مزمل شیخ بسمل
محفلین
فاعلتن فاعلتن فاعلن
یہی جواب چاہیے تھا نا؟ اب آپ بات کیجیے۔۔۔
اس بڑھ کر "سریع" جواب کیا ملتا؟ اور وہ بھی مطوی اور مکشوف
مفتعلن مفتعلن فاعلن
شکرن تصدیق درکار تھی۔ میری بحرالفصاحت ہاتھ سے چلی گئی۔
فاعلتن فاعلتن فاعلن
یہی جواب چاہیے تھا نا؟ اب آپ بات کیجیے۔۔۔
اس بڑھ کر "سریع" جواب کیا ملتا؟ اور وہ بھی مطوی اور مکشوف
مفتعلن مفتعلن فاعلن
قدما کی مثنویوں میں ملتی ہے یہ بحر لیکن موجودہ دور کے شعرا نے شاذ ہی اسے برتا ہے۔شکرن تصدیق درکار تھی۔ میری بحرالفصاحت ہاتھ سے چلی گئی۔
قدما کی مثنویوں میں ملتی ہے یہ بحر لیکن موجودہ دور کے شعرا نے شاذ ہی اسے برتا ہے۔
ہاہاہاہاآپ تو استاد ہیں حضرت ایک آدھ غزل یا نوحہ لکھ ہی ڈالیں اس بھر میں۔ اتنی ناگوار بھی نہیں اب۔
ہاہاہاہا
ہم یہ غزل لکھیں دعا کیجیےآپ بھی کوشش تو بھلا کیجیے
کوششیں تو کرتے رہیں گے مگر
میرؔ کے دیوان کا کیا کیجئے؟
فاعلن مفاعین فاعلن مفاعیناب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
بحر بتائیے
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
بحر بتائیے
فاعلن مفاعین فاعلن مفاعین
یہ فاعلات مفعولن ہےفاعلن مفاعیلن ، فاعلن مفاعیلن ۔۔۔
شاید میری یہ کوشش بھی اسی میں ہے:
دشمنوں سے دوری تھی، دوستوں نے آگھیرا
کافروں سے بچ نکلے، مومنوں نے آگھیرا
کچھ نہ کسی سے بولیں گے
فعل فعولن فعلن فع
تنہائی میں رو لیں گے
فعلن فعلن فعلن فع
نیند تو کیا آئے گی فراز
فعل فعولن فعل فعول
موت آئی تو سو لیں گے
فعلن فعلن فعلن فع
بحر
یہ اقبالؒ کی شہرہ آفاق نظم مسجدِ قرطبہ کا شعر ہے۔اقبال کے اس شعر کی بحر سمجھ نہیں آ رہی:-
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
بحر بتائیے۔
اس کے مطابق شعر کی تقطیع یوں ہو گی:یہ اقبالؒ کی شہرہ آفاق نظم مسجدِ قرطبہ کا شعر ہے۔
یہ نظم مفتَعِلن فاعِلن مفتَعِلن فاعِلن بحر پر ہے۔ اور اس میں ہر فاعلن کی جگہ فاعلان (فاعلات) آ سکتا ہے۔
کسی کے لیے بھی ایسی کنفیوژن کی بنیادی وجہ لاعلمی ہوتی ہے۔البتہ مجھے یہ بات ضرور confuse کرتی رہے گی کہ مصرعے کے بیچ میں بھی فاعلان آ سکتا ہے؟ میں تو اسے اخیر سے منسوب سمجھتا رہا.