! بخاری شریف اور صحیح مسلم، انپیج فارمیٹ میں !

باسم، ان مولوی صاحب کی اچھی منطق ہے۔ کیا ضروری ہے کہ امتداد زمانہ کی شکار ان کتب میں رسول اکرم سے منسوب ہر روایت کو مان لیا جائے؟ اور نہ مانا جائے تو اس روایت کو

http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=6851
[ARABIC]‏حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار ‏[/ARABIC]

آب آپ سب تحریف کیجئے اور ثابت کیجئے کہ یہاں‌ رسول اللہ کا "لا تکتبوا عنی و من کتب عنی غیر القران " کے معانی قران کے علاوہ باقی کچھ "ریکارڈ" کرنے کے نہیں‌ہیں۔ اور "فلیمحہ " غیر القران روایات کے لئے استعمال نہیں ہوا۔

اگر اصل کتب میسر ہوں تو شاید ان پر غور کیا جائے۔ ورنہ صرف یہ ایک روایت باقی تمام روایات کو "فلیمحہ" کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اور یہ روایت آپ کو مکمل طور پر ہدایت دیتہ ہے کہ غیر القران روایات کو " فلیمحہ " کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

رسول اکرم کے ہ 250 سال بعد کی جمع تفریق، صدیوں تک کتب روایات کی غیر موجودگی۔ اصل نسخوں کا نا موجود ہونا۔ متن، تعداد ، ترتیب اور اسناد کی غلطیاں ۔ پھر رسول اکرم سے منسوب غیر القران کو تلف کردینے کا واضح حکم بھی اگر ہم کو مشعل راہ نہیں دکھا سکتے ہیں توبھائی پھر ایسے لوگ بناء شعور اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

[AYAH]2:9[/AYAH] [ARABIC]يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ [/ARABIC]
وہ اللہ کواور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے
 

آبی ٹوکول

محفلین
کیا کسی بھی رسول کی بعثت پر کوئی اعتراض کیا گیا ہے۔ یہ سمت کیسے نکلی حیران ہوں۔

شاید آپ لوگ آپس میں‌خیال آرائی کرر ہےہیں۔ اور اتنے موضوعات کھل گئے ہیں جن سے اصل موضوع ختم ہوجاتا ہے۔

بھائی آبی ٹو کول۔ آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں جناب عبداللہ حیدر اور باذوق کے مثبت مراسلاتی انداز پر ایک نظر ڈال لیجئے۔

آپ کا سارا زور میری شخصیت اور میرے ایمان کو ناپنے تولنے پر لگ رہا ہے۔ یہ وہ یہودی عمل ہے جس کا گواہ وقت 2000 سال سے ہے۔ وہ 4000 سال سے مسیحا ڈھونڈھ رہے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عیسی سے سب سے پہلاسوال یہی کیا تھا --- کیا تم وہی مسیحا ہو جس کا وعدہ کیا گیا تھا ---- میں‌ بنا کسی لاگ لپیٹ‌کے آپ کو صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ آپ آج بھی اسی یہودی روایت پر عمل کررہے ہیں ۔ اور اس عمل میں‌ آپ اتنے کھو گئے ہیں کہ دوسروں سمیت مجھ جیسے معمولی طالب علموں کا ایمان جانچتے پھرتے ہیں۔
معذرت حضرت جی (کہ وہ جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں ناں کہ تُسی تے ایکو واری کُد ای کھلوتے او ) کے آپ تو ایک دم سے ناراض ہی ہوگئے ہیں ،حضرت ہم نے اشارۃ جن لوگوں کی بابت بات کی ہے اگر ان لوگوں والی کوئی ایک بھی نشانی آپ مین نہیں پائی جاتی تو آپ ایویں ای خواہ مخواہ میں خود کو پریشان نہ کریں اور اپنا کام جاری رکھیں ہم نے تو بس عامۃالناس کو ایک رخ بتلایا ہے کہ قرآن پاک ان ان چیزوں کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا باقی ہم نے کسی کے نہ تو ایمان کو ماپا ہے اور نہ ہی کسی کے علم کو تولا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
 

باسم

محفلین
محترم فاروق سرور خان صاحب!
آپ کا ہمارا اس بات پر اتفاق ہے اور آپ یہ بات ہارہا ذکر کرچکے ہیں کہ احادیث کو ضوء قراٰن (قران کی روشنی) میں پرکھا جائے گا اور اگر وہ اس کے مطابق ہوں تو ان کو لے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مذکورہ تشریح سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ حدیث ضوء قران کے مطابق درست ہے۔
اگر آُپ کو اس بارے میں کوئی خلش ہے تو اسے ذکر کردیجیے۔
آپ کی باقی پوسٹ مجھے اپنی پوسٹ سے غیر متعلق لگ رہی ہے کیونکہ میں نے کہیں بھی آپ کو ہر روایت ماننے پر مجبور نہیں کیا اور نہ ہی میرا آپ کی پیش کی گئی اس حدیث سے کچھ اختلاف ہے، بلکہ میں اسے حرف بحرف درست مانتا ہوں۔
آپ کی تحریر پر ایک سوال ضرور ابھر رہا ہے لیکن اسے چھوڑ رہا ہوں کیونکہ اس سے بات وہیں آجائے گی جس پر آپ بحث روکنے کا حکم دے چکے ہیں۔
 
