بحور سے آزاد نکاح و طلاق

قرآن میں طلاق کے دو گواہوں کا حکم ہے، نکاح کے نہیں۔

وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ
"اور تم اپنے میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ بنا لو۔"
(سورۃ الطلاق: 2)

قرآن میں لفظ نکح کا مادہ 23 بار استعمال ہوا ہے اور ایک بار بھی گواہ کا ذکر موجود نہیں۔
 

اربش علی

محفلین
قرآن میں طلاق کے دو گواہوں کا حکم ہے، نکاح کے نہیں۔

وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ
"اور تم اپنے میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ بنا لو۔"
(سورۃ الطلاق: 2)

قرآن میں لفظ نکح کا مادہ 23 بار استعمال ہوا ہے اور ایک بار بھی گواہ کا ذکر موجود نہیں۔
سنت اور روایات کا کیا ہو گا؟
اور ہو سکے تو یہ پڑھیں، اگر قرآن ہی سے بتانا ہے۔

جاوید احمد غامدی صاحب کی کتاب "میزان" سے چند اقتباسات:

نکاح

وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآءِکُمْ ، اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ، وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ. وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ . (النور ۲۴: ۳۲۔۳۳)

’’(اِسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ) تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اُن کے نکاح کر دو اور اپنے اُن غلاموں او رلونڈیوں کے بھی جو اِس کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو اللہ اُن کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا ہے، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں، اُنھیں چاہیے کہ اپنے آپ کو ضبط میں رکھیں، یہاں تک کہ اللہ اُن کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔ ‘‘

اِن آیات میں یہ بات پوری قطعیت کے ساتھ واضح کی گئی ہے کہ عورتوں سے جنسی تسکین حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے ، اور وہ نکاح ہے ۔ اِس کی مقدرت نہ ہو تو یہ چیز بدکاری کے جواز کے لیے عذر نہیں بن سکتی۔ چنانچہ لوگوں کو تلقین کی گئی ہے کہ اُن میں سے جو بن بیاہے رہ گئے ہوں ، اُن کے نکاح کرائیں ۔ علانیہ ایجاب و قبول کے ساتھ یہ مردو عورت کے درمیان مستقل رفاقت کا عہد ہے جو لوگوں کے سامنے اور کسی ذمہ دار شخصیت کی طرف سے اِس موقع پر تذکیر و نصیحت کے بعد پورے اہتمام اور سنجیدگی کے ساتھ باندھا جاتا ہے ۔ الہامی صحیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی آدم میں یہ طریقہ اُن کی پیدایش کے پہلے دن ہی سے جاری کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ قرآن نازل ہوا تو اِس کے لیے کوئی نیا حکم دینے کی ضرورت نہ تھی ۔ ایک قدیم سنت کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کو اپنی امت میں اِسی طرح باقی رکھا ہے۔ یہاں اِس کی ترغیب کے ساتھ لوگوں کو مزید یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ اگر غریب بھی ہوں تو اخلاقی مفاسد سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے نکاح کریں ۔ اللہ نے چاہا تو یہی چیز اُن کے لیے رزق و فضل میں اضافے کا باعث بن جائے گی۔

استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے :

’’...آدمی جب تک بیوی سے محروم رہتا ہے ، وہ کچھ خانہ بدوش سا بنا رہتا ہے اوراُس کی بہت سی صلاحیتیں سکڑی اور دبی ہوئی رہتی ہیں ۔ اِسی طرح عورت جب تک شوہر سے محروم رہتی ہے ، اُس کی حیثیت بھی اُس بیل کی ہوتی ہے جو سہارا نہ ملنے کے باعث پھیلنے اور پھولنے پھلنے سے محروم ہو ۔ لیکن جب عورت کو شوہر مل جاتا ہے اور مرد کو بیوی کی رفاقت حاصل ہو جاتی ہے تو دونوں کی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور زندگی کے میدان میں جب وہ دونوں مل کر جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی جدوجہد میں برکت دیتا ہے اور اُن کے حالات بالکل بدل جاتے ہیں۔‘‘(تدبر قرآن ۵/ ۴۰۰)



