زباں پر وہی شعرآگیا جو ایک فلمی گانے کا مکھڑا بھی ہے:
سوبار جنم لیں گے سوبار فنا ہوں گے | ۔۔ | اے جانِ وفا پھر بھی ہم تم نہ جدا ہوں گے |
لیکن خدا نہ کرے ایسا ہو ،کیونکہ آئی ایم ایف ایسی جانِ وفا نہیں جو آسانی سے چھوڑ دے اور آزادی سے جینے دے ۔منشی پریم چند نے جو کتھائیں ہندُستانی معاشرت کی ہمیں سنائی ہیں اُن میں اکثر کامرکزی خیال اور بنیادی نکتہ ہندو بنیے کی سودخوری سے ہی متعلق تھا، جس میں اُس نے اپنا دیکھا نہ پرایا ، جو اُس کی گرفت میں آیا پھر کبھی خود کو چھڑانہ پایا۔۔۔اِس کےمالدار شرفا کو گھیرنے کے انداز اور اپنے جال میں پھنسانے کے طریقے ایسے عجیب تھے کہ مت پوچھیں ،یہ کہہ کچھ اور رہا ہوتا اور قرض کا طالب اِس کے بھاشن اور بول بچن کوغمخواری و غمگساری و دلداری کی میٹھی اور سریلی راگنی کے طور پر سنتےہوئے یہ سمجھ رہا ہوتاجیسے یہ کہہ رہا ہے:
ہزار باتیں کہے زمانہ میری وفاپہ یقین کرنا۔۔ ہر اک ادا میں ہے بے گناہی میر ی ادا پہ یقین کرنا
اور جب شریف آدمی اپنا سب کچھ سود کی مد میں دے کر بھکاری بن چکا ہوتاہے تب بیچارے کو معلوم ہوتا ہے کہ قرض دیتے ہوئے جوگیت یہ گا رہا تھا اُس کا مطلب یہ تھاکہ آپ ہزار بار بھی لوگوں کو اپنے اوصاف یعنی اپنی وفا ،اپنے خلوص اپنی سچائی کا یقین دلائیں گے مگر کوئ آپ کی بات کا یقین کرکے ہی نہیں دے گا، کیونکہ:
مفلسی سب بہار کھوتی ہے۔۔۔مرد کا اعتبا رکھوتی ہے