بابا محمد یحیٰ خان

باباجی

محفلین
یار بابا اگر فکشن لکھ رہا ہے تو لکھنے دو

بابانے نبوت کا دعویٰ تو نہیں کیاہے۔

یہ بابا اتنا اہم نہیں لگ رہا ہے کہ مزید وقت ضائع کیا جاوے۔ اس کی کتاب کے دوصفحے پڑھنے پر سر میں درد نہ شروع ہوا تو بات کرنا

ٹھیک بات کی آپ نے
جو لکھ رہا ہے لکھنے دو
چاہے فکشن ہو یا الف لیلہ
اور دو صفحے پڑھ کر سر میں درد ہو تو نظر چیک کروانی چاہیئے
یہ کتاب کا قصور نہیں
 

ساجد

محفلین
لیکن بابا جی کی باتیں شرک کے مترادف ہیں بھلے مجھے یہاں اس فورم پر تالا لگادیا جائے لیکن میں اپنا ایمان کمزور کرکے ہاں ہاں میں ملا کر نہیں رہ سکتا حق کی بات کرتا رہوں گا یہ اسلام ہے کوئی مذاق نہیں ہے
میں نے اوپر کے مراسلے میں کہہ دیا تھا کہ "اگر آپ میں میری بات سمجھنے کی اہلیت ہو تو" اور آپ نے اپنی نا اہلی ثابت کر دی۔
ایک اور بات سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اسلام کو ہم میں سے اکثر نے اپنی کمین گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا وطیرہ اپنا رکھا ہے۔ جو بات کسی دلیل اور منطق پر پوری نہ اتر سکے اس سے بچنے کے لئے اسلام کی پناہ میں چھپ کر اس سے ڈھال کا کام لے لو بھلے خود دن رات اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اڑاتے رہو۔ اسلام کو مذاق کس نے بنا رکھا ہے گو کہ یہاں اس پر بات نہیں ہو رہی لیکن دوسرے مسلمانوں پرکبھی قادیانیت اور کبھی شرک کی تہمت تھوپ کر آپ جیسوں کے منہ سے اسلام کا نام سننا باعثِ حیرت ہے۔
کسی نے بھی آپ کے ایمان کی کمزوری و تقویت پر بات نہیں کی لہذا آپ بھی دوسروں کے ایمان پر فتوی صادر کرنے سے پرہیز فرمائیں ۔ آپ نے کسی بابے کے اعمال کا حساب نہیں دینا اور کسی بابے نے آپ کی اعمال کا سامنا نہیں کرنا ۔ اس لئے اپنی فکر کریں نہ کہ دوسروں کے ایمان کی تجزیہ کاری کا ہنر آزماتے آزماتے یومِ آخرت "فتوی باز کاریگروں" کے ساتھ کھڑے نظر آئیں۔
 
ویسے یہ دلیل کہ انسان اچھائی کی تبلیغ اور برائی کو منع نہ کرے صرف اس وجہ سے اس نے اپنی زندگی میں کوئی اچھا کام نہیں کیا یا ہر برا کام ہی کیا ہے کچھ مناسب نہیں ہے

اس طرح ہو تو دنیا میں کوئی برائی کو منع کرنے والا ہی نہ رہ جائے۔

برائی دراصل مطلق برائی ہوتی ہے ۔ اس کو منع کرنے والا ضروری نہیں کہ خود اس برائی سے پاک ہو۔ اکثر شرابی دوسرے معصوم لوگوں کو شراب سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ شراب کی برائیوں سے واقف ہیں۔ ایک نیک ادمی کو برائی سے بچانا چاہتے ہیں۔

یہ کوئی دلیل نہیں کہ برائی کو وہ منع کرے جس نے کبھی برائی کی ہی نہ ہو۔

اور دوسری بات کہ برائی کی تبلیغ بذات خود ایک برائی ہے۔ برائی تشتہر بھی برائی ہے۔ ہر دو کو روکنا ضروری ہے۔
 
اس معاملے میں کتاب اور صاحب کتاب کا بھی قصور ہے
آپکا قصور نہیں ہے، بہتر ہوتا کہ آپ کتاب کی بیک سائیڈ پر موجود مصنف کے چند تنبیہی کلمات پڑھ لیتے جن میں لکحا گیا ہے کہ انکی کتابیں کن لوگوں کیلئے لکھی گئی ہیں اور کن لوگوں کو انہیں نہیں پڑھنا چاہئیے۔۔۔;) میرے پاس اس وقت کتاب موجود نہیں ہے ورنہ وہ disclaimer ٹائپ کے جملے یہاں ضرور درج کرتا۔
 

