حاضر ہوں مشوروں کے ساتھ
لے لیا ہے گھر تھا جیسا گھر مجھے لینا پڑا
تیری خاطر اس طرف بھی در مجھے لینا پڑا
مطلب تو واضح نہیں ہے، اصلاح کیا کروں۔ گھر تو لیا جاتا ہے، در کس طرح لے سکتا ہے کوئ؟ پہلا مصرع زیادہ سے زیادہ یوں بہتر ہو سکتا ہے:
جس طرح کا مل سکا مجھ کو، وہ گھر لینا پرا
نام اس کا تھا بہت ہی نامور تھا اس لیے
اب کے پھر الزام اپنے سر مجھے لینا پڑا
نام اور نامور؟ چہ خوب!
نام تھا اس کا بہت مشہور ، میں کرتا بھی کیا
بہتر ہوگا، دوسرا مصرع ٹھیک ہے۔
کب نظر اس کی تھی مجھ پر بے خودی میں تھا تو تب
چھین کر ساقی سے کل ساغر مجھے لینا پڑا
"تو تب" اچھا نہیں لگ رہا۔
بے خودی میں تھا ،مرا دستِ تہی دیکھا نہیں
کیسا رہے گا۔ دستِ تہی سے مطلب ذرا واضح ہو جاتا ہے۔
سوچ کر آیا تھا جو وہ کچھ نا تھا خرم مگر
کچھ نا کچھ اس کے چمن جا کر مجھے لینا پڑا
مطلب واضح نہیں اس کا بھی۔
السلام علیکم بہت معافی چاہتا ہوں کچھ دین بہت مصرف رہا جس کی وجہ سے یہاں نہیں آ سکا آج فارغ ہوا ہوں پہلے تو میں استاد محترم کا مشکور ہوں سر اس کو میں ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہوں
لوگ کہتے ہیں بہت غم خار رہتے تھے یہاں
میں یہ کہتا ہوں مرے اغیار رہتے تھے یہاں
غم خار یا غم خوار۔ میرے خیال میں یہاں ٹائپو ہے۔
شعر وزن میں ہے
سر تقطیع کرتے کرتے میں نے اسی طرح لکھ دیا تھا
چاند سورج شام دن بارش زمیں بادل فلک
اس سے بڑ کر بھی بہت کردار رہتے تھے یہاں
بڑ کر یا بڑھ کر؟ بڑھ کر کا محل ہے یہاں۔ لیکن مطلب؟؟ اگر مراد "اُس‘ بمعنی محبوب ہے، تو اعراب ضروری ہیں۔ اگر ’اِس‘ کہا جا رہا ہے، تو کیوں کہ کردار بہت سے ہیں، اس لئے ’اِن‘ ہونا چاہئے۔
بہت خوب اِن ہی بہتر رہی گا
اِن سے بڑھ کر بھی بہت کردار رہتے تھے یہاں
اب جہاں دیکھوں نظر آتے ہیں میخانے وہاں
اس سے پہلے عشق کے بیمار رہتے تھے یہاں
وزن درست ہے۔ لیکن معنی صاف نہیں۔ عشق کے بیمار اب کہاں چلے گئے جو ان کی جگہ اب مے خانے بن گئے؟ مطلب شاید یہ ہونا چاہئے کہ عشق کے بیماروں کی بستی کی وجہ سے ان کی بستی میں مے خانے کھل گئے کہ یہ بیمارانِ عشق اپنے غم غلط کر سکیں تو بات دلچسپ ہے۔ لیکن شعر سے یہ مفہوم برامد نہیں ہوتا۔ ’اس سے پہلے‘ کو دور کیا جائے تو شاید بات بنے۔
شہر میں بس عشق کے بیمار رہتے تھے یہاں۔۔۔
اس سے مطلب واضح ہوتا ہے کیا؟
جی یہ بھی ٹھیک ہے ویسے اگر اس کو کچھ اس طرح کر دیا جائے کے شہر میں سب عشق کے بیمار رہتے تھے یہاں تو کیسا رہے گا
کچھ تو ایسے جن کی کوئی مثل بھی ملتی نہیں
کچھ مرے جیسے بہت بے کار رہتے تھے یہاں
کچھ تو ایسے جن کی کوئی مثل بھی ملتی نہ تھی
کر دیں تو دوسرے مصرعے کے ماضی بعید سے مطابقت ہو جائے۔ فی الحال پہلا مصرعہ زمانۂ حال کا ہے۔
اس کے لیے بھی شکریہ سر جی بہت اچھے مجھے اچھا لگا
اور اب بھی ان کی آنکھوں میں ستارے ہیں بہت
جو کبھی میرے لیے ستّار رہتے تھے یہاں
ستّار؟؟؟ یہ تو اللہ کا نام ہے۔ عربی لغت میں بھی دیکھا لیکن اس کے معنی کچھ ایسے تو نہیں ملے۔ یہاں کیا مراد ہے؟
سر میں نے ست۔ّار کا مطلب چھُپا ہو پڑھا تھا اور اس شعر میں بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں اس وقت بھی ان کی آنکھوں میں آنسوں ہیں جو کبھی میری وجہ سے چھپ جاتے تھے
اب نجانے کس نگر جلوہ نما ہے آج کل
میں کہاں تھا جب مرے سرکار رہتے تھے یہاں
جلوہ نما ’ہیں‘ بہتر ہے کہ اشارہ ’میرے سرکار‘ کی طرف ہے جس میں تکریمی لہجہ ہے۔
اب نجانے کس نگر جلوہ نما ہیں آج کل
میں کہان تھا جب مرے سرکار رہتے تھے یہاں
آخری خرم صدا دے کر نکلتے ہیں مگر
اس غزل کے کچھ ابھی اشعار رہتے تھے یہاں
وزن تو درست ہے، لیکن معنی واضح نہیں۔ تخلص آخری صدا‘ کے درمیان گھس جانا اور گڑبڑ کر رہا ہے۔ غزل کے اشعار ’یہاں‘ رہنے سے مطلب؟ یہ مقطع بدل دیں۔
اس کو پھر ختم کر دوں کیا اس کے بدلے میں کچھ اور نہیں ہو سکتا ویسے میں اس شعر میں کہنا چاہتا تھا اس غزل کا آخری شعر لکھنا چاہتا ہوں لیکن میرا دل نہیں چاہ رہا کہ میں یہ غزل ختم کروں اس کے کچھ شعر اور لکھنے چاہے مجھے