بحرِ رمل

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم۔ اس غزل پر ’نظرِ اول فرما رہا ہوں‘

لب پہ اس کے ہر گھڑی انکار تھا
جو مرا محبوب تھا دلدار تھا

اس کو یوں کہیں تو:

لب پہ جس کے ہر گھڑی انکار تھا
وہ مرا محبوب تھا دلدار تھا


آج اس کی سب قدر کرنے لگے
جو کبھی تیرے لیے بے کار تھا
یہاں ’قَدَر ‘وزن میں آتا ہے، بر وزن ’فعو‘ یا یہاں دیکھو تو فاعلاتن کا ’علا‘۔ درست تلفظ قَدر ہے، یعنی دال ساکن۔ بر وزن ’فعل‘۔ اس کو اس طرح درست کیا جا سکتا ہے
آج اس کی قدر سب کرنے لگے


میں اکیلا اور کوئی تھا نہیں
ایک دشمن بس پسِ دیوار تھا
’بس پسِ‘ درست تو ہے لیکن کانوں کو ذرا بھلا نہیں لگ رہا۔ دوسرے مصرع کو یوں کہیں تو؟
گھارت میں کوئ پسِ دیوار تھا


راستے میں جس کے آئی مفلسی
وہ حقیقی جاگتا کردار تھا

مفلسی راستے میں آتی ہے؟؟ یہ نئ بات معلوم ہوئی۔ پھر حقیقی سے مراد۔
اگر چہ مطلب ایسا واضح نہیں لیکن زبان کے اعتبار سے اسے یوں کہا جا سکتا ہے:
جس کے حصّے میں غریبی آئ تھی
وہ تو جیتا جاگتا کردار تھا

شام کو سورج نے جاتے دم کہا
یہ جو میرا زوم تھا بے کار تھا
’زوم‘ یہ کیا لفظ ہے؟ کہیں ’زعم‘ تو مراد نہیں؟ ویسے شعر درست اوزان میں ہے۔

رات اپنے آپ سے کچھ تو کہے
رات پر تو کچھ نا کچھ آشکار تھا
’آشکار‘ یہاں وزن میں نہیں آ سکتا، ’اشکار‘ آتا ہے جو غلط ہے۔ مطلب بھی واضح نہیں شعر کا۔ اس کو کود ہی سوچ سمجھ کر تبدیل کرو تو دیکھا جائے، ورنہ حذف کر دو۔

شہر کی گلیوں سے وہ گزرا تھا کل
راستہ پُر نور تھا انوار تھا
راستہ انوار کیسے ہو سکتا ہے؟ ’پُر انوار‘ ہو سکتا ہے، لیکن ’پو نور تو پہلے ہی کہہ چکے ہو۔
راستہ اب تک بھی پُر انوار تھا
سے بات کچھ بن سکتی ہے۔ لیکن محبوب روشنی نہیں بکھیرتا، کوشبو بکھیرنے کی بات کی جا سکتی ہے۔ اس لئے اس کو بھی تبدیل کرنے کی سوچو۔

چاپ سن کر بھی رہے سب بے خبر
حادثہ کوئی پسِ دیوار تھا
درست ہے

لب پہ جس کے ہر گھڑی انکار تھا
وہ مرا محبوب تھا دلدار تھا


آج اس کی قدر سب کرنے لگے
جو کبھی تیرے لیے بے کار تھا


میں اکیلا اور کوئی تھا نہیں
گھات میں کوئ پسِ دیوار تھا

جس کے حصے میں غریبی آئی تھی
وہ تو جیتا جاگتا کردار تھا

شام کو سورج نے جاتے دم کہا
یہ جو میرا زعم تھا بے کار تھا

چاپ سن کر بھی رہے سب بے خبر
حادثہ کوئی پسِ دیوار تھا

سر یہ غزل دیکھے کچھ بہتر ہوئی یا نہیں آپ کی اصلاح کے مطابق
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے خرم اب غزل۔۔ لیکن یار میری ٹائپو تو سدھار دیتے۔۔ گھات کو میں گھارت ٹائپ کر گیا تو اس کو تم درست سمجھ بیٹھے!!
 