باباجی

محفلین
قصور وار ہونا اتنا برا نہیں
جتنا برا یہ ہے کہ فخر سے اپنے قصور کی مشہوری کی جاوے
اس قصور کی مشہوری کو روکنا اپ کا کام ہے برخوردار

یعنی یہ صرف میرا کام ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
حالانکہ کسی کے قصور بتا بتا کر تو آپ زیادہ مشہوری کر رہے ہیں
 
یعنی یہ صرف میرا کام ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
حالانکہ کسی کے قصور بتا بتا کر تو آپ زیادہ مشہوری کر رہے ہیں

کسی کے قصور بتا کر اس کام کو روکنا اور بات ہے
اپنے قصور کو فخریہ کتاب میں شامل کرنا بھی ایک قصور ہے

میں اس قصورکی بات کررہا ہوں صاحب
 
محترم ، اگر آپ میری بات سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں تو عرض کروں کہ جب سے ہم نے اسلام کی تشریح اپنے اپنے انداز میں کرنا شروع کر دی اور اپنی اپنی اختراع سے اختلاف رکھنے والے دیگر مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج گرداننا شروع کر دیا تب سے اب تک ہم فرقہ در فرقہ تقسیم ہو کر دنیا میں ذلیل و خوار ہو گئے ہیں اور آخرت میں بھی ہم شاید اس سے بڑی سزا کے مستحق ٹھہرائے جائیں گے کیونکہ ہم نے اسلام کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کے کھیل کھیلے ہیں۔
یہاں جو مبلغین ہیں یا ملامتین ہیں وہ جواب دیں کہ کیا ان سے کبھی کوئی کام شریعت کے خلاف نہیں ہوا؟ ۔ کبھی وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئے؟۔ کبھی انہوں نے جان بوجھ کر حق تلفی نہیں کی؟ علی ہذالقیاس میں ہزاروں ایسے امور بیان کر سکتا ہوں جو اسلام کی مبادیات میں سے ہیں لیکن ہم سے ہر کوئی ان مبادیات پر بھی پورا نہیں اترتا اور بد قسمتی یہ کہ ہم میں سے ہر کوئی ان مبادیات اور اکثر اوقات ان سے کم تر امور پر بھی دوسرے مسلمانوں کے ایمان پر سوالیہ نشان لگانے میں دریغ نہیں کرتا۔ قرآن کی آیات کی تاویلات پیش کر کے دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دینے میں گونہ سکون محسوس کرتا ہے۔ حالانکہ ان آیات کا سیاق و سباق بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اور ایسے "مفتیان" خود اس کسوٹی پر پورے نہیں اترتے کہ جس کسوٹی کی بنیاد پر وہ دوسروں کو اسلام سے خارج گردان رہے ہوتے ہیں۔
آپ نے بھی یہاں یہی کیا کہ جو بات آپ کی سمجھ شریف میں نہ آ سکی اسے سمجھنے کی بجائے بات کہنے والے کو اسلام سے باہر سمجھ لیا اور اس کا اظہار بھی فرما دیا۔ اور پھر کہیں کی بات کہیں جوڑتے ہوئے اسے یو ٹیوب پر پیش کردہ مواد سے جوڑ کر اپنی کج ذہنی کا پختہ ثبوت بھی فراہم کر دیا۔
اوہ پا ساجد ۔۔۔۔۔ آپ سمجھ نہیں پائے بندے کے دماغ میں ٹیڑھ ہے اور اس ٹیڑھ کا علاج کسی کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ اپنے تئیں جن پکے سچے مسلمان علماء کے پاس یہ بیٹھتا ہے ان کے اپنے دماغ میں بھی بڑی گہری ٹیڑھ ہے اور یہ ٹیڑھ استاد در استاد بڑی ٹیڑھی جارہی ہے آپ اس کو ایک طویل خط منحنی کی مثال لے سکتے ہیں جیسے کہ ریل کی پٹری ایک طویل خط مستقیم ہوتی ہے ۔۔۔۔ ہم ہر نماز میں اھدنا الصراط المستقیم تو کہتے ہیں لیکن عمل صرف میرے فاضل دوست شاہنواز عامر ہی کرتے ہیں۔ واہ کیا بات ہے جناب شاہ نواز عامر صاحب کی۔۔۔۔
ساجد پا جی پچھلے دنوں میرے ساتھ بھی کچھ اس قسم کا ہی ایک عجیب و غریب قسم کا ڈرامہ ہوا ہے میں ایک محفل میں بیٹھا تھا ادھر ایک حضرت بیٹھے تھے اچانک بات کا رخ داڑھی کی طرف مڑ گیا تو ہر بندہ اپنی اپنی بات کرنے لگا میں نے کہا کہ جناب داڑھی سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے یہ فرض نہیں ہے اور دوسری بات جہاں تک مقدار کی ہے تو حبیب خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کسی بھی قول سے اس کی مقدار کا تعین نہیں ہر کتاب میں جو قول ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ مونچھوں کو گھٹاؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ ۔۔۔۔۔ الغرض بحث طویل ہوگئی اور حضرت نے فون کرکے قریب ہی کسی جگہ سے بخاری شریف منگوا لی اور مجھے دکھانے لگے کہ دیکھو یہ لکھا ہے تو میں نے کہا جناب کدھر لکھا ہےتو کہنے لگے کہ دیکھو یہ لکھا ہے نا اندھے ہو کیا نظر نہیں آتا ہے مین نے کہا کہ جناب آپ جو قول ایک مٹھی اور چار انگل کا بتا رہے ہیں یہ حاشیہ میں لکھا ہے اور یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا ہوں کسی صحابی پر نہیں اور میرے لیئے پہلے دوخلفاء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ماڈل کافی ہے ۔۔۔۔پس جناب حضرت ہتھے سے اکھڑ گئے اور یہ کہہ کر مجھ پر حملہ آور ہوگئے کہ تم نبی علیہ اسلام کے ساتھ حسد رکھتے ہو۔
مندرجہ بالا شاہ نواز عامر بھی مجھے کوئی اسی حضرت صاحب کی ہی قبیل سے نظر آتا ہے
 
