’’ٓآدھی رات کا سورج‘‘ ۔۔۔ ۔
کسی انسائیکلوپیڈیا میں پڑھا تھا کہ قطب شمالی کے آس پاس کہیں رات ہو جاتی ہے، تو سورج نصف شب کے قریب پھر نکلتا ہے اور ایک آدھ ساعت بعد غروب ہو جاتا ہے، پھر معمول کے مطابق مشرق سے طلوع ہوتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟۔
کسی دوست کو اس کے بارے میں علم ہو تو یہاں ضرور شیئر کریں۔ بہت نوازش۔
جناب قیصرانی ، جناب انعام جی ، جناب خرم شہزاد خرم ، جناب الف عین
Since the sun (and its solar system) is moving through three dimensional space, it is traveling in several directions at once. For example, the sun is moving toward the constellation of Hercules (or toward the region of Lambda Herculis) at 12 miles (20 kilometers) per second—or 45,000 miles (72,000 kilometers) per hour. At the same time, the sun is orbiting around the galactic center at about 140 miles (225 kilometers) per second.
The sun is also moving upwards, out of the plane of the Milky Way Galaxy, at a speed of 4.4 miles (7 kilometers) per second. Currently, our sun is moving outward from about 50 light-years above the galactic plane, but scientists believe the gravitational pull of the Milky Way stars will slow the sun’s escape in about 14 million years. Eventually, the sun will be pulled back into the galactic plane and then drift below it, oscillating back and forth across the plane until its demise.
Read more: http://www.answers.com/topic/how-fast-is-the-sun-moving-through-space#ixzz2HTIl5S3Z
We also know that the time it takes for the Earth to go once around the Sun is 1 year. So in order to know the speed we just have to figure out the distance traveled by the Earth when it goes once around the Sun. To do that we will assume that the orbit of the Earth is circular (which is not exactly right, it is more like an ellipse, but for our purpose it will do just fine). So the distance traveled in one year is just the circumference of the circle. (remember that the circumference of a circle is equal to 2*pi*Radius)
The average distance from the Earth to the Sun is 149,597,890 km. Therefore in one year the Earth travels a distance of 2*Pi*(149,597,890)km. This means that the velocity is about:
velocity=2*Pi*(149,597,890)km/1 year
and if we convert that to more meaningful units (knowing there is 365 days in a year, and 24 hours per day) we get:
velocity=107,300 km/h (or if you prefer 67,062 miles per hour)
So the Earth moves at about 100,000 km/h around the Sun (which is 1000 times faster than the speeds we go at on a highway!)
بالکل سو فیصد بجا کہا۔ ابھی جتنے بھی نئے سیارے دریافت ہو رہے ہیں، ان میں سے شاید ہی کسی کا براہ راست مشاہدہ ہوا ہو۔ بالواسطہ مشاہدہ کر کے ان کے سورجوں پر پڑنے والے ذیلی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ان سیاروں کی موجودگی کا تیقن کیا جاتا ہےحسابات کی اغلاط کے باوجود، یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی میں کہیں بھی کوئی تغیر رو نما ہوتا ہے تو اس کا اثر ہماری زمین تک پہنچتا ہے چاہے وہ پلوٹو سے بھی پرے ہو۔
کائنات کی وسعتیں تو اپنی جگہ، اگر ہم اپنی کہکشاں دیکھیں تو اس اتنی گہرائی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ ہماری اپنی کہکشاں میں موجود زمین جیسے سیاروں کی تعداد سترہ ارب ہے۔ چند سال قبل تک یہ کہنا بھی مشکل تھا کہ آیا دیگر ستاروں کے سیارے بھی ہو سکتے ہیں
واضح رہے کہ ہماری کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد ایک سو سے چار سو ارب یعنی ایک سے چار کھرب کے درمیان ہے۔ یہ محض اندازہ ہے۔ جس میں کمی بیشی کے امکانات موجود ہیں۔ اس کی موٹائی ایک ہزار نوری سال کے برابر ہے اور اگر ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانا چاہیں تو ہمیں روشنی کی رفتار سے چلتے ہوئے ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار سال لگیں گے یعنی ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار نوری سال
اگر مقابلہ کرنا چاہیں تو دیکھیں کہ انسان کی بنی ہوئی چیز جنہیں ہم وائجر اول اور وائجر دوم کے نام سے جانتے ہیں، اس وقت ہمارے نظام شمسی کے کنارے پر پہنچنے والے ہیں۔ اس جگہ کو ہیلیئو شیتھ کہتے ہیں۔ ابتداء میں ان کی رفتار کم تھی لیکن گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک کی مدد سے ان کی رفتار بڑھائی گئی تھی اور اب یہ 35000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھے جا رہے ہیں۔ 1977 سے اب تک اور زیادہ تر وقت اسی رفتار سے حرکت کرتے ہوئے یہ سیارچے زمین سے 16 گھنٹے کے نوری فاصلے پر پہنچ گئے ہیں۔ یعنی انسانی تیار کردہ مشین جس کی رفتار اگر اوسطاً 30000 میل فی گھنٹہ شمار ہو، 1977 سے اب تک محض اتنی دور پہنچی ہے جو روشنی سولہ گھنٹے میں طے کرتی ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ شمسی فاصلے کتنے بڑے ہیں۔ نزدیک ترین ستارہ، شاید جسے قنطورس اول کہتے ہیں، بھی چار نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے
منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا !چاند زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور زمین سورج کے گرد، سورج اپنے ’’خاندان‘‘ کے دوسرے افراد (عطارد، زہرہ، مریخ اور اس کے چاند، مشتری، زحل اور اس کے چاند، نیپچون پلوٹو اور دو جڑواں بچے ان کا نام کوئی نہیں نمبر ہے) سمیت ہمیں لے کر خلا میں ایک طرف 12 کلومیٹر فی سیکنڈ اور دوسری طرف 7 کلومیٹر فی سیکنڈ (ملا جلا 14 کلومیٹر فی سیکنڈ) کے حساب سے بھاگا جا رہا ہے۔
اس 14 کلومیٹر فی سیکنڈ میں زمین کا سورج کے گرد گھومنا )تقریباً 30 کلومیٹر فی سیکنڈ) اور چاند کا زمین کے گرد گھومنا (تقریباً 1 کلومیٹر فی سیکنڈ)!!! یہ بھی شامل کر لیجئے! ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ سچی بات ہے کہ دماغ بھی گھومنے لگتا ہے۔
مختصراً (موٹے موٹے حساب میں) زمین خلا میں سورج کے ساتھ ساتھ فی سیکنڈ ساڑھے بتیس کلومیٹر کے حساب سے بھاگ رہی ہے۔ یعنی ایک لاکھ سترہ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ!! اس جناتی دوڑ میں ہم اس زمین پر پورے سکون اور اطمینان سے چلتے پھرتے مکان بناتے ہیں، فصلیں اگاتے ہیں، اور جملہ اقسام کے اچھے برے کام انجام دیتے پھر رہے ہیں!!!۔
جناب الف عین ، محمد وارث ، مدیحہ گیلانی ، شمشاد ، قیصرانی ، انعام جی ، اور دیگر احباب۔
اللہ رب کریم کے رحمان اور رحیم ہونے کا یہی ایک مظہر کافی نہیں کیا؟ توجہ فرمائیے گا!!