اِسی طرح یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ نکاح خاندان کے جس ادارے کو وجود میں لانے کے لیے کیا جاتا ہے ، اُس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ یہ والدین اور سرپرستوں کو ساتھ لے کر اور اُن کی رضا مندی سے کیا جائے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ نکاح میں فیصلہ اصلاً مردو عورت کرتے ہیں اور اُن کے علانیہ ایجاب و قبول سے یہ منعقد ہو جاتا ہے ، لیکن اولیا کا اذن اگر اُس میں شامل نہیں ہے تو اِس کی کوئی معقول وجہ لازماً سامنے آنی چاہیے ۔ یہ نہ ہو تو معاشرے کا نظم اجتماعی یہ حق رکھتا ہے کہ اِس طرح کا نکاح نہ ہونے دے ۔ ’لا نکاح إلا بولي‘ (سرپرست کے بغیر کوئی نکاح نہیں) اور اِس طرح کی دوسری روایتوں میں یہی بات بیان ہوئی ہے ۔ عورت کی بغاوت چونکہ اِس معاملے میں خاندان کے لیے غیر معمولی اختلال کا باعث بن جاتی ہے ، اِس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے اولیا پر واضح کر دیا ہے کہ اُس کے بارے میں وہ کوئی فیصلہ اُس کی اجازت کے بغیر نہ کریں ، ورنہ عورت چاہے گی تو اُن کا یہ فیصلہ رد کر دیا جائے گا ۔
ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیوہ کا نکاح اُس سے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کی اجازت ضروری ہے ۔ لوگوں نے پوچھا : اُس کی اجازت کیسے ہو ؟ آپ نے فرمایا: وہ خاموش رہے تو یہی اجازت ہے ۔

ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : بیوہ اپنا فیصلہ خود کر سکتی ہے اور کنواری سے اجازت لینی چاہیے ۔

بنت خذام کے بارے میں روایت ہے کہ وہ بیوہ ہوئیں تو اُن کے والد نے اُن کا نکاح کر دیا۔ اُنھیں یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ چنانچہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ نے اُنھیں نکاح ختم کرنے کی اجازت دے دی۔



طلاق

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ. لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْم بُیُوْتِھِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ. وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ.لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا. فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ. ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ. وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہٗ، اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ، قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْ ءٍ قَدْرًا. وَالّآءِیْ یَءِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآءِکُمْ، اِنِ ارْتَبْتُمْ، فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْھُرٍ وَّالّآءِیْ لَمْ یَحِضْنَ، وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ، وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا. ذٰلِکَ اَمْرُ اللّٰہِ اَنْزَلَہٗٓ اِلَیْکُمْ، وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٓٗ اَجْرًا. اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ وَلاَ تُضَآرُّوْھُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْھِنَّ، وَاِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ. فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ، وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰی، لِیُنْفِقْ ذُوْسَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآاٰتٰہُ اللّٰہُ، لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰھَا، سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا.(الطلاق ۶۵: ۱۔۷)

