امجد اسلام امجد کی اک حسین نظم آپ کی بصارتوں کی نذر ہے۔
بارش اور ہم
بارش تھی، ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام
تم نے لیا تھا کانپتے ہونٹوں سے میرا نام
میں نے کہا تھا، آؤ یونہی بھیگتے چلیں
اِن راستوں میں دیر تلک گھومتے رہیں
میری کمر میں ہاتھ یہ پھولوں سا ڈال کر
کاندھے پہ میرے رکھے رہو یونہی اپنا سر
ہاتھوں کو میں کبھی،کبھی بالوں کو چوم لوں
دیکھو میری طرف تو میں آنکھوں کو چوم لوں
پانی کے یہ جو پھول ہیں رُخ پر کھلے ہوئے
اِن میں دھنک کے رنگ ہیں سارے گھلے ہوئے
ہونٹ سے اِن کو چُنتے رہیں خوش دِلی کے ساتھ
تارے ہمیں تلاش کریں، چاندنی کے ساتھ
یونہی کسی درخت کے نیچے کھڑے رہیں
بارش کے دیر بعد بھی لپٹے کھڑے رہیں
تم نے کہا تھا “آؤ چلیں، رات آ گئی
دل جس سے ڈر رہا تھا، وہی بات آ گئی
بیتے سمے کی یاد ہی رستوں میں رہ نہ جائے
یہ دل کہیں وصال کی بارش میں بہہ نہ جائے
کچھ دیر ایک چُپ سی رہی درمیاں میں
گرہیں سی جیسے پڑنے لگی ہوں زباں میں
یک دم گِرا تھا پھول کوئی شاخسار سے
دیکھا تھا تم نے میری طرف اضطرار سے
بارش میں بھیگتے ہوئے جھونکے ہوا کے تھے
وہ چند بے گمان سے لمحے، بلا کے تھے
نشہ سا ایک چاروں طرف پھیلتا گیا
پھر اس کے بعد میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا