چند دن پہلے سپہ سالار قمر باجوہ صاحب نے کوئی 30 کے قریب ٹی وی اینکرز اور دیگر صحافیوں کو اہم قومی امور پر بریفنگ دی۔ بریفنگ آف دی ریکارڈ تھی لیکن مقصد شاید یہی تھا کہ جنرل باجوہ کے دل کی بات عوام تک پہنچائی جائے اس لیے ملاقات کا احوال کچھ صحافی بھائیوں نے میٹنگ کے نوٹس کی شکل میں لکھا۔ کچھ نے غزلے دو غزلے لکھ ڈالے اور کم از کم ایک بھائی نے اسے پی ایچ ڈی تھیسس کے طور پر تحریر کیا۔
فوجی جنرل پہلے بھی صحافیوں سے کبھی کھلم کھلا کبھی بند دروازوں کے پیچھے ملتے رہتے ہیں اور ظاہر ہے دونوں اسی ملک کے شہری ہیں تو ان ملاقاتوں میں کوئی حرج نہیں۔ میرا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب ایک سینیئر صحافی نے تحریر کیا کہ وہ گذشتہ ایک سال میں جنرل باجوہ صاحب سے پانچ مرتبہ مل چکے ہیں۔
پہلا خیال تو یہ آیا کہ اگر جنرل صاحب صحافیوں سے اتنے تواتر سے ملتے ہیں تو اپنی اصلی نوکری یعنی اگلے مورچوں کا دورہ وغیرہ کب کرتے ہوں گے۔ پھر خیال آیا کہ میں ربع صدی سے کبھی نوکری والی کبھی فری لانس والی صحافت کرتا آیا ہوں، اتنے صحافیوں سے تو میں نہیں ملتا جتنوں سے جنرل باجوہ ایک سال میں مل چکے ہیں۔
30 ٹی وی اینکرز کو سامنے بٹھا کر ان سے بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے جنرل صاحب لاہور کے شاہی قلعے کے اندر بنے شیش محل میں جا بیٹھیں۔ آپ کو ہر آئینے میں اپنی ہی شبیہ دکھائی دے گی اور دل بے ساختہ گنگنا اٹھے گا میرے رشکِ قمر۔۔۔
اس بریفنگ کے بعد کوئی آپ کے ’ڈنڈا صرف ریاست کے پاس ہونا چاہیے‘ والے فلسفے پر فدا ہے تو کوئی آپ کی چوڑی چھاتی کے بارے میں رطب اللسان ہے۔ کسی کو آپ کی چھڑی میں یدِ بیضا کی جھلک دکھائی دیتی ہے تو کوئی آپ کے منتشر خیالات کو نیم آسمانی صحیفہ کہنے پر مصر ہے۔
میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ جنرل باجوہ سگریٹ نوش نہیں ہیں ورنہ ہمارے کچھ بزرگ صحافی سابق سپہ سالار جنرل کیانی کے منہ سے نکلتے سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولوں میں نئے پاکستان کے نقشے ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔
بریفنگ کا بنیادی کا مقصد ظاہر ہے فوج کے بیانیے کو عوام کے سامنے پیش کرنا تھا (میں نے اس لفظ بیانیے کے خلاف دل و جان سے جہاد کیا ہے لیکن ابھی گذشتہ ہفتے ہی پچپن کے ایک دوست نے بیچ بات کے ٹوک کر کہا مینوں تیرا بیانیہ ای سمجھ نئیں آ ریا۔ تو میں نے ہتھیار ڈال دیے)۔ لیکن عوام کے سامنے اپنا بیانیہ موثر انداز سے پیش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کا بیانیہ بھی تھوڑا بہت سمجھ لیا جائے۔ ( مجھے نہیں پتہ بیانیے کی جمع کیا ہے لیکن عوام کا بیانیہ ایک نہیں بیانیوں کے اندر بھی بیانیے ہیں)۔
صحافیوں سے اتنا زیادہ ملنے جلنے کا نقصان یہ ہے کہ بیانیہ دائرے کے اندر گھومنے لگتا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں کیا ہوا، چوہدری نثار نے پھر کچھ کہا، مجھے کیوں نکالا، فلانے کو کیوں ڈالا، راؤ انوار کس کی گاڑی میں بیٹھا وغیرہ وغیرہ۔ میری بات پر یقین نہیں تو سارے نیوز چینل گھما گھما کر دیکھ لیں اور مجھے ایک سینیئر صحافی یا تجزیہ کار دکھا دیں جو کبھی سر ہلا کر یہ کہہ رہا ہو کہ جو سوال آپ نے پوچھا میرے پاس اصل میں اس کا جواب نہیں پلیز کسی اور سے پوچھ لیں۔
تو میری دست بستہ گزارش ہے جس ملک کی سرحدوں کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے اور جس ملک میں جمہوریت بچانے کی ذمہ داری آپ نے خود لے لی ہے اس کو سمجھنے کے لیے اپنا حلقۂ یاراں تھوڑا وسیع کر لیں تاکہ آپ کی پناہ میں بسنے والے لوگوں کے بیانیے آپ تک پہنچ سکیں۔
مثلاً کسی سبزی فروش سے مل کر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ گوبھی کی وہ ٹوکری جو دو روپے کی دیپالپور سے چلتی ہے وہ کراچی پہنچتے پہنچتے ساٹھ روپے کلو کیسے ہو جاتی ہے۔ کبھی کسی گلی محلے میں بیوٹی پارلر چلانے والی خاتون سے پوچھیں کہ ہماری ریاست تو 70 سال میں تیری گلی میں گٹر نہ بنا سکی تُو نے گھر بیٹھے اپنا بزنس چلانا کیسے سیکھا۔
کسی پانی کے ماہر کو بلائیں اور اس سے پوچھیں کہ سیدھے سیدھے بتاؤ کہ اس ملک کے لیے کتنے سال کا پانی بچا ہے۔ میوزک کی ویب سائٹ پٹاری بنانے والے لونڈوں سے پوچھیں کہ جن بیابانوں میں ہم فراری ڈھونڈتے رہتے ہیں تم وہاں سے شہد اور آگ کے شعلوں سے بنی آوازوں والے گلوکار کیسے ڈھونڈ لیتے ہو۔
یہ پتہ چلائیں کہ بازار کی نکڑ پر بیٹھا موچی کتنی دیہاڑی بنا لیتا ہے اور اس کی دھیمی سی مسکراہٹ کا راز کیا ہے۔ جب خلقت کے بیانیے آپ کے بیانیے میں ملیں گے تو پھر بنے گا اصل تے وڈا بنانیہ جسے سن کر قوم گنگنا اٹھے گی کہ چوٹ وہ دل پہ کھائی، مزا آ گیا۔۔۔
ربط