جاسمن
لائبریرین
بحور سے آزاد نثری شاعری میں جزیرہ پڑھی تو چند کہانیوں کے خاکے ذہن میں بنے۔
" دھاڑ وے!"
حالانکہ نیو کیمپس سے اولڈ کیمپس کے راستے میں بس پہ سوار اظفرینہ کے منہ سے ظفگران نے خود اپنے واقعتاً گناہگار کانوں سے انتہائی سریلی "آؤؤؤچ " کئی بار سُنی تھی۔ لیکن وہ نظر انداز کر گیا اور اس کے ہاتھ سے بھٹہ پکڑ کے کھانے لگا۔
"تم کلاس نہیں لو گے؟"
"اور تم؟ تم بھی تو کلاس بنک کر کے یہاں اداس بلبل بنی بھٹہ کھا رہی ہو۔ "
"ظفگران! کچھ کرو۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔" اس نے ظفگران کے ہاتھ کو اپنے منہ کے قریب کر کے بھٹے میں دانت گاڑے۔
"ظفگران کی جان! اب تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ اپنے رافع بھائی نے محبت بھرے دلوں کے لیے اس ظالم سماج کی ساری دیواریں گرا دی ہیں۔ اب ہمارے راستے میں کوئی دیوار نہیں ہے۔ سامنے کہکشاں ہی کہکشاں ہے۔ آؤ میرے ہاتھ میں ہاتھ دو۔ " ظفگران نے بائیں ہاتھ سے بھٹہ دائیں ہاتھ میں منتقل کیا اور اظفرینہ کا دایاں ہاتھ تھام لیا۔
"تم مجھے قبول ہو۔" اس نے ایک جذب کے عالم میں کہا۔
"اب تم بھی یہی جملہ دہراؤ۔ اور تین بار دہرانے کی بھی ضرورت نہیں۔ رب نے محبت ارزاں کر دی ہے جانم!"
"مجھے تم قبول ہو ظفگران!" اظفرینہ نے اس کے کندھے پہ سر رکھ دیا۔
بس اب اسی لمحے سے ہم ایک ہو گئے میری ہمدم! اب ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکے گا۔ آؤ میرے ساتھ۔" ظفگران نے اٹھ کے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اظفرینہ اس کا ہاتھ تھام کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں ظفگران کی موٹر سائیکل کی اور جانے لگے۔
۔۔۔
ا چھرہ کے اس رش بھرے بازار کو دسمبر کے آخری ہفتے کے سورج کی اداس کرنیں تک رہی تھیں۔ ظفگران، اظفرینہ کے ساتھ تھوڑا تیز قدموں سے چلتے چلتے اچھرہ کے پُل کے پاس ٹھہرا۔ یہ لو تین سو روپے۔" اس نے اظفرینہ کے ہاتھ میں پیسے رکھے۔
"ادھر آسانی سے رکشہ مل جاتا ہے۔" وہ ایک لمحے کے لیے ٹھہرا۔
"میں نے تمہیں طلاق دی۔"
"کل کلاس میں ملیں گے۔ گڈ بائے!"
۔۔۔
دوسری کہانی:
بے ریا بے حد خوبصورت تھی۔ اس کے بھائی کا دوست ریاکار یونہی تو اس پہ نہیں مرتا تھا۔ بڑی ترکیب سے بے ریا کا نمبر حاصل کر کے اسے اپنی محبت کا یقین دلانے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن نہ صرف ان کی شادی ناممکن تھی بلکہ وہ آزادانہ مل بھی نہیں سکتے تھے۔ بے ریا کے گھر والے بہت روایتی سوچ کے حامل تھے۔ وہ اپنی ذات کے باہر بیٹی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔بے ریا کے بھائی کو ان کی محبت کا پتہ چلتا تو وہ دونوں کو گولی سے اڑا دیتا۔
بے ریا سوچ سوچ کے ذہنی طور پہ بیمار ہو چکی تھی کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن اسے کوئی حل نہیں سوجھ رہا تھا۔
"یہ ظالم سماج ہمیشہ دو محبت کرنے والوں کے بیچ یونہی دیوارِ چین بن کے کھڑا ہو جاتا ہے۔" وٹزایپ پہ ریاکار کے ساتھ چیٹنگ کرتے وہ بے حد اداس تھی۔
