اے یار سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھے بھی خزاں کا موسم بے حد پسند ہے۔ میرا بس نہیں چلتا، اگر چلے تو نجانے کہاں کہاں گھوموں۔:)
مجھے تو گرمیوں کی دوپہر یں بھی بہت پسند ہیں۔ ایک دور تھا کہ میں بغیر پنکھے کے گرمی کے موسم سے بھی لطف اندوز ہوتی تھی۔ اسی دور میں سویٹر کے ساتھ بس دس دن دسمبر و جنوری کے گزرتے تھے۔ باقی بغیر سویٹر کے۔
ابھی دو سال پہلے کی بات ہے کہ جنوری کے اوائل میں ہیڈ سائفن گئے اور بارش ہو رہی تھی۔ شدید سردی میں بارش میں خوب بھیگی۔ اوپر پل سے گزر کے اگلی جانب پہنچی۔ میں وہ لمحات نہیں بھول سکتی۔ اس قدر خوشی، لطف و انبساط پایا کہ جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بارش ، بادل، پل، پل کے نیچے چلتا پانی،پانی کی بوندوں سے نظر آتا آسمان ، دونوں بازو کھولے بارش کو مکمل خوش آمدید کرتی میں۔
اس منظر میں خود کو دیکھتی ہوں تو اپنا آپ بھی اچھا لگتا ہے۔
اللہ کتنا پیارا ہے ناں!!!
بہت اچھا! ماشاء اللّٰہ !
خواہرم ، یہ بھی ضروری ہے۔ جب جب موقع ملے کچھ نہ کچھ اپنی پسند کے کام کرنے چاہئیں ۔ ذہنی صحت برقرار رکھنے کے لیے خوش ہونا اور خوش رہنا بہت اہم ہے ۔ ذمہ داریاں اپنی جگہ ، کام اپنی جگہ لیکن سیر تفریح کرنا بھی ضروری ہے ذہنی توانائی کی تجدید کے لیے۔ (y)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کراچی تو میں زندگی میں کبھی نہیں گیا۔۔۔
جو لاہور نہیں گیا اس کے لیے تو کہتے ہیں کہ پیدا ہی نہیں ہوا ۔ لیکن جو کراچی نہ گیا ہو اس کے لیے کیا کہیں گے؟
نین بھائی ، اچھی طرح سوچ کے تین چار سال میں فوراً جواب دیں ۔ ورنہ آپ کو کراچی بھیجنے کے انتظامات کروانا پڑیں گے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جو لاہور نہیں گیا اس کے لیے تو کہتے ہیں کہ پیدا ہی نہیں ہوا ۔ لیکن جو کراچی نہ گیا ہو اس کے لیے کیا کہیں گے؟
نین بھائی ، اچھی طرح سوچ کے تین چار سال میں فوراً جواب دیں ۔ ورنہ آپ کو کراچی بھیجنے کے انتظامات کروانا پڑیں گے۔
کراچی سے میرے کزن ہیں۔۔۔ ایک بار ایسے ہی ان سے بات ہو رہی تھی کہ جو لاہور نئیں گیا او جمیا نئیں۔۔۔ اور جو کراچی نئیں گیا۔۔۔ تو وہ کہنے لگے۔۔۔ اچھا ہویا نئیں گیا۔۔۔