یار بابا اگر فکشن لکھ رہا ہے تو لکھنے دو

بابانے نبوت کا دعویٰ تو نہیں کیاہے۔

یہ بابا اتنا اہم نہیں لگ رہا ہے کہ مزید وقت ضائع کیا جاوے۔ اس کی کتاب کے دوصفحے پڑھنے پر سر میں درد نہ شروع ہوا تو بات کرنا
دعویٰ نہیں کیا لیکن اس جیسی بات کی ہے اس کو ابھی نہ روکا گیا تو کل کو ایک نیا فتنہ کھڑا ہوسکتا ہے
 
میرے بھائی آپ کی باتیں سمجھ سے باہر ہیں
شرک، ایمان ، حق
سب سے پہلے تو آپ کو اپنا کانسیپٹ کلیئر کرنا ہوگا ان سب کے بارے میں
اور آپ کو واقعی کسی شے کی ضرورت ہے ، چاہے وہ تالا ہو یا علاج ہو
کسی بات کے سر پیر کا پتا نہیں ہوتا اور چلے آتے ہیں حق، ایمان اور شرک کی بات کرنے
ایسی بات اگر کرنی ہے تو آپ حلف اٹھائیں کہ کبھی آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ، کسی کا حق نہیں مارا ، کوئی غلط کام نہیں کیا کبھی
اور اگر کیا ہے تو اس کا اقرار کریں واضح الفاظ میں اور بیان کریں کہ فلاں غلط کام کیا تھا
کیا ہے آپ میں اتنی ہمت ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر نہیں تو دوبارہ ایسی بات نہ کیجیئے گا
یہاں حق و باطل کی جنگ نہیں ہورہی صرف ایک دھاگہ شروع ہوا کسی کی شخصیت کے بارے میں
اگر آپ ان سے متفق نہیں ہیں تو کہہ دیجیئے کہ میں متفق نہیں ہوں کسی کہ ایمان پر تہمت لگانا مسلمان کا شیوہ نہیں
کیا ہے لیکن دھاگے سب شروع کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب نہیں ہے کہ وہ جو بھی الم غلا لکھنا شروع کردیں یا اپنے پرچار کرنا شروع کردیں
 

یوسف-2

محفلین
آج صبح دنیا ٹی وی پر انیق احمد کے دینی پروگرام کا موضوع تھا ”پردہ پوشی“۔ یہ پروگرام ہر روز صبح سات بجے نشر ہوتا ہے جس میں علمائے کرام کسی ایک موضوع پر قرآن و حدیث کے حوالہ سے گفتگو کرتےہیں۔ اس پروگرام میں متعدد احادیث کے حوالہ سے یہ بتلایا گیا کہ اللہ ستار العیوب ہے۔ لوگوں کے گناہ کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ لیکن جو لوگ اپنے گناہوں کو خود عام لوگوں کے سامنے ”ظاہر“ کردیتے ہیں، وہ سراسرخسارے کا سودا کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث نہ صرف یہ کہ اپنے عیوب اور گناہوں کو چھپانے کی تلقین کرتا ہے بلکہ یہ بھی تلقین کرتا ہے کہ ہم دوسروں کے عیوب اور گناہوں کی بھی پردہ پوشی کریں۔ دوسروں کے عیوب اور گناہوں کو بیان کرنا ”غیبت“ کہلاتا ہے اور قرآن کی رو سے غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ ”غیبت“ کی صرف وہاں اجازت ہے، جہاں کسی کے شر سے عوام کو بچانا مقصور ہو یا کسی کے عیوب اور گناہوں کو چھپانے سے عوام کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہو۔ یہ تو دوسروں کے عیوب اور گناہ کی پردہ پوشی کی بات ہے۔ اپنے ذاتی گناہوں کی پردہ پوشی تو لازمی ہے تاکہ ہمارے گناہوں کے ”گواہ“ نہ ہوں یا کم سے کم ہوں۔ جس طرح دنیا کا ہر مجرم اپنے جرم پر کسی کو گواہ نہیں بناتا اور کوشش کرتا ہے کہ اس کے جرم کو کوئی دیکھ نہ لے تاکہ کل کلاں عدالت میں اس کے خلاف گواہی نہ دے۔ اسی طرح ایسی بہت سی احادیث ہیں کہ اپنے گناہوں کو بھی جگہ جگہ بیان نہ کرتے پھرو۔ لیکن جو لوگ قرآن و حدیث کی اس تعلیم سے ناآشنا ہیں، وہ نادانستہ اور شیاطین و منافقین کے نمائندگان دانستہ اس فلسفہ کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں کہ ۔۔۔ جب گناہ کرتے ہوئے اللہ سے نہیں ٍڈرے تو اللہ کے بندوں سے کیا ڈرنا کہ ان سے اپنے گناہ چھپائے جائیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہر انسان سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ گناہ اور ثواب کے معاملات قرآن و حدیث سے منسلک ہیں۔ ہر وہ کام ”گناہ“ ہے، جسے قرآن و حدیث ”گناہ“ قرار دے۔ خواہ ساری دنیا کی نظر میں وہ کام کتنا ہی ”اچھا“ کیوں نہ ہو۔ لہٰذا ہر انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کو ’ڈیل“ بھی قرآن و سنت کے بتائے ہوئے طریقن کے مطابق کرنا چاہئے یعنی جب کبھی گناہ سرزد ہوجائے تو ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اس پر اللہ کے حضور شرمسار ہو، توبہ استغفار کرے۔ اور اگر اللہ نے اس کے گناہوں پر پردہ دال رکھا ہو تو وہ اس پردہ کو ”بے نقاب“ کرکے اپنے گناہوں کی تشہیر اور اپنے گناہوں پر گواہ پیدا کرنے سے باز رہے، ورنہ عین ممکن ہے کہ گناہوں کی پردہ پوشی سے متعلق قرآن و حدیث کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر اسے دنیوی اور اُخروی خسارے کا سامنا کرنا پڑے۔ اللہ ہم سب کو اپنے اور دوسروں کے عیوب و گناہ کی پردہ پوشی کی توفیق دے آمین
 