باسم، مذکورہ تشریح کن صاحب نے جوبول و براز کے معاملے میں کی ہے قرآن کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہے۔ کچھ آیات کو کھینچ تان کر مبہم انداز میں اس طرح پھیلانا کہ وہ اس روایت کو درست ثابت کردے ایک کریہہ عمل ہے۔ ان صاحب نے جن آیات کا حوالہ دیا ہےا، ان میں کسی جانور کا پیشاب بطور غذا یا دوا کے پیش نہیں‌کیا گیا۔ لفظ بول یا اس کا مترادف لفظ پورے قران میں نہیں پایا جاتا۔ معذرت چاہتا ہوں کہ پیش کردہ آیات کی تاویلات کسی طور بھی پیشاب کو پینے کو درست قرار نہیں دیتی ہیں۔ بلکہ دیگر آیات اس ناپاک شے کو طمانیت کی حد تک منع کرتی ہیں۔

اقتباس:
آپ کی باقی پوسٹ مجھے اپنی پوسٹ سے غیر متعلق لگ رہی ہے کیونکہ میں نے کہیں بھی آپ کو ہر روایت ماننے پر مجبور نہیں کیا اور نہ ہی میرا آپ کی پیش کی گئی اس حدیث سے کچھ اختلاف ہے، بلکہ میں اسے حرف بحرف درست مانتا ہوں۔

بہت ہی شکریہ۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی۔
 

باذوق

محفلین
باسم، ان مولوی صاحب کی اچھی منطق ہے۔ کیا ضروری ہے کہ امتداد زمانہ کی شکار ان کتب میں رسول اکرم سے منسوب ہر روایت کو مان لیا جائے؟ اور نہ مانا جائے تو اس روایت کو

http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=6851
[ARABIC]‏حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار ‏[/ARABIC]
اس کا جواب بہت ہی تفصیل سے ۔۔۔ کوئی سال بھر پہلے ۔۔۔ میں‌ نے یہاں دے دیا تھا !
ایک ہی بات کو بار بار نہیں دہرایا جانا چاہئے۔
باسم، مذکورہ تشریح کن صاحب نے جوبول و براز کے معاملے میں کی ہے قرآن کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہے۔ کچھ آیات کو کھینچ تان کر مبہم انداز میں اس طرح پھیلانا کہ وہ اس روایت کو درست ثابت کردے ایک کریہہ عمل ہے۔ ان صاحب نے جن آیات کا حوالہ دیا ہےا، ان میں کسی جانور کا پیشاب بطور غذا یا دوا کے پیش نہیں‌کیا گیا۔ لفظ بول یا اس کا مترادف لفظ پورے قران میں نہیں پایا جاتا۔ معذرت چاہتا ہوں کہ پیش کردہ آیات کی تاویلات کسی طور بھی پیشاب کو پینے کو درست قرار نہیں دیتی ہیں۔ بلکہ دیگر آیات اس ناپاک شے کو طمانیت کی حد تک منع کرتی ہیں۔
ہمیں فاروق صاحب سے اتفاق کرنا چاہئے کہ "لفظ بول یا اس کا مترادف لفظ پورے قران میں نہیں پایا جاتا۔"
اور بقول فاروق صاحب ، پیشاب ناپاک ہے اور قرآن کی آیات "آیات اس ناپاک شے کو طمانیت کی حد تک منع کرتی ہیں۔"

سوال یہ اٹھتا ہے کہ ۔۔۔۔ کیا کسی اصولی حکم میں رخصت بھی دی گئی ہے؟
جیسا کہ اصولی حکم ہے کہ نماز کے لئے وضو ضروری ہے۔ لیکن اس اصولی حکم میں رخصت یہ ہے کہ ۔۔۔۔ پانی نہ ملے تو تیمم کر سکتے ہیں۔
اسی طرح اصولی قرآنی حکم یہ ہے کہ مردار حرام ہے لیکن جان پر بن آئی ہو تو یہی مردار حلال بھی قرار پا سکتا ہے ۔۔۔ جیسا کہ پچھلی گفتگو میں کہا جا چکا ہے۔
ثابت ہوا کہ ہر اصولی حکم میں‌ ایک استثنائی شکل بھی پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ نابالغ کی شادی کے ضمن میں میں‌ نے یہاں واضح کیا تھا۔
پیشاب (بول) کو مطلقاَ حرام قرار دینے والا کوئی حکم قرآن میں نہیں ملتا۔ اور کوئی ایک ایسی حدیث بھی نہیں ملتی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کو مطلقاَ حلال قرار دیا ہو۔
صرف یہی ایک حدیث (اونٹوں کا پیشاب پینے کا حکم دینے والی) اگر ہمیں زخیرہ احادیث میں ملتی ہے تو اس کو اصولی حکم کا درجہ کیوں کر دیا جائے گا؟ خاص طور پر مکمل حدیث کا متن (اور پورے واقعہ کی وضاحت) بھی بتا رہی ہو کہ وہ ایک استثنائی صورت ہے جو طب سے متعلق ہے۔
رخصت بہرحال ایک استثنٰی ہے ، یہ اصولی حکم نہیں بن سکتا۔ مگر شریعت میں رخصت کی اہمیت یقیناً ہے۔ لہذا ہر معاملے میں پہلے ہمیں یہ تمیز کر لینا چاہئے کہ اصولی حکم کیا ہے اور رخصت کیا؟ اور ان دونوں کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔
 
