بحث برائے بحث اور تنقید برائے تنقید اب بس کرو

طالوت

محفلین
سلام طالوت،
میری معلومات کے مطابق، آپ ان کی اردو اور انگریزی کتب کا سیٹ‌پاکستان میں بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے 30 کے قریب کتب تصنیف کی ہیں۔ جس میں‌ احادیث سے ایک انتخاب بھی شامل ہے۔ میرے پسندیدہ مصنفین میں‌سے ایک ہیں۔ ان کی دو کتب متنازعہ ہیں۔ ایک "اسلام کے مجرم" اور دوسری کربلا سے تعلق رکھتی ہے۔مترجم القرآن ہیں، جس کو ایک سے زائد یونیورسٹیز نے ریویو کیا ہے۔اسی ویب سائٹ‌پر ان کے فورم میں‌ان سے رابطہ قائم کیاجاسکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی کتب پاکستان میں‌بھی دستیاب ہیں۔
والسلام
دراصل اس وقت میں سعودی عرب میں ہوں اور سال بھر بعد ہی جانا نصیب ہو گا۔۔۔ میں نے 95/96 میں ان کی ایک کتاب کہکشاں ہی تھی غالبا پڑھی تھی اور مجھے وہ کتاب ان کے عزیز یا غالبا اچھے دوست (بخشن ولیج-گزری۔کراچی) سے ملی تھی اس کے بعد ایک آدھ خبر سن سکا میں ان کے بارے میں ان دونوں متنازعہ کتابوں کے حوالے سے۔۔ ان کی متنازعہ حثیت پر تو پڑھنے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے ۔۔ اسی ویب پر ان سے کیسے رابطہ قائم کروں کوئی لنک دے دیں ذرا سست آدمی ہوں ڈھونڈ چکا لیکن ملا نہیں۔۔۔وسلام
 
فاروق صاحب! حافظ نذر محمد صاحب نے ایک ترجمہ قرآن شائع کیا تھا جس کے درست ہونے پر سب مکاتب فکر بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ کا اتفاق ہے۔ ترجمہ قرآن کے شروع میں ان علماء اور مدوسوں کی تفصیل دی گئی ہے جنہوں نے اسے درست قراد دیا۔ حکومت پاکستان نے جب سکولوں میں قرآن کریم ترجمے کے ساتھ پڑھانے کا حکم جاری کیا تو درسی کتب کی تیاری میں‌حافظ صاحب کے ترجمے کو اختیار کیا گیا۔ شاید ابھی تک کسی نے اسے یونی کوڈ میں منتقل نہیں کیا۔ ایسا ہو جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدے کی بات ہو گی۔ آپ اوپن برہان پر معیاری ترجمے کے لیے اسے اختیار کریں تو امید ہے سب مکاتب فکر اس کی تائید کریں گے۔
ترجمے کے لیے گروہی کام (ٹیم ورک اپنی نوعیت کا انوکھا منصوبہ ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی ٹیم ورک سامنے نہیں آیا البتہ دار السلام والوں کا نیا ترجمہ ان کے کہنے کے مطابق دو افراد صلاح الدین یوسف اور محمد عبدالجبار صاحبان کی ٹیم نے کیا ہے۔ نمونے کے چند اوراق یہاں http://www.dar-us-salam.com/inside/U76-AhsanulKalam-Large.pdfسے اتارے جا سکتے ہیں۔
قرآن فہمی کے لیے دارالسلام کی ایک اور کتاب "اطلس القرآن" اپنے موضوع پر لاجواب کتاب ہے۔ اس میں ان مقامات، شخصیات اور اقوام کا تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے جن کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ بات دوسری طرف نکل گئی ہے لیکن دارالسلام کا ذکر آیا تو میں نے مناسب خیال کیا کہ اس کتاب کا تعارف بھی کرا دوں، ہو سکتا ہے کسی کو اس سے قرآن سمجھنے میں مزید آسانی ہو۔
قرآنی ترجمے کی ٹیم میں کام کرنے کے لیے جس پائے کے علم اور مہارت کی ضرورت ہے میں اپنے آپ کو اس سے تہی دامن پاتا ہوں۔ ترجمہ قرآن کے لیے عربی زبان سے واقفیت کے علاوہ کئی دوسری صلاحیتوں کی بھی ضرورت ہے جو مجھ میں عنقا ہیں۔ اپنے مراسلات میں عموما دار السلام کا مذکورہ بالا ترجمہ استعمال کرتا ہوں، یا دوسرے علماء میں سے جس کے ترجمے کو زیادہ بہتر خیال کروں اس کا حوالہ دیتا ہوں۔
بلال بھائی! آپ کے مراسلے نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ یہاں بڑے ٹھنڈے انداز میں علمی گفتگو چل رہی ہے۔ فاروق صاحب اور عادل صاحب کے مراسلات کا علمی انداز بڑا متاثر کن ہے۔ کسی نے کفر کے فتوے لگائے ہیں نہ برا بھلا کہا ہے۔ سابقہ مراسلات کو بغور دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ ایک دوسرے کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش بڑے احسن انداز میں جاری ہے۔ آپ سے اور انتظامیہ سے میری گزارش ہے کہ اس سلسلے کو چلنے دیا جائے تا کہ غلط فہمیاں دلوں میں جگہ نہ بنا سکیں۔ ایک گزارش قارئین سے بھی ہے کہ وہ اس گفتگو میں بلا ضرورت مداخلت نہ کریں تو پڑھنے والوں کو آسانی ہو گی ان شاء اللہ۔ جیسا اوپر طے ہو چکا ہے کہ ایک ایک نکتے کو لے کر ایکدوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش کی جائے گی، بلا ضرورت مراسلات سے اصل گفتگو کا سر رشتہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
 
دراصل اس وقت میں سعودی عرب میں ہوں اور سال بھر بعد ہی جانا نصیب ہو گا۔۔۔ میں نے 95/96 میں ان کی ایک کتاب کہکشاں ہی تھی غالبا پڑھی تھی اور مجھے وہ کتاب ان کے عزیز یا غالبا اچھے دوست (بخشن ولیج-گزری۔کراچی) سے ملی تھی اس کے بعد ایک آدھ خبر سن سکا میں ان کے بارے میں ان دونوں متنازعہ کتابوں کے حوالے سے۔۔ ان کی متنازعہ حثیت پر تو پڑھنے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے ۔۔ اسی ویب پر ان سے کیسے رابطہ قائم کروں کوئی لنک دے دیں ذرا سست آدمی ہوں ڈھونڈ چکا لیکن ملا نہیں۔۔۔وسلام

طالوت سلام۔
انکا ای میل اڈریس یہ ہے drshabbir@bellsouth.net یا drshabbir@comcast.net

جو کتب آ ن لائن ہیں‌ان کا لنک یہ ہے۔
http://www.ourbeacon.com/?page_id=11605
آپ تقریباً تمام انگریزی کتب آن لائن پڑھ سکتے ہیں۔
بقایا اور ادو کتب کے لئے آپ ان کو ای میل کرسکتے ہیں۔ جو کتب آن لائن نہیں ہیں ان کو یہاں سے آرڈر کرسکتے ہیں۔

مزید یہ کہ ڈاکٹر صاحب اپنے کام کے لئے چندہ کی درخواست کرتے ہیں۔
http://www.ourbeacon.com/?page_id=218

چندہ کی وجہ سے یہ بتاتا چلوں کہ بھائی میرا ان سے کوئی کاروباری یا مالی تعلق نہیں ہے :) اور جو معمولی کام میں کرتا ہوں۔ اس کے لئے کسی چندے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

اگر آپ کو ان کی کسی خاص کتاب کی تلاش ہو تو مجے ذپ کردیجئے، شاید بھیج سکوں

والسلام
 
فاروق صاحب! حافظ نذر محمد صاحب نے ایک ترجمہ قرآن شائع کیا تھا جس کے درست ہونے پر سب مکاتب فکر بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ کا اتفاق ہے۔

بہت ہی شکریہ۔
شائد آپ حافظ نذر احمد کی بات کررہے ہیں؟
یہ لنک دیکھئے، اس پر تصویری ترجمہ بھی ہے۔
http://www.understandquran.com/turnxt.asp
 
