بظاہر بادۂ الفت سے میں بیہوش رہتا ہوں
مگر باطن کو دیکھو تو سراپا جوش رہتا ہوں
زباں کھولوں تو ہو برہم نظامِ عالمِ امکاں
قرینِ مصلحت ہے یہ کہ میں خاموش رہتا ہوں
سُنوں تو کیا سُنوں، کس کی سُنوں اور کیوں سُنوں آخر
کہ دل سے گفتگو کرتا ہوں اور خاموش رہتا ہوں
کوئی جانے تو کیا جانے مجھے اے راز دنیا میں
زمانہ سازیاں آتی نہیں، روپوش رہتا ہوں