بھائی، آپ کے جواب اگر اطمینان بخش ہوتے تو سوال دہرائے کیوں جاتے۔ معنی سے اس قدر دور جوابات قابل اطمینان نہیں ہوتے ہیں، سوال اپنی جگہ رہتے ہیں۔ یہاں آپ "ریکارڈ کرنے "‌ کو "کتابت کرنے " سے بدل کر صرف دل خوش کرسکتے ہیں۔ کوئی اچھی خدمت نہیں‌۔ یہ روایات صاف صاف ایک اصول بیان کرتی ہے وہ آپ اچھی طرح پڑھئیے تو سمجھ لیں گے۔ باسم سمجھتے ہیں، آبی ٹو کول سمجھتے ہیں عبداللہ حیدر سمجھتے ہیں ۔ اور میری ناقص عقل میں آتا ہے۔ اگر آپ آپ "ریکارڈ کرنے "‌ کو "کتابت کرنے " سے بدلنا چاہتے ہیں تو کیجئے۔ ہم اصرار نہیں کرتے۔

احباب سے عرض یہ ہے کہ اس کو آپس میں معلومات کا ذریعہ بنائیں نہ کہ نظریاتی جنگ کا میدان۔ ضروری ہے کہ ہم اس سطح سے اوپر اٹھیں اور ضروری موضوعات پر قرآن کی آیات پیش کریں۔ اگر آپ کو اس کے معانی پر اعتراض‌ہے تو بہتر معانی یا بہتر آیات فراہم کردیجئے۔ آپ کو آیات سے بھی معانی مکمل نظر نہیں آتے تو روایات پیش کردیجئے۔ آیات و روایات ایک دوسرے کے مخااف ہو ہی نہیں سکتی ہیں۔ تو ایسا منظر کیوں تخلیق کیا جائے جس سے آیات و روایات ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی نظر آئیں؟ قرآن کا پیش کرنے والا، کسی طور صاحب القرآن کی سنت کا منکر نہیں ہوسکتا۔ یہ کھیل صرف اور صرف سیاسی و خیراتی و مالی فوائد حاصل کرنے کے لئے کھیلا جاتا ہے۔ اگر کسی کی روزی قرآن سے جاتی ہے بھائی بہت ہی معذرت۔

جو آپ کی سمجھ ہے وہ مجھ جیسی ناقص معلومات رکھنے والے کی نہیں ہوسکتی لہذا معاف رکھئے ۔ اور بہتر معانی، آیات یا روایات فراہم کر دیا کیجئے۔ اگر میرے نکتہ نظر سے اب بھی آگاہی نہیں ہے تو بھائی مزید تفصیل سے معذرت۔

والسلام۔
 

باذوق

محفلین
بھائی، آپ کے جواب اگر اطمینان بخش ہوتے تو سوال دہرائے کیوں جاتے۔ معنی سے اس قدر دور جوابات قابل اطمینان نہیں ہوتے ہیں، سوال اپنی جگہ رہتے ہیں۔ یہاں آپ "ریکارڈ کرنے "‌ کو "کتابت کرنے " سے بدل کر صرف دل خوش کرسکتے ہیں۔ کوئی اچھی خدمت نہیں‌۔ یہ روایات صاف صاف ایک اصول بیان کرتی ہے وہ آپ اچھی طرح پڑھئیے تو سمجھ لیں گے۔ باسم سمجھتے ہیں، آبی ٹو کول سمجھتے ہیں عبداللہ حیدر سمجھتے ہیں ۔ اور میری ناقص عقل میں آتا ہے۔ اگر آپ آپ "ریکارڈ کرنے "‌ کو "کتابت کرنے " سے بدلنا چاہتے ہیں تو کیجئے۔ ہم اصرار نہیں کرتے۔

