پر جاری ہونے لگا۔ اس شعر نے اگرچہ کئی بار طبعِ شعری کو مہمیز دی لیکن اس کی مشکل زمین ہر بار ایک دیوارِ بے در ثابت ہوئی۔ گزشتہ سال خزاں کی ایک شام شمالی وسکانسن کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر گزارنے کا اتفاق ہوا۔ تنہائی میسر تھی۔ شام کی خنکی میں خزاں زدہ درختوں کے درمیان خشک پتوں پر خاموش چلتے ہوئے یہ شعر بار بار پردۂ خیال پر ابھرنے لگا۔ اور پھر کچھ اشعار اس زمین کے افق پر نمودار ہو ہی گئے۔ آج یہ غزل میڈیسن کی اُس شامِ سخن کے نام انتساب کرتے ہوئے آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!