السلام علیکم!
اس دھاگے میں حصہ لینے والے دوستوں نے شائد اس دھاگے کی پہلی پوسٹ نہیں پڑھی۔۔۔ میں‌نے اُس میں تفصیل سے یہاں بات کرنے کا طریقہ سمجھایا تھا۔ اس کے علاوہ ہم نے سب سے پہلے محترم فاروق بھائی کو دعوت دی تھی۔ جہاں تک مجھے لگا تھا کہ فاروق بھائی نے اپنا نقطہ نظر واضع کر دیا تھا۔۔۔ دوستوں اس دھاگے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ ایک دوسرے کو دلائل دو بحث کرو بلکہ یہ تھا کہ آپ کو اگر کسی دوست کے بارے میں‌غلط فہمی ہوئی ہے یا اس کے نظریات کو جاننا چاہتے ہیں تو آپ سوال کر سکتے ہیں۔۔۔ بس۔۔۔ اس کے بعد اس شخص کے نظریات سنیں اور چپ ہو جائیں اس سے آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ فلاں شخص کیا نظریات رکھتا ہے۔۔۔ اور آئندہ جب بھی بات ہو تو اس کے نظریات کے حوالے سے ہی جواب دیں۔۔۔ تاکہ ہم بھی دیکھیں آپ کتنا علم رکھتے ہیں۔ بس خاص فرقہ کے چند الفاظ رٹ لینے سے نہ تو علم حاصل ہوتا ہے نہ کوئی عالم بنتا ہے۔۔۔ جب میں محفل پر آیا تو میری بھی کئی بار فاروق بھائی سے بحث ہوئی لیکن اب نہیں ہوتی کیونکہ میں جانتا ہوں وہ کس طرح اور کیوں سوچتے ہیں۔۔۔ میں فاروق بھائی کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا بلکہ کئی باتوں پر نظریاتی مخالفت کر سکتا ہوں اور اس کا حق آپ سب بھی رکھتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ سب اس طرح نہیں ہونی چاہئے جیسے باقی زیادہ تر لوگ کر رہے ہیں۔۔۔بلکہ ایک بندہ اپنے دلائل پیش کرے اور دوسرا جواب دے باقی پڑھنے والوں پر چھوڑ دیں۔۔۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دلائل دیتے دیتے بات لمبی ہو جائے۔۔۔ لیکن موضوع سے ہٹ جانا، ذاتی حملے کرنا، ایک دوسرے کو کافر قرار دینا۔۔۔ کیا یہ سب ٹھیک ہے؟؟؟ مزے کی بات تو یہ ہے اس سے پڑھنے والے جان جاتے ہیں کہ بحث کرنے والے خود جاہل ہیں جو موضوع تک پر نہیں رہ سکتے وہ تعمیری بحث کیسے کریں گے۔۔۔
فاروق بھائی کے نظریات کے بارے میں سب جان چکے ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے یہ دھاگہ کھولا کیونکہ کچھ احباب نے اسے بھی جنگ کا میدان بنا ڈالا۔۔۔ خدا کے لئے ہم مسلمانوں پر رحم کھاؤ۔۔۔ ہمیں جینے دو۔۔۔ ہمیں مزید فرقہ واریت نہیں‌چاہیئے۔۔۔
جتنی بحثیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور اپنے نظریات ایک دوسرے پر لاگوں کرنے میں کیں۔ کاش امن و امان، بھائی چارے، سائنس، ٹیکنالوجی اور اُن حقوق العباد اور حقوق اللہ جن پر تمام مسلمان متفق ہیں کیں ہوتیں تو آج یہ بم دھماکے، فرقہ واریت کی جنگ، بے روزگاری اور نہ جانے کیا کیا ختم ہو جاتا۔۔۔ لیکن یہاں‌ہر ایک امام ہے، مفتی ہے، یعنی ہر کوئی سمجھ رہا ہے کہ اس نے جو چند باتیں سنی یا پڑھی ہیں‌بس وہی ٹھیک ہے اور باقی دنیا غلط۔۔۔۔۔۔ دوستوں ہم کیسے مسلمان ہیں؟؟؟؟؟؟؟ اسلام ایسا مذہب ہے جو دنیا کے ہر مذہب کے ساتھ رہنا سیکھاتا ہے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں ہم تو آپس میں رہنے کو تیار نہیں پھر باقی مذاہب سے کیسے رہیں گے؟؟؟ ایک بات یاد رکھو نظریات اور سوچوں کو اسلامی مخالفت کا رنگ نہ دو۔۔۔ خدا کے لئے دوسرے مسلمانوں پر رحم کھاؤ اور یہ بحثیں بند کرو اور کوئی تعمیری کام کرو۔۔۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اسلام کی صحیح سمجھ عطا کرے اور سیدھے راستے پر چلائے۔۔۔آمین
السلام علیکم ، بھائی ایم بلال ، آپ کی بات درست ہے نہ ایک دوسرے پر اپنے نظریات ٹھونسنے چاہیں اور نہ کسی کمہ گو کافر یا مشرک کہنا چاہیے جب تک کہ شرعی حجت قاءم نہ ہو ، اور دلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے ،
میرے بھائی ، میری اور بھائی فاروق کی گفتگو میں کہیں ایسا انداز نہیں ، جی ہاں ہم ایک دوسرے کی بات کے جواب میں اپنے اپنے علم کے مطابق دلائل پیش کر کے اپنے اپنے منہج کی درستگی کا اظہار کر رہے ہیں ،
میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کے لیے یہ سب کچھ پریشانی کا باعث بن رہا ہے ، میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ میں یہاں اس دھاگے میں فاروق بھائی کے بتانے پر آیا تھا اور ان کے ساتھ گفگتگو کے لیے آیا تھا ، اس کا مطلب ہوا کہ میں اور فاروق بھائی ، ہم دونوں ایک دوسرے سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں ، اب آپ کو یہ مناسب نہیں لگ رہا تو میں فاروق بھائی سے درخواست کروں گا وہ کوئی اور دھاگہ کھول دیں اور ہم لوگ اپنا بوریا بستر لے کر وہاں چلے جائیں ، جہاں صرف ہماری گفتگو سے دلچسپی رکھنے والے آئیں ، تاکہ نہ ہم کسی کی پریشانی کا سبب بنیں اور نہ کوئی ہمیں کچھ اور کہے ،
اللہ جانے بھائی ، اپنے دین کی تعلیم اور اپنے عقائد و منہج کی اصلاح سے زیادہ خیر والا کام کون سا ہے ، و السلام علیکم ۔
 
فاروق صاحب! حافظ نذر محمد صاحب نے ایک ترجمہ قرآن شائع کیا تھا جس کے درست ہونے پر سب مکاتب فکر بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ کا اتفاق ہے۔ ترجمہ قرآن کے شروع میں ان علماء اور مدوسوں کی تفصیل دی گئی ہے جنہوں نے اسے درست قراد دیا۔ حکومت پاکستان نے جب سکولوں میں قرآن کریم ترجمے کے ساتھ پڑھانے کا حکم جاری کیا تو درسی کتب کی تیاری میں‌حافظ صاحب کے ترجمے کو اختیار کیا گیا۔ شاید ابھی تک کسی نے اسے یونی کوڈ میں منتقل نہیں کیا۔ ایسا ہو جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدے کی بات ہو گی۔ آپ اوپن برہان پر معیاری ترجمے کے لیے اسے اختیار کریں تو امید ہے سب مکاتب فکر اس کی تائید کریں گے۔
ترجمے کے لیے گروہی کام (ٹیم ورک اپنی نوعیت کا انوکھا منصوبہ ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی ٹیم ورک سامنے نہیں آیا البتہ دار السلام والوں کا نیا ترجمہ ان کے کہنے کے مطابق دو افراد صلاح الدین یوسف اور محمد عبدالجبار صاحبان کی ٹیم نے کیا ہے۔ نمونے کے چند اوراق یہاں http://www.dar-us-salam.com/inside/u76-ahsanulkalam-large.pdfسے اتارے جا سکتے ہیں۔
قرآن فہمی کے لیے دارالسلام کی ایک اور کتاب "اطلس القرآن" اپنے موضوع پر لاجواب کتاب ہے۔ اس میں ان مقامات، شخصیات اور اقوام کا تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے جن کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ بات دوسری طرف نکل گئی ہے لیکن دارالسلام کا ذکر آیا تو میں نے مناسب خیال کیا کہ اس کتاب کا تعارف بھی کرا دوں، ہو سکتا ہے کسی کو اس سے قرآن سمجھنے میں مزید آسانی ہو۔
قرآنی ترجمے کی ٹیم میں کام کرنے کے لیے جس پائے کے علم اور مہارت کی ضرورت ہے میں اپنے آپ کو اس سے تہی دامن پاتا ہوں۔ ترجمہ قرآن کے لیے عربی زبان سے واقفیت کے علاوہ کئی دوسری صلاحیتوں کی بھی ضرورت ہے جو مجھ میں عنقا ہیں۔ اپنے مراسلات میں عموما دار السلام کا مذکورہ بالا ترجمہ استعمال کرتا ہوں، یا دوسرے علماء میں سے جس کے ترجمے کو زیادہ بہتر خیال کروں اس کا حوالہ دیتا ہوں۔
بلال بھائی! آپ کے مراسلے نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ یہاں بڑے ٹھنڈے انداز میں علمی گفتگو چل رہی ہے۔ فاروق صاحب اور عادل صاحب کے مراسلات کا علمی انداز بڑا متاثر کن ہے۔ کسی نے کفر کے فتوے لگائے ہیں نہ برا بھلا کہا ہے۔ سابقہ مراسلات کو بغور دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ ایک دوسرے کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش بڑے احسن انداز میں جاری ہے۔ آپ سے اور انتظامیہ سے میری گزارش ہے کہ اس سلسلے کو چلنے دیا جائے تا کہ غلط فہمیاں دلوں میں جگہ نہ بنا سکیں۔ ایک گزارش قارئین سے بھی ہے کہ وہ اس گفتگو میں بلا ضرورت مداخلت نہ کریں تو پڑھنے والوں کو آسانی ہو گی ان شاء اللہ۔ جیسا اوپر طے ہو چکا ہے کہ ایک ایک نکتے کو لے کر ایکدوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش کی جائے گی، بلا ضرورت مراسلات سے اصل گفتگو کا سر رشتہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے ، ماشاء اللہ آپ کی سب تجاویز بہت اچھی ہیں ، اور یہ جو حافظ نذر محمد صاحب کے ترجمہ قران کا آپ نے ذکر کیا ہے یہ تو بڑے کام کی بات ہے ،
فاروق بھائی کو اپنے پراجیکٹ میں اس سے اچھی چیز اور کیا مل سکے گی کہ اس ترجمہ پر سب مکاتب فلر نے اتفاق کیا ہوا ہے ، ماشاء اللہ ، بہترین بات ہے ، اللہ آپ کو جزائے خیر دے ، و السلام علیکم۔
 
ترجمہ کے بارے میں آپ سب کی آراء کا شکریہ۔

اپنی گفتگو و ہیں پر لے جاتے ہیں جو اصل موضوع ہے۔ آپ سب کے سامنے میرے خیالات مع قرآن و سنت کے حوالات سے ، بہت ہی واضح اور وجوہات کے ساتھ موجود ہیں۔ میں‌چاہتا ہوں کہ آپ میں‌سے جو بھائی اس موضوع میں کوئی انٹریسٹ رکھتا ہو وہ ان بنیادی اصول - کہ نبی پاک سے غیر القران ادا نہیں ہوسکتا --- اس پر اپنی واضح تنقید یا تائید پیش کرے۔ تاکہ ایک نکتہ پر متفق ہونے کے بعد اگلے نکتے پر گفتگو آگے بڑھے۔

ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے اصول میں کیا مسئلہ ہے؟ کہ بہت سی وہ روایات جو خلاف قرآن ہیں، یکدم ضعیف کے زمرے میں پہنچ جاتی ہیں۔
اس کی مثال: جیسے درج ذیل روایت پر ہونے والی بحث ہے (اس پر بحث اس دھاگہ میں‌نہ کریں) صرف اپنی بات سمجھانے کے لئے ایک نسبتاً‌ آسان روایت درج کی ہے :
لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھاؤ اور سورۃ‌ مریم یا سورۃ نور یا سورۃ یوسف کی تعلیم نہ دو۔ ( جس پر رضا صاحب کا غم و غصہ جاری ہے)

ہم فی الوقت ان ممکنہ طور پر غیر قرانی روایات اس موجودہ گفتگو سے قطع نظر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ ان پر الگ نکتہ میں‌بات کریں‌گے۔
 
بھائی آپ کی تحقیق یہ کہتی ہے ‌کہ پہلے احادیث‌کا لکھنا منع تھا پھر رسول اللہ نے اس کی اجازت دے دی۔
یہ دونوں احادیث باذوق بھائی پہلے پیش کرچکے ہیں۔ منطقی طور پر یہ بات بالکل درست لگتی ہے کہ پہلے اجازت نہیں‌تھی پھر اجازت دے دی۔ ایسا جب ہی ممکن ہے جبکہ کہا جائے کہ پہلی باررسول اللہ کی سنت لکھنے کی ممانعت تھی اور صرف زبان سے سکھائے جانے کی اجازت تھی۔ کیا ایسا ہے؟‌

السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، معذرتاً گذارش ہے فاروق بھائی کہ یہ مندرجہ بالا بات ایک مفروضہ ہی ہے ، اور اس مفروضے کی وجہ آپ کا یہ فرمانا ہے کہ """ ایسا جب ہی ممکن ہے جبکہ کہا جائے کہ پہلی باررسول اللہ کی سنت لکھنے کی ممانعت تھی اور صرف زبان سے سکھائے جانے کی اجازت تھی۔ کیا ایسا ہے؟
بھائی ، صرف منطقی طور پر ہی نہیں پرکھ حدیث کی کسوٹیوں کے مطابق بھی یہ درست ہے ، اور حکمت کے مطابق بھی کہ پہلے حدیث لکھنے سے منع فرمایا گیا اور پھر اجازت عطا فرما دی گئی ،
اور فاروق بھائی ، زبان کس کو سکھانی تھی !!! جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ارد گرد تھے ، جو ایمان لاتے اور جو نہ لاتے سب کے سب ہی اسی عربی زبان کے جاننے والے تھے ، کیسی عجیب بات کہی آپ نے بڑے بھائی ،

نہیں۔ رسول اکرم نے اپنی حدیث مبارکہ کو لکھنے سے نہیں‌ منع فرمایا۔

ہائیں ،:confused: تو پھر کس چیز سے منع فرمایا ؟؟؟ """ غیر القران """ کیا تھا ؟؟؟
نہیں۔ رسول اکرم نے اپنی حدیث مبارکہ کو لکھنے سے نہیں‌ منع فرمایا۔ غیر القرآن کا مطلب قطاً یہ نہیں‌ہوتا کہ ایک قران ہے اور دوسری حدیث ہے۔ قرآن لکھ لو اور حدیث (‌غیر القرآن )‌ نہ لکھو۔

فاروق بھائی ، اس کا مطلب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہر فرمان قران ہے پس جو حدیث ہے وہ بھی قران ہے ، اور دونوں ایک ہی کلام ہیں ، پس حدیث غیر القران نہیں ، تو پھر قران کیا ہے کہ وہ حدیث میں نہیں !!! کیوں کہ حدیث ہے ہی نہیں جو ہے وہ قران ہی ہے ؟؟؟
چلیے فلسفہ چھوڑ کر کوئی علمی بات کرتے ہیں ، فاروق بھائی ،اب آپ سے مودبانہ گذارش ہے کہ یہاں سے آگے جو کچھ میں عرض کرنے جا رہا ہوں اُسے بڑے آرام سے تحمل اور وقت لے لے کر پڑہیے گا ، اور پھر اس کا جواب عنایت فرمایے گا ،
فاروق بھائی ، اب اگر آپ لغت کے مطابق """ لا تکتبوا عنی غیر القران """ کو سمجھیے تو پتہ چلے گا کہ """ ہر وہ بات جو قران نہیں وہ غیر القران ہے """ اور وہ بات جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہو تو حدیث ہے ، اگر دونوں میں الفاظ و کلام کی حیثیت سے فرق نہیں ، متکلم کی نسبت کا فرق نہیں ، تو پھر """ لا تکتبوا عنی غیر القران """ فرمانے کی بجائے """ لا تکتبوا عنی """ ہی کافی ہوتا ،
اور مزید عرض ہے کہ """ لا تکتبوا عنی غیر القران """ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی بات مبارک اور اللہ کی بات مبارک کو الفاظ و کلام کی حیثیت سے اور نسبت متکلم کی حیثیت سے الگ الگ جانتے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی یہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب کچھ قران نہیں اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صرف اتنا ہی فرمایا """ لا تکتبوا عنی غیر القران """

ایسا کب ممکن ہے جب حدیث کو غیر القرآن سمجھا جائے؟
ایسا جب ممکن ہے جب ہم یہ ماننے سے انکار کردیں کہ رسول اللہ کی حدیث مبارکہ کو کسی طور غیر قرآنی تصور کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ بہت سے منکر الحدیث ، قول و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے علاوہ یا غیر القرآن یا غیر قرآنی تصور کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ مان لیتے ہیں‌کہ رسول اللہ کی احادیث مبارکہ عیر ال قرآن یعنی غیر قرآنی تھیں‌ تو پھر یہ مشہور آیات درست نہیں رہتی ہیں:
سورۃ النجم:53 , آیت:3 [arabic]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى [/arabic]
سورۃ النجم:53 , آیت:4[arabic] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى[/arabic]
Tahir ul Qadri اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے

یعنی رسول اکرم نے کبھی غیر قرآنی، غیر وحی شدہ، یا ایسی بات نہیں کی جو اللہ تعالی نے ان ( صلعم ) کووحی نہیں کی۔ کیوں ؟ کہ تمام قرآن ان (صلعم )‌کے قلب پر لیلۃ‌القدر میں ہی نازل کیا جاچکا تھا۔

سورۃ القدر:97 , آیت:1 [arabic]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[/arabic]

فاروق بھائی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث مبارک اس لحاظ سے غیر قرانی نہیں کہ اس میں کہیں قران کی کوئی مخالفت نہیں ، یہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہر وہ سُنّت قولی ، فعلی یا تقریری جو صحت حدیث کے قوانین کے مطابق صحیح ہے ہر گز مخالف قران نہیں ہو سکتی ، بلکہ ساری کی ساری سُنّت قران کا بیان ہے ، تشریح ہے ، تفسیر ہے ،
رہا معاملہ الفاظ و حیثیت کلام کا ، اور نسبت متکلم کا تو احادیث اللہ کا کلام نہیں ہیں ، اس لحاظ وہ غیر قرانی ہیں ، اور یہی وہ بات ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم """ لا تکتبوا عنی غیر القران """ میں بتائی اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بالکل اسی طرح سمجھ لی ، اور یہ ایک اور دلیل ہے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم کی فوقیت و حجت کی ،
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ((( و ما ینطق عن الھویٰ ، ان ھو الا وحی یوحیٰ ::: اور رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) اپنی خواہشات کی طرف سے نہیں بات فرماتے ، ان کی بات سوائے وحی کے اور کچھ نہیں ))) آپ کے خلاف حجت ہے ، اس میں یہ قید کہاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر صرف وہی کچھ وحی ہوتا تھا جو قران میں ہے ؟؟؟ اس کا جواب ضرور عنایت فرمایے گا ،
اور جب ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہونے والی ہر بات کو وحی قرار دیا گیا ہے تو پھر یقینا ان میں کچھ الفاظ اللہ کا اپنے فرمائے ہوئے ہیں جو قران ہیں ، اور جو احادیث قدسیہ میں ہیں ، اور کچھ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمائے ہوئے ہیں جو قران نہیں ہیں اور انہیں ہی حدیث کہا جاتا ہے ،اور بلا شک و شبہہ یہ اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کی بنیاد پر ہیں ، پس آیات میں کسی قسم کے شک یا اشکال کی گنجائش نہیں رہتی ،
فاروق بھائی ، بات صرف یہ ہے کہ آپ کے ہاں الفاظ """ غیر القران """ اور """ غیر الوحی """ کے سمجھنے اور فرق کرنے میں گڈ مڈ ہو رہا ہے ،
مذکورہ بالا دو آیات کو پھر پڑہیے اور غور سے پڑہیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ہر فرمان کو وحی قرار دیا گیا ، اور ہر کوئی جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہر فرمان اللہ کا کلام یعنی قران نہیں ، پس پھر دہراتا ہوں ، قران وہ ہے جو کلام اللہ کا ہے ، اللہ کے اپنے فرمائے ہوئے حروف و الفاظ ، اور حدیث وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے حروف و الفاظ ہیں ، اور دونوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہونا اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کے ذریعے ہے
،


یعنی رسول اکرم نے کبھی غیر قرآنی، غیر وحی شدہ، یا ایسی بات نہیں کی جو اللہ تعالی نے ان ( صلعم ) کووحی نہیں کی۔ کیوں ؟ کہ تمام قرآن ان (صلعم )‌کے قلب پر لیلۃ‌القدر میں ہی نازل کیا جاچکا تھا۔

سورۃ القدر:97 , آیت:1 [arabic]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[/arabic]