احباب سے عرض یہ ہے کہ اس کو آپس میں معلومات کا ذریعہ بنائیں نہ کہ نظریاتی جنگ کا میدان۔ ضروری ہے کہ ہم اس سطح سے اوپر اٹھیں اور ضروری موضوعات پر قرآن کی آیات پیش کریں۔ اگر آپ کو اس کے معانی پر اعتراض‌ہے تو بہتر معانی یا بہتر آیات فراہم کردیجئے۔ آپ کو آیات سے بھی معانی مکمل نظر نہیں آتے تو روایات پیش کردیجئے۔ آیات و روایات ایک دوسرے کے مخااف ہو ہی نہیں سکتی ہیں۔ تو ایسا منظر کیوں تخلیق کیا جائے جس سے آیات و روایات ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی نظر آئیں؟ قرآن کا پیش کرنے والا، کسی طور صاحب القرآن کی سنت کا منکر نہیں ہوسکتا۔ یہ کھیل صرف اور صرف سیاسی و خیراتی و مالی فوائد حاصل کرنے کے لئے کھیلا جاتا ہے۔ اگر کسی کی روزی قرآن سے جاتی ہے بھائی بہت ہی معذرت۔
حالانکہ ابھی کچھ پوسٹ پہلے آپ نے لکھا تھا کہ : آپ (باذوق) کی اور عبد اللہ حیدر صاحب کی تحریر میں حد درجہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ اور اب آپ مجھے اس گروپ سے نکال باہر کر رہے ہیں۔ خیر۔
ویسے باسم ، آبی ٹو کول اور عبداللہ حیدر ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہ اُس نظریے سے کس حد تک اتفاق رکھتے ہیں جس سے آپ کو اتفاق ہے۔
آپ نے "ریکارڈ کرنے "‌ اور "کتابت کرنے " میں فرق بتایا ہے۔ نظریاتی جنگ کی سطح سے اوپر اٹھ کر اصولی بات کرنے کے لئے تو بہتر یہی ہے کہ اس "فرق" کو قرآن یا احادیث کے اصل عربی متن سے واضح کیا جائے۔

آپ نے اوپر کی ایک پوسٹ میں صحیح مسلم کی ایک حدیث کا عربی متن پوسٹ کیا ہے
[ARABIC]‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي[/ARABIC]
جس کا اردو ترجمہ آپ نے یہاں یوں لکھا تھا :
۔۔۔۔ مروی ہے کہ یقیناَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ نہ لکھو، اور جس کسی نے مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ بھی لکھا ماسوائے قران کے، وہ اس کو تلف کردے اور میرے طرف سے بتا دو ایسا کرنے (تلف کرنے) میں کوئی گناہ نہیں اور جس کسی نے مجھ (رسول پرنور) سے کوئی بھی غلط بات منسوب کی ۔۔۔

میں یہاں آپ ہی کی بات دہراؤں گا :
آپ کے جواب اگر اطمینان بخش ہوتے تو سوال دہرائے کیوں جاتے۔
لہذا جناب ! میں یہ سوال پھر دہراؤں گا کہ کیا ایسا اردو ترجمہ درست کہلایا جا سکتا ہے؟؟

اس کے علاوہ ، آپ اور ہم اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ کسی ایک آیت یا کسی ایک روایت کے ذریعے قطعیت سے کوئی فیصلہ فائینل نہیں کیا جا سکتا۔ آئیے ایک بار پھر عبداللہ حیدر کی بات کو دہرا لیں :
جب قرآن جو کتاب مبین ہے، جس کی حفاظت اور تبیین کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے، اس کی ایک آیت دوسری آیات کو ملائے بغیر نہیں سمجھی جا سکتی تو پھر حدیث کے معاملے میں یہ اصول کیوں مد نظر نہیں رکھا جاتا اور فورا کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ کہنے والا کہہ سکتا ہے نا کہ سورۃ الانعام کی یہ آیت قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہے، جو جواب قرآن کے بارے میں دیا جائے کیا وجہ ہے کہ حدیث کو پرکھتے ہوئے وہ اصول (یعنی دوسری متعلقہ احادیث سے موازنہ) نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ فکر مجھے قرآن سے ملی ہے اور میں اس قرآنی فکر سے ہٹنا پسند نہیں کروں گا چاہے اس کے لیے "اہل یہود" کا خطاب ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔

حجیت حدیث کے معاملے میں اگر عبداللہ حیدر "اہل یہود" کا طعنہ برداشت کرنے راضی ہیں تو یقیناً مجھے بھی وہ طعنہ قبول ہے جس کے تحت الزام دیا گیا ہے کہ : یہ کھیل صرف اور صرف سیاسی و خیراتی و مالی فوائد حاصل کرنے کے لئے کھیلا جاتا ہے۔

محترم فاروق صاحب ! کیا یہ قرینِ انصاف ہے کہ اگر احادیث ہمیں قبول نہ ہوں تو انہیں "کھیل" کہہ دیا جائے؟ انصاف تو یوں ہونا چاہئے کہ علمی طریقے سے ان احادیث (جس کی تفصیل یہاں پر) کو غلط ثابت کیا جائے۔
وہ احادیث جو بظاہر ہم کو اپنی کم فہمی یا کم علمی کے سبب متضاد نظر آتی ہیں ، انہیں کوئی آج سے منظر عام پر تخلیق نہیں کیا گیا ہے بلکہ وہ برسوں سے انہی متداول کتب میں موجود ہیں جن کے ذریعے سے ہی آپ نے خود مذکورہ بالا حدیث پیش کی تھی۔

آخری بات یہ کہ ۔۔۔۔
بقول اس حدیث کے : (یعنی ، بقول آپ کی طرف سے کئے گئے اردو ترجمہ کے :)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ نہ لکھو، اور جس کسی نے مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ بھی لکھا ماسوائے قران کے، وہ اس کو تلف کردے
آخر وہ کون نافرمان لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے اہم اور واضح حکم کو نہ مانا اور بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابوداؤد وغیرہ وغیرہ کے نام سے کتبِ احادیث کا زخیرہ پر زخیرہ تیار کر ڈالا؟
اگر صرف اسی حدیث کے ظاہری معنوں کو قبول کیا جائے اور دیگر احادیث سے صرفِ نطر کیا جائے تو ہمیں چاہئے کہ صدیوں سے چلے آ رہے اس تمام زخیرہ احادیث کو حکمِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعمیل میں فوراً سے پیشتر تلف کر دیں۔

