بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
میری کچھ مصروفیت کی وجہ سے میرا یہاں پر آنا جانا ذرا کم ہے لیکن پھر ایک کتاب یہاں پر میں نے لکھ دی ہے "
فتنہ انکار حدیث " تو اس سے یہ اقتباس حاضر خدمت ہے باقی انشاءاللہ اس کی عربی فارمیت وغیرہ کل درست کر لوں گا
شروع میں حضور صلی اللہ وسلم نے کتابت حدیث سے اس لئے منع فرمایا تھا کہ قرآن سے التباس نہ ہوجائے کیونکہ اس وقت میں کتابت قرآن کا عام دستور تھا اور عوام قرآنی اسالیب اور اس کے معجزانہ انداز سے ابھی پورے مانوس نہ تھے ۔ کتابت حدیث سے منع کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہ تھا کہ حدیث قابل اعتبار نہیں ۔ اگر یہ مقصد ہوتا تو اپ حدیث کے بیان کرنے سے بھی روک دیتے ۔ حالانکہ مسلم شریف کی جس روایت میں کتابت سے نہی ہے اسی روایت کے آخر میں یہ جملہ بھی ہے " وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ " منکرین حدیث کی بددیانتی کا یہ عا لم ہے کہ جس حدیث سے استدلال لیتے ہیں اسی کےآخر کا وہ جملہ جو ان کے اہوائے باطلہ کے خلاف ہے ، اسے بالکل حذف کردیتے ہیں اور پھر تعجب یہ کہ انکار حدیث کے لئے خود حدیث سے استدلال کررہے ہیں جب حدیث قابل اعتماد نہیں تو لاتکتبوا الخ پر کیسےاعتماد کیا گیا ؟ حدیث کی اشاعت کے لئے حضور صلی اللہ وسلم نےفرمایا [arabic]فَلْيُبْلِغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ [/arabic]حاضر غائب کو پہنچا دے ۔
خود حضور صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں اور اس کے بعد زمانہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں حدیثیں بیان کرنے کا عام رواج تھا ۔ حضور صلی اللہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک خدمت پر بھیجتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم کس طرح فیصلہ کروگے ؟ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ پہلے قرآن پر نظر کروں گا ۔ پھر آپ کے قول و عمل سے استدلال کروں گا ۔ پھر اجتہاد سے کام لوں گا ۔ حضور صلی اللہ وسلم نے اس پر مسرت کا اظہار فرماکر حجیت حدیث کی تصدیق فرمادی ۔ حضور صلی اللہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے تَسْمَعُونَ وَيُسْمَعُ مِنْكُمْ وَيُسْمَعُ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْكُمْ ( ابوداودکی کتاب العلم) منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ تیسری صدی کے آخر میں حدیث کی تدوین ہوئی ہے سراسر غلط ہے ۔ تدوین کا کام حضور صلی اللہ وسلم کے زمانہ ہی سے شروع ہو چکا تھا اگرچہ عوام کو اختلاط بالقر ان کے خوف سے کتابت حدیث کی اجازت نہ تھی تاہم خاص خاص لوگوں کو کتابت کی اجازت تھی ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ حدیثیں یاد ہیں مگر عبداللہ بن عمروبن العاص لکھا کرتے تھے میں نہ لکھتا تھا [arabic]أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلَا أَكْتُبُ[/arabic] ( بخاری)
مستدرک حاکم سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی احادیث کا لکھا ہوا ذخیرہ موجود تھا چنانچہ حسن بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک حدیث سنائی تو اپ نےاس کا انکار کیا اور فرمایا کہ اگر تم نے یہ حدیث مجھ سے سنی ہے تو میری کتابوں میں موجود ہوگی ۔ چنانچہ آپ نے اپنی کتابوں میں تلاش کی تو حدیث مل گئی ۔ اس مقام پر منکرین حدیث نے دو اعتراض کئے ہیں ۔ ( 1 ) بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ ابو ہریرہ سے عبداللہ بن عمرو کو علم حدیث زیادہ تھا ۔ حالانکہ روایات کا ذخیر ہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ منقول ہے ۔ اس کا جواب یہ کہ بخاری کی روایت میں استثناء منقطع ہے اس لئے اس کا سابق جملہ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ نیز کثرت علم کثرت روایت کو مستلزم نہیں ۔ حضور صلی اللہ وسلم کے وصال کے بعد عبداللہ بن عمرو زیادہ تر شام میں رہے ہیں اور ابوہریرہ کا قیام مدینہ ہی میں رہا ہے ۔ چونکہ دور اول میں علم کا مرکز مدینہ ہی تھا ۔ لوگ تحقیق مسائل میں مدینہ ہی کے علماء کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ اس لئے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو روایات بیان کرنے کا زیادہ موقع ملا ۔
( 2 ) مستدرک حاکم میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی لکھی ہوئی حدیثیں موجود تھیں اور بخاری میں ہے " لا اکتب" اس کا جواب یہ ہے کہ ابوہریرہ خود لکھنا نہ جانتے تھے ان کے پاس جو ذخیرہ تھا وہ دوسروں سے لکھوایا گیاتھا ( فتح الباری ص 184ج 1 )
طبقات ابن سعد میں عبداللہ بن عمرو بن العاص کا واقعہ لکھا ہے کہ انہوں نے خدمت نبوی میں عرض کیا کہ جو حدیثیں میں نے آپ سے بالمشافہہ سنی ہیں ان کے لکھنے کی اجازت فرمائیں ۔ حضور صلی اللہ وسلم نے اجازت دے دی پھر عبداللہ نے در یافت کیا کہ صرف حالت نشاط کی حدیثیں لکھوں یا حالت غضب کی بھی ۔ آپ نے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا کہ اس منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا ۔ چنانچہ انہوں نے احادیث کوجمع کیا اور اس کانام " الصادقہ" رکھا ۔ یہی واقعہ ابوداود کی کتاب العلم میں بھی ہے ۔
جب لوگ قرآن کے معجزانہ اسلوب سے بخوبی واقف ہوگئے تو حضور صلی اللہ وسلم نے نہ صرف کتابت حدیث کی اجازت دی بلکہ لکھنے کا حکم دیا اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دینی مسائل اور پیغمبرانہ ہدایات خود لکھوائیں ۔
[arabic]كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَجْلِسُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْمَعُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُهُ وَلَا يَحْفَظُهُ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُنِي وَلَا أَحْفَظُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ لِلْخَطِّ [/arabic](رواہ الترمذی)
فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور ابو شاہ یمنی کی درخواست پر وہ خطبہ لکھوا کر ان کو دیا اکتبو الابی شاہ [[arabic]أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ قَامَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِي فَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا وَلَا تَحِلُّ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا أَنْ يُفْدَى وَإِمَّا أَنْ يُقِيدَ فَقَالَ الْعَبَّاسُ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّا نَجْعَلُهُ لِقُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ قُلْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ مَا قَوْلُهُ اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ هَذِهِ الْخُطْبَةَ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [/arabic]] ( مفتاح السنۃ مصر ی ص 17 بخاری)
عمرو بن حزم کو یمن بھیجتے وقت حضور صلی اللہ وسلم نے ایک مفصل تحریری ہدایت نامہ دیا جس میں صدقات ، دیات ، فرائض وغیرہ کے احکام تھے(مفتاح السنۃ ص 18 )
مسلم بن الحارث کے والد کو حضور صلی اللہ وسلم نے دوسرے شخص سے بشارت لکھواکر دی ( ابوداود)