فاروق بھائی ، قران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قلب مبارک و طاہر ہر لیلۃ القدر میں اور ایک ہی بار میں نازل کر دیا گیا تھا ، اس کی کوئی دلیل قران و صحیح حدیث سے عنایت فرمایے ، یقینا یہ میرے لیے ایک نیا علم ہو گا ، آج تک میں نے جتنی تفاسیر پڑہی ہیں ان میں تو کچھ اور ہی لکھا ہوا ہے ، اور اگر آپ اس کو کسی اور وقت کے لیے چھڑ دیں تو بھی ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ، تا کہ ہم اپنے موضوع سے باہر نہ جائیں
تو پھر یہ غیر القرآن یا غیر قرآنی ہے کیا؟

آپ کی اس بات کا جواب ابھی ابھی دے چکا ہوں ، اور پھر اپنی مودبانہ گذارش دہراتا ہوں کہ بڑے آرام اور تحمل سے وقت لے کر میری گذارشات پر غور فرمایے ، جن کا خلاصہ یہ کہ """ غیر القران """ اور """ غیر الوحی """ دو الگ باتیں ، دو الگ چیزیں ہیں ۔ اور اسی کے فہم میں گڈ مڈ ہو رہا ہے ، جیسا کہ آپ کی با توں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ دونوں کو ایک سمجھ رہے ہیں ،
بھائی میری ناقص عقل یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ سے بہت کچھ منسوب کیا گیا ہے۔ یہ انتساب شدہ مواد ضروری نہیں ہے کہ درست ہی ہو۔ آپ نے بھی لکھا کہ ساری کی ساری کتب قابل اعتبار نہیں ہیں بلکہ ہر روایت کو الگ الگ دیکھا جائے گا۔
میں‌یہ سمجھتا ہوں‌کہ کسی بھی صحابہ نے بھی کوئی بات غیر القرآن یا غیر قرآنی رسول اللہ سے منسوب نہیں‌کی ورنہ اللہ تعالی یہ نہ فرماتے کہ وہ ان سے راضی ہے۔

سورۃ المجادلۃ:58 , آیت:22 [arabic]لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [/arabic]
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے

جی ہاں فاروق بھائی ، آپ کی بات درست ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بہت کچھ منسوب کیا گیا ، کیا جاتا ہے ، اور اللہ ہی جانے کب تک یہ سلسلہ رہے گا ، لیکن ہر دور میں اللہ اس امت کو اپنے ایسے بندے ضرور مہیا کرتا ہے جو صحیح اور کمزور احادیث کو قوانین و قواعد کی روشنی میں الگ الگ کرتے ہیں ، اور امت کو بتاتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بارے میں ثابت ہے اور کیا نہیں ، و الحمد للہ علی ذلک ،
آپ کا یہ سمجھنا بھی درست ہے کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے (کسی بھی صحابہ نے نہیں) ، یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کبھی کوئی ایسی بات منسوب نہ کی جو انہوں نےنہ فرمائی ہو ، لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین """ غیر القران """ اور """ غیر الوحی """ کا فرق جانتے تھے ، پس قران میں سے کچھ ذکر کرتے تو اللہ تعالی کی نسبت سے اور حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے منسوب کر کے ، اور اس کی """ کتب احادیث و تاریخ و تفسیر """ میں ان گنت مثالیں میسر ہیں ،

اگر ہم ہر روایت کو قرآن کو کسوٹی بنا کر دیکھ لیں تو یقیناً یہ ایک ایسی احتیاط ہے جس کی ہدایت رسوال اللہ نے ایک سے زائید بار کی ہے تو پھر اس بات کا امکان کم رہ جاتا ہے کہ دشمنان اسلام کی جعل سازی کامیاب ہو۔ دیکھئے قول رسول:

"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "

بہت اچھی بات ہے اور بڑی اچھی احتیاط ہے ، لیکن یہاں دو سوال میرے ذہن میں آ رہے ہیں ، (۱) کسوٹی تو آپ نے بتا دی ، اور بارہا بتا دی ، یہ بھی تو بتایے فاروق بھائی کہ اس کو استعمال کیسے کرنا ہے ؟ احادیث کو کس طرح اس کسوٹی پر پرکھنا ہے ؟ کوئی مثال دے کر سمجھایے،
اور دوسرا سوال وہی ہے جو میں پہلے کر چکا ہوں ، بھائی جی ، قطع نظر اس کے کہ اس حدیث کا درجہ کیا ہے ، آپ نے اس ""' روایت """ کو قبول کر لیا ، یعنی ، صحیح اور غیر صحیح رویات حدیث آپ کے لیے فرق نہیں رکھتی ، بہر حال ، یہ وضاحت فرما دیجیے کہ (۲) اس حدیث کو آپ قران کی کون سے آیت کی روشنی میں قبول فرماتے ہیں ؟
ایک اور بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے مذکورہ بالا حدیث سے پہلے لکھا کہ """ یقیناً یہ ایک ایسی احتیاط ہے جس کی ہدایت رسوال اللہ نے ایک سے زائید بار کی ہے""" میں حیرت زدہ ہوں ، بھائی جان براہ مہربانی مجھے ضرور بتایے کہ کہاں اور کیسے ایک سے زائد بار یہ فرمایا گیا ہے ،ہو سکتا ہے اس حدیث کی ایک اکیلی کمزور روایت کی علت کسی دوسری روایت کی اسناد میں سے دور ہو جائے اور یہ اکیلی روایت صحیح قرار پا جائے ، اللہ آپ کا بھلا فرمائے ،

یہ روایت جناب بن باز‌ نے ایک خط میں جو کہ ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب میں ‌بھی شائع ہوا ہے لکھی تھی۔ جس کو جناب باذوق جعلی قرار دیتے ہیں (یہ طنز ی ااعتراض نہیں ۔ پرکھنا اچھا عمل ہے۔ یہ تذکرۃً ہے) ۔ کیونکہ یہ روایت ان 4 یا 6 کتب میں‌موجود نہیں جو ان کے نزدیک زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ میں اس کو اعتراض کے باعث مزید احادیث پیش کرتا ہوں اور یقین ہے کہ خود جناب باذوق یا آُ بھی پیش کرسکیں گے ۔ بہرحال یہ روایت ایک دوسری کتاب میں موجود ہے۔ اس کا مکمل حوالہ میرے پاس یہاں‌نہیں ہے۔ بعد میں دیتا ہوں۔ یہ درست ہو یا نا ہو۔ آپ کو دوسری روایات اور قران کی آیات اس ضمن میں‌مل جائیں گی جو غیر القران باطل قرار دیتی ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=298667&postcount=1


مجھے شیخ بن باز علیہ رحمۃ اللہ والے معاملے کا کوئی علم نہیں فاروق بھائی ،
علی کل حال یہ روایت نقد الحدیث کی کسوٹیوں پر پوری نہیں اترتی ، ضعیف ہے ،
آپ دوسری روایات مہیا فرما کر مجھے شکریہ کا موقع عنا یت فرمایے ، اور قران کی آیات بھی جو """غیر القران """ اور """غیر الوحی """ کو ایک ہی ثابت کریں اور پھر اس ایک کو باطل قرار دیا جائے ،

میں‌سمجھتا ہوں کہ آپ اس اصول سے متفق ہیں کہ صحیح‌سنت غیر القرآن یا غیر قرآنی ہوہی نہیں‌سکتی۔

جی فاروق بھائی ، کوئی صحیح سنت (قولی فعلی یا تقریری ) """ غیر الوحی """ نہیں ہو سکتی اور قران کے مخالف نہیں ہو سکتی ،
اب سوال پیدا ہوتا ہے اس اصول کو مختلف روایات پر استعمال کرکے درست یا غلط ثابت کرنے کا کہ کونسی روایت درست ہے اور کونسی نہیں ۔ میں اور آپ دونوں جانتے ہیں‌کہ بہت سی روایات، عقائد اور قصے کہانیاں اس اصول کی وجہ سے باطل ہو جاتی ہیں۔ ان سب کا کیا کیا جائے؟

فاروق بھائی کونسا اصول ؟ مذکورہ بالا کمزور حدیث سے اخذ کیا گیا اصول !!! عجیب !!! ایک طرف تو صحیح احادیث بھی رد کی جائیں کہ قران کے خلاف ہیں ، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ، اور دوسری طرف ایک کمزور ناقابل حجت روایت سے اصول اخذ کیے جائے ،
کیا یہ مقلد یا علماء غلط تھے جو یہ پڑھاتے رہے؟ بھائی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھایا جائے اور سورۃ‌ ء نور یا سورۃء یوسف یا سورۃ ء مریم کی تعلیم نہ دی جائے (‌مختلف کتب میں مختلف روایت پائی جاتی ہے)‌۔ کیا منطقی یا قرآن اور سنت کے مسلمہ اصولوں‌پر پوری ‌اترتی نظر آتی ہے؟ ۔
(‌یہ صرف مثال ہے، رضا صاحب اس پر بہت سے دلائل دے چکے ہیں ۔ یہاں صرف مثال کے لئے لکھا ہے ۔ یہاں‌ اس پر بحث‌نہ کریں، جواب مطلوب نہیں ۔ صرف توجہ دلانا مطلوب ہے)

تو میں ان باظل ہو جانے والی روایات کے سلسلے میں اپنے لئے یہ رائے رکھتا ہوں کہ کہ حق اللہ کی طرف سے ہے جس کا دل چاہے یقین کرے اور جو چاہے اس پر ایمان نہ لائے، پر ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے۔

18:29 [arabic]وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا[/arabic]

کہ سب نے اپنا اپنا حساب دینا ہے۔ قانون جزا ایک سچی حقیقت ہے۔
سورۃ البقرۃ:2 , آیت:123 [arabic] وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُون[/arabic]َ

امید ہے کہ آپ اس کو دردمندی کے ساتھ دیکھیں اور سوچیں گے۔ میری استدعا یہ ہے کہ آپ اس پر فوری جواب نہ دیجئے بلکہ کم از کم 24 گھنٹے سوچئیے پھر اپنی قیمتی رائے سے نوازئیے۔