میں اگر کبھی بھی کراچی آیا ۔۔۔ تو شاید اس کی سب سے بڑی وجہ محمداحمد بھائی سے ملاقات کرنا ہو۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
وسطِ خزاں کی ایک اداس سی شام تھی۔ درختوں کی سبز شاخیں کب کی سرخ ، زرد اور قرمزی جھالروں میں بدل چکی تھیں۔ خنک ہوا جب جب ان شاخوں سے الجھتی کچھ پتے توڑ کر اپنے ساتھ لے جاتی۔ سڑک کنارے ہر طرف رنگ برنگ خشک پتوں کے ڈھیر تہ بہ تہ بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اس شام کو گزرے تقریباً بیس سال ہوئے لیکن مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ میڈیسن شہر کے مضافات میں درختوں سے گھرے گوشے میں آباد ایک گھر کی روشن کھڑکیوں سے اندر کا منظر جھلک رہا تھا۔ کچھ لوگ فرشی قالین پر بیٹھے ، دبیز تکیوں سے ٹیک لگائے، بیتے دنوں کو یاد کر رہے تھے۔ گھر کے باہر تیز ہوا تو شور مچا کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہو چلی تھی لیکن اندر وقفے وقفے سے ایک شور سا بلند ہوتا تھا۔ یہ خوبصورت منظر کراچی کے شاعرِ خوش نوا ہاشم وارث شامؔ کی رہائش گاہ کے دیوان خانے کا تھا جہاں کچھ ہم ذوق دوست احباب ایک شعری نشست برپا کر رہے تھے۔ شعر خوانی اور داد و تحسین کا سلسلہ تھما تو اس کی جگہ چائے اور گپ شپ نے سنبھال لی۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے یاد آنے لگے ۔ گزرے دنوں اور بچھڑے دوستوں کا ذکر ہونے لگا تو ہاشم وارث شامؔ نے یہ شعر پڑھا۔
پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
یہ شعر کچھ ایسا برمحل تھا کہ آہ اور واہ کا ایک بے ساختہ غلغلہ بلند ہوا اور پھر دیر تک فضا کو خاموش کر گیا۔ پوری غزل کی فرمائش ہوئی تو ہاشم شامؔ نے بتایا کہ یہ شعر جامعہ کراچی کے دنوں کا اکلوتا شعر ہے اور کسی غزل کا حصہ نہ بن سکا۔ شہرِ ہجر کی اُس شام اور ماحول کے حوالے سے تیز ہوا کا یہ استعارہ دل و دماغ پر ایسا نقش ہوا کہ پھر غمِ ہجراں کی گفتگو ہو ،غمِ دوستاں کا ذکر یا شورشِ دوراں کا شکوہ ہر موقع پر یہ شعر بے ارادہ زبان پر جاری ہونے لگا۔ اس شعر نے اگرچہ کئی بار طبعِ شعری کو مہمیز دی لیکن اس کی مشکل زمین ہر بار ایک دیوارِ بے در ثابت ہوئی۔ گزشتہ سال خزاں کی ایک شام شمالی وسکانسن کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر گزارنے کا اتفاق ہوا۔ تنہائی میسر تھی۔ شام کی خنکی میں خزاں زدہ درختوں کے درمیان خشک پتوں پر خاموش چلتے ہوئے یہ شعر بار بار پردۂ خیال پر ابھرنے لگا۔ اور پھر کچھ اشعار اس زمین کے افق پر نمودار ہو ہی گئے۔ آج یہ غزل میڈیسن کی اُس شامِ سخن کے نام انتساب کرتے ہوئے آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

سبحان اللہ!

یہ تحریر پڑھنا شروع کی تو ایسا لگا کہ جیسے غلام عباس صاحب کا کوئی افسانہ پڑھ رہا ہوں۔ خوبصورت! اپنی گرفت میں لیتی ہوئی تحریر! سبحان اللہ! ظہیر بھائی بہت کم نثر لکھتے ہیں آپ۔ لیکن جب بھی لکھتے ہیں کمال لکھتے ہیں۔ چاہے وہ المیہ ہو یار طربیہ ۔ کیا کہنے!

غزل سے پہلے اس نثر پر نذرانہء تحسین قبول کیجے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اے یار سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
دل تھام کے چلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
واہ !
تم شعلۂ الفت کو نمائش سے بچانا
چپ چاپ ہی جلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
کیا کہنے!
رکھتے ہو سرِ عام گر اوراقِ فسانہ
پھر ہاتھ نہ ملنا کہ بہت تیز ہوا ہے
واہ
یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
ان پر نہ مچلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
بہت خوب!