"دیکھو میری پہلی اور آخری محبت! آج اردو محفل میں رافع بھائی نے بتایا ہے کہ محبت تو بہت ارزاں ہے۔"
"اچھاااااا!وہ کیسے؟" بے ریا کے لہجے میں اشتیاق تھا۔
ریاکار نے آڈیو کا سہارا لیا۔
"جیسے میں بولوں، تم بھی ویسے ہی کہو۔" ریاکار کا لہجہ ریاکاری کے شہد میں لتھڑا ہوا تھا۔
"مجھے تم قبول ہو۔" ریاکار نے پہلے سے بھی زیادہ جذب سے کہا۔
"تم مجھے قبول ہو" بے ریا نے آنکھیں بند کر لیں۔
"ہم ایک تو ہو گئے ہیں لیکن ملیں گے کیسے؟" ریاکار کے لہجے میں اداسی کے رنگ تھے۔
"میں اپنی بچپن کی سہیلی سے ملنے جاتی رہتی ہوں۔ اسے اعتماد میں لے لوں گی۔ وہ بھی ہماری طرح کسی سے محبت کرتی ہے۔ بلکہ اسے بھی نکاح کی یہ ارزاں ترکیب بتاؤں گی۔ بس اس کے گھر جانے کے بہانے تم سے مل لیا کروں گی۔" شیطان خوشی سے جھوم اٹھا۔
"لیکن ریاکار! وہ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ پھر ہم کب تک ایسے ملیں گے؟" بے ریا تھوڑا فکرمند تھی۔
"ہیریے! فکر ناٹ! میں ہوں ناں! کوئی ترکیب نکال لوں گا۔ مجھے بہت اچھی نوکری مل جائے گی۔ میری نوکری اور سٹیٹس کو دیکھ کے تمہارا بھائی متاثر ہو جائے گا اور وہ تمہارے والدین کو منا لے گا۔ بس پھر ہم دونوں اپنے پیارے سے گھر میں اکٹھے رہیں گے ہمیشہ۔ ہمارے پیارے پیارے بچے ہوں گے۔ " شہد اس کے لہجے سے ہوتا ہوا بے ریا کے ذہن تک جا رہا تھا۔
"آپ بھی ناں!!!" وہ شرما گئی۔
"لیکن ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ۔۔۔ بچے۔۔ پہلے نہیں۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔۔" وہ اٹک رہی تھی۔
"فکر ناٹ!پاپولیشن پلاننگ نے محبت ارزاں کر دی ہے جانم! جب تک تمہارے گھر والے نہ مان جائیں۔ یہ فکر ہی نہ پالنا۔" ریاکار مسکرایا۔ شیطان نے دونوں کے ذہنوں میں کئی طرح کے طریقے ڈال دیے۔
۔۔۔
"تم میرے میسیج کا جواب کیوں نہیں دیتے ریاکار؟ میں نے اس فلیٹ کے دو چکر لگائے لیکن وہاں تالا لگا ہوا ہے۔ " بے ریا نے پریشانی میں ریاکار کو وٹزایپ پہ پوچھا۔
"میری طرف سے تمہیں طلاق ہے بے ریا! بہتر ہے کہ اپنے تایا زاد سے شادی کر لو۔وہ فلیٹ کسی کا تھا۔ میں آج رات کی فلائٹ سے باہر جا رہا ہوں۔ بیسٹ وشز۔"
۔۔۔۔
تیسری کہانی:
"تائی جان کی وفات کے بعد گھر کتنا سُونا ہو گیا ہے۔" نادان کے لہجے میں اداسی تھی۔
"ہاں! امی سے ہی رونق تھی گھر کی۔بابا تو نیند کی گولی لے کے جو سوتے ہیں، صبح ہی اٹھتے ہیں پھر۔ ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں۔ انھیں اپنے غم کی پرواہ ہے۔ میں اس گھر میں اکیلی ہوں اس وقت۔ ان کا ہونا، نہ ہونا برابر ہے" سجاوٹ نے بھی اداسی سے کہا۔
"سجاوٹ! تائی جی کے جانے سے ہماری شادی پھر دوری پہ جا پڑی ہے۔ تایا جان مجھے پسند نہیں کرتے۔ میں کب تک انتظار کروں؟ ہم کیسے اور کب ایک ہوں گے؟ " نادان نے مایوسی سے کہا۔
"یہ دیکھیں نادان!" سجاوٹ نے اردو محفل کی ایک لڑی کھول کے دکھائی۔ یہ پڑھیں رافع بھائی کی بات۔"