جزاک اللہ خیرا ، فاروق بھائی ، آپ اپنے لیے ایک رائے رکھتے ہیں اور اس رائے کی بنا پر صحیح اور غیر صحیح کا فرق روا رکھے بغیر احادیث کو """ باطل """ قرار دے لیتے ہیں ، بے شک اللہ کا قول سب سے سچا ہے ، ((( و قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر )))
اللہ تعالی ہم سب کو حق پہچاننے ، اپنانے ، اس پر عمل کرنے اور اس کو نشر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی پر ہمارے خاتمے فرمائے ،
ایک خصوصی گذارش ::: ہم دونوں اپنی باتوں کو جتنا مختصر رکھ سکیں بہتر ہے اور ایک دوسرے کے سوالات کے جوابات بھی مختصر طور پر پیش کریں ، اللہ دلوں کے حال جانتا ہے ، میں بحث ضرور کرتا ہوں لیکن کسی بھی شخصیت کو نیچا دکھانے یا بحث برائے بحث نہیں ، ایسا کرنا ہوں تو بہت سی جگہوں میں اس مشغلے کو اچھا سمجھ کر خوب داد میسر ہے ،
میں نے آپ کی تمام باتوں پر دردمندی کے ساتھ ہی نہیں درد کے ساتھ غور کر کر کے اپنی گذارشات پیش کی ہیں ، اور اسی درد کے ساتھ گذارش کرتا ہوں میرے بھائی ، کہ جو حدیث آپ کے خیالات کے مطابق آپ کو قابل قبول نہ ہو آپ اسے """ اپنے خیالات کی روشنی میں نا منظور """ کہہ لیا کیجیے ، لیکن """ باطل """ مت کہا کیجیے ، فاروق بھائی ایک تو یہ کہ ""' علم مصطلح الحدیث """ میں """ باطل """ کمزور """ روایات """ کا ایک درجہ ہے اور ظاہری سی بات ہے کسی ""'روایت """ کی چھان بین کر کے اس کی صحت کا درجہ مقرر کرنا اسی علم کے ماہر ترین لوگوں کا کام ہے ، اور دوسرے یہ کہ لفظ """ باطل """ بہت خوفناک معنی رکھتا ہے ، اور اگر آپ اپنی سوچ کی بنا پر کسی صحیح ثابت شدہ حدیث کو """ باطل """ کہیں تو یہ بہت ظکرے والی بات ہے ، آپ کی ذکر کردہ آخری آیت کی روشنی میں میری اس درد مندانہ اور برادرانہ گذارش پر غور فرمایے ، اللہ ہم سب کے ظاہر و باطن کی اصلاح فرمائے ۔ والسلام علیکم ۔
 
[arabic]حدثنا محمد بن كَثِيرٍ أخبرنا سُفْيَانُ عن الْأَعْمَشِ عن إبراهيم التَّيْمِيِّ عن أبيه عن عَلِيٍّ رضي الله عنه قال ما كَتَبْنَا عن النبي صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم إلا الْقُرْآنَ وما في هذه الصَّحِيفَةِ قال النبي صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم((( الْمَدِينَةُ حَرَامٌ ما بين عَائِرٍ إلى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أو آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ منه عَدْلٌ ولا صَرْفٌ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بها أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ منه صَرْفٌ ولا عَدْلٌ وَمَنْ والي قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ منه صَرْفٌ ولا عَدْلٌ )))[/arabic][arabic]
صحیح البخاری ، ابواب جزیۃ و الموادعۃ ، باب 17 بَاب إِثْمِ من عَاهَدَ ثُمَّ غَدَرَ وقوله الَّذِينَ عَاهَدْتَ منهم ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ في كل مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ ، سنن ابی داود ، کتاب المناسک، باب 97 بَاب في تَحْرِيمِ الْمَدِينَة[/arabic]

علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ((( ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ( کہی گئی ) کوئی بات نہیں لکھی سوائے قران کے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے ))) اور فرمایا ((( نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ،، اور پھر اس صحیفہ میں جو کچھ لکھا ہواتھا اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے طور پر پڑھ کر سنایا )))

کیا خیال ہے معاذ اللہ علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی یا انہیں وہ سمجھ نہیں آئی ،جو آپ کو آ چکی ہے
جواب: میں ‌یہ اس کو ایک غلط فہمی سمجھتا ہوں کہ آج کی کتب روایات میں جو بھی درج ہے وہ 100 فی صد وہی روایات ہیں جو اس سند کے ساتھ حضرت علی سے روایت ہیں۔ میں‌ سمجھتا ہوں کہ اس میں بعد میں‌بھی منسوب شدہ روایات ہیں۔ جن میں غیر القرآن با آسانی شناخت کی جاسکتی ہیں [/color]
السلام علیکم ، فاروق بھائی ، تمام تر واجب الادا ادب کے ساتھ گذارش ہے کہ میری یا آپ کی یا کسی کی بھی سمجھ کی بنا پر روایات قبول یا رد نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان میں کمی و بیشی قبول یا رد ہوتی ہے ، ویسے بھی آپ کا یہ مندرجہ بالا فقرہ کچھ بے ربط سا لگ رہا ہے اگر مناسب خیال فرمائیں تو اس کی ذرا وضاحت فرما دیجیے گا ،
[arabic][arabic]حدثنا مُسَدَّدٌ وأبو بَكْرِ بن أبي شَيْبَةَ قالا ثنا يحيى عن عُبَيْدِ اللَّهِ بن الْأَخْنَسِ عن الْوَلِيدِ بن عبد اللَّهِ بن أبي مُغِيثٍ عن يُوسُفَ بن مَاهَكَ عن عبد اللَّهِ بن عَمْرٍو قال كنت أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ من رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم أُرِيدُ حفظة فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ في الْغَضَبِ وَالرِّضَا فَأَمْسَكْتُ عن الْكِتَابِ فَذَكَرْتُ ذلك لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ((( فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إلى فيه ))) فقال ((( أكتب فَوَالَّذِي نَفْسِي بيده ما يَخْرُجُ منه إلا حَقٌّ )))[/arabic]
عبداللہ ابن عَمرو رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے """ میں جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سنتا لکھ لیا کرتا کیونکہ میں اسے محفوظ رکھنا چاہتا تھا ، قریش نے مجھے منع کیا اور کہا تم جو جچھ سنتے ہو لکھ لیتے ہو اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم انسان ہیں غصے اور راضی دونوں حالت میں بات کرتے ہیں ، تو (یہ سن کر ) مین نے لکھنا بند کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ((( اپنی انگلی مبارک سے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ))) ارشاد فرمایا ((( لکھو ، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس (یعنی منہ مبارک ) میں سے سوائے حق کے اور کچھ نہیں نکلتا ))) سنن ابی داود ، کتاب الأقضیۃ ، ۲۰ اول کتاب العلم ، باب۳ بَاب في كِتَابِ الْعِلْمِ ، المستدرک الحاکم ، حدیث ۳۵۹ ، و سنن الدارمی باب 43 بَاب من رخص فی کتابۃ العلم ،

یہ حدیث‌ یہ کہہ رہی ہے کہ رسول اللہ کی زبان سے جو نکلا وہ حق ہے، یہ ان کی حدیث مبارک کو غیر القرآن قرار نہیں‌ دے رہی۔
فاروق بھائی ، یہاں تک تو ہماری بات ایک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے جو نکلا وہ حق ہے ، اختلاف فہم """ غیر القران """ اور ""' غیر الوحی """ اور اب اس مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں """ غیر الحق """ بھی شامل کر لیجیے ، تو یہ حدیث اس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا وہ سب قران نہیں ، لیکن سب حق ہے ، اور یہ بات سب جانتے ہیں اور آپ بھی مانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے دور نبوت میں صرف قران ہی نہیں بولا ،
میرا خیال ہے جو کچھ ابھی ابھی میں نے سابقہ جواب میں لکھا وہ دہرانے کی ضرورت نہیں آپ وہاں سے اسے پھر دیکھ سکتے ہیں

[arabic]سوال روایات کو " رسول کی طرف سے"‌ غیر القران یا غیر قرانی طور پر منسوب کرنے کا ہے۔
ظاہر سی بات ہے فاروق بھائی ، جو کلام اللہ کا نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی اللہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوا ہے وہ قران نہیں ، لیکن اللہ کی طرف سے وحی کی بنا پر ہے اور حق ہے ،
[arabic]دیکھئے پہلی روایت کے صرف اس حصے کو دیکھتے ہیں:

[arabic] ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه [/arabic]

رسول اللہ فرما رہے ہیں کہ "نہیں تم لکھو میر طرف سے"
کیا ہم اس کو اس طرح کہہ سکتے ہیں " تم مجھ سے منسوب کرکے نہیں لکھو"

غور کیجئے کہ وہ کسی کو فرما رہے ہیں کہ تم ایسا منسوب نہیں کرو۔
وہ کیا ہے کہ " جس کسی نے میری طرف سے غیر قراںی لکھا"
یعنی " جس کسی نے مچھ سے منسوب کرکے غیر قرآنی لکھا"

فاروق بھائی ، قطع نظر اس کے کہ عربی لغت کے مطابق آپ کا یہ مندرجہ بالا مفہوم اخذ کرنا درست ہے کہ نہیں ، چلیے اسی کو لے کر چلتے ہیں ، اس ممانعت کے بعد اجازت والی حدیث ہے جو میں نے ذکر کی تھی ، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ((( اُکتُب ، فوالذی نفسی بیدہ ما یخرج منہ الا حق ::: لکھو ، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس (یعنی منہ مبارک ) میں سے سوائے حق کے اور کچھ نہیں نکلتا ))) پس جب اجازت مل گئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی احادیث جو اللہ کا کلام یعنی قران نہیں ہیں ، لیکن بنا بر وحی ہیں اور یقینا حق ہیں لکھیں ،
مثال کے طور پر میں نے علی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت پیش کی جس پر آپ نے ایک خیال کا اظہار فرمایا ، جواب اوپر گذر چکا ، اور میں نے عرض کیا تھا اور بھی بہت سی مثالیں ہیں اور صحیح الاسناد ہیں ،