حسبِ سابق غزل بہت خوب ہے ظہیر بھائی! ہر شعر لاجواب ہے۔

ڈھیروں داد قبول فرمائیے۔ ❤️ ❤️ ❤️
 

صابرہ امین

لائبریرین
کراچی سے میرے کزن ہیں۔۔۔ ایک بار ایسے ہی ان سے بات ہو رہی تھی کہ جو لاہور نئیں گیا او جمیا نئیں۔۔۔ اور جو کراچی نئیں گیا۔۔۔ تو وہ کہنے لگے۔۔۔ اچھا ہویا نئیں گیا۔۔۔

میں اگر کبھی بھی کراچی آیا ۔۔۔ تو شاید اس کی سب سے بڑی وجہ محمداحمد بھائی سے ملاقات کرنا ہو۔۔۔
دخل در معقولات نہ سمجھیں تو مشورہ یا گذارش سمجھیے کہ کراچی کی سیر کر لیجئے۔ ایک بڑے شہر کے تمام لوازمات میسر ہیں یہاں۔ دنیا کا پانچواں یا چھٹا بڑا شہر ہے اور سستا ترین بھی۔ کافی دن چاہییں مکمل سیر کرنے کے لیے۔ ہم نے بھی آج تک پورا نہیں دیکھا۔ ویسے بھی اب تو سفر بھی زندگی کا لازمی جزو بن گیا ہے۔ نہ صرف کراچی بلکہ ؎ کراچی سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔ ۔ یعنی سمندر پار کر کے۔ :auto::auto::auto::auto:
سیما آپا ، دعوت دیجیے بھئی۔ :D
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
دخل در معقولات نہ سمجھیں تو مشورہ یا گذارش سمجھیے کہ کراچی کی سیر کر لیجئے۔ ایک بڑے شہر کے تمام لوازمات میسر ہیں یہاں۔ دنیا کا پانچواں یا چھٹا بڑا شہر ہے اور سستا ترین بھی۔ کافی دن چاہییں مکمل سیر کرنے کے لیے۔ ہم نے بھی آج تک پورا نہیں دیکھا۔ ویسے بھی اب تو سفر بھی زندگی کا لازمی جزو بن گیا ہے۔ نہ صرف کراچی بلکہ ؎ کراچی سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔ ۔ یعنی سمندر پار کر کے۔ :auto::auto::auto::auto:
سیما علی آپا ، دعوت دیجیے بھئی۔ :D
بٹیا ہم تو نین بھیا کو کئی بار دعوت دے چکے ہیں کراچی آنے کی ۔۔ان شاء اللہ یہ ضرور آئیں گے ۔۔
 
آخری تدوین:
٭٭٭

اے یار سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے
دل تھام کے چلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

تم شعلۂ الفت کو نمائش سے بچانا
چپ چاپ ہی جلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

رکھتے ہو سرِ عام گر اوراقِ فسانہ
پھر ہاتھ نہ ملنا کہ بہت تیز ہوا ہے

دستار بچانے میں اتر جائے نہ پوشاک
ہر گام سنبھلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

روشن جو دیئے طاقِ تمنا پہ کیے ہیں
مت اُن سے بہلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

جس سمت بریدہ نظر آتی ہوں ردائیں
وہ سمت بدلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

یہ رنگ خزاؤں کے وفائیں نہیں کرتے
ان پر نہ مچلنا کہ بہت تیز ہوا ہے

" پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بہت تیز ہوا ہے"

٭٭٭

ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱​
بہت خوب ، ظہیر بھائی ! سبحان اللہ . نہایت عمدہ اشعار ہیں . غزل کا پس منظر بھی خوب ہے . میری ناچیز داد قبول فرمائیے .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کراچی سے میرے کزن ہیں۔۔۔ ایک بار ایسے ہی ان سے بات ہو رہی تھی کہ جو لاہور نئیں گیا او جمیا نئیں۔۔۔ اور جو کراچی نئیں گیا۔۔۔ تو وہ کہنے لگے۔۔۔ اچھا ہویا نئیں گیا۔۔۔