دونوں نے موبائل پہ سر جھکا کے نظم کا وہ بند پڑھا جس میں محبت کے ارزاں ہونے کی بدخبری تھی۔
"ارے!!! اس قدر آسان!!" نادان کی خوشی سے بھری آواز کمرے میں گونجی۔
"ہاں ناں!یہ ظالم سماج نے نکاح کو کس قدر مشکل بنا دیا ہے۔ محبت بھرے دلوں کو یہ ایک ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن ہمیں بھی راستہ مل گیا ہے نادان! آؤ ایک ہو جائیں۔" سجاوٹ کا لہجہ جذبات کی آنچ سے جل رہا تھا۔
"مجھے تم قبول ہو۔" نادان نے پہل کی۔
"مجھے تم قبول ہو۔" سجاوٹ نے شرماتے ہوئے دہرایا۔
"لیکن میرے پاس تو مہر میں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔" نادان گھبرایا۔
"تم بھول گئے؟ یہ نکاح مہر کی بحور سے بھی آزاد ہے۔" سجاوٹ کے لہجے میں شوخی تھی۔
ابلیس کو اب کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے اور بہتیرے کام کرنے تھے۔
۔۔۔
"سجاوٹ! تایا جی تمہاری شادی کہیں اور کیسے کر سکتے ہیں؟ تم میری بیوی ہو۔ ہمارے نکاح کو دو ماہ ہو چکے ہیں۔" نادان بوکھلایا ہوا تھا۔
"میں نے تمہیں طلاق دی" سجاوٹ نے بیزاری بھرے لہجے میں کہا۔
"لیکن ایسے کیسے طلاق ہو سکتی ہے؟" وہ مزید بوکھلایا۔
"جیسے نکاح ارزاں ہے میرے چچازاد، ویسے ہی طلاق بھی ارزاں ہے۔"
بحور سے آزاد نکاح و طلاق
پہلی کہانی:
ظفگران سبک خرامی سے ڈیپارٹمنٹ کی اور جا رہا تھا کہ اسے نہر کنارے اظفرینہ دکھائی دی۔ وہ سامنے چمکتے سورج کو اپنی مُندی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ دسمبر کا سورج تھا، سو خود کو دیکھتے رہنے کی اجازت دے رہا تھا۔ اظفرینہ کے دائیں ہاتھ میں بھٹہ تھا، جس کے اوپر لگے ریشے میں سے ایک اس کے نازک ہونٹوں پہ چپک گیا تھا۔ ظفگران نے جونہی اظفرینہ کو نہر کنارے اس قدر آرام سے بیٹھے دیکھا تو دھڑام سے اس کے نزدیک آ کے بیٹھ گیا کہ اظفرینہ کے حلق سے ایک خوفناک سی چیخ نکلی۔" دھاڑ وے!"
حالانکہ نیو کیمپس سے اولڈ کیمپس کے راستے میں بس پہ سوار اظفرینہ کے منہ سے ظفگران نے خود اپنے واقعتاً گناہگار کانوں سے انتہائی سریلی "آؤؤؤچ " کئی بار سُنی تھی۔ لیکن وہ نظر انداز کر گیا اور اس کے ہاتھ سے بھٹہ پکڑ کے کھانے لگا۔
"تم کلاس نہیں لو گے؟"
"اور تم؟ تم بھی تو کلاس بنک کر کے یہاں اداس بلبل بنی بھٹہ کھا رہی ہو۔ "
"ظفگران! کچھ کرو۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔" اس نے ظفگران کے ہاتھ کو اپنے منہ کے قریب کر کے بھٹے میں دانت گاڑے۔
"ظفگران کی جان! اب تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ اپنے رافع بھائی نے محبت بھرے دلوں کے لیے اس ظالم سماج کی ساری دیواریں گرا دی ہیں۔ اب ہمارے راستے میں کوئی دیوار نہیں ہے۔ سامنے کہکشاں ہی کہکشاں ہے۔ آؤ میرے ہاتھ میں ہاتھ دو۔ " ظفگران نے بائیں ہاتھ سے بھٹہ دائیں ہاتھ میں منتقل کیا اور اظفرینہ کا دایاں ہاتھ تھام لیا۔
"تم مجھے قبول ہو۔" اس نے ایک جذب کے عالم میں کہا۔
"اب تم بھی یہی جملہ دہراؤ۔ اور تین بار دہرانے کی بھی ضرورت نہیں۔ رب نے محبت ارزاں کر دی ہے جانم!"