طائف کے ایک شخص نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو ان کی ایک کتاب سنائی تھی ( ترمذی کتاب العال) خطیب کی روایت کے مطابق حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی احادیث کا مجموعہ تھا ۔ حضرت انس اپنی اولاد کو کتابت حدیث کا حکم دیا کرتے تھے ۔ ( درامی ص68 )
ابن عبدالبر نے جامع میں عبد الرحمان بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک کتاب دکھا کر قسم کھائی اور کہا کہ یہ عبداللہ بن مسعود کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے ۔
عبداللہ بن مسعود اور علی رضی اللہ تعالی عنہما نے بعض احادیث کو لکھ کر صحیفہ کی صورت میں اپنے پاس رکھا (بخاری) بعض کثیر الروایات صحابہ مثلاً ابوہریرہ ،عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر، جابر بن عبداللہ، براء بن عازب اور انس بن مالک وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہم کی مرویات کو ان کے شاگرد ، ان کے روبرو بیٹھ کر لکھا کرتے تھے ۔ ( دارمی68 ، 69 ۔ تہدیب التہذیب جلد 4 ص 198 ۔ کتاب العلل للترمذی )
حضرت عمر نے عمال حکومت کے لئے صدقتہ الماشیہ کے احکام لکھ رکھے تھے ۔ ( موطا مصری صفحہ 135 ، 136 ، 151 ، 152 پراس قسم کی مثالیں ملا حظہ ہوں)
مگر اس زمانہ حفظ صدور پر زیادہ زور تھا ۔ عرب کے لوگ حافظہ میں مشہور تھے ۔ طویل وعریض قصیدے ، مختلف مضامین کے انہیں یاد ہوتے تھے اور اونٹوں گھوڑوں کے نسب نامے حفط تھے ۔ حضور صلی اللہ وسلم کی احادیث کو ان لوگوں نے خصوصیت سے وحی الہی سمجھ کر حفظ کیا اور حضور صلی اللہ وسلم کے قول و فعل کو واجب الاتباع جان کر اس کی حفاظت کی ۔ حضور صلی اللہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے حضور صلی اللہ وسلم کو نہ دیکھا تھا وہ دور دراز سے سفر کرکے صحابہ سے حضور صلی اللہ وسلم کے حالات دریافت کرتے تھے اور انہیں محفوظ رکھتے تھے ۔ خود صحابہ نے دوسرے ممالک پہنچ کر حدیث کی تبلیغ کی ۔ دارمی نے میعون بن مہران سے روایت کیا ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تو ابو بکر پہلے قرآن میں تلاش کرتے اگر قرآن سے فیصلہ نہ ملتا تو اپنی معلومات احادیث میں غور کرتے ۔ اگر اس میں قاصر رہتے تو صحابہ میں عام طور پر اعلان کرواتے کہ ہمارے یہاں اس قسم کا مسئلہ پیش آیا ہے کیا اپ صاحبوں میں سے کسی کو اس سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ معلوم ہے ؟ بعض دفعہ ایسا بھی ہواہے لوگ اکر آپ سے علم نبوی بیان کرتے اور اسے سن کر آپ اللہ کا شکر کرتے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو یاد رکھنےوالے موجود ہیں اور اگر اس پر بھی فیصلہ نہ ہوتا تو صحابہ سے مشورہ لےکر اتفاق سے رائے سے فیصلہ کردیتے ۔ اگر کوئی شخص ایسی بات کہتا جو صحابہ کرام میں مشہور و معروف نہ ہوتی تو اس سے اس کے متعلق شہادت طلب کی جاتی خواہ وہ کیسا ہی معتبر کیوں نہ ہوتا ۔
مغیرہ بن شعبہ نے ابوبکر صدیق کے دریافت کرنے پر جب بتایا کہ جدہ کو حضور صلی اللہ وسلم سدس دیاکرتے تھے تو اپ نے پوچھا ھل معک احد؟ کیا تیر ا کوئی گواہ ہے اس پر محمد بن مسلمہ نے یہی گواہی دی تب صدیق نے جدہ کو سدس دیا ( بخاری و مسلم )
حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا دور آیا اور اس میں تکبیر جنازہ ، جزیہ مجوس ، طاعون ۔ خبر الضحاک بن سفیان فی توریت المرأۃ من دیۃ زوجھا ۔ اور خبر سعد بن ابی وقاص فی المسح علی الخفین وغیرہ کا فیصلہ احادیث ہی کو ۔ ۔ ۔ حجت بناکر کیا گیا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے اس حدیث کے بیان کرنے پر شہادت طلب کی کہ جب کوئی مسلمان(باہر سے ) تین مرتبہ سلام کہنے پر (اندر سے ) جواب نہ پائے ( اسے اندر انے کی اجازت نہ ملے ) تو واپس چلا جائے ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی تصدیق و شہادت پر ابو مو سی رضی اللہ تعالی عنہ کی پریشانی رفع ہوئی ( مفتاح السننۃ ص19 ، 20 ، حاکم ، بخاری، مسلم )