میں اگر کبھی بھی کراچی آیا ۔۔۔ تو شاید اس کی سب سے بڑی وجہ محمداحمد بھائی سے ملاقات کرنا ہو۔۔۔
احمد بھائی سے ملاقات تو میری بھی فہرست میں شامل ہے ۔ کیا عجب اگلی دفعہ کراچی آنا ہو تو ہم دونوں مل کر احمد بھائی کی طرف دھاوا بول دیں ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سبحان اللہ!
یہ تحریر پڑھنا شروع کی تو ایسا لگا کہ جیسے غلام عباس صاحب کا کوئی افسانہ پڑھ رہا ہوں۔ خوبصورت! اپنی گرفت میں لیتی ہوئی تحریر! سبحان اللہ! ظہیر بھائی بہت کم نثر لکھتے ہیں آپ۔ لیکن جب بھی لکھتے ہیں کمال لکھتے ہیں۔ چاہے وہ المیہ ہو یار طربیہ ۔ کیا کہنے!
غزل سے پہلے اس نثر پر نذرانہء تحسین قبول کیجے۔ :)
بہت شکریہ ، احمد بھائی !ایک اچھے نثر نگار کی طرف سے اس درجہ پذیرائی میرے لیے شرف کی بات ہے ۔ بہت مشکور ہوں ۔ اللّٰہ کریم آپ کو سلامت رکھے!
حسبِ سابق غزل بہت خوب ہے ظہیر بھائی! ہر شعر لاجواب ہے۔
ڈھیروں داد قبول فرمائیے۔ ❤️ ❤️ ❤️
نوازش ، بہت شکریہ!
احمد بھائی ، یہ سب ایک ہی وقت اور کیفیت کے اشعار ہیں ۔ بعض اوقات طبیعت حاضر ہو تو بغیر کوشش کے اشعار ہوجاتے ہیں ۔اس غزل میں زیادہ ردو بدل نہیں کرنا پڑا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دخل در معقولات نہ سمجھیں تو مشورہ یا گذارش سمجھیے کہ کراچی کی سیر کر لیجئے۔ ایک بڑے شہر کے تمام لوازمات میسر ہیں یہاں۔ دنیا کا پانچواں یا چھٹا بڑا شہر ہے اور سستا ترین بھی۔ کافی دن چاہییں مکمل سیر کرنے کے لیے۔ ہم نے بھی آج تک پورا نہیں دیکھا۔ ویسے بھی اب تو سفر بھی زندگی کا لازمی جزو بن گیا ہے۔ نہ صرف کراچی بلکہ ؎ کراچی سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔ ۔ یعنی سمندر پار کر کے۔ :auto::auto::auto::auto:
سیما آپا ، دعوت دیجیے بھئی۔ :D
باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن کار میں سمندر پار کرنے کی کوشش بھی مت کرنا ۔ پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
دخل در معقولات نہ سمجھیں تو مشورہ یا گذارش سمجھیے کہ کراچی کی سیر کر لیجئے۔ ایک بڑے شہر کے تمام لوازمات میسر ہیں یہاں۔ دنیا کا پانچواں یا چھٹا بڑا شہر ہے اور سستا ترین بھی۔ کافی دن چاہییں مکمل سیر کرنے کے لیے۔ ہم نے بھی آج تک پورا نہیں دیکھا۔ ویسے بھی اب تو سفر بھی زندگی کا لازمی جزو بن گیا ہے۔ نہ صرف کراچی بلکہ ؎ کراچی سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔ ۔ یعنی سمندر پار کر کے۔ :auto::auto::auto::auto:
سیما آپا ، دعوت دیجیے بھئی۔ :D
صابرہ امین صاحبہ۔۔ دیہاتی ہوں۔۔۔ پر اتنا ضرور پتا ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔۔۔ ہوہوہوہو۔۔۔۔ ارادہ تو کئی بار کیا ہے کہ روشنیوں کے شہر کی روشنی سے اپنے ذہن و دل کے دریچوں کو ہم بھی بھر لیں۔۔۔ مگر یہ ایک حسرت ناتمام ہی ہے اب تک۔۔۔
 
Top