’’اے نبی، تم لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دو تواُن کی عدت کے حساب سے طلاق دو، اور عدت کا زمانہ ٹھیک ٹھیک شمار کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمھارا پروردگار ہے۔ (زمانۂ عدت میں) نہ تم اُنھیں اُن کے گھروں سے نکالو، نہ وہ خود نکلیں، الاّ یہ کہ وہ کسی صریح بے حیائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کریں گے، وہ یاد رکھیں کہ اُنھوں نے اپنی ہی جان پر ظلم ڈھایا ہے۔ تم نہیں جانتے، شاید اللہ اِس کے بعد کوئی اور صورت پیدا کر دے۔(اِسی طرح طلاق دو)،پھر جب وہ اپنی عدت کے خاتمے پر پہنچ جائیں تو اُنھیں بھلے طریقے سے نکاح میں رکھو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ اور(نباہ کا ارادہ ہو یا جدائی کا، دونوں صورتوں میں) دو ثقہ آدمیوں کو اپنے میں سے گواہ بنا لو، اور (گواہوں کے لیے اللہ کا حکم ہے کہ گواہی دینے والو)، تم اِس گواہی کو اللہ کے لیے قائم رکھو۔ یہ بات ہے جس کی نصیحت (تم میں سے) اُن لوگوں کو کی جاتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جو لوگ اللہ سے ڈریں گے، (اُنھیں کوئی مشکل پیش آئی) تو اللہ اُن کے لیے نکلنے کا راستہ پیدا کر ے گا اور اُنھیں وہاں سے رزق دے گا، جدھر اُن کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ اور جو اللہ پر بھروسا کریں گے، وہ اُن (کی دست گیری) کے لیے کافی ہے۔ بے شک، اللہ اپنے ارادے پورے کرکے رہتا ہے۔ (ہاں، یہ ضرور ہے کہ) اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں، اور وہ بھی جنھیں (حیض کی عمر کو پہنچنے کے باوجود) حیض نہیں آیا، اُن کے بارے میں اگر کوئی شک ہے تو اُن کی عدت تین مہینے ہو گی۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ حمل سے فارغ ہو جائیں۔ (یہ اللہ کی ہدایات ہیں، اِن کی پیروی کرو) اور(یاد رکھو کہ) جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اُس کے لیے اُس کے معاملے میں سہولت پیدا کر دے گا۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو اُس نے تمھاری طرف نازل کیا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اُس کے گناہ اُس سے دور کرے گا اور اُس (کی نیکیوں) کا اجر بڑھا دے گا۔(زمانۂ عدت میں) اِن عورتوں کو وہیں رکھو، جہاں اپنی حیثیت کے مطابق تم رہتے ہواور اُن کو تنگ کرنے کے لیے ستاؤ نہیں۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو، جب تک وہ حمل سے فارغ نہ ہو جائیں۔ پھر اگر وہ (تمھارے بچے کو) تمھارے لیے دودھ پلائیں تو اُن کا معاوضہ اُنھیں دو اور یہ معاملہ دستور کے مطابق باہمی مشورے سے طے کرلو۔ اور اگر تم کوئی زحمت محسوس کرو تو بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلا لے گی۔ (تم میں سے) جو خوش حال ہو، وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس کو نپا تلا ہی ملا ہے، وہ اُسی میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اُسے دیا ہے۔ اللہ نے جس کو جتنا دیا ہے، اُس سے زیادہ کا وہ اُس پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ (تم مطمئن رہو)، اللہ تنگ دستی کے بعد جلد کشادگی بھی عطا فرمائے گا۔ ‘‘

میاں بیوی میں نباہ نہ ہو سکے تو انبیا علیہم السلام کے دین میں علیحدگی کی گنجایش ہمیشہ رہی ہے ۔ اصطلاح میں اِسے ’طلاق‘ کہا جاتا ہے ۔ دین ابراہیمی کی روایات کے تحت عرب جاہلیت بھی اِس سے پوری طرح واقف تھے ۔ بعض بدعات اور انحرافات تو یقیناًراہ پا گئے تھے ، لیکن اُن کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کا قانون اُن کے ہاں بھی کم و بیش وہی تھا جواب اسلام میں ہے ۔ سورۃ طلاق کی اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے چند ترامیم اور اضافوں کے ساتھ اِسی قانون کی تجدید فرمائی ہے ۔ اِس کی بعض تفصیلات بقرہ و احزاب میں بھی بیان ہوئی ہیں، لیکن غور کیجیے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ اِس میں اصل کی حیثیت سورۂ طلاق کی اِن آیات ہی کو حاصل ہے۔



استاذ امام لکھتے ہیں :