یا پھر ۔۔۔۔۔۔
اگر ہم عبداللہ حیدر بھائی کے بتائے ہوئے اصول (یعنی دوسری متعلقہ احادیث سے موازنہ) کو مدنظر رکھیں تو ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں ان شاءاللہ کوئی مشکل نہیں پیش آئے گی کہ :
محدثین نے اس حدیث سے متعلق جو ذیل کی وضاحت کی ہے وہ برحق اور قابل قبول ہے !
امام بخاری اور بعض دوسرے محدثین نے اس "منع کتابت والی حدیث" کو معلول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔
(بحوالہ : تاریخ الحدیث و المحدثین ، ص : 312)
اور اسی لیے امام بخاری نے یہ حدیث اپنی صحیح بخاری میں درج نہیں کی ہے۔
بعض دوسرے محدثین اس حدیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں ، ان کی دلیل "حدیثِ قرطاس" ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کا حکم دیا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل آخری ایام کا واقعہ ہے۔ یعنی ، وہ عارضی حکم تھا جو دوسری اجازت یا حکم والی صحیح تر احادیث کے ذریعے ختم ہو گیا۔
اور امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس حدیث میں جو ممانعت ہے وہ محمول ہے اُس شخص پر جو اچھا حافظہ رکھتا ہو لیکن لکھنے میں اور کتابت پر اعتماد کرنے میں اس کو ڈر ہو مگر جس کا حافظہ اچھا نہ ہو اس کو لکھنے کی اجازت ہے۔ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ یہ اُس وقت کی حدیث ہے جب آپ کو ڈر تھا کہ کہیں قرآن اور حدیث مل نہ جائیں اور جب اس سے اطمینان ہو گیا تو آپ نے کتابت کی اجازت دے دی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اور میری حدیث ایک کتاب میں ملا کر نہ لکھو تاکہ پڑھنے والے کو شبہ نہ ہو۔
 
فاروق سرور خان نے کہا:
بھائی، آپ کے جواب اگر اطمینان بخش ہوتے تو سوال دہرائے کیوں جاتے۔ معنی سے اس قدر دور جوابات قابل اطمینان نہیں ہوتے ہیں، سوال اپنی جگہ رہتے ہیں۔ یہاں آپ "ریکارڈ کرنے "‌ کو "کتابت کرنے " سے بدل کر صرف دل خوش کرسکتے ہیں۔ کوئی اچھی خدمت نہیں‌۔ یہ روایات صاف صاف ایک اصول بیان کرتی ہے وہ آپ اچھی طرح پڑھئیے تو سمجھ لیں گے۔ باسم سمجھتے ہیں، آبی ٹو کول سمجھتے ہیں عبداللہ حیدر سمجھتے ہیں ۔ اور میری ناقص عقل میں آتا ہے۔ اگر آپ آپ "ریکارڈ کرنے "‌ کو "کتابت کرنے " سے بدلنا چاہتے ہیں تو کیجئے۔ ہم اصرار نہیں کرتے۔
میں اس حدیث پر کسی نئی بحث میں شامل ہونا پسند نہیں کروں گا۔ دوسرے دھاگوں میں دیکھ چکا ہوں کہ اس پر تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے اگر اس سے آپ کی تسلی نہیں ہوئی تو ہو سکتا ہے ہم تمام مکاتب فکر کے لوگ اپنی بات صحیح طور پر نہ سمجھا سکے ہوں۔ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا کوئی ایسا بندہ بھیج دے جو ہم سے بہتر انداز میں اسے بیان کر سکے۔ البتہ آپ نے فاکتبوا کا ترجمہ "ریکارڈ کرنا" کیا ہے اور اس کے درست ہونے پر اصرار بھی ہے جس پر مجھے شدید حیرت ہے۔
یہ لفظ قرآن کریم میں کئی مرتبہ آیا ہے اور مترجمین ہر جگہ اس کا مطلب "لکھنا" کیا ہے:
[arabic]فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَ۔ذَا مِنْ عِندِ اللّهِ لِيَشْتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ [البقرة : 79][/arabic]
" پس ایسے لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں، سو ان کے لئے اس (کتاب کی وجہ) سے ہلاکت ہے جو ان کے ہاتھوں نے تحریر کی اور اس (معاوضہ کی وجہ) سے تباہی ہے جو وہ کما رہے ہیں"
[arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ [/arabic]
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے
[arabic]وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ [الأعراف : 145][/arabic]
اور ہم نے ان کے لئے (تورات کی) تختیوں میں ہر ایک چیز کی نصیحت اور ہر ایک چیز کی تفصیل لکھ دی، تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو اور اپنی قوم کو (بھی) حکم دو کہ وہ اس کی بہترین باتوں کو اختیار کرلیں۔ میں عنقریب تمہیں نافرمانوں کا مقام دکھاؤں گا
[arabic]وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاء مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا قُلِ اللّهُ أَسْرَعُ مَكْراً إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ [يونس : 21][/arabic]
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت سے لذت آشنا کرتے ہیں تو فوراً (ہمارے احسان کو بھول کر) ہماری نشانیوں میں ان کا مکر و فریب (شروع) ہو جاتا ہے۔ فرما دیجئے: اللہ مکر کی سزا جلد دینے والا ہے۔ بیشک ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے، جو بھی فریب تم کر رہے ہو (اسے) لکھتے رہتے ہیں
[arabic]وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ [الأنبياء : 105][/arabic]
اور بلا شبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے (بیان کے) بعد یہ لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے
[arabic]إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ [يس : 12][/arabic]
. بیشک ہم ہی تو مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم وہ سب کچھ لکھ رہے ہیں جو (اَعمال) وہ آگے بھیج چکے ہیں، اور اُن کے اثرات (جو پیچھے رہ گئے ہیں)، اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے
میرا حسن ظن کہتا ہے کہ ان آیات کے ترجمے پر غور کرنے کے بعد "ریکارڈ کرنے" یا "لکھنے والی بحث اب ختم ہو جائے گی۔
یہ گفتگو اس وقت تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی جب تک ہم اصول طے نہ کر لیں۔ میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں سوال کیا تھا کہ کیا قرآن کریم کی ہر آیت کو اکیلے اکیلے سمجھا جا سکتا ہے؟ اگر آپ کو جواب ہاں میں ہے تو سورۃ الانعام کی آیت 145 کا مطلب سمجھا دیجیے جس میں چار چیزوں کے سوا کسی چیز کی حرمت کی نفی کی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اسے بدو یا شہری جس کے سامنے چاہیں پیش کریں وہ اس کا یہی مطلب بیان کرے گا۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں، قرآن کی آیت کو دوسری آیات کے ساتھ تقابل کے ساتھ ہی سمجھا جا سکتا ہے تو پھر حدیث کے معاملے میں یہی اصول اختیار کرنے میں کونسا امر مانع ہے۔
تکرار کے لیے معذرت چاہتا ہوں اگر اس مشکل کا حل مل جاتا تو میں آپ کو تکلیف نہ دیتا۔
 
