حسان خان
لائبریرین
زمانۂ طفولیت سے لے کر چند روز قبل تک میں بلدیۂ کراچی کے سربراہ کے لیے ناظم یا ناظمِ اعلیٰ کی اصطلاحوں کو استعمال ہوتے دیکھتا آیا تھا۔ جب تک مصطفیٰ کمال صاحب اس عہدے پر فائز تھے اُنہیں ناظمِ کراچی کہہ کر پکارا جاتا تھا اور اُن سے پیشتر نعمت اللہ خان صاحب کے لیے بھی یہی اصطلاح موردِ استعمال رہی تھی۔ لیکن اس بار کے بلدیاتی انتخابات میں ایک تبدیلی نظر آئی۔ اِس بار خواہ اخبارات ہوں، طبع ہونے والے اشتہارات ہوں، یا خواہ ٹی وی پر نشر ہونے والے سیاسی برنامہ جات ہوں، ہر جگہ لفظِ 'ناظم' ناپدید تھا اور اُس کی بجائے فرنگی زبان کا لفظ 'میئر' آنکھوں سے ٹکرا رہا تھا۔ حتیٰ کہ اردو گویوں کے حق میں پوچ و لاطائل جذباتی نعرے لگانے والی کراچی کی بزرگ ترین سیاسی جماعت نے جو شہر بھر میں بڑے بڑے تشہیری اعلانات چسپاں کیے ہوئے تھے اُن پر بھی 'میئر' کا لفظ ہی اذیتِ چشم کا سبب بنتا رہا۔ جب اِس صورتِ حال کی ماہیت سمجھنے اور اس پر غور و فکر کرنے کے لیے اپنے کُمیتِ ذہن کو دوڑایا تو یہ حقیقتِ ناگوار منکشف ہوئی کہ دیگر بہت سے اردو الفاظ کی طرح لفظِ 'ناظم' بھی اب ہمارے درمیان نہیں رہا ہے اور عالمِ فانی سے عالمِ سرمدی کی جانب کوچ کر چکا ہے۔ کل من علیہا فان!
روزِ گذشتہ ہماری صحافتی زبان سے انتخابات، عدالتِ عظمیٰ، بدعنوانی وغیرہ الفاظ رختِ سفر باندھ کر رخصت ہو گئے تھے۔ آج لفظِ 'ناظم' نے بھی ہمیں الوداع و الفراق کہہ دیا۔ اور انجامِ کار روزِ فردا یا پس فردا اردوئے معلّیٰ نام کی شے بھی مرحوم و مغفور ہو کر تاریخ کے عجائب خانے تک محدود رہ جائے گی جہاں تماشا گروں کی پُرتحسین نگاہیں بھی اس واقعیت کو تبدیل نہ کر سکیں گی کہ اردوئے معلّیٰ محض زمانۂ ماقبل کی ایک بے جان یادگار ہے۔
تمام انگریزی پرستوں اور اردو میں فرنگی آلائشوں کی آمیزش کے حامیوں کو مبارک ہو کہ اُن کی راہ کا ایک اور سدّ فنا کا تلخ جام پی کر اُنہیں اپنی منزلِ مقصود و منتظَر سے ایک قدم مزید قریب کر گیا ہے۔ جبکہ تمام محبان و مجاہدانِ زبانِ اردوئے معلّیٰ اور لسانی قدامت پسندوں کو لشکرِ الفاظِ اردو کے ایک اور سرباز کی سرطانِ فرنگیت کی تُرک تازیوں کے ہاتھوں ہلاکت پر تعزیت و تسلیت عرض ہے۔ نیز، ‘ناظم’ سے اِس بات پر معذرت کا التماس ہے کہ ہم حینِ حیات میں اُس کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کر سکے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون!
'ناظم' کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے!
روزِ گذشتہ ہماری صحافتی زبان سے انتخابات، عدالتِ عظمیٰ، بدعنوانی وغیرہ الفاظ رختِ سفر باندھ کر رخصت ہو گئے تھے۔ آج لفظِ 'ناظم' نے بھی ہمیں الوداع و الفراق کہہ دیا۔ اور انجامِ کار روزِ فردا یا پس فردا اردوئے معلّیٰ نام کی شے بھی مرحوم و مغفور ہو کر تاریخ کے عجائب خانے تک محدود رہ جائے گی جہاں تماشا گروں کی پُرتحسین نگاہیں بھی اس واقعیت کو تبدیل نہ کر سکیں گی کہ اردوئے معلّیٰ محض زمانۂ ماقبل کی ایک بے جان یادگار ہے۔
تمام انگریزی پرستوں اور اردو میں فرنگی آلائشوں کی آمیزش کے حامیوں کو مبارک ہو کہ اُن کی راہ کا ایک اور سدّ فنا کا تلخ جام پی کر اُنہیں اپنی منزلِ مقصود و منتظَر سے ایک قدم مزید قریب کر گیا ہے۔ جبکہ تمام محبان و مجاہدانِ زبانِ اردوئے معلّیٰ اور لسانی قدامت پسندوں کو لشکرِ الفاظِ اردو کے ایک اور سرباز کی سرطانِ فرنگیت کی تُرک تازیوں کے ہاتھوں ہلاکت پر تعزیت و تسلیت عرض ہے۔ نیز، ‘ناظم’ سے اِس بات پر معذرت کا التماس ہے کہ ہم حینِ حیات میں اُس کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کر سکے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون!
'ناظم' کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے!
آخری تدوین: