ہمت بھیا میری بات کا تو آپ نے وہی حشر کیا جو محترمہ مرحومہ سرے محل سے متعلق سوالات کا کیا کرتی تھیں
۔ مجھے تو جو کہنا تھا کہہ چکا۔ میں جب یہ بات کہتا ہوں کہ پاکستان کے مسائل کا حل پنجاب کے پاس ہے تو میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ قیادت جو پاکستان کے مسائل کا حل کرے گی وہ پنجاب اور زیریں سرحد سے اُٹھے گی انشاء اللہ۔ اس کی وجہ یہ کہ یہاں معاشرہ مضبوط ہے اور عوام جاگیرداری تسلط سے آزاد ہیں اور انہیں صرف پاکستان کے ایجنڈے پر اکٹھا کرنا بہت آسان ہے بہ نسبت دوسری جگہوں کے جہاں پر زبان و نسل و دیگر عصبیات کو ہر اصول ہر ضابطہ پر فوقیت حاصل ہے۔ جہاں تک چھوٹے صوبے بنانے کی بات ہے یہ ایک انتظامی معاملہ ہے اور ضروری نہیں کہ انتظامی معاملات کا حل چھوٹے صوبے بنانے ہی میں ہو۔ بلکہ موجودہ صورتحال میں تو چھوٹے صوبے بنانا پاکستان کو شائد مزید توڑنے کے مترادف ہوگا کہ پھر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں ظلم مزید بڑھ جائے گا۔ یعنی اگر زیریں سندھ کو سکھر تک ایک الگ صوبہ بنا دیں تو پھر کراچی اور حیدرآباد کا عوامی شعور اس حصہ سے بالکل کٹ جائے گا اور ان غریب ہاریوں کو وہ ایک فیصد سپورٹ بھی نہ مل پائے گی جو اس وقت انہیں میسر ہے۔ یہی حشر جنوبی پنجاب، بلوچستان اور دیگر علاقوں کا ہوگا۔ پہلے آپ معاشرہ کو منصف مزاج بنا لیں، شخصیات کو چھوڑ کر اصولوں کو اپنالیں پھر انتظامی معاملات کی بات کیجئے۔
باقی رہی بات بھٹو صاحب کی تو ہر شخص میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خرابیاں بھی۔ آئین پاکستان کی تو خیر بات ہی جانے دیجئے کہ اس کی تو اصل ہی منافقت تھی اور اسی کا آج تک خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے اچھے کام بھی کئے اور بُرے بھی۔ ہاں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر وہ چاہتے تو پاکستان کا نقشہ بدل سکتے تھے لیکن وہ ایک وڈیرے سے زیادہ کچھ نہ بن سکے ۔ افسوس۔ بھٹو پاکستان کے لئے نہیں اپنی انا کے لئے مر گئے۔ مونچھوں کا تسمہ بنواتے بنواتے انہی مونچھوں سے پھانسی لگ گئے۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ فی الحال تو صرف اتنا کہ پنجاب پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے مسائل کا تریاق ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ پاکستان کی اصل قیادت پنجاب اور زیریں سرحد سے پھوٹے گی اور بالخصوص ان علاقوں کا معاشرہ اور نوجوان پاکستان کی تشکیل نو کریں گے انشاء اللہ۔ شخصیات کی بت شکنی کا آغاز کرنے کے لئے میری نظر تو انہی کی طرف جاتی ہے۔