پھر وہی بات۔۔بھاشن ہیں کہ نشر ہونے کیلئے ہمہ وقت بے قرار رہتے ہیں، لیکن کونسا بھاشن کس موقع پر اور کس کیلئے نشر کرنا ہے، اس پر غور کرنے سے سر میں درد ہونے کا احتمال ہے۔:)
ایک بندہ اپنی افتادِ طبع کے ضمن میں بچپن اور لڑکپن کے واقعات بتا رہا ہے (جو بلوغت کی عمر نہیں ، اور بچہ شریعت کا مکلف نہیں ہوتا) اور یہ حضرت چلے ہیں انہیں جہنم رسید کرنے۔۔۔بابا یحیی خان کے حوالے سے ان پر چیں بجبیں ہونے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ:
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو۔۔۔۔
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ایسے لوگ جب اپنے بچپن کی اس قسم کی شرارتوں کا ذکر کرتے ہیں تو اسکا ایک مقصد ان زاہدانِ ریا کیش کیلئے ایک لطیف سی تنبیہہ بھی ہوتی ہے کہ جس کبر و عجب، غیظ و غضب اور مخلوق کیلئے حقارت کے انبار دل میں لئے پھرتے ہو، انکے ہوتے ہوئے کاسمیٹک قسم کی نیکییاں سرانجام دیکر اور بے ضرر قسم کی حرکتوں سے بزعمِ خود اپنا دامن بچا کر یہ نہ سمجھنا کہ تم مقربان بارگاہ میں شامل ہوگئے پاک صاف ہوگئے ہو۔۔۔
کفر ہے اتنا مسلماں ہونا
امام غزالی نے احیا العلوم میں ذکر کیا ہے کہ حج کے موقع پر ایک شخص لوگوں سےحضرت عبداللہ بن مبارک کے بارے میں پوچھتا پھر رہا تھا کہ وہ کہاں مل سکیں گے۔ جب عرفات کے میدان میں ان سے ملا تو کہنے لگا کہ حضرت میں عراق سے آیا ہوں اور آپ کے علم و فضل کے بارے میں سنا تو آپ کو ڈھونڈتا ہوا یہاں آیا ہوں، ایک مسئلہ پوچھنا ہے آپ سے۔
فرمایا بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟
حضرت ، یہ بتا دیجئے کہ کیا احرام کی حالت میں کھٹمل مار سکتے ہیں؟
یہ سوال سن کر اور اسے دیکھ کر آپ ہنس دئیے۔
کہنے لگا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔
آپ نے فرمایا کہ " مجھے ہنسی اس بات پر آئی کہ تم لوگوں نے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے نواسے کو شہید کرتے وقت تو بالکل تردد نہیں کیا، لیکن احرام کی حالت میں کھٹمل مارنے کے بارے میں کتنے فکرمند ہورہے ہو۔
 