’’اصل یہ ہے کہ لفظ ’نکاح‘ شریعت اسلامی کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کا اطلاق ایک عورت اور مرد کے اُس ازدواجی معاہدے پر ہوتا ہے جو زندگی بھر کے نباہ کے ارادے کے ساتھ زن و شو کی زندگی گزارنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ اگر یہ ارادہ کسی نکاح کے اندر نہیں پایا جاتا تو وہ فی الحقیقت نکاح ہی نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک سازش ہے جو ایک عورت اور ایک مرد نے باہم مل کر کر لی ہے ۔ نکاح کے ساتھ شریعت نے طلاق کی جو گنجایش رکھی ہے تو وہ اصل اسکیم کا کوئی جزو نہیں ہے ، بلکہ یہ کسی ناگہانی افتاد کے پیش آ جانے کا ایک مجبورانہ مداوا ہے ۔ اِس وجہ سے نکاح کی اصل فطرت یہی ہے کہ وہ زندگی بھر کے سنجوگ کے ارادے کے ساتھ عمل میں آئے ۔ اگر کوئی نکاح واضح طور پر محض ایک معین و مخصوص مدت تک ہی کے لیے ہو تو اُس کو متعہ کہتے ہیں او رمتعہ اسلام میں قطعی حرام ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص اِس نیت سے کسی عورت سے نکاح کرے کہ اِس نکاح کے بعد طلاق دے کر وہ اِس عورت کو اُس کے پہلے شوہر کے لیے جائز ہونے کا حیلہ فراہم کرے تو شریعت کی اصطلاح میں یہ حلالہ ہے اور یہ بھی اسلام میں متعہ ہی کی طرح حرام ہے ۔ جو شخص کسی کی مقصد بر آری کے لیے یہ ذلیل کام کرتا ہے ، وہ درحقیقت ایک قرم ساق یا بھڑوے یا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، ’کرایے کے سانڈ‘ کا رول ادا کرتا ہے اور ایسا کرنے والے اور ایسا کروانے والے پر اللہ کی لعنت ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۳۷)



شوہر طلاق دے یا رجوع کرے ، دونوں ہی صورتوں میں فرمایا ہے کہ اپنے اِس فیصلے پر وہ دو ثقہ مسلمانوں کو گواہ بنا لے اور گواہوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے لیے اپنی اِس گواہی پر قائم رہیں ۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ فریقین میں سے کوئی بعد میں کسی بات کا انکار نہ کرے اور اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو اُس کا فیصلہ آسانی کے ساتھ ہو جائے ۔ مزید یہ کہ اِس معاملے میں کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں اور لوگوں کے لیے ہر چیز بالکل واضح اور متعین رہے ۔

مزید:
میزان


نکاح کا علانیہ ہونا مسلّم بات ہے، جسے اوپر بھی ثابت کیا جا چکا۔ ایک روایت بھی پیش کر رہا ہوں:

سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم

کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
6. باب مَا جَاءَ فِي إِعْلاَنِ النِّكَاحِ
باب: نکاح کے اعلان کا بیان۔
حدیث نمبر: 1088
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَلْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ الْجُمَحِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَرَامِ وَالْحَلَالِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَالرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو بَلْجٍ اسْمُهُ: يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ وَيُقَالُ: ابْنُ سُلَيْمٍ أَيْضًا، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاطِبٍ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ غُلَامٌ صَغِيرٌ.
محمد بن حاطب جمحی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرام اور حلال (نکاح) کے درمیان فرق صرف دف بجانے اور اعلان کرنے کا ہے“

امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- محمد بن حاطب کی حدیث حسن ہے،
۲- محمد بن حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، لیکن وہ کم سن بچے تھے،
۳- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا، جابر اور ربیع بنت معوذ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/النکاح 72 (3372)، سنن ابن ماجہ/النکاح 20 (1896)، (تحفة الأشراف: 11221)، مسند احمد ( 3/418 ) (حسن)»