ان واقعات سے ثابت ہوا کہ محدیثین نےروایات حدیث کی پوری چھان بین کی ہے اسی وجہ سے اسماء الرجال اور اصول جرح و تعدیل کو مستقل فنون کی صورت میں مدون فرمایا ۔ اور صرف انہی احادیث کو ( ٹھوس علمی شہادت کی بنا پر ) صحیح قرار دیا جو اصول روایت در روایت کے بلند معیار پر پوری اتریں اور تعارض کی حالت میں ان میں کوئی معقول صورت تطبیق کی دریافت ہوسکی اور قرآن کے خلاف کسی حدیث کو بھی قبول نہ کیا ۔
ازالۃ الخفاء میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ۔
" فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بسیارازامہات فن حدیث و روایت کردہ است ودر دست مردم تاہنوزباقی است بعد ازان فاروق علماء صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم راباقلیم دارالاسلام روان ساخت و امر کرد باقامت شہر ہا و بر وایت حدیث درآنجا "
حضرت ابو ذر عفاری رضی اللہ تعالی عنہ کوروایت حدیث کا اس قدر شعف تھا اور حدیث کی تبلیغ و اشاعت اس قدر ضروری سمجھتےتھےکہ فرماتے ہیں : ۔
" اگر تم میر ے قتل کے لئے میرے گردن پر تلوار رکھ دو اور مجھے یہ امید ہو کہ مرنے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کلمہ بھی جو میں نےسنا ہے پہنچا سکوں تو میں ضرور کہہ دوں گا ۔ ( بخاری)
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ جب احادیث بیان کرتے تو سننے والوں کے ذوق و شوق کی یہ حالت ہوتی تھی کہ آدمیوں کی دیوار آپ کے سامنے کھڑی ہوجاتی ۔ بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کی کثرت اور ہجوم کے سبب مکانوں کی چھت پر چڑھ کر روایت بیان کرتے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ زمانہ نبوی میں کم سن تھے ، آپ زیادہ عمر کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دروازوں پر صبح کے وقت سے لیکر دوپہر تک صرف اس لئے بیٹھےرہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات وہ بیان کریں تو اسے لکھ لیں ۔ رسول اللہ علیہ کے عہد مبارک میں اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ میں بہت سے اجلئہ صحابہ مثلاً معاذ ابن جبل ، عمرو بن حزم ، عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمرو بن العاص ، زید بن ثابت ، ابو الدردا ، ابوذر ، ابوموسی اشعری وغیرہ ہم رضی اللہ تعالی عنہم مکہ ، مدینہ ، کوفہ ،بصرہ ، شام، مصراور یمن وغیرہ بلادمملکت اسلامیہ میں پھیل گئے اور ہرجگہ انہوں نے کتاب و سنت کی تعلیم دی ۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے بعد تابعین رحمہم اللہ کا زمانہ آیا ۔ انہوں نے دنیا ئے اسلام کے بعید سے بعید گوشہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو کمال حفاظت کے ساتھ پہنچایا ۔
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اگرچہ ذاتی یادداشتیں لکھی ہوئی تھی ۔ مگر حدیث کی کو ئی کتاب مرتب نہ تھی ۔ پہلی صدی کے آخر میں عمر بن عبدالعزیز (متوفی سن 101 ھجری) نے مدینہ منورہ کے والی ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو لکھا : ۔
انظر ما کان من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاکتبہ خفت دروس العلم وذھاب العلمائ ( مفتاح السنۃ ص 21 )
حضور صلی اللہ وسلم کی حدیثیں لکھ لو مجھے حدیث کے مٹ جانے کا خوف ہے
