سعدیہ زندگی
محفلین
دعائیں میں نے تو مانگی تھی رت بدلنے کی
بہار کیا کرے جو خاک کا دھواں ہوں میں
بحر بتائیں
بہار کیا کرے جو خاک کا دھواں ہوں میں
بحر بتائیں
دعائیں میں نے تو مانگی تھی رت بدلنے کی
بہار کیا کرے جو خاک کا دھواں ہوں میں
بحر بتائیں
ہجر کے ماروں کی خوش فہمی، جاگ رہے ہیں پہروں سےجیسے یوں شب کٹ جائے گی، جیسے تم آ جاؤ گےبحر کیا ہو گیمزمل شیخ بسمل
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جزبہ بھی نہیں بدلا
تصویر نہیں بدلی شیشہ بھی نہیں بدلا
نظریں بھی سلامت ہیں چہرہ بھی نہیں بدلا
بحر بتائیے
مفعول مفاعیلن دو بارکشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
تصویر نہیں بدلی شیشہ بھی نہیں بدلا
نظریں بھی سلامت ہیں چہرہ بھی نہیں بدلا
بحر بتائیے
لباس بیچتا ہوں جا کہ پہلے اپنا ظفر
تو کچھ خرید کے بازار سے نکلتا ہوں
بحر پلیز
پہلا مصرعلباس بیچتا ہوں جا کہ پہلے اپنا ظفر
تو کچھ خرید کے بازار سے نکلتا ہوں
بحر پلیز
شکریہ مزمل بھائی
کیا اس بحر میں صرف آخری رکن فعلن کو "ف ع لن" یا " ف ع لان" یا " فع لا ن " کیا جا سکتا ہے یا کسی اور رکن میں بھی تبدیلی کی اجازت ہے جیسے ایک بحر میں فعلاتن کو مفعولن سے بدلا جا سکتا ہے
دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچانشاؔ جی کیا مال لیے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچپینا پلانا عین گُنہ ہے ، جی کا لگانا عین ہوسآپ کی باتیں سب سچی ہیں لیکن بھری بہار کے بیچ
مزمل بھائی اس لنک پہ یہ غزل پڑھی ہے میں نے
آخری مصرعہ یوں تقطیع نہیں ہو سکتا کیابھئی میں یہی کہوں گا کہ یہ آخری مصرع وزن سے خارج ہے۔ کسی مستند نسخے سے اس شعر کی تصدیق کی جائے تو ہی حقیقت معلوم ہوگی۔ اوپر کے تین مصرعوں کے ارکان ایسے ہونگے:
1۔فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فعل فعولُ فعول
2۔فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فعل فعول
3۔فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعل فعَل
یہ متقارب کا وزن ہے۔ بحر متقارب مثمن اثرم مقبوض محذوف ÷ مقصور۔
اکیلا وتد مجموع درمیان میں نہیں آسکتا۔آخری مصرعہ یوں تقطیع نہیں ہو سکتا کیا
آپ ک باتی/ سب سچ/ چی ہی / لیکن / بری / بہار / ک بیچ
فعل فعولن / فعلن / فعلن / فعلن / فعَل / فعول / فعول
فاعلتن فاعلتن فاعلن