میری سابقہ بات جو غیر القران کو نہ لکھنے اور لکھے ہوئے کو مٹا دینے اور پھر حدیث شریف لکھنے کی اجازت سے متعلق تھی اس کا جواب عنایت فرمایے ، اللہ آپ کا بھلا کرے
سلام اور بہت ہی شکریہ وضاحت کا۔
میرا خیال ہے کہ مندرجہ بالاء آپ کا سوال ہے۔
بھائی آپ کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ پہلے احادیثکا لکھنا منع تھا پھر رسول اللہ نے اس کی اجازت دے دی۔
یہ دونوں احادیث باذوق بھائی پہلے پیش کرچکے ہیں۔ منطقی طور پر یہ بات بالکل درست لگتی ہے کہ پہلے اجازت نہیںتھی پھر اجازت دے دی۔ ایسا جب ہی ممکن ہے جبکہ کہا جائے کہ پہلی باررسول اللہ کی سنت لکھنے کی ممانعت تھی اور صرف زبان سے سکھائے جانے کی اجازت تھی۔ کیا ایسا ہے؟ نہیں۔ رسول اکرم نے اپنی حدیث مبارکہ کو لکھنے سے نہیں منع فرمایا۔ غیر القرآن کا مطلب قطاً یہ نہیںہوتا کہ ایک قران ہے اور دوسری حدیث ہے۔ قرآن لکھ لو اور حدیث (غیر القرآن ) نہ لکھو۔
ایسا کب ممکن ہے جب حدیث کو غیر القرآن سمجھا جائے؟
ایسا جب ممکن ہے جب ہم یہ ماننے سے انکار کردیں کہ رسول اللہ کی حدیث مبارکہ کو کسی طور غیر قرآنی تصور کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ بہت سے منکر الحدیث ، قول و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے علاوہ یا غیر القرآن یا غیر قرآنی تصور کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ مان لیتے ہیںکہ رسول اللہ کی احادیث مبارکہ عیر ال قرآن یعنی غیر قرآنی تھیں تو پھر یہ مشہور آیات درست نہیں رہتی ہیں:
[AYAH]53:3[/AYAH] [ARABIC]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى [/ARABIC]
[AYAH]53:4[/AYAH][ARABIC] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى[/ARABIC]
Tahir ul Qadri اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے
یعنی رسول اکرم نے کبھی غیر قرآنی، غیر وحی شدہ، یا ایسی بات نہیں کی جو اللہ تعالی نے ان ( صلعم ) کووحی نہیں کی۔ کیوں ؟ کہ تمام قرآن ان (صلعم )کے قلب پر لیلۃالقدر میں ہی نازل کیا جاچکا تھا۔
[AYAH]97:1 [/AYAH] [ARABIC]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[/ARABIC]
تو پھر یہ غیر القرآن یا غیر قرآنی ہے کیا؟
بھائی میری ناقص عقل یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ سے بہت کچھ منسوب کیا گیا ہے۔ یہ انتساب شدہ مواد ضروری نہیں ہے کہ درست ہی ہو۔ آپ نے بھی لکھا کہ ساری کی ساری کتب قابل اعتبار نہیں ہیں بلکہ ہر روایت کو الگ الگ دیکھا جائے گا۔
میںیہ سمجھتا ہوںکہ کسی بھی صحابہ نے بھی کوئی بات غیر القرآن یا غیر قرآنی رسول اللہ سے منسوب نہیںکی ورنہ اللہ تعالی یہ نہ فرماتے کہ وہ ان سے راضی ہے۔
[AYAH]58:22[/AYAH] [ARABIC]لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [/ARABIC]
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں،
اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے
اگر ہم ہر روایت کو قرآن کو کسوٹی بنا کر دیکھ لیں تو یقیناً یہ ایک ایسی احتیاط ہے جس کی ہدایت رسوال اللہ نے ایک سے زائید بار کی ہے تو پھر اس بات کا امکان کم رہ جاتا ہے کہ دشمنان اسلام کی جعل سازی کامیاب ہو۔ دیکھئے قول رسول:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
یہ روایت جناب بن باز نے ایک خط میں جو کہ ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب میں بھی شائع ہوا ہے لکھی تھی۔ جس کو جناب باذوق جعلی قرار دیتے ہیں (یہ طنز ی ااعتراض نہیں ۔ پرکھنا اچھا عمل ہے۔ یہ تذکرۃً ہے) ۔ کیونکہ یہ روایت ان 4 یا 6 کتب میںموجود نہیں جو ان کے نزدیک زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ میں اس کو اعتراض کے باعث مزید احادیث پیش کرتا ہوں اور یقین ہے کہ خود جناب باذوق یا آُ بھی پیش کرسکیں گے ۔ بہرحال یہ روایت ایک دوسری کتاب میں موجود ہے۔ اس کا مکمل حوالہ میرے پاس یہاںنہیں ہے۔ بعد میں دیتا ہوں۔ یہ درست ہو یا نا ہو۔ آپ کو دوسری روایات اور قران کی آیات اس ضمن میںمل جائیں گی جو غیر القران باطل قرار دیتی ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=298667&postcount=1
میںسمجھتا ہوں کہ آپ اس اصول سے متفق ہیں کہ صحیحسنت غیر القرآن یا غیر قرآنی ہوہی نہیںسکتی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے اس اصول کو مختلف روایات پر استعمال کرکے درست یا غلط ثابت کرنے کا کہ کونسی روایت درست ہے اور کونسی نہیں ۔ میں اور آپ دونوں جانتے ہیںکہ بہت سی روایات، عقائد اور قصے کہانیاں اس اصول کی وجہ سے باطل ہو جاتی ہیں۔ ان سب کا کیا کیا جائے؟ کیا یہ مقلد یا علماء غلط تھے جو یہ پڑھاتے رہے؟ بھائی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھایا جائے اور سورۃ ء نور یا سورۃء یوسف یا سورۃ ء مریم کی تعلیم نہ دی جائے (مختلف کتب میں مختلف روایت پائی جاتی ہے)۔ کیا منطقی یا قرآن اور سنت کے مسلمہ اصولوںپر پوری اترتی نظر آتی ہے؟ ۔
(یہ صرف مثال ہے، رضا صاحب اس پر بہت سے دلائل دے چکے ہیں ۔ یہاں صرف مثال کے لئے لکھا ہے ۔ یہاں اس پر بحثنہ کریں، جواب مطلوب نہیں ۔ صرف توجہ دلانا مطلوب ہے)
تو میں ان باظل ہو جانے والی روایات کے سلسلے میں اپنے لئے یہ رائے رکھتا ہوں کہ کہ حق اللہ کی طرف سے ہے جس کا دل چاہے یقین کرے اور جو چاہے اس پر ایمان نہ لائے، پر ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
18:29 [ARABIC]وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا[/ARABIC]
کہ سب نے اپنا اپنا حساب دینا ہے۔ قانون جزا ایک سچی حقیقت ہے۔
[AYAH]2:123[/AYAH] [ARABIC] وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُون[/ARABIC]َ
امید ہے کہ آپ اس کو دردمندی کے ساتھ دیکھیں اور سوچیں گے۔ میری استدعا یہ ہے کہ آپ اس پر فوری جواب نہ دیجئے بلکہ کم از کم 24 گھنٹے سوچئیے پھر اپنی قیمتی رائے سے نوازئیے۔
نوٹ: جو اصحاب مجھ سے لفظ روایت اور حدیث کے بارے میں سوال کرتے رہے ہیں، ان کو اس پیغام میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور روایت کا فرق بہت آسانی سے معلوم ہو جائے گا۔
والسلام