"مجھے تم قبول ہو ظفگران!" اظفرینہ نے اس کے کندھے پہ سر رکھ دیا۔
بس اب اسی لمحے سے ہم ایک ہو گئے میری ہمدم! اب ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکے گا۔ آؤ میرے ساتھ۔" ظفگران نے اٹھ کے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اظفرینہ اس کا ہاتھ تھام کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں ظفگران کی موٹر سائیکل کی اور جانے لگے۔
۔۔۔
ا چھرہ کے اس رش بھرے بازار کو دسمبر کے آخری ہفتے کے سورج کی اداس کرنیں تک رہی تھیں۔ ظفگران، اظفرینہ کے ساتھ تھوڑا تیز قدموں سے چلتے چلتے اچھرہ کے پُل کے پاس ٹھہرا۔ یہ لو تین سو روپے۔" اس نے اظفرینہ کے ہاتھ میں پیسے رکھے۔
"ادھر آسانی سے رکشہ مل جاتا ہے۔" وہ ایک لمحے کے لیے ٹھہرا۔
"میں نے تمہیں طلاق دی۔"
"کل کلاس میں ملیں گے۔ گڈ بائے!"
۔۔۔
دوسری کہانی:
بے ریا بے حد خوبصورت تھی۔ اس کے بھائی کا دوست ریاکار یونہی تو اس پہ نہیں مرتا تھا۔ بڑی ترکیب سے بے ریا کا نمبر حاصل کر کے اسے اپنی محبت کا یقین دلانے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن نہ صرف ان کی شادی ناممکن تھی بلکہ وہ آزادانہ مل بھی نہیں سکتے تھے۔ بے ریا کے گھر والے بہت روایتی سوچ کے حامل تھے۔ وہ اپنی ذات کے باہر بیٹی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔بے ریا کے بھائی کو ان کی محبت کا پتہ چلتا تو وہ دونوں کو گولی سے اڑا دیتا۔
بے ریا سوچ سوچ کے ذہنی طور پہ بیمار ہو چکی تھی کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن اسے کوئی حل نہیں سوجھ رہا تھا۔
"یہ ظالم سماج ہمیشہ دو محبت کرنے والوں کے بیچ یونہی دیوارِ چین بن کے کھڑا ہو جاتا ہے۔" وٹزایپ پہ ریاکار کے ساتھ چیٹنگ کرتے وہ بے حد اداس تھی۔
"دیکھو میری پہلی اور آخری محبت! آج اردو محفل میں رافع بھائی نے بتایا ہے کہ محبت تو بہت ارزاں ہے۔"
"اچھاااااا!وہ کیسے؟" بے ریا کے لہجے میں اشتیاق تھا۔
ریاکار نے آڈیو کا سہارا لیا۔
"جیسے میں بولوں، تم بھی ویسے ہی کہو۔" ریاکار کا لہجہ ریاکاری کے شہد میں لتھڑا ہوا تھا۔
"مجھے تم قبول ہو۔" ریاکار نے پہلے سے بھی زیادہ جذب سے کہا۔
"تم مجھے قبول ہو" بے ریا نے آنکھیں بند کر لیں۔
"ہم ایک تو ہو گئے ہیں لیکن ملیں گے کیسے؟" ریاکار کے لہجے میں اداسی کے رنگ تھے۔
"میں اپنی بچپن کی سہیلی سے ملنے جاتی رہتی ہوں۔ اسے اعتماد میں لے لوں گی۔ وہ بھی ہماری طرح کسی سے محبت کرتی ہے۔ بلکہ اسے بھی نکاح کی یہ ارزاں ترکیب بتاؤں گی۔ بس اس کے گھر جانے کے بہانے تم سے مل لیا کروں گی۔" شیطان خوشی سے جھوم اٹھا۔
"لیکن ریاکار! وہ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ پھر ہم کب تک ایسے ملیں گے؟" بے ریا تھوڑا فکرمند تھی۔
"ہیریے! فکر ناٹ! میں ہوں ناں! کوئی ترکیب نکال لوں گا۔ مجھے بہت اچھی نوکری مل جائے گی۔ میری نوکری اور سٹیٹس کو دیکھ کے تمہارا بھائی متاثر ہو جائے گا اور وہ تمہارے والدین کو منا لے گا۔ بس پھر ہم دونوں اپنے پیارے سے گھر میں اکٹھے رہیں گے ہمیشہ۔ ہمارے پیارے پیارے بچے ہوں گے۔ " شہد اس کے لہجے سے ہوتا ہوا بے ریا کے ذہن تک جا رہا تھا۔