ایم اے راجا

محفلین

واہ واہ واہ اعجاز صاحب کیا ارشاد فرمایا ہے، لطف آ گیا، لا جواب۔ :)

اور راجا صاحب یہ بھی سن رکھیئے کہ اگر ایک ہی شعر کے دو مصرعوں میں بغیر ربط کہ کوئی دو مختلف خیال ہوئے تو وہ انڈہ ہوگا یا بچہ، شعر ہرگز نہیں ہوگا ;)
بشیر بدر کی غزل کے اس مظلع کے بارے میں ذرا فرمائیے گا۔

ادب کی حد میں ہوں میں بے ادب نہیں ہوتا
تمہارا تذکرہ اب روز و شب نہیں ہو تا
 

الف عین

لائبریرین
بھائ بشیر کا مطلب ہے کہ محبوب کا مستقل ذکر کرنے سے اس کی بے ادبی ہوتی ہے۔ اس لئے محبوب کا ذکر ہمہ وقت نہیں کرتا ورنہ یہ بے ادبی ہوگی۔۔۔ دونوں مصرعوں میں درست ربط ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اب مری کاوش یہی ہے شام کے آنے تلک
بے خودی میں ہی رہوں مَیں جام کے آنے تلک

وقت کی شمشیر سے کٹتا ہی جائے من مرا
جان جائے گی ترے پیغام کے آنے تلک

مجھ سے بھی بڑھ کر یہاں ‌بد نام آئے گا بھلا؟
نام کیا ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک؟


جان کر یوسف مجھے بازار میں رکھنا نہیں
ہوں بہت بے دام، تیرے کام کے آنے تلک

اور کب تک اس طرح جاگو گے خرم رات بھر
چاندبھی سوجائے گا اس بام کے آنے تلک


سر یہ غزل وہی کی وہی ہے اس کا بھی کچھ کرے شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
نام تھا اس کا بہت مشہور ، میں کرتا بھی کیا
اب کے پھر الزام اپنے سر مجھے لینا پڑا

بے خودی میں تھا ،مرا دستِ تہی دیکھا نہیں
چھین کر ساقی سے کل ساغر مجھے لینا پڑا

سوچ کر آیا تھا جو وہ کچھ نا تھا خرم مگر
کچھ نا کچھ اس کے چمن جا کر مجھے لینا پڑا

ان کا کیا کرے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
لوگ کہتے ہیں بہت غم خوار رہتے تھے یہاں
میں یہ کہتا ہوں مرے اغیار رہتے تھے یہاں

چاند سورج رات دن بارش زمیں بادل فلک
اِن سے بڑھ کر بھی بہت کردار رہتے تھے یہاں

اب جہاں دیکھوں نظر آتے ہیں میخانے وہاں
شہر میں بس عشق کے بیمار رہتے تھے یہاں۔۔۔


کچھ تو ایسے جن کی کوئی مثل بھی ملتی نہ تھی
کچھ مرے جیسے بہت بے کار رہتے تھے یہاں


اب نجانے کس نگر جلوہ نما ہیں آج کل
میں کہاں تھا جب مرے سرکار رہتے تھے یہاں

کاغزی کشتی سمندر کے کنارے دیکھ کر
یوں لگا خرم کہ میرے یار رہتے تھے یہاں

یہ غزل تو بڑا ص حاصل کر چکی ہے یہ تو ٹھیک ہے نا
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب خرم،
وارث بھائی کی رائے بہت ٹھیک ہے شام دن، سے، رات دن زیادہ پر زور ہے،
اس مصرع میں بھی میں سمجھتا ہوں تبدیلی ہونی چاہیئے،
اب نجانے کس نگر جلوہ نما ہیں آج کل
میں کہاں تھا جب مرے سرکار رہتے تھے یہاں

مصرع کے اول میں اب اور آخر میں آج کل، دونوں ایک ہی مطلب دے رہے ہیں سو آج کل کی جگہ کوئی اور مناسب الفاظ ہونے چاہئیں، کیوں اعجاز صاحب اور وارث بھائی؟
اور اگر اول میں اب کی جگہ وہ لگا دیں تو کیسا رہے گا،
وہ نجانے کس نگر جلوہ نما ہیں آج کل
میں کہاں تھا جب مرے سرکار رہتے تھے یہاں