عبداللہ حیدر صاحب اور دیگر احباب- آپ کا فراہم کیا ہوا "کتب" کا ترجمہ بالکل درست ہے۔

اس ترجمہ کو درست فرمادیجئے۔ ایک بار سب کی تشفی ہو جائے تو بات کرتے ہیں۔

‏[arabic]حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار [/arabic](اسناد کے بعد) مروی ہے کہ یقیناَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے (نسبت کرکےیا میری طرف سے کچھ نہ لکھو) کچھ نہ لکھو، اور جس کسی نے (مجھ سے نسبت کرکے) کچھ بھی لکھا ماسوائے قران کے، وہ اس کو تلف کردے اور میرے طرف سے بتا دو ایسا کرنے (تلف کرنے) میں کوئی گناہ نہیں اور جس کسی نے مجھ (رسول پرنور) سے کوئی بھی غلط بات منسوب کی ۔۔۔

مزید یہ بھی فرمائیے کہ :
یہاں لکھنے کے معنی لکھ کر ریکارڈ‌کرنے کے ہیں یا کہ کاتب کی کتابت کرنے کے عمل کے ہیں؟

میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ کوئی بھی معانی استعمال کئے جائیں، اس روایات کے مطابق رسول اللہ صلعم سے نسبت کرکے آپ غیر القران نہیں‌لکھیں گے یعنی ریکارڈ نہیں‌کریں گے یا آپ کے الفاظ میں‌کاتب صاحب کتابت بھی نہیں کریں گے۔ جو بھی غٍیر القرآن لکھا ہے اس کو تلف کردیں گے۔

میری رائے:
جس معنوں میں یہاں‌ لکھنا استعمال ہوا ہے وہ قرآن میں استعمال ہونے والے "کتب" سے بالکل مماثلت رکھتا ہے جو کہ "لکھنے " کے مساوی ہے۔ یعنی لکھ کر بطور ریکارڈ کرلینا۔ اس روایت کا مقصد واضح طور پر یہ ہے کہ رسول اللہ سے منسوب کرکے غیر القرآن یعنی قرآن کے علاوہ کچھ بھی نہ لکھا جائے۔ یہ تمام کتب روایات اس فرمان کے مخالف ہیں، اسی لئے خلفائے راشدہ نے یا کسی بھی صحابی نے اس قسم کی روایات کو ریکارڈ کرنے کی کوئی بھی کوشش نہیں‌کی ۔ بلکہ روایات موجود ہیں کہ جن لوگوں نے روایات لکھی ہوئی تھیں وہ تلف کردی تھیں۔

اس کے برعکس باذوق صاحب کا نکتہ نظر یہ ہے کہ یہ کتابت کرنے کے مساوی ہے - یعنی اس کو کتابت نہ جائے بلکہ صرف زبان سے کہا جائے ۔

اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس کتاب میں جو روایات ہیں وہ کسی نہ کسی طور پر، کسی نہ کسی لفظ سے ، کسی نہ کسی تاویل کی مدد سے رد کی جارہی ہیں۔

سنت کا اور اس کی درستگی کا مسئلہ اپنی جگہ۔
اصحابہ کرام کا ان روایات کو جمع نہ کرنا اور 250 سال تک کسی ترتیب کی کمی - اور اس کی موجودہ شکل ---- صرف اور صرف ایک مقصد رکھتی ہے۔ وہ ہے "مطلب براری" ۔ مالی مطلب براری، سیاسی مطلب براری اور سماجی مطلب براری (جیسے عورتوں‌کو مقید رکھنا اور حقوق سے محروم رکھنا) اور سب سے بڑھ کر تفرقہ بازی۔ کہ مستند روایات کے ساتھ اپنی مرضی کا تڑکا لگایا کہ قرآن میں‌پیوند لگایا جاسکے۔

آج تک میں‌ نے کوئی لسٹ‌نہیں‌دیکھی جس میں ملول، ضعیف، صحیح کا تذکرہ ہو۔ کل تک بھائی آپ ہی فرما رہے تھے کہ ان کتب میں سب روایات صحیح ہیں۔ صاحب یہ طعنہ نہیں۔ صاحب خود ہی دیکھئے کہ ان میں کچھ ملول ہیں ، کچھ ضعیف ہیں اور پھر بھی صحیح ہیں۔ ہم سب بہت ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ روایت صحیح روایات میں سعودی حکومت کی ویب سائٹ پر ہے۔ اور ضعیف و ملول روایات کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ قابل قبول نہیں - یعنی ملول و ضعیف دوسرا نام ہے نرمی سے رد کرنے کا۔

ایسا کیوں ہے کہ جب ضرورت پر کام آئے تو صحیح‌ اور الٹ پلٹ جائیں اور ثابت کردیں وہ بھی درست و صحیح جو کہ مکروہ و ناپاک ہو اور جب بالک صاف اور واضح الفاظ سامنے ہوں تو ملول و ضعیف ۔ بھائی آپ کو نہیں کہہ رہا یہ تفرقہ ڈالنے والی روایات ایک اچھا ہدایتی لٹریچر ہے اور صاحب اس میں کچھ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر یہ احتیاط قرآن سے پرکھ کے کرلی جائے تو کوئی بھی مضائقہ نہیں ۔ جس طرح شیعہ حضرات کی کتب ، سنیوں‌ کے ایمان کا حصہ نہیں، اور جس طرح سنیوں کی کتب شیعہ ایمان کا حصہ نہیں ۔ اس طرح یہ کتب بھی ایمان کا مطلق حصہ نہیں بس جو ہدایت میں‌ مدد کرے وہ اچھا ہے۔ جو نہ کرے ضعیف کہہ کر ایک طرف رکھ دیجئے۔ نکتہ نظر کی خوب وضاحت ہوگئی ہے ، آپ میرا اور میں آپ کا نکتہ نظر سمجھتا ہوں۔ اگر ہم یہاں تک رہیں اور اس پر صدق دل سے سوچیں تو بہت ہی اچھا ہے تاکہ باقی ساتھی اس نظریاتی کشمکش سے بیزار نہ ہوں۔ دعا کیجئے کہ ہم میں (مجھ سمیت) اگر کسی کے خیالات میں‌کجی ہے تو اللہ تعالی اس کوبہتر ہدایت دیں اور تور ایمان سے منور فرمائیں۔
 

باسم

محفلین
یہ کتبِ احادیث اب یونی کوڈ فارمیٹ میں دستیاب ہیں۔
1۔ صحیح بخاری (مختصر) اردو عربی، یونیکوڈ میں ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
2۔ صحیح مسلم (مختصر) اردو عربی، یونیکوڈ میں ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
ضروری وضاحت: یہ کتب کنورٹر کی مدد سے صرف ان پیج سے یونیکوڈ میں تبدیل کی گئی ہیں لہذا مزید تیکنیکی تبدیلیوں اور پروف ریڈنگ کی ضرورت باقی ہے۔
 

باذوق

محفلین
اس ترجمہ کو درست فرمادیجئے۔ ایک بار سب کی تشفی ہو جائے تو بات کرتے ہیں۔

‏[arabic]حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار [/arabic](اسناد کے بعد) مروی ہے کہ یقیناَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے (نسبت کرکےیا میری طرف سے کچھ نہ لکھو) کچھ نہ لکھو، اور جس کسی نے (مجھ سے نسبت کرکے) کچھ بھی لکھا ماسوائے قران کے، وہ اس کو تلف کردے اور میرے طرف سے بتا دو ایسا کرنے (تلف کرنے) میں کوئی گناہ نہیں اور جس کسی نے مجھ (رسول پرنور) سے کوئی بھی غلط بات منسوب کی ۔۔۔
حدیث کے اردو ترجمہ پر میرا اعتراض صرف ضمنی قسم کا اعتراض رہا ہے ، کوئی بنیادی اعتراض نہیں ہے۔ دراصل حدیث کے معاملے میں ترجمہ نہایت احتیاط کا تقاضا اس لئے کرتا ہے کہ غلط مفہوم جہنم کی وعید کا نشانہ بنا دیتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ کسی معروف مترجم کا ترجمہ نقل کر دیا جائے۔ جیسا کہ میں نے ذیل میں علامہ وحیدالزماں کا ترجمہ لگایا ہے ، دیکھ لیں کہ ۔۔۔۔
[ARABIC]وحدثوا عني ولا حرج[/ARABIC]
کا ترجمہ علامہ محترم نے یوں کیا ہے : البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کچھ حرج نہیں ۔۔۔
جبکہ فاروق صاحب کا ترجمہ یوں ہے : اور میرے طرف سے بتا دو ایسا کرنے (تلف کرنے) میں کوئی گناہ نہیں
muslimfw0.gif


