بصدمعذرت کہ ایک طویل مراسلہ بجلی موصوفہ کے انتقال کی وجہ سے محفل میں شامل نہ ہوسکا ، نہ ہی لوحِ برقی (سیل فون) سے اطلاع شامل کرسکا بہر کیف و بہر حال وہ بعد میں شامل کردوں گا۔ فی الوقت آپ کی نذر:
دوست۔ آپ کی باتیں جذباتی زیادہ ہیں اور آپ کچھ حد تک جانبدار بھی ہوئے
صد فیصد اختلاف قبلہ ، محض میرے مراسلے کی وجہ سے آپ کا یہ کہنا مجھ پر بہتان تراشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے سو یوں کہ ہم انسان ہیں انسانی ضروریاتی مسائل ہمیں بعض اوقات پوری بات کی مہلت نہیں دیتے ، نہ میں نے جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ جذباتی ہوا ہوں ۔ سو یہ اختلاف قبول کیجے ۔
شریعت اسلام پر عمل کم ازکم شرط ہے کسی انسان کے ظاہر کو پہچاننے کی۔ مخلوق کسی کے باطن کو جاننے کی دعوی دار عمومانہیں ہے۔ سیدھی سے بات ہے کہ آدمی کو اس کے اعمال پر ہی جانا جائے گا۔ جب ظاہرا اعمال شریعت کی نفی کرتے ہیں تو ادمی کو ظاہرا اسی آصول پر تولا جائے گا جس کا علم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کو دیا۔
یقیناً ایسا ہی ہے اور مجھے بحیثیت بشری جثے کے اس پر ایمان کی حد تک اعتقاد ہے ، استثنیٰ کی بات دگر ہے۔ مگر قبلہ میرے درج بالا مراسلے میں کہیں کوئی ایسی بات آپ کے اس اقتباس سے تضاد نہیں رکھتی تو ۔۔ایں چیست ۔؟؟
یہ کہاں سے ظاہر ہے کہ مقدس ہستیاں ظاہرا شریعت کی نفی کرتی رہی ہیں؟ ایسا سوچنا بھی درست نہیں ہوگا۔
خان صاحب میں نے کہیں نہیں کہا کہ ایسی ہستیاں شریعت کی نفی کرتی ہے ۔ بہر حال اگلا مراسلہ شامل نہ ہوسکا وگرنہ آپ کے سوال کا جواب پہلے ہی مل چکا ہوتا ۔ میرا خود مطمح نظر یہی ہے کہ ایسی ہستیوں نے ’’ڈھنڈورا پیٹنے‘‘ والو اور ’’عام شریعتی‘‘ عناصر کے سامنے ایسی باتوں کی سختی سے ممانعت کی ہے، حتٰی کے سماع پر بھی مغل دور میں کیا کیا پابندیاں رہیں اور خود دیگر بزرگان نے بھی اسے ناپسند فرمایا ، بہر حال جو مراسلہ شامل نہ ہوسکا اس میں منصور الحلاج سمیت غالب فہمی تک کا ذکر تھا اس کے بعد کے مراسلے میں انشا اللہ شامل کرتا ہوں۔ میرے درج بالا مراسلے کا مقصد صرف اور صرف ’’بغیر پڑھے تصدیق کیے تکفیری جملوں ‘‘ کی مد میں تھا ۔ میں نے خود کہا کہ بابا محمد یحیٰ سے میری ملاقات رہی ہے مگر میں شامل نہیں کررہا ۔ بہر حال میں دوبارہ عرض گذار ہوتا ہوں کہ میں نے بابا یحی ٰ کی وجہ دیگر ہستیوں کو بیک جنبشِ قلم رد کرنے والی شدت پسندی کی مد میں لکھے گئے میرے کسی جملے کو جذباتیت یا جانبدار سے تعبیر کرنے والے احباب بشمول آپ لاعلمی کو علم کیوں گرداننے پر مصر ہیں ؟؟
ظاہر ہے کہ روحانیت کسی کو انکار نہیں ہے مگر روحانیت اور صوفیت میری نظر میں انسان کا اللہ سے تعلق ہے جو جتنا مضبوط ہوجائے گا اتنا ہی انسان کی فلاح کے لیے بہتر ہے مگر یہ تعلق کبھی بھی ان بنیادی شرائط کو کمزور نہیں کرے گا جو شریعت نے وضع کی ہیں کیونکہ یہی شریعت اس اللہ نے وضع کی ہے جس سے تعلق کو مضبوط کرنے کےلیے روحانیت یا صوفیت کی ضرورت پڑتی ہے۔
انسان کا اللہ سے جتنا تعلق مضبوط ہوتا جاتا ہے اتنا ہی ہو اس تعلق کی تشتہر سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ تشتہر بھی کیوں ہو جبکہ یہ مقصد ہی نہیں اور اس کی وجہ سے مقصد اولیٰ و اعلی فوت ہوجاتا ہے۔پس جو انسان اس روحانیت اور صوفیت کی مشھوری میں مشغول نظر اوے وہیں یہ معاملہ پڑجاتا ہے کہ یہ شخص کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ میری نظر میں کوئی بھی ہستی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہیں جو خود شریعت پر عمل کرتے اور اس پر عمل کی تلقین کرتے رہے۔میں کوئی اس معاملہ کا عالم نہیں ہے۔ میری رائے ایک ناقص رائے ہے۔ اگر اپ اس سے بہتر رائے رکھتے ہوں تو مجھے بھی ضرور مطلع رکھیں
