اچھی بات ھے، ویسے بھی یہاں رہ کر جاب کرنا آپکی زندگی کا لازمی سا جزو بن جاتا ھے، کرنا پڑتا ھے۔ تھوڑا مشکل ضرور ہوتا ھے مگر سننے میں آیا ھے کہ یہ مشکل شروع شروع میں ہی ہوتی ھے پھر عادت ہو جاتی ھے۔ اور سب سے بڑی بات یہ بھی کہ بندہ خود مختار ہو جاتا ھے جو کہ میرے خیال میں ایک مثبت چیز ھے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی یوں بھی ہوگی کبھی میرے لیئے، میں کبھی گھر سے دور نہیں رہا تھا۔ اب جب کبھی پاکستان کا زمانہ یاد آتا ھے تو سوچتا ہوں کتنی عیاشی کے دن تھے، فکر نہ فاقہ، کھایا پیا، گھوما پھرا اور مزے کئے۔ جاب کہنے کو تو دو دن کی ھے مگر دونوں دن دس دس گھنٹے کی شفٹس ہیں اور کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ بیٹھ کر آنکھیں بھی تھک جاتی ہیں اور کمر بھی۔ بس دعا کیجیئے گا آگے پیپرز بھی ہیں جنوری میں، پڑھائی کا بھی کافی زور ہوگا۔ چلیں باجو میری دعایئں بھی اقراء کے ساتھ ہیں اللہ بہتر کرے گا۔
حسن اقراء کو دو یونیورسٹی سے آفر آ بھی گئی۔ اک برمنگھم یونیورسٹی سے ، دوسری ساوتھ solent سے،
بلکے میں بہت خوش ہوئی کہ اقراء کو اسکالر شپِ کی آفر ہوئی ۔
اب
اور
اب اک م middle sex
یورنیورسٹی اور queen's mary london یہ رہ گئیں ہیں باقی ۔ دیکھو انکا لیٹر کب آتا ہے ۔
اقراہ تو اب اسکالر شپِ کو لے کر بہت خوش ہے ۔