"آپ بھی ناں!!!" وہ شرما گئی۔
"لیکن ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ۔۔۔ بچے۔۔ پہلے نہیں۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔۔" وہ اٹک رہی تھی۔
"فکر ناٹ!پاپولیشن پلاننگ نے محبت ارزاں کر دی ہے جانم! جب تک تمہارے گھر والے نہ مان جائیں۔ یہ فکر ہی نہ پالنا۔" ریاکار مسکرایا۔ شیطان نے دونوں کے ذہنوں میں کئی طرح کے طریقے ڈال دیے۔
۔۔۔
"تم میرے میسیج کا جواب کیوں نہیں دیتے ریاکار؟ میں نے اس فلیٹ کے دو چکر لگائے لیکن وہاں تالا لگا ہوا ہے۔ " بے ریا نے پریشانی میں ریاکار کو وٹزایپ پہ پوچھا۔
"میری طرف سے تمہیں طلاق ہے بے ریا! بہتر ہے کہ اپنے تایا زاد سے شادی کر لو۔وہ فلیٹ کسی کا تھا۔ میں آج رات کی فلائٹ سے باہر جا رہا ہوں۔ بیسٹ وشز۔"
۔۔۔۔
تیسری کہانی:
"تائی جان کی وفات کے بعد گھر کتنا سُونا ہو گیا ہے۔" نادان کے لہجے میں اداسی تھی۔
"ہاں! امی سے ہی رونق تھی گھر کی۔بابا تو نیند کی گولی لے کے جو سوتے ہیں، صبح ہی اٹھتے ہیں پھر۔ ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں۔ انھیں اپنے غم کی پرواہ ہے۔ میں اس گھر میں اکیلی ہوں اس وقت۔ ان کا ہونا، نہ ہونا برابر ہے" سجاوٹ نے بھی اداسی سے کہا۔
"سجاوٹ! تائی جی کے جانے سے ہماری شادی پھر دوری پہ جا پڑی ہے۔ تایا جان مجھے پسند نہیں کرتے۔ میں کب تک انتظار کروں؟ ہم کیسے اور کب ایک ہوں گے؟ " نادان نے مایوسی سے کہا۔
"یہ دیکھیں نادان!" سجاوٹ نے اردو محفل کی ایک لڑی کھول کے دکھائی۔ یہ پڑھیں رافع بھائی کی بات۔"
دونوں نے موبائل پہ سر جھکا کے نظم کا وہ بند پڑھا جس میں محبت کے ارزاں ہونے کی بدخبری تھی۔
"ارے!!! اس قدر آسان!!" نادان کی خوشی سے بھری آواز کمرے میں گونجی۔
"ہاں ناں!یہ ظالم سماج نے نکاح کو کس قدر مشکل بنا دیا ہے۔ محبت بھرے دلوں کو یہ ایک ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن ہمیں بھی راستہ مل گیا ہے نادان! آؤ ایک ہو جائیں۔" سجاوٹ کا لہجہ جذبات کی آنچ سے جل رہا تھا۔
"مجھے تم قبول ہو۔" نادان نے پہل کی۔
"مجھے تم قبول ہو۔" سجاوٹ نے شرماتے ہوئے دہرایا۔
"لیکن میرے پاس تو مہر میں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔" نادان گھبرایا۔
"تم بھول گئے؟ یہ نکاح مہر کی بحور سے بھی آزاد ہے۔" سجاوٹ کے لہجے میں شوخی تھی۔
ابلیس کو اب کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے اور بہتیرے کام کرنے تھے۔
۔۔۔
"سجاوٹ! تایا جی تمہاری شادی کہیں اور کیسے کر سکتے ہیں؟ تم میری بیوی ہو۔ ہمارے نکاح کو دو ماہ ہو چکے ہیں۔" نادان بوکھلایا ہوا تھا۔
"میں نے تمہیں طلاق دی" سجاوٹ نے بیزاری بھرے لہجے میں کہا۔
"لیکن ایسے کیسے طلاق ہو سکتی ہے؟" وہ مزید بوکھلایا۔
"جیسے نکاح ارزاں ہے میرے چچازاد، ویسے ہی طلاق بھی ارزاں ہے۔"
آخری تدوین: