بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر11
(پچھلی اقساط کے لئے میرے بک مارک چیک کیجئے)
"میرے آقا ! آپ کو اب جیل سے نکلنا نہیں چاہئے" جن نے مشن سے واپس آتے ہی تجویز دی۔
"کیوں؟ میں دوبارہ رہبانیت اختیار کر کے کائنات کے رنگ کو بھول جاؤں؟ اور دنیا میں سے اپنا حصہ دھتکار دوں؟ اس دنیا کی نعمتوں میں میرا حصہ بھی تو ہے!! میں اپنا حصہ کیوں چھوڑوں؟ کیا میرا اس دنیا پر کوئی حق نہیں ہے؟ اور تم کون ہوتے ہو مجھے قید میں رہنے کا مشورہ دینے والے؟ کہیں تم دشمنوں سے مل تو نہیں گئے؟"، ویلنٹائن جن کا نامعقول مشورہ سن کر ایک دم سے جذباتی ہو گیا اور اس خیال سے کہ اسے اب رنگ کائنات کے دیدار سے مزید محروم ہونا پڑے گا سے تکلیف میں آگیا۔ بلکہ غصے میں بھی آگیا تھوڑا تھوڑا
"میرے آقا ، میرے آقا، بات تو سنیے! ناراض نا ہوئے ، پوری بات تو سن لیجئے۔ " جن نے منت کرتے ہوئے عرض کی۔
"وہ محترمہ خود تشریف لارہی ہیں جیل میں آپ کو دیکھنے کے لئے"، جن نے دھماکے دار خوش خبر سنا دی
"اگر آپ باہر چلے گئے اور وہ یہاں آگئی تو آپ اس سے کیسے میلیں گے" ؟ جن نے پھرآقا کی خدمت میں عقلمندانہ مشورہ پیش کیا۔
مگر یہ کیا!!!
ویلنٹائن خوشخبری کے دھماکے سے ایک دم سکتے میں آگیا تھا اور کوئی جواب نہیں دے رہا تھا۔
"میرے آقا، یہ کیا ہوگیا آپ کو؟ کچھ بولئے، ابھی تو خاتون سے ملنے کے لئے آپ کو تیاری بھی کرنا ہے، ذرا بال وال بھی سنوارنے ہیں، جناب کچھ جواب تو دیجئے"، ویلنٹائن کے اس غیر متوقع رد عمل سے جن بھی حیران بلکہ بلکہ تھوڑا تھوڑا پریشان ہوگیا۔
"اب کیا کروں ، کہیں سے پانی لاؤں اور آقا پر چھڑکاؤں" جن نے خود کلامی کی
"اووووووووووووووووئے"
"توں ایں ویلنٹائن ، تے توں این جن؟" ایک دم دھماکے دار بڑھک سن کر ویلنٹائن گھبرا کر ہوش میں آگیا
"تم کون ہو بھائی؟" ویلنٹائن نے غیر متوقع فرد کو دیکھ حیرت سے پوچھا
"اور تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ کلہاڑا"؟ جن نے بھی اپنا سوال ساتھ ہی داغ دیا
"میں مولا جٹ آں ، اوووووووووووئے"
"تے میرے گنڈاسے دا مذاق نا اڑائیں نئیں تے میں تیرے اک کن وچوں وڑ کے دوسرے وچوں بار نکل آواں گا اووووووئے" مولا جٹ نے جواباً پھر بڑھک ماری
"تم بھی جن ہو کیا؟" ویلنٹائن نے ذرا مشکوک نظروں سے دیکھ کر پوچھا
"اور اوووووووووووئے تمہارا تکیہ کلام ہے کیا" ؟ جن نے بھی سوال پوچھ لیا
"میں جن نئیں آں ، اوووووئے، مینہوں
ماہی احمد نے جادو دے زور نال ایتھے بھیجئیا اے" مولاجٹ نے اوئے کی لمبائی قدرے کم کرتے ہوئے وضاحت پیش کی۔
'ویسے اگر مولا جٹ صاحب اگر آپ کو ایک کان سے گھس کر دوسے سے نکلنے کی خواہش ہے تو آپ اپنا نام نصیحت رکھ لیں اور جیل کے سپاہی پر کوشش کریں ، وہاں آپ کو دونوں کانوں کے درمیاں کافی خالی جگہ مل جائے گی، اور باہر نکلنے مین آسانی ہوگی' ویلنٹائن نے مولا جٹ کو آئیڈیا دیتے ہوئے کہا
"ایہ اوہی سپاہی اے جیہڑا تینوں تنگ کردا اے؟" مولا جٹ نے اس مرتبہ اوئے کو چھوڑ کر ویلنٹائن سے سوال پوچھا
"جی ، لگتا ہے آپ کو ماہی احمد نے ساری تفصیل بتا کر بھیجا ہے" جن نے دلچسپی سے پوچھا
"کتھے وے او سپاہی؟" مولا جٹ ارادہ بناتے ہوئے پوچھا
"ادھر"ویلنٹائن نے سپاہی کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا
"اوووووووووووووووووووووووووووووووووووووئے" مولا جٹ سپاہی کے کمرے کی طرف لپکا۔
"یار جن!!"، "تم میرے سامنے اتنی عقلمندی کی باتیں نہ کیا کرو" ویلنٹائن نے جن کو کہا
"کیوں جی؟" جن نے حیرت سے پوچھا
"یار ، میں تمہارا آقا ہوں، اگر غلام آقا سے زیادہ عقلمندی کی باتیں کرے تو آقا کو خوامخواہ کی شرمندگی ہوتی ہے" ویلنٹائن نے اپنی خواہش کی تفصیل کچھ لگے لپٹے بغیر بیان کر دی
جن اپنے آقا کی زہنی کیفیت سن کر ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک نسوانی آواز گونجی
"کہاں ہے وہ پادری"