پھر وہی بات۔۔بھاشن ہیں کہ نشر ہونے کیلئے ہمہ وقت بے قرار رہتے ہیں، لیکن کونسا بھاشن کس موقع پر اور کس کیلئے نشر کرنا ہے، اس پر غور کرنے سے سر میں درد ہونے کا احتمال ہے۔
ایک بندہ اپنی افتادِ طبع کے ضمن میں بچپن اور لڑکپن کے واقعات بتا رہا ہے (جو بلوغت کی عمر نہیں ، اور بچہ شریعت کا مکلف نہیں ہوتا) اور یہ حضرت چلے ہیں انہیں جہنم رسید کرنے۔۔۔بابا یحیی خان کے حوالے سے ان پر چیں بجبیں ہونے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ:
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو۔۔۔۔
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ایسے لوگ جب اپنے بچپن کی اس قسم کی شرارتوں کا ذکر کرتے ہیں تو اسکا ایک مقصد ان زاہدانِ ریا کیش کیلئے ایک لطیف سی تنبیہہ بھی ہوتی ہے کہ جس کبر و عجب، غیظ و غضب اور مخلوق کیلئے حقارت کے انبار دل میں لئے پھرتے ہو، انکے ہوتے ہوئے کاسمیٹک قسم کی نیکییاں سرانجام دیکر اور بے ضرر قسم کی حرکتوں سے بزعمِ خود اپنا دامن بچا کر یہ نہ سمجھنا کہ تم مقربان بارگاہ میں شامل ہوگئے پاک صاف ہوگئے ہو۔۔۔
کفر ہے اتنا مسلماں ہونا
امام غزالی نے احیا العلوم میں ذکر کیا ہے کہ حج کے موقع پر ایک شخص لوگوں سےحضرت عبداللہ بن مبارک کے بارے میں پوچھتا پھر رہا تھا کہ وہ کہاں مل سکیں گے۔ جب عرفات کے میدان میں ان سے ملا تو کہنے لگا کہ حضرت میں عراق سے آیا ہوں اور آپ کے علم و فضل کے بارے میں سنا تو آپ کو ڈھونڈتا ہوا یہاں آیا ہوں، ایک مسئلہ پوچھنا ہے آپ سے۔
فرمایا بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟
حضرت ، یہ بتا دیجئے کہ کیا احرام کی حالت میں کھٹمل مار سکتے ہیں؟
یہ سوال سن کر اور اسے دیکھ کر آپ ہنس دئیے۔
کہنے لگا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔
آپ نے فرمایا کہ " مجھے ہنسی اس بات پر آئی کہ تم لوگوں نے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے نواسے کو شہید کرتے وقت تو بالکل تردد نہیں کیا، لیکن احرام کی حالت میں کھٹمل مارنے کے بارے میں کتنے فکرمند ہورہے ہو۔