وضاحت: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح اعلانیہ کیا جانا چاہیے، خفیہ طور پر چوری چھپے نہیں، اس لیے کہ اعلانیہ نکاح کرنے پر کسی کو میاں بیوی کے تعلقات پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔ عموماً یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ غلط نکاح ہی چھپ کر کیا جاتا ہے۔



امید ہے آپ پر بات واضح ہو گئی ہو گی کہ محض لڑکا اور لڑکی کے خفیہ ایجاب و قبول سے نکاح نہیں ہوتا۔
والسلام۔
 

اربش علی

محفلین
جی آپ کی دعا قبول نہ ہو سکے گی۔
نکاح تو خیر بغیر گواہ کے ہو جاتا ہے لیکن طلاق کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہے۔ اس کو الٹا کر دیا گیا ہے، سو یہ ہوا۔
آپ کی یہ بات خود آپ کے "آسان نکاح" کوباطل کرتی ہے۔ قرآن کے تحت آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ طلاق پر دو گواہوں کی ضرورت ہے۔ مگر جب آپ کے نزدیک نکاح پر گواہ ہی نہیں، نہ وہ علانیہ ہے، تو اس خفیہ ایجاب و قبول کے دعوے پر جو طلاق دی جا رہی ہے، اس پر دو گواہ کیوں ہیں؟ جب کہ اس نکاح کا کوئی ثبوت اور گواہ ہی موجود نہیں، تو کسی کو کیا معلوم کہ نکاح ہوا بھی یا نہیں۔جو نکاح علانیہ نہیں، اس کی طلاق کیوں علانیہ ہے؟

یوں تو مرد اور عورت زنا کے مرتکب ہوں، اور دعویٰ کر دیں کہ انھوں نے ایجاب و قبول کر کے نکاح کر لیا ہے، تو آپ کے مطابق تو وہ دعویٰ تسلیم کر لیا جائے گا، اور وہ اس گناہ پر گرفت سے "آسانی" سے بچ جائیں گے۔پھر وہ اس جھوٹے نکاح کے دعوے کےتحت طلاق سے علاحدہ ہو جائیں، اور کسی اور کے ساتھ گناہ کا یہ سلسلہ چلتا رہے ۔حقیقیت یہی ہے کہ آپ کا یہ نقطۂ نظر نکاح کی آسانی نہیں ہے، بلکہ زنا کو آسان کر رہا ہے۔ اور پورے عائلی اور معاشرتی نظام کی بنیادیں گرا رہا ہے۔
 
آخری تدوین:
یہ صاحب ایک صوفی گھرانے سے تھے۔ وہاں کے بے جاء تشدد سے اس قدر بے زار ہوئے کہ ملحد ہونے والے تھے۔ ایسے میں مودودی و امین اصلاحی جیسے فلسفیوں نے انکو سہارا دیا۔ سو یہ کل کا کل فلسفہ ہیں۔ ان کو چھوڑیں اور آل محمد ص کے خوش رنگ دین اور خوشمنا اخلاص میں پناہ لیں۔
 
حرام اور حلال (نکاح) کے درمیان فرق صرف دف بجانے اور اعلان کرنے کا ہے
اس سے کہاں معلوم ہوا کہ دو گواہ نکاح کے لیے چاہیں؟

سنت اور روایات کا کیا ہو گا؟
جی پہلے یہ سوچیں قرآن نے طلاق کے دو گواہ تو بتا دیے جس کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔ اور 23 جگہ نکاح کا ذکر قرآن میں ہے جس میں دو گواہوں کا تذکرہ نہیں!

