ایم اے راجا
محفلین
کبھی کبھی میں پڑھتا کچھ اور ہوں اور سمجھتا کچھ اور ہوں
خرم۔ اس غزل پر ’نظرِ اول فرما رہا ہوں‘
لب پہ اس کے ہر گھڑی انکار تھا
جو مرا محبوب تھا دلدار تھا
اس کو یوں کہیں تو:
لب پہ جس کے ہر گھڑی انکار تھا
وہ مرا محبوب تھا دلدار تھا
آج اس کی سب قدر کرنے لگے
جو کبھی تیرے لیے بے کار تھا
یہاں ’قَدَر ‘وزن میں آتا ہے، بر وزن ’فعو‘ یا یہاں دیکھو تو فاعلاتن کا ’علا‘۔ درست تلفظ قَدر ہے، یعنی دال ساکن۔ بر وزن ’فعل‘۔ اس کو اس طرح درست کیا جا سکتا ہے
آج اس کی قدر سب کرنے لگے
میں اکیلا اور کوئی تھا نہیں
ایک دشمن بس پسِ دیوار تھا
’بس پسِ‘ درست تو ہے لیکن کانوں کو ذرا بھلا نہیں لگ رہا۔ دوسرے مصرع کو یوں کہیں تو؟
گھارت میں کوئ پسِ دیوار تھا
راستے میں جس کے آئی مفلسی
وہ حقیقی جاگتا کردار تھا
مفلسی راستے میں آتی ہے؟؟ یہ نئ بات معلوم ہوئی۔ پھر حقیقی سے مراد۔
اگر چہ مطلب ایسا واضح نہیں لیکن زبان کے اعتبار سے اسے یوں کہا جا سکتا ہے:
جس کے حصّے میں غریبی آئ تھی
وہ تو جیتا جاگتا کردار تھا
شام کو سورج نے جاتے دم کہا
یہ جو میرا زوم تھا بے کار تھا
’زوم‘ یہ کیا لفظ ہے؟ کہیں ’زعم‘ تو مراد نہیں؟ ویسے شعر درست اوزان میں ہے۔
رات اپنے آپ سے کچھ تو کہے
رات پر تو کچھ نا کچھ آشکار تھا
’آشکار‘ یہاں وزن میں نہیں آ سکتا، ’اشکار‘ آتا ہے جو غلط ہے۔ مطلب بھی واضح نہیں شعر کا۔ اس کو کود ہی سوچ سمجھ کر تبدیل کرو تو دیکھا جائے، ورنہ حذف کر دو۔
شہر کی گلیوں سے وہ گزرا تھا کل
راستہ پُر نور تھا انوار تھا
راستہ انوار کیسے ہو سکتا ہے؟ ’پُر انوار‘ ہو سکتا ہے، لیکن ’پو نور تو پہلے ہی کہہ چکے ہو۔
راستہ اب تک بھی پُر انوار تھا
سے بات کچھ بن سکتی ہے۔ لیکن محبوب روشنی نہیں بکھیرتا، کوشبو بکھیرنے کی بات کی جا سکتی ہے۔ اس لئے اس کو بھی تبدیل کرنے کی سوچو۔
چاپ سن کر بھی رہے سب بے خبر
حادثہ کوئی پسِ دیوار تھا
درست ہے
درست ہے خرم اب غزل۔۔ لیکن یار میری ٹائپو تو سدھار دیتے۔۔ گھات کو میں گھارت ٹائپ کر گیا تو اس کو تم درست سمجھ بیٹھے!!
بشیر بدر کی غزل کے اس مظلع کے بارے میں ذرا فرمائیے گا۔
واہ واہ واہ اعجاز صاحب کیا ارشاد فرمایا ہے، لطف آ گیا، لا جواب۔
اور راجا صاحب یہ بھی سن رکھیئے کہ اگر ایک ہی شعر کے دو مصرعوں میں بغیر ربط کہ کوئی دو مختلف خیال ہوئے تو وہ انڈہ ہوگا یا بچہ، شعر ہرگز نہیں ہوگا
جی سر بہت شکریہ میں نے ٹھیک کر دیا ہے ویسے میں نے کاپی پر جو غزل لکھی ہے اس میں شام کی جگہ رات ہی ہےدوسرے شعر میں 'شام دن' کی بجائے 'رات دن' کے بارے میں کیا خیال ہے خرم صاحب
اب واقعی بہتر ہے خرم۔یکن یہ دو اشعار پھر دیکھو۔۔
سوچتا ہے دل بہت تنہا ہو جب بھی شہر میں
ہر جگہ ہیں لوگ اپنے بس یہاں اپنا نہیں
آخری حسی ردیف والا اب بھی واضح نہیں۔ کیا کہنا چاہ رہے ہو ؟ ’بس یہاں اپنا نہیں‘ سے۔۔ کون اپنا نہیں؟
رات کو مجھ پر کُھلا اک اور رازِ زندگی
آنکھ میں میرےجو تھا سپنا نہاں اپنا نہیں
پہلے مصرعے میں ماضی کی بات ہے تو دوسرے مصرعے میں ’اپنا نہ تھا‘ آنا چاہیے تھا۔ ہاں اگر اسے بھی حال میں کر دو تو یہ سقم دور ہو سکتا ہے
رات کو مجھ پر کُھلا اک اور رازِ زندگی
آنکھ میں میرے جو ہے سپنا نہاں ، اپنا نہیں
کیا خیال ہے؟