رہی بات باجوہ صاحب کی یا ان کی ڈکٹرائین کی تو میں
محمد وارث صاحب کی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ایسا پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے چلا آ رہا ہے، لیکن اپنے اسی مراسلے کے آخر میں وہ اس بات کو بھی ن لیگ کے ماضی کی طرف لے گئے۔
یہ ڈکٹرائن ماضی کی کچھ تلخ غلطیوں یا کوتاہیوں کے بعد وجود میں آئی۔ افواج سے پہلے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے جمہوری اقتدار پر قبضہ کیا۔ مانا کہ اسوقت بھی جمہوری حکمران نااہل تھے مگر پھر اس بنیاد پر اقتدار سال ہا سال اپنے پاس رکھنا غلط تھا۔ پھر افواج سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے چھینا ہوا سیاسی اقتدار بذریعہ جمہوری الیکشن عوام کو واپس کر دیا۔ ۱۹۷۰ کے صاف اور شفاف ترین الیکشن سے نکلنے والی جمہوری اشرافیہ نے اپنی انا کی جنگ لڑ کر آدھا ملک ڈبو دیا۔ افواج پھر بھی بھٹو کے ساتھ کھڑی رہیں یہاں تک کے اگلے الیکشن کے بعد پھر وہی دنگا فساد شروع ہو گیا جو پچھلے الیکشن پر ہوا تھا۔ اگر ہر الیکشن کے بعد سول قیادت نے بے لگام گھوڑا ہی بننا ہے تو بہتر ہے اقتدار فوج کے پاس رہے جب تک یہ نااہل اشرافیہ ماضی سے سبق نہیں سیکھتی۔
ضیا کے مرنے کے بعد پہلے الیکشن میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی مگر اسوقت تک فوج کے سول قیادت سے تعلقات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ ۱۹۹۰ کا الیکشن انہوں نے مخالف پارٹیوں کے ساتھ ملکر جیت لیا۔ اسوقت جن سیاسی جماعتوں نے فوج کیساتھ ملکر جمہوریت کے خلاف سازش کی تھی آج وہی ووٹ کو عزت دو کا ڈرامہ کر رہے ہیں۔
۹۰ کی دہائی میں فوج اور سول قیادت کا ٹکراؤ جاری رہا یہاں تک کہ مشرف نے تنگ آکر مارشل لا لگا دیا۔ ایسے میں جمہوری اشرافیہ ایسی غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ مگر مشرف نے بھی پھر وہی ۱۹۷۰ والی غلطی دہرا کر نا اہل حکمرانوں کو ہمارے سروں پر مسلط کر دیا۔
اب فوج کو بھی عقل آ گئی ہے کہ وہ سیدھا اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ نیز جمہوری اشرافیہ بھی خبردار ہے کہ افواج کو آن بورڈ لئے وہ ملک سے متعلق بڑے فیصلے نہیں کر سکتے۔ اس اقتدار اور قوت کی تقسیم کو دہشت کا توازن کہہ دیا جائے تو کچھ برا نہیں ہوگا۔
ہر پاکستانی ملک میں سویلین بالادستی چاہتا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ ادارے اپنی حدود میں کام کریں۔ مگر حقیقت میں ایسا تب تک نہیں ہوگا جب تک یہاں اعتماد کی فضا بحال نہیں ہوگی۔ مغرب اسی لئے کامیاب ہے کیونکہ وہاں اداروں کے مابین اعتماد ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خفیہ ادارے بھی ایک دوسرے کیساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ انکا مقصد اپنے اقتدار کی طوالت نہیں بلکہ عوام کی فلاح ہوتا ہے۔ جب سب اداروں کا مقصد ایک ہے تو باہم اعتماد کی فضا اپنے آپ قائم ہو جاتی ہے۔ جب ادارے ترقی کرتے ہیں تو ملک ترقی کرتا ہے۔ اور جب ملک ترقی کرتا ہے تو عوام خوشحال ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی حالیہ صورت حال یہ ہے کہ جمہوری سیاسی قیادت عظمی، نیب اور وقار کے پیچھے پڑی ہے۔ وقار، عظمی اور نیب اپنے اداروں کے دفاع میں سیاست کرنے پر مجبور ہے۔ حالانکہ انکا کام سیاست کرنا ہے ہی نہیں۔ یہاں سول قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اداروں کو تحفظ دے۔ انکے فیصلوں کو تسلیم کرے۔ نہیں تو ملک انار کی کی طرف جائے گا۔ پھر عظمی، وقار، حزب اختلاف اور نیب ایک طرف جبکہ سول قیادت اور انکے گلو بٹ دوسری طرف ہوں گے۔