بارش، برکھا، برسات، ساون پر اشعار

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بارشوں کے موسم میں​
تم کو یاد کرنے کی​
عادتیں پرانی ہیں​
اب کی بار سوچا ہے​
عادتیں بدل ڈالیں​
پھر خیال آیا کہ​
عادتیں بدلنے سے​
بارشیں نہیں رکتیں۔۔۔۔۔۔۔!​
 

رانا

محفلین
آفتاب اقبال کہتے ہیں

جے تو ہن اے شعر سنایا تے میں جتی لا لینی اے۔

کیا یہ واقعی فراز کا ہے۔
ویسے میں نے نہیں پڑھا تبھی پوچھ رہا ہوں۔
میں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ یہ شعر فراز کا ہے۔:) لگتا بہرحال اسی کا ہے۔ لیکن یہ میرا درد سر نہیں۔ شعر پر رائے دیں کہ دھاگے کی مناسبت سے ہے یا نہیں۔ اور اچھا ہے کہ نہیں۔;)
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بارش کیسی تیز ہوئی ہے​
آدھی رات کا سناٹا ہے​
آنکھ اداسی میں ڈوبی ہے​
خواب بھی چھپ چھپ کے تکتے ہیں​
خوشبو کچھ مانوس سی ہے​
اور دل بکھرا بکھرا سا ہے​
شیشے کی ان دیواروں کے پار​
افق ہے اور دعا​
جب تک لوٹ کر آئے گی​
شاید میں ہوجاؤں راکھ​
 

محمداحمد

لائبریرین
کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں
کوئی بارش ہو یہ کاغذ ذرا بھی نم نہیں ہوتا
امجد اسلام امجد
 

مقدس

لائبریرین
اختر شیرانی جو بک ابھی ہم نے ریلیز کی ہے ناں اس میں سے ایک گیت
بادل کا سندیسہ

آئے ہیں بادل، چھائے ہیں بادل
کس کا سندیسہ لائے ہیں بادل؟
باغ میں کوئل کُوک اُٹھی پھر
دل میں ہمارے ہُوک اُٹھی پھر
کون نگر سے آئے ہیں بادل؟
کس کا سندیسہ لائے ہیں بادل؟
بِرہہ کو کیوں برباد کیا ہے؟
ہم کو یہ کِس نے یاد کیا ہے؟
یاد سی بنکر چھائے ہیں بادل
کِس کا سندیسہ لائے ہیں بادل
پی بِن ہے برسات اندھیری
چھا گئی من پر رات اندھیری
ایسے سمے کیوں آئے ہیں بادل
کس کا سندیسہ لائے ہیں بادل؟
 

مقدس

لائبریرین
ایک اور

ساون کی گھٹائیں


ساون کی گھٹائیں چھا گئی ہیں
برسات کی پریاں آ گئی ہیں
دِل دینے کی رُت آئی ہے
سینوں میں اُمنگ سمائی ہے
ارمانوں نے عید منائی ہے
اُمّیدیں جوانی پا گئی ہیں
کہیں سُنبل و گُل کی بہاریں ہیں
کہیں سرو و سمن کی قطاریں ہیں
کہیں سبزے نے رنگ نکالا ہے
کہیں کلیاں چھاؤنی چھا گئی ہیں
کہیں کوئل شور مچاتی ہے
کہیں بُلبُل نغمے گاتی ہے
کہیں مور ملہار سُناتے ہیں
گھنی بدلیاں دُھوم مچا گئی ہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے​
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے​
پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں​
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے​
پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں​
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے​
پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا​
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے​
دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا​
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے​
ناصر کاظمی​
 

مہ جبین

محفلین
"وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں "

امجد اسلام امجد کے اس شعر کا دوسرا مصرعہ میرے ذہن میں نہیں آرہا
کسی کو یاد ہو تو لکھ دے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں نے پسندیدہ کلام کے زمرے میں بھی پیش کی تھی۔ مجھے بہت پسند ہے۔ سوچا بارش سے آغاز ہے تو یہاں بھی پیش کر دوں:)
دیر تک بیٹھے ہوئے دونوں نے بارش دیکھی​
وہ دکھاتی تھی مجھے بجلی کے تاروں پہ لٹکتی ہوئی بوندیں​
جو تعاقب میں تھیں اِک دوسرے کے​
اور اِک دوسرے کو چھوتے ہی تاروں سے ٹپک جاتی تھیں​
مجھ کو یہ فکر کہ بجلی کا کرنٹ​
چھو گیا ننگی کسی تار سے تو آگ کے لگ جانے کا باعث ہو گا​
اس نے کاغذ کی کئی کشتیاں پانی پر اُتاریں​
اور یہ کہہ کے بہادیں کہ سمندر میں ملیں گے​
مجھ کو یہ فکر کہ اس بار بھی سیلاب کا پانی​
کود کے اُترے گا کہسار سے جب​
توڑ کے لے جائے گا یہ کچے کنارے​
اوک میں بھر کے وہ برسات کا پانی​
اَدھ بھری جھیلوں کو ترساتی رہی​
اور بہت چھوٹی تھی، کمسن تھی، وہ معصوم بہت تھی​
آبشاروں کے ترنم پہ قدم رکھتی تھی اور گونجتی تھی​
اور میں عمر کے افکار میں گم​
تجربے ہمراہ لئے​
ساتھ ہی ساتھ میں بہتا ہوا، چلتا ہوا، بہتا گیا​
گلزار​
 

مقدس

لائبریرین
"وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں "

امجد اسلام امجد کے اس شعر کا دوسرا مصرعہ میرے ذہن میں نہیں آرہا
کسی کو یاد ہو تو لکھ دے

وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر میری بات سن، اسے بھول جا، اسے بھول جا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
امجد اسلام امجد کی اک حسین نظم آپ کی بصارتوں کی نذر ہے۔

بارش اور ہم​
بارش تھی، ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام​
تم نے لیا تھا کانپتے ہونٹوں سے میرا نام​
میں نے کہا تھا، آؤ یونہی بھیگتے چلیں​
اِن راستوں میں دیر تلک گھومتے رہیں​
میری کمر میں ہاتھ یہ پھولوں سا ڈال کر​
کاندھے پہ میرے رکھے رہو یونہی اپنا سر​
ہاتھوں کو میں کبھی،کبھی بالوں کو چوم لوں​
دیکھو میری طرف تو میں آنکھوں کو چوم لوں​
پانی کے یہ جو پھول ہیں رُخ پر کھلے ہوئے​
اِن میں دھنک کے رنگ ہیں سارے گھلے ہوئے​
ہونٹ سے اِن کو چُنتے رہیں خوش دِلی کے ساتھ​
تارے ہمیں تلاش کریں، چاندنی کے ساتھ​
یونہی کسی درخت کے نیچے کھڑے رہیں​
بارش کے دیر بعد بھی لپٹے کھڑے رہیں​
تم نے کہا تھا “آؤ چلیں، رات آ گئی​
دل جس سے ڈر رہا تھا، وہی بات آ گئی​
بیتے سمے کی یاد ہی رستوں میں رہ نہ جائے​
یہ دل کہیں وصال کی بارش میں بہہ نہ جائے​
کچھ دیر ایک چُپ سی رہی درمیاں میں​
گرہیں سی جیسے پڑنے لگی ہوں زباں میں​
یک دم گِرا تھا پھول کوئی شاخسار سے​
دیکھا تھا تم نے میری طرف اضطرار سے​
بارش میں بھیگتے ہوئے جھونکے ہوا کے تھے​
وہ چند بے گمان سے لمحے، بلا کے تھے​
نشہ سا ایک چاروں طرف پھیلتا گیا​
پھر اس کے بعد میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا​
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہوگئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہوگئے
بادل کو کیا خبر کہ بارش کی چاہ میں
کتنے بلند و بالا شجرخاک ہوگئے
جگنو کو دن کے وقت پکڑنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سورج کی شہ پہ تنکے بھی بیباک ہوگئے
سورج دماغ لوگ بھی ابلاغِ فکر میں
زلفِ شبِ فراق کے پیچاک ہوگئے
جب بھی غریبِ شہر سے گفتگو ہوئی
لہجے ہوائے شام کے نمناک ہوگئے
 
Top