باباجی

محفلین
آج صبح دنیا ٹی وی پر انیق احمد کے دینی پروگرام کا موضوع تھا ”پردہ پوشی“۔ یہ پروگرام ہر روز صبح سات بجے نشر ہوتا ہے جس میں علمائے کرام کسی ایک موضوع پر قرآن و حدیث کے حوالہ سے گفتگو کرتےہیں۔ اس پروگرام میں متعدد احادیث کے حوالہ سے یہ بتلایا گیا کہ اللہ ستار العیوب ہے۔ لوگوں کے گناہ کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ لیکن جو لوگ اپنے گناہوں کو خود عام لوگوں کے سامنے ”ظاہر“ کردیتے ہیں، وہ سراسرخسارے کا سودا کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث نہ صرف یہ کہ اپنے عیوب اور گناہوں کو چھپانے کی تلقین کرتا ہے بلکہ یہ بھی تلقین کرتا ہے کہ ہم دوسروں کے عیوب اور گناہوں کی بھی پردہ پوشی کریں۔ دوسروں کے عیوب اور گناہوں کو بیان کرنا ”غیبت“ کہلاتا ہے اور قرآن کی رو سے غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ ”غیبت“ کی صرف وہاں اجازت ہے، جہاں کسی کے شر سے عوام کو بچانا مقصور ہو یا کسی کے عیوب اور گناہوں کو چھپانے سے عوام کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہو۔ یہ تو دوسروں کے عیوب اور گناہ کی پردہ پوشی کی بات ہے۔ اپنے ذاتی گناہوں کی پردہ پوشی تو لازمی ہے تاکہ ہمارے گناہوں کے ”گواہ“ نہ ہوں یا کم سے کم ہوں۔ جس طرح دنیا کا ہر مجرم اپنے جرم پر کسی کو گواہ نہیں بناتا اور کوشش کرتا ہے کہ اس کے جرم کو کوئی دیکھ نہ لے تاکہ کل کلاں عدالت میں اس کے خلاف گواہی نہ دے۔ اسی طرح ایسی بہت سی احادیث ہیں کہ اپنے گناہوں کو بھی جگہ جگہ بیان نہ کرتے پھرو۔ لیکن جو لوگ قرآن و حدیث کی اس تعلیم سے ناآشنا ہیں، وہ نادانستہ اور شیاطین و منافقین کے نمائندگان دانستہ اس فلسفہ کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں کہ ۔۔۔ جب گناہ کرتے ہوئے اللہ سے نہیں ٍڈرے تو اللہ کے بندوں سے کیا ڈرنا کہ ان سے اپنے گناہ چھپائے جائیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہر انسان سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ گناہ اور ثواب کے معاملات قرآن و حدیث سے منسلک ہیں۔ ہر وہ کام ”گناہ“ ہے، جسے قرآن و حدیث ”گناہ“ قرار دے۔ خواہ ساری دنیا کی نظر میں وہ کام کتنا ہی ”اچھا“ کیوں نہ ہو۔ لہٰذا ہر انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کو ’ڈیل“ بھی قرآن و سنت کے بتائے ہوئے طریقن کے مطابق کرنا چاہئے یعنی جب کبھی گناہ سرزد ہوجائے تو ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اس پر اللہ کے حضور شرمسار ہو، توبہ استغفار کرے۔ اور اگر اللہ نے اس کے گناہوں پر پردہ دال رکھا ہو تو وہ اس پردہ کو ”بے نقاب“ کرکے اپنے گناہوں کی تشہیر اور اپنے گناہوں پر گواہ پیدا کرنے سے باز رہے، ورنہ عین ممکن ہے کہ گناہوں کی پردہ پوشی سے متعلق قرآن و حدیث کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر اسے دنیوی اور اُخروی خسارے کا سامنا کرنا پڑے۔ اللہ ہم سب کو اپنے اور دوسروں کے عیوب و گناہ کی پردہ پوشی کی توفیق دے آمین
جناب یوسف سر جی
بہت زبردست بات کی آپ نے
لیکن ایک درخواست کروں گا آپ سے کہ ایک دفعہ
طوعاً و کراہاً باباجی کی کتاب پڑھ ہی لیجیئے چاہے فکشن سمجھیں
چاہے لن ترانی ۔۔
ہوسکتاہے آپ کا نظریہ کچھ تبدیل ہوجائے
قرآن و حدیث میں جو احکامات ہیں پردہ پوشی کے اس بارے میں نہیں
ان حضرت کے بارے میں جن کا نام بابا محمد یحیٰی خان ہے
 

یوسف-2

محفلین
جناب یوسف سر جی
بہت زبردست بات کی آپ نے
لیکن ایک درخواست کروں گا آپ سے کہ ایک دفعہ
طوعاً و کراہاً باباجی کی کتاب پڑھ ہی لیجیئے چاہے فکشن سمجھیں
چاہے لن ترانی ۔۔
ہوسکتاہے آپ کا نظریہ کچھ تبدیل ہوجائے
قرآن و حدیث میں جو احکامات ہیں پردہ پوشی کے اس بارے میں نہیں
ان حضرت کے بارے میں جن کا نام بابا محمد یحیٰی خان ہے

شکریہ باباجی! ان شاء اللہ کتاب ضرور پڑھوں گا، اگر مل گئی تو ۔۔ مجھے کتاب یا صاحب کتاب سے کوئی الرجی نہیں ہے۔ اور اوپر میں نے ایک اصولی بات کی ہے کہ قرآن و حدیث اپنے ذاتی گناہوں کو چھپانے کی تلقین کرتا ہے، اپنے گناہوں کا اشتہار بنانے کی نہیں۔ آپ قرآن و حدیث کی اس بات سے متفق ہیں، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اور جو لوگ متفق نہیں ہیں، وہ اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہیں۔ آپ کے اس خوبصورت جواب کا بہت بہت شکریہ۔ کاش ہم سب آپ کے اس عمدہ طرز گفتگو کو اپنا سکیں، کسی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے بھی اور اختلاف کرتے ہوئے بھی :)
 
Top