کیا صاحب قران کی حدیث مبارکہ کو ہم غیر قرآنی قرار دے رہے ہیں ۔ یقیناً نہیں۔ ان کی زبان سے کیسے غیر قرانی احکام ادا ہوسکتےہیں ، جنہوں نے دنیا پر احسان کیا کہ قران دیا؟

فاروق بھائی ، پھر وہی بات عرض کروں گا ، آپ کے یہ مندرجہ بالا جملہ آپ کے سابقہ خیال کی نفی کرتا ہے ، اور وہ یوں کہ یہاں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ی زبان مبارک سے ادا ہونے احکامت کا """ غیر قرانی نہ ہونا """ مان رہے ہیں ، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو احکامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مبارک سےادا ہوئے اور وہ سب کے سب جوں کے توں انہی الفاظ میں قران میں نہیں ہیں یعنی اللہ کا کلام نہیں ہیں ، انہی احکامات و فرامین کو آپ اب تک """غیر القران """ کہتے آ رہے تھے ، پس میرے بھائی میری بات پھر غور فرمایے ، """ غیر القران """ اور """ غیر الوحی """ دو الگ الگ باتیں ہیں ، آپ کے ہاں """ غیر القران """ کو """ غیر الوحی """جانا جا رہا ہے ، قران اللہ کا کلام ہے اللہ کے فرمائی ہوئی باتیں ، یہاں پھر گذارش کرتا ہوں کہ میرے سابقہ جواب کو ایک دفعہ پھر دیکھیے ، اللہ حق سمجھنے اپنانے اس پر عمل کرنے اور اسے نشر کرنے میں ہماری مدد کرے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ،
[arabic]البتہ اس روایت پر غور کرنے سے واضح ہے کہ دوسرے لوگ اپنی مطلب براری کے لئے رسول اکرم سے منسوب کرکے کچھ نہ کچھ لکھ سکتے تھے جس کو رسول اکرم نے "عنی غیر القران" سے واضح کیا۔
فاروق بھائی ، ایسا ہوتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اجازت نہ فرماتے ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم احادیث لکھتے ،
بلکہ ٹھیک بات یہ ہے کہ چونکہ قران اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی لغت و زبان ایک تھی اور ابتداء میں یہ اندیشہ تھا کہ جو لوگ صرف وہ لکھا ہوا پڑہیں گے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے الفاظ اور بات میں فرق نہ کر پائیں اور جو بات اللہ کا فرمان نہیں وہ اللہ سے منسوب ہو جائے ، جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں کلام اللہ اور کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں فرق سمھجنا واضح ہو گیا تو ممانعت ختم کردی گئی ،

[arabic]
صاحب جب لوگوں نے خلفائے راشدین کو قتل کردیا تو الفاظ بدلنا تو بہت ہی آسان ہے۔ اور یہ اپنے پاس سے منسوب کرناتو بہت ہی آسان کام ہے۔
جی ہونے کو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے اور ہوتا رہے ہے اور ہو رہا ہے ،
[arabic] تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ رسول اللہ تو معصوم ہیں اور انہوں نے ہمیشہ سچ فرمایا اور حق فرمایاا اور وحی کے مطابق فرمایا، سوال یہ ہے کہ آیا کہ جس معاشرہ اور جس تاریخ‌ میں ان کے نواسے کے قاتل، خلفاء‌ راشدین کے قاتل ، شکست خوردہ قومیں موجود رہیں۔ جن کے ہاتھوں سے ہمارے بزرگوں کی جان و مال و عزت محفوظ نہیں تھیں تو کیا ان سے یہ کتب روایات مکمل طور پر محفوظ رہیں؟
جی فاروق بھائی ، بے شک رسول اللہ صلی علیہ و علی آلہ وسلم معصوم تھے ، اور یہ عصمت صرف انبیا اور رسولوں کے لیے تھی ، اور فاروق بھائی ، اللہ کے لطف وکرم سے """ کتب الحدیث """ محفوظ رہیں ، کیونکہ ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی احادیث کو بھی لکھنے سے زیادہ زبانی یاد کرنے کا طریقہ مروج رہا ہے ، اور کئی سو سال تک ائمہ اور علماء اور اساتذہ حدیث عام طور پر احادیث زبانی بیان کرت اور شاگرد لکھتے بھی اور یاد بھی کرتے جب کبھی کہیں کسی کو کسی روایت میں کمی یا بیشی کا شک ہوتا وہ کسی دوسرے سے پودھتا کسی دوسرے کی املا شدہ وہی حدیث دیکھتا ، اور اور اور ، اور مزید یہ کہ قبول حدیث کے لیے جو شرائط ائمہ حدیث نے مقرر کر رکھی ہیں ان کی موجودگی میں """ مدرج """ روایات پکڑی جاتی رہی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنّت نکھر کر سامنے آتی رہی ہے اور آج تک یہ کام جاری ہے ، اور یہ اس امت پر اللہ کے خاص انعامت میں سے ایک ہے ، و الحمد للہ ،
[arabic] ہماری رسول اللہ سے عقیدت وہ بنیادی وجہ ہے کہ یہ روایات بآسانی مسلم معاشرہ میں پنپتی رہیں لیکن بہت سے فرقہ ایسے ہیں کو ان کتب کو بالکل ہی نہیں مانتے۔

رسول اللہ کی یہ تعلیم کہ غیر القرآن ممکن ہے ہم کو ایک آسان اصول فراہم کرتی ہے کہ حق ہمیشہ موافق القرآن ہی ممکن ہے۔

والسلام
جی بالکل صحیح """ غیر القران """ مکمن ہے ، کیونکہ بڑے بھائی ، جو کچھ اللہ کا کلام نہیں وہ غیر القران ہی ہے ، اُس میں سے جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت شدہ صحیح سنّت اللہ کی وحی کی بنا پر ہے قران کا بیان ہے ، شرح ہے ، تفسیر ہے ، قولی اور فعلی ، اور بلا شک حق ہے ، پس ہر گز خلاف قران نہیں ،
محترم بھائی فاروق ، جو گذارش پچھلے جواب کے آخر میں کی تھی اسے یہاں بھی مکرر سمجھیے ،
و السلام علیکم۔
 

گرائیں

محفلین
مکمل تو نہ پڑھ سکا ، مگر جتنا بھی ہو سکا میں نے پڑھا اور مجھے فاروق سرور صاحب نے بہت متا ءثر کیا۔ وقت کی کمی آ ڑے آ رہی ہے، مجھے امید ہے ایک دن میں ان سب پوسٹس کے مطالعے کے بعد ایک رائے دینے کے قابل ہو جاؤں گا۔

فاروق سرور صاحب : خدا کرے زور قلم زیادہ۔

مجھے اتنا لگ رہا ہے کہ ہمارے اذہان میں بچپن سے جو تصورات پختہ ہو چکے ہیں ان اوثان کو اس عمر میں توڑنا بہت مشکل ہے۔
 
بھائی دوست ، سلام، آپ نے بہت ہی اہم نکات اٹھائے ہیں بہت ہی شکریہ۔

میں‌نے آپ کے پیغام سے اس پیغام کو شروع کیا ہے، اور جواب بھائی عادل سہیل کو بھی دینا مطلوب ہے۔ ‌میں‌بھائی عادل سہیل کو نظر انداز نہیں‌کررہا بلکہ آپ کے نکات سے مدد لینا چاہتا ہوں۔

دوست نے کہا:
اختلاف تب پیدا ہوتا ہے جب ایک چیز قرآن میں نہیں ہے اور حدیث رسول ﷺ میں موجود ہے اور علم الحدیث کی رو سے صحیح یا حسن ہے یعنی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور وہ وضاحت یا حکم یا بات موجودہ زمانے یا عقلی لحاظ سے درست نہیں لگتی۔ بس یہاں فاروق سرور خان اور ان جیسے مسلمانوں اور روایتی علماء کے راستے الگ ہوجاتے ہیں۔

بھائی عادل سہیل صاحب کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے اس سوچ کو تمام تر خلوص‌سے اجاگر کیا ہے جو عام طور پر "مجھ جیسے اصحاب" سے اختلاف پیدا کرتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ سوچ ہے کیا؟
1۔ قرآن اللہ کا کلام ہے۔
2۔ غیر القرآن سے مطلب باقی رسول اللہ کی حدیث ہے۔ جو ان روایات میں‌درج ہے جو 4 سے 6 کتب میں پائی جاتی ہیں ۔ یہ تمام روایات جن کی اسناد مکمل ہیں‌درست ہیں اور ہرطور قابل ایمان ہیں یعنی ان کو ماننا ہی ماننا ہے۔
3۔ غیر القرآن سے مراد "احادیث نبوی" ہیں۔ جس کے لکھنے کی پہلے ممانعت تھی لیکن بعد میں اجازت ‌دے دی گئی۔


میں جن نظریات کا ترجمانی کرتا ہوں وہ ہیں:
1۔ قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے اور یہ وہ فرق بتانے والی کسوٹی ہے جس کی مد سے ہم ہر اصول کے قرآنی یا غیر قرآنی ہونے کا معلوم کرسکتے ہیں۔
2۔ رسول اللہ اللہ تعالی کے حکم سے جو وحی کیا گیا وہی کلام کرتے تھے۔ 53:3 اور 53:4
3۔ صاحب القرآن یعنی رسوال اللہ نے اپنی طرف سے منسوب شدہ روایات میں حدیث نبوی تلاش کرنے کے لئے ہم کو دو اصول بتاتے ہیں
ب۔ انکی (رسول صلعم)‌ کی طرف سے منسوب شدہ روایت غیرالقرآن نہ ہو۔
ج۔ انکی (رسول صلعم)‌ کی طرف سے منسوب شدہ روایت موافق القرآن ہو۔


دوست نے کہا:
اول الذکر کتب احادیث کو کتب روایات کا نام دیتے ہیں اور ان پر مذکورہ بالا اعتراضات کرتے ہیں اور موخر الذکر ان کا دفاع کرتے ہیں، ایمان کا حصہ کہتے ہیں اور آخر میں منکر حدیث کا لیبل لگا دیتے ہیں۔
روایت کیا ہے؟
بھائی دوست۔ کتب روایت کی ہر روایت، روایت ہے، روایات بہت ساری ہیں اور بہت سی کتب میں درج ہیں۔ ان روایات میں سے کچھ اصحابہ کے واقعات ہیں اور کچھ روایات رسول اللہ صلعم کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔

تو حدیث‌ یا سنت رسول کیا ہے:
وہ روایات جو رسول اکرم سے منسوب کی جاتی ہیں، انکے بارے میں دو رائے ہیں
1۔ (عادل سہیل جس مکتبہ ہائے فکر کے ترجمان ہیں اس کے مطابق)‌ تمام مکمل اسناد والی روایات احادیث رسول اکرم ہیں۔ (‌یہاں قران بطور کسوٹی استعمال نہیں کیا جاتا)
2۔ (‌جس مکتبہ الفکر کا میں حامی ہوں) تمام اسناد مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ اگر یہ روایات موافق القرآن ہیں اور غیرالقران نہیں ہیں تو پھر وہ "حدیث رسول اللہ صلعم "‌ ثابت ہوتی ہیں۔ (فرق قرآن کے بطور کسوٹی استعمال کا ہے)

دوست نے کہا:
میری تو سمجھ میں اس بات کا کوئی حل نہیں کہ اس مسئلے کا کیا حل ہو۔۔

سارا مسئلہ اس میں چھپا ہوا ہے کہ :
مکمل اسناد کے بعدہم غیر القرآن اور موافق القرآن کے اصول کا استعمال بھی کریں‌گے یا نہیں۔

بھائی عادل سہیل کے مکتبہ ء فکر کا موقف یہ ہے غیر القران سے مراد حدیث ہے، جس کے لکھنے کی پہلے ممانعت تھی اور بعد میں‌ اجازت دے دی گئی۔ اس کے لئے جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان کو دیکھنے سے تو ایسا نہیں‌لگتا ۔

بلکہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس آیت، یا روایت یا علماء‌کرام کی رائے کی رو سے "غیرا لقرآن" کے معنی "‌حدیث رسول اللہ صلعم" کے بنتے ہیں؟

ان نکات پر اب سیر حاصل بحث ہو چکی ہے اور دونوں‌ اطراف کا نکتہ نظر بہت ہی واضح طور پر سب کے سامنے ہے۔۔ سب لوگوں‌نے اپنے اپنے نکات واضح‌کردئے ہیں‌تو اب میں آپ کا سوال ایک بار پھر دہراتا ہوں۔

دوست نے کہا:
میری تو سمجھ میں اس بات کا کوئی حل نہیں کہ اس مسئلے کا کیا حل ہو۔۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی موضوع پیش کیا جات ہے اس پر دو قسم کی رائے ہوتی ہیں جس سے اصل موضوع دب جاتا ہے اور ان آراء‌پر بحث شروع ہوجاتی ہے۔

میں اس کا علاج درج ذیل تجویز کرتا ہوں۔ آپ بھائی اس پر اپنی رائے دیجئے۔

1۔ اگر ایسے نظریات والا کوئی شخص ایک موضوع شروع کرتا ہے جس میں‌حوالہ جات کا معیار قران اور سنت نبوی جو موافق القرآن ہے اور خلاف قرآن نہیں ہے اس میں‌ لکھ دیا جائے کہ صرف قرآن اور موافق القرآن روایات کا حوالہ فراہم کیجئے۔ تاکہ اصل موضوع اس بحث‌کی نذر نا ہوجائے

2۔ اگر اس مکتبہء فکر کے لوگ جو صرف اسناد کی بنیاد پر ایک روایت کو قابل قبول سمجھتے ہیں اور قرآن کی کسوٹی کی ضرورت نہیں‌سمجھتے وہ اس موضوع پر ایک الگ دھاگہ شروع کرکے معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔ یہاں‌لکھ دیا جائے کہ قرآن، اور موافق القرآن روایات کے ساتھ ساتھ غیر القرآن روایات بھی قابل قبول ہیں۔ اس طرح ہم جیسے لوگ وہاں‌ پر غیر قرانی روایات پر بحث نہیں‌کریں‌گے۔ اس طرح اصل موضوع پر گفتگو جاری رہے گی

3۔ اب اگر کوئی شخص ان دھاگوں‌میں یہ بحث شروع کرتا ہے کہ آپ غیر قرآنی روایت کو بھی سنت نبوی اور حدیث رسول مانو تو اس کو اس دھاگہ کی طرف بھیج دیا جائے اور اس کا پیغام بناء اطلاع حذف کردیا جائے۔

آخر میں میں یہ عرض کروں گا کہ جو لوگ غیر قرآنی روایات میں موجود احادیث کو صحیح سنت رسول یا حدیث نبوی قرار دیتے ہیں ، میں ان کو نا غلط کہتا ہوں نا ہی صحیح، بس یہ ان کا نظریہ ہے، جس کا ان کو حق ہے۔ میں کسی قسم کا قانون بنانے کا ، کوئی فتوی دینے کا حق نہیں رکھتا۔

بھائیو اور بہنو ، احباب و اصحاب سے عرض یہ ہے کہ مقصد اس پیغام کا نیک نیتی اور خلوص ہے۔ اگر کہیں الفاظ کے چناؤ ‌میں غلطی ہوگئی ہو تو آپ اپنے آپ سے منسوب جملوں اور الفاظ‌کو درست کرلیجئے، اس کو میری بد نیتی پر محمول نہیں‌کیجئے۔

والسلام
 

ہیر

محفلین
مکمل تو نہ پڑھ سکا ، مگر جتنا بھی ہو سکا میں نے پڑھا اور مجھے فاروق سرور صاحب نے بہت متا ءثر کیا۔ وقت کی کمی آ ڑے آ رہی ہے، مجھے امید ہے ایک دن میں ان سب پوسٹس کے مطالعے کے بعد ایک رائے دینے کے قابل ہو جاؤں گا۔

فاروق سرور صاحب : خدا کرے زور قلم زیادہ۔

مجھے اتنا لگ رہا ہے کہ ہمارے اذہان میں بچپن سے جو تصورات پختہ ہو چکے ہیں ان اوثان کو اس عمر میں توڑنا بہت مشکل ہے۔

حیرت ہوئی کہ آپ کو سات تحریروں کے بعد ہی یہاں‌ پر لکھنے کی اجازت مل گئی؟۔ اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم جب تک پچیس کا کوٹہ پورا نہ کرلیں‌ یہاں پر نہیں لکھ سکتے۔ اس بارے میں‌کچھ بتانا چاہیں گے
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہ متفرقات کا زمرہ ہے اور اس میں اس طرح کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ یہ موضوع اس زمرے میں شروع کیا گیا ہے۔
 
میرا خیال ہے کہ ہم اس مباحثہ کہ ایک منطقی اختتام تک پہنچ گئے ہیں۔ گو کہ ہمارے نکتہ نظر مختلف سہی، لیلن کم از کم واضح ضرور ہیں۔ مجھے خوشی ہوگی کہ اگر غیر قرانی روایات کے ماننے والے بھی اس پر موقع پر اپنا خیال ، تنقید یا تائید فراہم کرسکیں۔
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
فاروق بھائی ، میری سابقہ بہت سی گذارشات اور سوالات کو آپ یک سے نظر انداز کیے جارہے ہیں ، سابقہ ساری گفتگو کو ایک طرف رکھتے ہوئے میں ایک دفعہ گذارش کرتا ہوں کہ مجھے مندرجہ ذیل باتیں سمجھایے ،
(۱) حدیث لکھنے سے ممانعت والی حدیث کو آپ کی """ رائے """ کے مطابق قران سے کون سی موافقت حاصل ہوتی ہے ؟
(۲) حدیث کو قران کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے یہ آپ کی ""' رائے """ ہے ، اس رائے کی بنیاد آپ نے ایک حدیث پر ہی رکھی ہے ، قطع نظر اس کے کہ وہ حدیث صحت کے درجے پر پوری نہیں اترتی ، آپ کے پاس اس حدیث کے لیے کونسی موافقت قران سے میسر ہے ؟؟؟
(۳) آپ کی """ رائے """ کے مطابق جو کسوٹی آپ نے مقرر کر رکھی ہے اس کو استعمال کا طریقہ کیا ہے ؟؟؟
(4 ) """ غیر القران """ اور """ غیر قرانی """ کیا آپ ان دونوں کو عربی الفاظ کے طور پر لیتے ہیں ؟ یا پہلے کو عربی اور دوسرے کو اس کا ترجمہ تصور فرماتے ہیں؟؟؟
(۵) """ غیر القران """ اور """ غیر الوحی """ میں کوئی فرق آپ کے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ نہیں ؟؟؟
فاروق بھائی آپ سے ایک دفعہ پھر گذارش ہے کہ اس طرح کنی کترا کر مت نکلیے کہ یہ سمجھنا پڑے کہ آپ اس بات کو جان گئے ہیں کہ آپ کی ""' رائے ""' درست نہیں ،
رہا معاملہ آپ کے مراسلہ رقم ۵۱ میں دی گئی تجاویز کا تو یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ اپنے موقف کی کمزوری جانتے ہیں پس ایک طرف رہتے ہوئے اس کی ترویج کا کام کرتے رہنا چاہتے ہیں ،
ہم یعنی وہ مسلمان جو صدیوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت مبارک کو اسناد کی درستگی کی بنا پر صحیح روایات کو قبول و غیر صحیح کو رد کرت چلے آ رہے ہیں کبھی کہیں یہ کہتے ہوئے دکھائی نہیں دیں گے کہ جس کا جی چاہے صحیح احادیث کو بھی اپنی کسی """ رائے """ کی بنیاد پر ترک کر دے ،
فاروق بھائی ، براہ مہربانی میری گذارشات کا مختصر مختصر جواب عنایت فرمایے ، ایک ایک سوال کا ایک ایک جواب ، تا کہ یہ واضح ہو سکے کہ تقریبا چودہ سو سال سے پوری کی پوری امت سوائے ایک دو گروہوں کے جس شریعت کو لیے چل رہی ہے وہ سب غلط ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں کیونکہ وہ آپ کی """ رائے ""' کے مطابق """ قران کے موافق """ نہیں ، یا یہ کہ اب جو چند سالوں سے یہ مستشرقین کی پیدا کردہ نئی """ رائے ""' دریافت ہوئی ہے یہ درست ہے تو شریعت کو نئے سرے سے مدون کیا جائے ، تا کہ بے چاری امت کے عقائد ، عبادات ،معاملات ، اخلاقیات ، کم از کم ساٹھ فیصد """ خلاف قران """ ہیں ان کی تصحیح کی جا سکے ،
فاروق بھائی اگر آپ حق پر ہیں ، تو آپ پر واجب ہے کہ اس کے مطابق اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو راہ نجات ہر لایے ، نہ کہ ""' تم اپنی جگہ اور ہم اپنی جگہ """ کے مصداق انہیں آپ کی ""' رائے """ کے مطابق حق سے دور رکھیے اور وہ بے چارے """ خلاف قران """ زندگیاں بسر کر کر کے جہنمی ہوتے جائیں ،
کیا اللہ تعالی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ آپ نے ""' خلاف قران """ سنت کے خلاف جہاد کیوں نہیں کیا ؟؟؟ """ خلاف قران """ سنت کو دلائل و براہین سے واضح کیوں نہیں کیا؟؟؟ """ خلاف قران """ سنت کی حمایت کرنے والوں کے سوالوں کے واضح اور دو ٹوک جواب دلائل سے کیوں نہیں دیے ؟؟؟
اہل حق میدان چھوڑ کر نہیں جاتے ، خواہ وہ بدنی جدوجہد کا میدان ہو یا علمی ، اور نہ ہی حق دو متضاد رائے میں پایا جا سکتا ہے ، خیال رہے میں نے کہا ہے """ متضاد """ نہ کہ """مخالف """ ۔ و السلام علیکم ۔
 
