گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ضعف جسمانی ہو سکتا ہے، لیکن دل کی طاقت اور ذہن کی مضبوطی ہمیں زندگی کی ہر مشکل کو عبور کرنے کی قوت دیتی ہے۔اور یہی عزم ہمیں حقیقت پسند بناتا ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
طبیعت کی ہر تبدیلی میں ایک نیا سبق چھپا ہوتا ہے، جو ہمیں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی روشنی فراہم کرتا ہے۔فلسفہ طاری ہو تو سمجھئیے کہ ذہن پہ لگے جالے صاف ہو رہے ہیں دماغ کی بند کھڑکیاں کھلنے پر تازہ ہوا کے جھونکے آنے سے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ظاہر کی دنیا میں اکثر حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ ہر حقیقت کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے جو گہرائی اور بصیرت کا طلبگار ہوتی ہے۔حقیقت تک پہنچنے کے لیے محنت اور جستجو تو کرنی پڑتی ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
عقیدت دل کی گہرائیوں سے اُٹھنے والی ایک لہر ہوتی ہے جو خود ہماری ہی روح کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہے، کیونکہ سچے ایمان اور خلوص کے بغیر زندگی کی معنویت مکمل نہیں ہوتی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
فخرایک ایسا احساس ہے جو کامیابیوں اور ماضی کی محنت کا جائزہ لے کر دل کو تسکین دیتا ہے،لیکن یہ احساس ہمیشہ عاجزی اور شکرگزاری کے ساتھ جڑا ہونا چاہئے تاکہ اسے مثبت طور پر برقرار رکھا جا سکے ورنہ تکبر کہلائے گا۔ :unsure:
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کون کہتا ہے کہ خوابوں کا تعلق صرف نیند سے ہوتا ہے؟ کبھی کبھی تو وہ خواب حقیقت میں بدل کر ہمیں زندگی کی خوبصورتی دکھا دیتے ہیں۔
 
محبت کی جھوٹی کہانی پہ روئے ،بڑی چوٹ کھائی جوانی پہ روئے یہ کہاتھا انارکلی نے ہندُستان کے ولیعہدکے عشق کے جرم میں قیدوبند کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے۔زمانہ تھا بلیک این وائیٹ فلموں کا چنانچہ اُس کی آنکھوں سے بہتا لہو جو اِن بولوں کی ادائیگی میں مسلسل بہہ رہا تھا عام آنسوؤں کے دھارے سے زیادہ دکھائی نہ دیتا تھا ،فلم بینوں کو تو ہاں مگرپیارے مغلِ اعظم کو بھی ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
نغمے پر یاد آئے ن م راشد جنھوں نے آزاد نظم کو ایسا دلنشیں ،قابلِ سماعت اور لائقِ اعتبار نغمہ بنادیا کہ زندگی کے تمام ہی رنگ اُن کے آزاد اشعار میں کچھ اِس طرح ڈھل گئے کہ پابند نظم منہ دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔​
میں اور تم اِس رات ہیں غمگین و پریشاں
اِک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں
گہوارۂ آلام ِ خلش ریزہے یہ رات
اندوہِ فراواں سےجُنوں خیز ہے یہ رات
نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں
سر دآہوں سے ،گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات​

 
آخری تدوین:
وقت ہوا چاہتا ہے رخصت کا ، الوداع کا ، اللہ بیلی کہنے اور خدا حافظ کرنے کا۔رات کے بارہ بج رہے ہیں،اچھا تو ہم چلتے ہیں ۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
نغمے پر یاد آئے ن م راشد جنھوں نے آزاد نظم کو ایسا دلنشیں ،قابلِ سماعت اور لائقِ اعتبار نغمہ بنادیا کہ زندگی کے تمام ہی رنگ اُن کے آزاد اشعار میں کچھ اِس طرح ڈھل گئے کہ پابند نظم منہ دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔​
میں اور تم اِس رات ہیں غمگین و پریشاں
اِک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں
گہوارۂ آلام ِ خلش ریزہے یہ رات
اندوہِ فراواں سےجُنوں خیز ہے یہ رات
نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں
سر دآہوں سے ،گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات​