پھر حدیث بھی بخاری و مسلم میں نہیں اور اس میں بھی دو گواہ نہیں۔ ترمذی کی حسن حدیث ہے جس کا مطلب کہ پانچویں نمبر کی کتاب میں معمولی حافظہ کمزوری والی حدیث۔ اب سوچیں کہ کیسے یہ تبدیلی آ گئی؟

حدیث حسن وہ حدیث ہے جس کی سند متصل ہو (یعنی راویوں کی کڑی بغیر کسی منقطع ہونے کے جڑی ہوئی ہو)، راوی عادل (دیانت دار) ہوں، اور یادداشت میں معمولی کمی ہو، لیکن ایسی کمی جو حدیث کی قبولیت پر اثر انداز نہ ہو۔
 
جو نکاح علانیہ نہیں، اس کی طلاق کیوں علانیہ ہے؟
یہ تو اللہ سے پوچھیں۔ بات یہ ہے نکاح جوڑنے والی چیز ہے، سو اس پر مرد و عورت کو کیا اعتراض۔ طلاق توڑنے والی چیز ہے اور نکاح کا قبضہ ختم اور آزادی۔ اس توڑ کے گواہ لازمی چاہیئے تاکہ عورت سکھ سے دوسرے مرد سے اور مرد اطمینان سے دوسری عورت سے نکاح کر لے اور بچے حلال رہیں۔

یوں تو مرد اور عورت زنا کے مرتکب ہوں، اور دعویٰ کر دیں کہ انھوں نے ایجاب و قبول کر کے نکاح کر لیا ہے، تو آپ کے مطابق تو وہ دعویٰ تسلیم کر لیا جائے گا
تو مان لیں۔ جس نے زنا کرنا ہے وہ مشکل نکاحوں کے ماحول میں بھی کرے گا اور جس نے رکنا ہے وہ رکے گا۔ ویسے بھی زنا کے لیے چار گواہ دخول کی حالت میں دیکھے چاہیںے ورنہ تین ہی نے دیکھا تو تینوں کو اسی کوڑے اور ہمیشہ کی بے عزتی اور گواہی ناقبول۔ زنا نکاح مشکل ہونے کی وجہ سے لوگ کرتے ہیں۔ یہ بھی مفروضہ کہ پاگل پنا ہی مچ جائے گا کہ بس صبح نکاح شام طلاق۔ عورت مرد میں اللہ نے نکاح کے بعد بے حد محبت و مودت رکھی ہے جو ٹوٹے نہ ٹوٹ پائے۔ آجکل لوگوں کی طلاق ہوتی ہی نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ تین دفعہ کہا تو بس ہو گئی۔ طہر، گواہ شرائط ہیں طلاق کی جیسے وضو نماز کے لیے شرط ہے۔

بھائی ذرا پیچھے ہٹیں لوگ محبت اور نکاح کرنا چاہ رہے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
جی آپ کی دعا قبول نہ ہو سکے گی۔
نکاح تو خیر بغیر گواہ کے ہو جاتا ہے لیکن طلاق کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہے۔ اس کو الٹا کر دیا گیا ہے، سو یہ ہوا۔

