مطلع میں وارث کی اصلاح مناسب بلکہ بہت خوب ہے۔
بد نام قافئے والے شعر سے میں اب بھی مطمئن نہیں۔ اور نہ وارث کی اصلاح نے ہی کچھ خاص فرق پیدا کیا ہے۔
یوسف والے شعر کے مفہوم اب بھی واضح نہیں۔ کہنا کیا چاہتے ہیں، اس کا علم ہو تو سوچا جائے کچھ۔
مقطع یوں ہو تو۔۔ بلکہ اسے آخری شعر ہی سمجھیں کہ تخلص نہیں ہے:
وہ دریچہ کب کھلے گا، چھوڑئے، سو جائیے
یا مقطع ہی بنانا ہو تو
کیا توقع اس کیخرم، شب کو بھی سورج اُگے
مزید صورتیں:
کب وہ سورج ہو طلوع، اب آئیے سو جائیے
کب تلک امید رکھیں وہ جھروکے سے کھِلے
لیکن ابھی بھی مطمئن نہیں ہوں میں۔ یہ کچھ مصرعے جلدی جلدی ذہن میں آ گئے ہیں۔
بہت شکریہ جناب اعجاز صاحب مطلع تو ٹھیک ہو گیا ہے بدنام والے شعر کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں اس کو کیسا ہونا چاہے
مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس مصرے میں توکوئی مشکل نہیں ہے میرے خیال میں یہ تو صاف سمجھ آ رہا ہے
دوسرے مصرے میں کچھ فرق ہے
میں دوسرے مصرے میںکہنا چاہتا ہوں کے میری کوئی قیمت نہیں ہے میں بے کار ہوں
اگر اس کو اس طرح کر دیا جائے تو کیا کہتے ہیں آپ
مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں کام کے آنے تلک
اب جو دوسرا مصرا ہے اس کا مطلب کچھ اس طرح بنتا ہے کہ میں بہت حد تک بے دام ہوں میری کوئی قیمت بھی نہیں ہے اگر میں کسی کے کام بھی آ جاون تو بھی بے دام ہی رہوں گا یہ کہنا چاہتا ہوں
کیا توقع اس کیخرم، شب کو بھی سورج اُگے
یہ مصرا مجھے بہت اچھا لگا ہے
کب وہ سورج ہو طلوع، اب آئیے سو جائیے
یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اوپر والا بہتر ہے باقی وارث صاحب اور ساگر بھائی کی رائے کا انتظار کرنا ہو گا