سو فیصدمتفق ہوں قبلہ ، اور ایک بارمزید وضاحت کیے دیتا ہوں کہ موضوع بابا یحیٰ تھے جن کے شخصیت کے بارے اعتراضات رکھنے والے دوستوں نے فرقہ ملامتی میں شامل بیالیس کے قریب اولیاّء کو بھی بلاواسطہ تضحیک کا نشانہ بنایا ، آپ نے بڑی چابک دستی سے میرے مراسلےکو سمجھے بغیر ایک نیا موڑ دے دیا جب کہ اختلاف کی صورت موجود ہی نہیں تھی ، مجھے تو حیرت ہے کہ آپ مقتبسہ مراسلہ چہ معنی دارد ؟؟
میں یہیں لکھ دیتا ہوں اور اگلے مراسلے کی زحمت نہ دوں گا کہ منصور الحلاج کو سزا شریعت کی رو سے ’’بھانڈا پھوڑنے‘‘ پر دی گئی تھی ، جس پر خود منصورالحلاج کا کہنا ہے کہ ’’ مجھے سزا دینے والوں کے لیے اجر ہے کیوں کہ انہوں نے شریعت کی پاسداری کی اور اللہ سے حسنِ ظن رکھا ‘‘ جبکہ وقت کے بڑے بزرگ شبلی کو محض پھول مارنے پر اظہارِ تاسف کیا تھا۔۔ معافی چاہتا ہوں یہاں اپنے جدِ امجد قبلہ غالب (عام شریعتی)سے بھی چوک ہوگئی کہ فرمانے لگے :
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلیدِ تنک ظرفی ء منصور نہیں !!!
منطقی اور سامنے کی علمی بات ہے کہ ’’جب کوئی خود کو حق کہہ رہا ہے ‘‘ تو ’’حق‘‘ ہی کو آشکار اور کبر کا منصب ہے تو میاں غالب سے کوئی پوچھے کہ آپ جس بات علاّمہ بن رہے ہیں وہی بات آپ مصرع اولیٰ میں قرینِ حقیقت آپ بھی فرمارہے ہیں ’’قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا‘‘ ۔۔
خیر یہی بات شاید دوستوں کو ہضم نہ ہو اتنی آسانی سے ، آئیے بابا ذہین شاہ تاجی (باشرع) سے پوچھتے ہیں :
سمجھو تو ’’انالحق ‘‘ کے معنی ہیں ذہین آساں
در اصل یہ کہتا تھا منصور ، ’’نہیں ہوں میں ‘‘
اب بابا یحییٰ نے اگر ڈرامہ کیا ہے یا آشکار کیا ہے تو کتنا کیا ہے ، ان کا منصب کیا بنتا ہے ، ان کی غرض کیا ہے یہ بحث چھوڑ کر دوست احباب جب تبحرِّ علمی میں دیگر اسلاف کو رگیدنا شروع کردیں گے تو مجھے حق بنتا ہے کہ آواز اٹھاؤں ۔۔۔ وہ بھی صرف اس دوست کو نام لے کر کہا جس سے زیادہ امیدیں ہیں کہ وہ ’’تحقیق‘‘ کا آدمی ہے ۔۔ سو التماس ہے میری کسی بھی بات کو نہ ذاتی حملہ تصور کیا جائے اور نہ ہی کوئی دوسرا رخ دیا جائے ۔
ہمارا مسئلہ مان لیجے صرف اور صرف تبحرِ علمی ہی ہے شاید جس کی اساس محض شنیدم گفتگم پر ہے ، بغیر جانے بغیر پڑھے یہاں دوست احباب وہی کرتے پھرتے ہیں جو بامیان میں نام نہاد’’ شریعتی‘‘ لوگوں نے بدھا کے مجمسے گرا کے کیا تھا جبکہ چوبیس صحابہ کرام اس سرزمین پر رہے اور وہاں سے سفر بھی کیا ۔۔۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہم ’’علاّمہ ‘‘ ہیں یا ہمارے ’’اسلاف‘‘ ہم سے زیادہ دین و دنیا کی باریکیوں کو سمجھتے تھے ۔ واللہ اعلم بالصواب
حاشیہ: میرے کسی بھی لفظ سے میرے کسی دوست بھائی بہن کی طبع نازک کو ٹھیس پہنچے تو میں دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں ، اور وضاحت کرتا ہوں کہ مندرجات محض علمی اختلاف اور سوئے ادب پر عاجزانہ رائے کے طور پر شامل کیے گئے ہیں ، جو میری اجہل رائے میں مثبت رویہ ہے ، سو انسانی حیثیت سے اغلاط کا سرزد ہونا بھی بعید نہیں اس لیے معافی کا خواستگار ہوں ۔ الخ