پاکستان میں طلاق کی شرح میں ناقابل ِیقین حد تک اضافہ

پہلی کہانی:
اظفرینہ: "سنو سنو ! مت جاؤ مجھے چھوڑ کے۔ اور تم بغیر گواہوں کے مجھے طلاق نہیں دے سکتے۔"
ظفگران: "جب نکاح کے گواہ نہیں تو طلاق کے گواہ بھی نہیں چاہئیں ڈیر ۔ چِلّ کرو۔"
اظفرینہ: "تمہیں ہماری محبت کا واسطہ! کم از کم طلاق تو گواہوں کی موجودگی میں دے دو۔ میں شریعت کی پابندی کرنا چاہتی ہوں۔ دوسرا نکاح کیسے کر سکوں گی؟"
ظفگران ادھر اُدھر دیکھتا ہے تو ساتھ ہی ایک معذور فقیر اور دوسرا اس کی گاڑی دھکیلنے والا نظر آتا ہے۔
ظفگران: "بھائیو! میں آپ دونوں گواہوں کے سامنے اپنی اس بیوی کو طلاق دیتا ہوں۔ "
اظفرینہ کی طرف رُخ کر کے: "چلو اب خوش ہو جاؤ ۔ کل ڈیپارٹمنٹ ضرور آنا۔"
دوسری کہانی:
بے ریا: "فون بند نہ کرنا ریاکار۔ رافع بھائی کی پوری بات تو پڑھی ہوتی۔ ان کے مطابق طلاق کے لیے دو گواہ چاہئیں۔"
ریاکار: "سسّیے! جو چیز چھُپی ہوئی ہے، اسے چھُپا رہنے دو۔ ہمیں مطمئن ہونے کے لیے یہ بہت ہے کہ ہم نے نکاح کیا، کوئی گناہ نہیں کیا۔ سو تم اپنے کزن کو سجن بناؤ ۔ میں تو ویسے بھی باہر جا رہا ہوں۔ میری طرف سے کوئی خوف دل میں نہ لانا۔"
ٹھک فون بند۔
تیسری کہانی:
نادان: "تم ایسا کر ہی نہیں سکتیں۔ جن رافع بھائی کا ادھورا مراسلہ تم نے پڑھایا، ذرا ان کی پوری بات پڑھ لو۔ طلاق کے لیے دو گواہ لاؤ ڈیر کزن!"
سجاوٹ: "میں بے وقوف ہوں؟ جس چیز کا کسی کو پتہ نہیں، اس کا اشتہار لگاؤں گی؟ اگر تم نے مجھے تنگ کیا تو میں چچا سے شکایت کر دوں گی۔ یاد رکھنا کہ نکاح کا کوئی گواہ نہیں ہے ڈیر چچازاد! ہاں! میری شادی میں ضرور آنا۔ بہت لوگ ہوں گے۔ گواہ بھی ہوں گے۔"
 

نور وجدان

لائبریرین
مجھے حیرت ہے محفلین پر بھی
اس شخص بھی جس کی وجہ سے یہ سب شروع ہوا
اسلام کی ایسی تضحیک
نثم کے معیارات بھی نظم کا نغمہ و خیال کی شیرینی ضرور ہوتی
اب جو شاعری کے ساتھ تیا پانچہ ہوگیا
اسلام کے ساتھ
وہ الگ
جب ایک بندہ خود بے بس ہے اپنے بارے میں
اسکے خیالات جامعیت لیے نہیں
شخصیت تضاد ات کا شکار ہے
نقالی فطرت میں
تبصروں میں بیانیات و خطبات کا ڈھیر
اسکے ساتھ وقت کے ضیاع سے اچھا ہے خود آپس میں ہنسی مذاق کرلیا جائے
 
اس سے کہاں معلوم ہوا کہ دو گواہ نکاح کے لیے چاہیں؟
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ وَمَا كَانَ مِنْ نِكَاحٍ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَهُوَ بَاطِلٌ فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ

4075 صحيح ابن حبان ذكر نفي إجازة عقد النكاح بغير ولي وشاهدي عدل

4075 المحدث شعيب الأرناؤوط خلاصة حكم المحدث إسناده حسن في تخريج صحيح ابن حبان

قال ابن قدامة أَنَّ النِّكَاحَ لَا يَنْعَقِدُ إلَّا بِشَاهِدَيْنِ هَذَا الْمَشْهُورُ عَنْ أَحْمَدَ وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَالْحَسَنِ وَالنَّخَعِيِّ وَقَتَادَةَ وَالثَّوْرِيِّ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَالشَّافِعِيِّ

اردو ترجمہ از فیصل عظیم فیصل

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ و علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح نہیں ہے مگر ولی اور دو عادل گواہوں کے ساتھ اور اس کے علاوہ جو نکاح ہو وہ باطل ہے ۔ پھر اگر جھگڑا ہو تو جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی حاکم ہوگا ۔

حدیث نمبر 4075 صحیح ابن حبان بغیر ولی اور گواہوں کے شادی کے متعلق ۔

4075 محدث شعیب ارنوط نے صحیح ابن حبان کی تخریج میں اس حدیث کی اسناد پر حسن کا حکم لگایا ہے ۔