اور اسے یہ بھی لکھا کہ عمرہ بنت عبدالرحمان انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا ( متوفاۃ سن 98 ھجری ) اور القاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ( متوفی 120 ھجری )کی احادیث کے جو مجموعے ہیں وہ لکھ کر ان کے پاس بھیجے ۔
اسی طرح دوسرے بڑے شہروں مکہ ، کوفہ ، بصرہ ، شام اور یمن وغیرہ میں اپنے عمال کو تدوین حدیث کےلئے لکھا ۔ امام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن الشہاب الزہری المدنی ( المتوفی سن 124 ھجری) بھی انہی لوگوں میں سے تھے جن کو تدوین حدیث کے متعلق لکھا گیاتھا ( مفتاح السنۃ )
خلیفہ عادل کی اس ہدایت نے محدثین کی حوصلہ افزائی کی اور انہوں نے اپنی کو ششوں کو تیز تر کردیا اور احادیث کی تدوین کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا ۔ اس مقدس گروہ میں سب سے ممتاز شخصیت محمد بن مسلم زہری کی ہے ۔ ان کی پیدائش سن 50 ھجری میں ہوئی ۔ سنن و آثار نبوی کے قصر کے یہ چھ ستون فن حدیث میں بڑا درجہ رکھتے ہیں ۔ امام زہری ( مدینہ میں) عمرو بن دینار(مکہ میں ) قتادۃ و یحیٰ بن کثیر ( بصرہ میں) ابو اسحاق و سلیمان اعمش ( کوفہ میں) ۔
امام زہری تابعین کے طبقہ اولی کے محدثین میں سے ہیں جنہوں نے احادیث کو قلمبند کیا ۔ بعد میں اسی دوسری صدی میں طبقہ ثانیہ آیا اس میں تدوین عام اور شائع ہوگیا ۔ چنانچہ ابن جریح ( متوفی سن 150 ھجری) نے سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں احادیث کو بصورت کتابت جمع کیا ۔ ( مدینہ منورہ میں) ابن اسحاق متوفی سن 151ھجری اور امام مالک متوفی 179 ھجری (بصرہ میں) ربیع بن صبیح متوفی 160 ھجری (کوفہ میں) سفیان ثوری متوفی سن 191 ھجری (شام میں) اوزاعی متوفی 156 ھجری (یمن میں) معمر متوفی سن153ھجری اور خراسان میں ابن المبارک متوفی سن 181 ھجری وغیرہ نے احادیث کو لکھ کر مدون کیا ۔ جس میں اقوال صحابہ اور تابعین کے فتاوی بھی مختلف تھے ۔ اسی دور ہی میں سفیان بن عینیہ مکہ میں ۔ حمادبن سلمہ وسعید بن ابی عروبہ بصرہ میں ۔ ہشیم بن بشیر واسط میں ۔ وکیع بن الجراح شام میں ۔ عبد الزاق یمن میں ۔ جریرہ بن عبداللہ وغیرہم ایسے جلیل القدر محدیثین گزرے ہیں جن کے کارنامے حیات ابدی پاچکے ہیں ۔
ازالۃ الخفاء میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ۔
" فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بسیارازامہات فن حدیث و روایت کردہ است ودر دست مردم تاہنوزباقی است بعد ازان فاروق علماء صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم راباقلیم دارالاسلام روان ساخت و امر کرد باقامت شہر ہا و بر وایت حدیث درآنجا "
حضرت ابو ذر عفاری رضی اللہ تعالی عنہ کوروایت حدیث کا اس قدر شعف تھا اور حدیث کی تبلیغ و اشاعت اس قدر ضروری سمجھتےتھےکہ فرماتے ہیں : ۔
" اگر تم میر ے قتل کے لئے میرے گردن پر تلوار رکھ دو اور مجھے یہ امید ہو کہ مرنے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کلمہ بھی جو میں نےسنا ہے پہنچا سکوں تو میں ضرور کہہ دوں گا ۔ ( بخاری)
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ جب احادیث بیان کرتے تو سننے والوں کے ذوق و شوق کی یہ حالت ہوتی تھی کہ آدمیوں کی دیوار آپ کے سامنے کھڑی ہوجاتی ۔ بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کی کثرت اور ہجوم کے سبب مکانوں کی چھت پر چڑھ کر روایت بیان کرتے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ زمانہ نبوی میں کم سن تھے ، آپ زیادہ عمر کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دروازوں پر صبح کے وقت سے لیکر دوپہر تک صرف اس لئے بیٹھےرہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات وہ بیان کریں تو اسے لکھ لیں ۔ رسول اللہ علیہ کے عہد مبارک میں اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ میں بہت سے اجلئہ صحابہ مثلاً معاذ ابن جبل ، عمرو بن حزم ، عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمرو بن العاص ، زید بن ثابت ، ابو الدردا ، ابوذر ، ابوموسی اشعری وغیرہ ہم رضی اللہ تعالی عنہم مکہ ، مدینہ ، کوفہ ،بصرہ ، شام، مصراور یمن وغیرہ بلادمملکت اسلامیہ میں پھیل گئے اور ہرجگہ انہوں نے کتاب و سنت کی تعلیم دی ۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے بعد تابعین رحمہم اللہ کا زمانہ آیا ۔ انہوں نے دنیا ئے اسلام کے بعید سے بعید گوشہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو کمال حفاظت کے ساتھ پہنچایا ۔
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اگرچہ ذاتی یادداشتیں لکھی ہوئی تھی ۔ مگر حدیث کی کو ئی کتاب مرتب نہ تھی ۔ پہلی صدی کے آخر میں عمر بن عبدالعزیز (متوفی سن 101 ھجری) نے مدینہ منورہ کے والی ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو لکھا : ۔
انظر ما کان من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاکتبہ خفت دروس العلم وذھاب العلمائ ( مفتاح السنۃ ص 21)
حضور صلی اللہ وسلم کی حدیثیں لکھ لو مجھے حدیث کے مٹ جانے کا خوف ہے
اور اسے یہ بھی لکھا کہ عمرہ بنت عبدالرحمان انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا ( متوفاۃ سن 98 ھجری ) اور القاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ( متوفی 120 ھجری )کی احادیث کے جو مجموعے ہیں وہ لکھ کر ان کے پاس بھیجے ۔
اسی طرح دوسرے بڑے شہروں مکہ ، کوفہ ، بصرہ ، شام اور یمن وغیرہ میں اپنے عمال کو تدوین حدیث کےلئے لکھا ۔ امام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن الشہاب الزہری المدنی ( المتوفی سن 124 ھجری) بھی انہی لوگوں میں سے تھے جن کو تدوین حدیث کے متعلق لکھا گیاتھا ( مفتاح السنۃ )
خلیفہ عادل کی اس ہدایت نے محدثین کی حوصلہ افزائی کی اور انہوں نے اپنی کو ششوں کو تیز تر کردیا اور احادیث کی تدوین کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا ۔ اس مقدس گروہ میں سب سے ممتاز شخصیت محمد بن مسلم زہری کی ہے ۔ ان کی پیدائش سن 50 ھجری میں ہوئی ۔ سنن و آثار نبوی کے قصر کے یہ چھ ستون فن حدیث میں بڑا درجہ رکھتے ہیں ۔ امام زہری ( مدینہ میں) عمرو بن دینار(مکہ میں ) قتادۃ و یحیٰ بن کثیر ( بصرہ میں) ابو اسحاق و سلیمان اعمش ( کوفہ میں) ۔
امام زہری تابعین کے طبقہ اولی کے محدثین میں سے ہیں جنہوں نے احادیث کو قلمبند کیا ۔ بعد میں اسی دوسری صدی میں طبقہ ثانیہ آیا اس میں تدوین عام اور شائع ہوگیا ۔ چنانچہ ابن جریح ( متوفی سن 150 ھجری) نے سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں احادیث کو بصورت کتابت جمع کیا ۔ ( مدینہ منورہ میں) ابن اسحاق متوفی سن 151ھجری اور امام مالک متوفی 179 ھجری (بصرہ میں) ربیع بن صبیح متوفی 160 ھجری (کوفہ میں) سفیان ثوری متوفی سن 191 ھجری (شام میں) اوزاعی متوفی 156 ھجری (یمن میں) معمر متوفی سن153ھجری اور خراسان میں ابن المبارک متوفی سن 181ھجری وغیرہ نے احادیث کو لکھ کر مدون کیا ۔ جس میں اقوال صحابہ اور تابعین کے فتاوی بھی مختلط تھے ۔ اسی دور ہی میں سفیان بن عینیہ مکہ میں ۔ حمادبن سلمہ وسعید بن ابی عروبہ بصرہ میں ۔ ہشیم بن بشیر واسط میں ۔ وکیع بن الجراح شام میں ۔ عبد الزاق یمن میں ۔ جریرہ بن عبداللہ وغیرہم ایسے جلیل القدر محدیثین گزرے ہیں جن کے کارنامے حیات ابدی پاچکے ہیں ۔
اللہ اکبر کبیرا