میرا خیال ہے کہ آپ نے پروین شاکر صاحبہ کے مصرع آگے پیچھے کر دیے ہیں۔ اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے مٹّی کی مہک سانس کی خوشبو میں اُتر کر بھیگے ہوئے سبزے کی ترائی میں بُلائے دریا کی طرح موج میں آئی ہُوئی برکھا زردائی ہُوئی رُت کو ہرا رنگ پلائے بوندوں کی چھما چھم سے بدن کانپ رہا ہے اور مست ہوا رقص کی لَے تیز کیے جائے شاخیں ہیں تو وہ رقص میں ، پتّے ہیں تو رم میں پانی کا نشہ ہے کہ درختوں کو چڑھا جائے ہر لہر کے پاؤں سے لپٹنے لگے گھنگھرو بارش کی ہنسی تال پہ پا زیب جو چھنکائے انگور کی بیلوں پہ اُتر آئے ستارے رکتی ہوئی بارش نے بھی کیا رنگ دکھائے