ابن قدامہ کا کہنا ہے کہ نکاح دو گواہوں کے بغیر نہیں ہوتا یہ احمد سے مشہور ہے اور اس پر روایات ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ سے اور علی رضی اللہ تعالیٰ و علیہ السلام سے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی قول ہے اور سعید بن المسیب اور جابر بن زید اور حسن اور نخعی اور قتادہ اور ثوری اور اوزاعی اور شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔
 

اربش علی

محفلین
اس سے کہاں معلوم ہوا کہ دو گواہ نکاح کے لیے چاہیں؟


جی پہلے یہ سوچیں قرآن نے طلاق کے دو گواہ تو بتا دیے جس کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔ اور 23 جگہ نکاح کا ذکر قرآن میں ہے جس میں دو گواہوں کا تذکرہ نہیں!

پھر حدیث بھی بخاری و مسلم میں نہیں اور اس میں بھی دو گواہ نہیں۔ ترمذی کی حسن حدیث ہے جس کا مطلب کہ پانچویں نمبر کی کتاب میں معمولی حافظہ کمزوری والی حدیث۔ اب سوچیں کہ کیسے یہ تبدیلی آ گئی؟

حدیث حسن وہ حدیث ہے جس کی سند متصل ہو (یعنی راویوں کی کڑی بغیر کسی منقطع ہونے کے جڑی ہوئی ہو)، راوی عادل (دیانت دار) ہوں، اور یادداشت میں معمولی کمی ہو، لیکن ایسی کمی جو حدیث کی قبولیت پر اثر انداز نہ ہو۔
شاید آپ کے دماغ میں زعم نے ٹھکانا کر کے عقل کو سلا دیا ہے۔ اس بات کے لیے اول تو کسی ثبوت کی ضرورت ہی نہیں کہ نکاح علانیہ ہے، اور ہمیشہ سے رہا ہے۔ آپ کے مطابق کوئی بھی مرد و عورت میاں بیوی ہونے کا دعویٰ کر دیں، جب کہ ان کے نکاح پر گواہ نہ بندہ نہ بندے کی ذات، نہ کسی کو بتایا گیا نکاح سے پہلے، تو آپ کے پاس کون سا پیمانہ ہو گا ان کی بات کی حقانیت بتانے کا۔ شاید وہاں بھی اپنا "اخلاص میٹر" لے جائیں گے، یا کہیں گے ان کے لیے مشکل نہ پیدا کرو، خواہ وہ بدترین فعل یعنی زنا کے مرتکب ہو رہے ہوں ایک پاکیزہ عقد کا نام استعمال کر کے۔ بس کر دیں، پہلے بھی نہ صرف دین کا بلکہ عقل کا بہت مذاق بنا لیا آپ نے۔ ایک معمولی سے معمولی عقل رکھنے والا شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے۔ذرا سورہ نور کی آیت ایک دفعہ غور سے پڑھ لیں اپنے زعم سے باہر آ کر۔ صاف صاف لکھا ہے:وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ: یعنی تم سے جو لوگ مجرد ہوں، ان کے نکاح کر دو۔
"نکاح کرنے" کی ذمہ داری عائد کی جا رہی ہے تو عیاں ہے کہ یہ علانیہ ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ جو لوگ مجرد ہوں، بھاگ کر خفیہ طریقے سے ایجاب و قبول کر لیں، تو تم ان کا نکاح تسلیم کر لو۔
 
آل رسول کا نام لیتے ہیں کہ ان کی آنکھیں بند کرکے بغیر دلیل کے اطاعت کرو ، ساتھ ہی خود کو سید کہلواتے ہیں یعنی آل رسول اور پھر بغیر گواہ نکاح کو بھی درست سمجھتے ہیں ۔ مطلب آجئو کریئے راہ کھلا جے ۔

لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم
 
Top