چائے پر امر روحانی کی غزل پیش خدمت ہے :
پرتکلف سی ، مہکتی ، وہ سہانی چائے
اب کہاں ھم کو میّسر ہے تمہاری چائے
میں نے چینی کی بھی مقدار بڑھا کر دیکھا
بن ترے لگتی ہے کچھ کڑوی کسیلی چائے
جب تری یاد میں کھو جاتا ہوں بیٹھے بیٹھے
منہ مرا تکتی ہی رہ جائے ، بیچاری چائے
وہ مجھے بُھول گئی، میں نہیں بُھولا اُسکو
ساتھ رہتی ہے شب و روز خیالی چائے
تیرے وعدوں سے بھرے خط بھی دکھانے ہیں تجھے
آج کی شام کو چائے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ضروری چائے !
ایک دن سو کے اُٹھوں میں ، توُ مرے سامنے ہو
کاش ہاتھوں میں لئے ایک پیالی چائے
تھام کے ہاتھ کو، لاتی ہے مجھے پاس ترے
بھاپ اُڑاتی ہوئی ، ٹیبل پہ ، دِوانی چائے
لمس ہاتھوں کا ترے ہے نہ محبّت کا سُرور
راس آئی نہ کبھی مجھ کو پرائی چائے
ڈال کے کپ میں تقاضائے محبت کا اُبال
یاد آتی ہے مجھے تیری سوالی چائے
ہائے کیسے یہ گری مرمریں ہاتھوں پہ ، ام۔ؔر
جھاڑو پیٹی سی ، مرن جوگی ، نگوڑی چائے