فاروق صاحب! حافظ نذر محمد صاحب نے ایک ترجمہ قرآن شائع کیا تھا جس کے درست ہونے پر سب مکاتب فکر بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ کا اتفاق ہے۔ ترجمہ قرآن کے شروع میں ان علماء اور مدوسوں کی تفصیل دی گئی ہے جنہوں نے اسے درست قراد دیا۔ حکومت پاکستان نے جب سکولوں میں قرآن کریم ترجمے کے ساتھ پڑھانے کا حکم جاری کیا تو درسی کتب کی تیاری میںحافظ صاحب کے ترجمے کو اختیار کیا گیا۔ شاید ابھی تک کسی نے اسے یونی کوڈ میں منتقل نہیں کیا۔ ایسا ہو جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدے کی بات ہو گی۔ آپ اوپن برہان پر معیاری ترجمے کے لیے اسے اختیار کریں تو امید ہے سب مکاتب فکر اس کی تائید کریں گے۔
ترجمے کے لیے گروہی کام (ٹیم ورک اپنی نوعیت کا انوکھا منصوبہ ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی ٹیم ورک سامنے نہیں آیا البتہ دار السلام والوں کا نیا ترجمہ ان کے کہنے کے مطابق دو افراد صلاح الدین یوسف اور محمد عبدالجبار صاحبان کی ٹیم نے کیا ہے۔ نمونے کے چند اوراق یہاں
http://www.dar-us-salam.com/inside/u76-ahsanulkalam-large.pdfسے اتارے جا سکتے ہیں۔
قرآن فہمی کے لیے دارالسلام کی ایک اور کتاب
"اطلس القرآن" اپنے موضوع پر لاجواب کتاب ہے۔ اس میں ان مقامات، شخصیات اور اقوام کا تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے جن کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ بات دوسری طرف نکل گئی ہے لیکن دارالسلام کا ذکر آیا تو میں نے مناسب خیال کیا کہ اس کتاب کا تعارف بھی کرا دوں، ہو سکتا ہے کسی کو اس سے قرآن سمجھنے میں مزید آسانی ہو۔
قرآنی ترجمے کی ٹیم میں کام کرنے کے لیے جس پائے کے علم اور مہارت کی ضرورت ہے میں اپنے آپ کو اس سے تہی دامن پاتا ہوں۔ ترجمہ قرآن کے لیے عربی زبان سے واقفیت کے علاوہ کئی دوسری صلاحیتوں کی بھی ضرورت ہے جو مجھ میں عنقا ہیں۔ اپنے مراسلات میں عموما دار السلام کا مذکورہ بالا ترجمہ استعمال کرتا ہوں، یا دوسرے علماء میں سے جس کے ترجمے کو زیادہ بہتر خیال کروں اس کا حوالہ دیتا ہوں۔
بلال بھائی! آپ کے مراسلے نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ یہاں بڑے ٹھنڈے انداز میں علمی گفتگو چل رہی ہے۔ فاروق صاحب اور عادل صاحب کے مراسلات کا علمی انداز بڑا متاثر کن ہے۔ کسی نے کفر کے فتوے لگائے ہیں نہ برا بھلا کہا ہے۔ سابقہ مراسلات کو بغور دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ ایک دوسرے کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش بڑے احسن انداز میں جاری ہے۔ آپ سے اور انتظامیہ سے میری گزارش ہے کہ اس سلسلے کو چلنے دیا جائے تا کہ غلط فہمیاں دلوں میں جگہ نہ بنا سکیں۔ ایک گزارش قارئین سے بھی ہے کہ وہ اس گفتگو میں بلا ضرورت مداخلت نہ کریں تو پڑھنے والوں کو آسانی ہو گی ان شاء اللہ۔ جیسا اوپر طے ہو چکا ہے کہ ایک ایک نکتے کو لے کر ایکدوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش کی جائے گی، بلا ضرورت مراسلات سے اصل گفتگو کا سر رشتہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