اعجاز صاحب اور وارث بھائی ذرا رائے دیجیئے گا تا کہ میرے علم میں بھی اضافہ ہو سکے۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
یوں تو مجھے ’نگر جلوہ نما‘ بھی پسند نہیں آیا تھا۔ اگر ’نگر میں جلوہ نما‘ بھی ہوتا تب بھی ایک ترکیب ہندی اور ایک فارسی اچھی نہیں‌لگتی۔ اس لئے بہتر ہو کہ پورا مصرع بدل دیا جائے۔ مثال کے طور پر
اب نہ جانے کس گلی کوچے میں ہیں جلوہ نما
یا
جانے کس بستی میں ہیں وہ آج کل جلوہ نما
یا
جانے کس کوچے میں وہ جلوہ نما ہیں آج کل
اور
کس گلی میں اب ہیں جانے ان کی جلوہ ریزیاں
یا اس قسم کا کوئ مصرع۔۔۔ سوچو خود بھی۔
 

ایم اے راجا

محفلین
کس گلی میں اب ہیں جانے ان کی جلوہ ریزیاں
میں کہاں تھا جب مرے سرکار رہتے تھے یہاں

استاد قابلِ صد احترام اور خرم بھائی مندرجہ بالا شعر کیسا رہے گا؟
استادِ محترم نے کیا خوب مصرعہ کہا ہے، واہ واہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اب واقعی بہتر ہے خرم۔یکن یہ دو اشعار پھر دیکھو۔۔
سوچتا ہے دل بہت تنہا ہو جب بھی شہر میں
ہر جگہ ہیں لوگ اپنے بس یہاں اپنا نہیں
آخری حسی ردیف والا اب بھی واضح نہیں۔ کیا کہنا چاہ رہے ہو ؟ ’بس یہاں اپنا نہیں‘ سے۔۔ کون اپنا نہیں؟

رات کو مجھ پر کُھلا اک اور رازِ زندگی
آنکھ میں میرےجو تھا سپنا نہاں اپنا نہیں
پہلے مصرعے میں ماضی کی بات ہے تو دوسرے مصرعے میں ’اپنا نہ تھا‘ آنا چاہیے تھا۔ ہاں اگر اسے بھی حال میں کر دو تو یہ سقم دور ہو سکتا ہے
رات کو مجھ پر کُھلا اک اور رازِ زندگی
آنکھ میں میرے جو ہے سپنا نہاں ، اپنا نہیں
کیا خیال ہے؟

یہ زمیں اپنی نہیں ہے آسماں اپنا نہیں
ہم یہاں رہتے ہیں لیکن یہ جہاں اپنا نہیں

مجھ کو شک ہے یہ سفر منزل نہ پائے گا کبھی
ہیں مسافر سب تو اپنے کارواں اپنا نہیں

سوچتا ہے دل بہت تنہا ہو جب بھی شہر میں
ہر جگہ ہیں لوگ اپنے بس وہاں اپنا نہیں

رات کو مجھ پر کُھلا اک اور رازِ زندگی
آنکھ میں میرے جو ہے سپنا نہاں ، اپنا نہیں

ہوں اکیلا اس قدر خرم کسے اپنا کہوں
گفتگو اپنی نہیں‌حُسنِ بیاں اپنا نہیں

سر جی اب کیا کہتے ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
لوگ کہتے ہیں بہت غم خوار رہتے تھے یہاں
میں یہ کہتا ہوں مرے اغیار رہتے تھے یہاں

چاند سورج رات دن بارش زمیں بادل فلک
اِن سے بڑھ کر بھی بہت کردار رہتے تھے یہاں

اب جہاں دیکھوں نظر آتے ہیں میخانے وہاں
شہر میں بس عشق کے بیمار رہتے تھے یہاں۔۔۔


کچھ تو ایسے جن کی کوئی مثل بھی ملتی نہ تھی
کچھ مرے جیسے بہت بے کار رہتے تھے یہاں


کس گلی میں اب ہیں جانے ان کی جلوہ ریزیاں
میں کہاں تھا جب مرے سرکار رہتے تھے یہاں

کاغزی کشتی سمندر کے کنارے دیکھ کر
یوں لگا خرم کہ میرے یار رہتے تھے یہاں
 
Top