ہم کو تو مخدوم محی الدین کی وہ آزاد نظم یاد آتی ہے جس کو بہت اچھا نغمہ بنایا گیا
دو بدن پیار کی آگ میں جل گئے
اک چمیلی کے منڈوے تلے
 
یہاں سیدھی گنگا میں دُوردُورتک تختی نظر نہیں آرہی تھی اور اُلٹی گنگا کے پھیر میں کبھی کبھی یہاں بھی اُلٹی چھلانگ کا خدشہ رہتا تھا۔۔۔۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62​

 

سیما علی

لائبریرین
آج 78 ویں یوم آزادی منارہی ہے پوری قوم
دعائیں ہیں
ملکی سلامتی، یکجہتی اور خوشحالی کے لیے

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62

 

عظیم

محفلین
پہلے میں بھی بس ہندوستانی گیتوں کو محض اچھی شاعری کی بنا پر پسند کرتا تھا، یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ گیت واقعی کسی شاعر کے ہوتے ہیں
یعنی غزل گو شعرا کے
اکثر
 

سیما علی

لائبریرین
تو درد ڈسکوُ
کے بارے میں آپکوُ کچھ بتاتے ہیں
جاوید اختر صاحب کی کوشش تھی کہ پورا گانا بےمعنیٰ ہو۔
ایک 17 برس پرانی فلم 'اوم شانتی اوم' جس کا گانا 'دردِ ڈسکو' آج بھی زبان زدِعام ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ گانا کیسے تخلیق کیا گیا؟
اس حوالے سے فلم کی ڈائریکٹر فرح خان نے بتایا کہ درد ڈسکو کا آئیڈیا ڈائریکٹر بھشن کمار کی اس بات سے آیا کہ 2 قسم کے گانے بھارت میں بہت زیادہ چلتے ہیں، ایک آئٹم سانگ اور دوسرا درد بھرے گانے۔
دردِ ڈسکو' گانے کے لکھاری جاوید اختر صاحب نے اس بارے میں بتایا کہ گانے کی سچوئیشن بڑی عجیب تھی، سین یہ تھا کہ فلم کا مرکزی کردار ایک اداکار تھا جو ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتا تھا مگر وہ اسکرپٹ سُن کر کہتا ہے کہ اس میں ایک ڈسکو والا گانا ہونا چاہیے۔
جاوید اختر صاحب نے بتایا کہ اِس بیوقوفی کی بات پر لوگ اداکار سے سوال کرتے ہیں کہ آپ معذوری کی حالت میں کیسے اس گانے پر پرفارم کریں گے؟ ہیرو کہتا ہے کہ بس سیکوئنس ڈالو کچھ بھی کرو، اس لیے ہماری یہ کوشش تھی کہ پورا گانا بےمعنیٰ ہو، اس کے کوئی معنیٰ ہی نہ نکلیں۔
فرح خان کے مطابق بھشن کمار کا کہنا تھا کہ یہ دونوں گانے بہت چلتے ہیں، آپ نئے گانے میں دونوں عنصر شامل کرلیں، اِس بات سے دردِ ڈسکو کی اصطلاح ہمارے ذہن میں آئی۔
فرح خان گانے کی شوٹنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی بتا چکی ہیں کہ 'دردِ ڈسکو کی تیاری کے لیے شاہ رخ خان نے 2 دن تک پانی نہیں پیا تھا'۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بےمعنیٰ lyrics کے باوجود اس گانے کو فلم 'اوم شانتی اوم' کے مقبول ترین گانوں میں شمار کیا جاتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ٹوکیو تو نہیں چلی گئیں ثمرین ۔۔۔۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62

 
Top