عادل بھائی! آپ کے سوالات کا کوئی واضح جواب مجھے ابھی تک نظر نہیں آ رہا۔ شاید فاروق صاحب اپنے موقف کی کچھ مزید وضاحت کریں تو ہمیں بھی سمجھ آ جائے۔
 

میاں شاہد

محفلین
السلام و علیکم

دخل در نامعقولات پر معذرت خواہ ہوں مگر اس مضمون کے مطالعے کے دوران کچھ ایسی باتیں اور الفاظ نظر آئے جن پر اپنی حیرت کو دبا نہ سکا اور آپ بزرگوں کی پیشگی اجازت لئے بغیر اس تحریر کو لکھ بیٹھا۔

انسانی فطرت ہے کہ اگر ایک لمبا عرصہ کسی خاص ماحول کے ریز سایہ رہے خواہ بادل نخواستہ ہی سہی تو اسکے کچھ نہ کچھ اثرات ضرور مرتب ہوا کرتے ہیں، اور ہمارے ملک پر پچھلے کئی سالوں سے جو "مشرفانہ" قبضہ اور تصرف جاری ہے اسکے کچھ ہلکے پھلکے اثرات یہاں نظر آرہے ہیں، اس مضمون میں ایک جانب سائل اپنے سوالات کے جوابات کے حصول کی خاطر پریشان ہیں اور بار بار التجاء کر رہے ہیں کہ اُنہیں "انکی باتوں" کا جواب دیا جائے اور دوسری جانب ارباب اختیار سرسری عماعت کے بعد اس کا فیصلہ بھی سُنا چکے ہیں۔
یہ ایک عجیب سی صورت ہے مگر اب ہم لوگ چونکہ اس "مشرفانہ" تصرف کے کافی حد تک عادی ہو چکے ہیں اس لئے نقار خانے میں "طوطی" کی آواز کسی کو بھی نہیں آرہی۔
تاہم سنا ہے کہ "مشرفانہ" دور اپنے اختتام کو ہے تو مجھے بھی اُمید ہے کہ یہاں بھی یکطرفہ ٹریفک چلانے کے بجائے "آدابِ گفتگو" کی مکمل رعایت کرتے ہوئے اور رواداری کے ساتھ سائلین کو انکے سوالات کا جواب ضرور ملے گا اور میری اس امید کو "دیوانے کا خواب" نہیں سمجھا جائے گا۔

آُ سب کا بےحد شکریہ

والسلام
 

طالوت

محفلین
سائیلین یا تو سمجھنا نہیں چاہ رہے یا پھر فاروق سمجھا نہیں پا رہے اور میں اس بحث میں کودنا نہیں چاہ رہا۔۔۔۔۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کونسی رائے آپ کے یہاں قبول اور کونسی ناقابل قبول۔۔۔۔۔ جب تک دونوں گروہ کسی ایک قسم کی رائے پر متفق نہیں ہو جاتے یہ بحث یوں ہی جاری و ساری رہے گی۔۔۔۔۔۔ مثلا میں اپنی رائے دیتا ہوں کہ جیسے میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کتب روایات اسلام کا تاریخی سرمایہ ہیں اور چونکہ یہ مسلمانوں کے مختلف عہدوں میں تحریر میں آئے یعنی مختلف خاندانوں یا شخصیتوں کے دور حکومت میں لکھے گئے اس لیئے ان میں شخصیتی پسندیدگی یا نا پسندیدگی سے انکار بھی ممکن نہیں۔۔۔۔۔ اسی طرح تمام مصنفین کی اپنی رائے اور معیار تھا۔۔۔ اور پھر اس دور میں ان روایت کی کتنی کثرت تھی کہ صحہ ستہ کے مصنفین نے لاکھوں روایات کے ذخیرے سے چھانٹ چھانٹ کر چند ہزار روایات ان کتب میں درج کیں۔۔۔اسی طرح اس دور کے صاحب علم حضرات کی اگر ایک دوسرے کے بارے میں رائے دیکھی جائے تو بندہ چکرا کر رہ جائے کہ ایک دوسرے کو دجال تک کہہ گئے ہمارے آئمہ حضرات۔۔۔۔ اب یہ جمع تفریق بہت بڑا گھمن چکر ہے جس کے لیئے ہزاروں صفحے کالے کیئے جا سکتے ہیں۔۔۔۔ اسلیئے میں نہیں سمجھتا کہ ہم سب کا کسی ایک رائے پر متفق ہونا ممکن ہو گا ۔۔۔ اسلیئے میں اسے تاریخی سرمایہ تو مان سکتا ہوں لیکن حجت کبھی تسلیم نہیں کروں گا۔۔۔ اب اگر میں اسے حجت تسلیم ہی نہیں کرتا تو پھر مجھ سے کتب روایات پر بحث کیونکر اور مجھے اس پر کیسے مطئمن کیا جا سکتا ہے ؟ تو کچھ اسی قسم کی صورتحال ہے جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسلام
 

میاں شاہد

محفلین
سائیلین یا تو سمجھنا نہیں چاہ رہے یا پھر فاروق سمجھا نہیں پا رہے اور میں اس بحث میں کودنا نہیں چاہ رہا۔۔۔۔۔
برادرِ مکرم! اصل بات جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ سائلین کچھ مخصوص سوالات کے جواب چاہتے ہیں اور جناب "جسٹس فاروق احمد خان" صاحب انکا جواب دینے کے بجائے سرسری سماعت کے بعد "فیصلہ محفوظ" کرچکے ہیں ، اس لئے ہم اس مضمون میں ایک عجیب سے صورتحال کا مشاہدہ کررہے ہیں میرا خیال ہے اگر ٹو دی پوائنٹ جواب دے دیا جائے تو بات با آسانی اختتام کی طرف چلی جائے گی، ورنہ کسی بھی لمحے ;) بٹن دب جائے گا اور فریادی فریاد اور اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گا، ہمیں افسوس اور دُکھ ہوگا اور "مشرف" خوش ہوگا کہ ایک اور فریادی کی آواز دبادی گئی;) بٹن دباکے ۔
 

طالوت

محفلین
پہلی بات تو جناب کے آپ اگر طنز سے محفوظ گفتگو کریں تو زیادہ اچھا لگے گا(اگر یہ میری غلط فہمی ہے تو معذرت) دوسری بات یہ کہ اس سے پہلے ایکدھاگے پر بڑی لمبی اور تفصیلی بحث ہو چکی ہے جس میں میرا خیال ہے کہ ان سوالات کے جوابات بھی آ چکے ہیں اور تیسری اور اہم بات جو میں پہلے بیان کر چکا "رائے یا دلیل یا رائے یا دلیل کے زریعے" سے متفق ہونا بہت ضروری ہے اور یہاں اصل مسئلہ یہی ہے کہ رائے یا دلیل کا ماخذ پر اختلاف ہے اس لیئے یہ معاملہ سلجھ نہیں سکے گا۔۔۔ اور جہاں رائے یا دلیل کے ماخذ پر اختلاف نہیں وہاں جب کچھ سلجھ نہیں سکا تو یہاں تو ممکن ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور ازراہ کرم مشرف کو اس معاملے میںزبردستی فٹ کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ "مشرف بااسلام" ہونے والوں کی فہرست کافی طویل ہے جو میں بیان کروں گا تو کئی ایک دوست ناراض ہوں گے۔۔۔۔۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسلام
 
Top