خیر یہ تو ضمنی سی بات تھی۔ اصل بات اگلی پوسٹ میں ملاحظہ فرمائیں۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
میری کچھ مصروفیت کی وجہ سے میرا یہاں پر آنا جانا ذرا کم ہے لیکن پھر ایک کتاب یہاں پر میں نے لکھ دی ہے " فتنہ انکار حدیث " تو اس سے یہ اقتباس حاضر خدمت ہے باقی انشاءاللہ اس کی عربی فارمیت وغیرہ کل درست کر لوں گا

شروع میں حضور صلی اللہ وسلم نے کتابت حدیث سے اس لئے منع فرمایا تھا کہ قرآن سے التباس نہ ہوجائے کیونکہ اس وقت میں کتابت قرآن کا عام دستور تھا اور عوام قرآنی اسالیب اور اس کے معجزانہ انداز سے ابھی پورے مانوس نہ تھے ۔ کتابت حدیث سے منع کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہ تھا کہ حدیث قابل اعتبار نہیں ۔ اگر یہ مقصد ہوتا تو اپ حدیث کے بیان کرنے سے بھی روک دیتے ۔ حالانکہ مسلم شریف کی جس روایت میں کتابت سے نہی ہے اسی روایت کے آخر میں یہ جملہ بھی ہے " وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ " منکرین حدیث کی بددیانتی کا یہ عا لم ہے کہ جس حدیث سے استدلال لیتے ہیں اسی کےآخر کا وہ جملہ جو ان کے اہوائے باطلہ کے خلاف ہے ، اسے بالکل حذف کردیتے ہیں اور پھر تعجب یہ کہ انکار حدیث کے لئے خود حدیث سے استدلال کررہے ہیں جب حدیث قابل اعتماد نہیں تو لاتکتبوا الخ پر کیسےاعتماد کیا گیا ؟ حدیث کی اشاعت کے لئے حضور صلی اللہ وسلم نےفرمایا [arabic]فَلْيُبْلِغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ [/arabic]حاضر غائب کو پہنچا دے ۔
خود حضور صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں اور اس کے بعد زمانہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں حدیثیں بیان کرنے کا عام رواج تھا ۔ حضور صلی اللہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک خدمت پر بھیجتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم کس طرح فیصلہ کروگے ؟ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ پہلے قرآن پر نظر کروں گا ۔ پھر آپ کے قول و عمل سے استدلال کروں گا ۔ پھر اجتہاد سے کام لوں گا ۔ حضور صلی اللہ وسلم نے اس پر مسرت کا اظہار فرماکر حجیت حدیث کی تصدیق فرمادی ۔ حضور صلی اللہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے تَسْمَعُونَ وَيُسْمَعُ مِنْكُمْ وَيُسْمَعُ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْكُمْ ( ابوداودکی کتاب العلم) منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ تیسری صدی کے آخر میں حدیث کی تدوین ہوئی ہے سراسر غلط ہے ۔ تدوین کا کام حضور صلی اللہ وسلم کے زمانہ ہی سے شروع ہو چکا تھا اگرچہ عوام کو اختلاط بالقر ان کے خوف سے کتابت حدیث کی اجازت نہ تھی تاہم خاص خاص لوگوں کو کتابت کی اجازت تھی ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ حدیثیں یاد ہیں مگر عبداللہ بن عمروبن العاص لکھا کرتے تھے میں نہ لکھتا تھا [arabic]أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلَا أَكْتُبُ[/arabic] ( بخاری)
مستدرک حاکم سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی احادیث کا لکھا ہوا ذخیرہ موجود تھا چنانچہ حسن بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک حدیث سنائی تو اپ نےاس کا انکار کیا اور فرمایا کہ اگر تم نے یہ حدیث مجھ سے سنی ہے تو میری کتابوں میں موجود ہوگی ۔ چنانچہ آپ نے اپنی کتابوں میں تلاش کی تو حدیث مل گئی ۔ اس مقام پر منکرین حدیث نے دو اعتراض کئے ہیں ۔ ( 1 ) بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ ابو ہریرہ سے عبداللہ بن عمرو کو علم حدیث زیادہ تھا ۔ حالانکہ روایات کا ذخیر ہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ منقول ہے ۔ اس کا جواب یہ کہ بخاری کی روایت میں استثناء منقطع ہے اس لئے اس کا سابق جملہ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ نیز کثرت علم کثرت روایت کو مستلزم نہیں ۔ حضور صلی اللہ وسلم کے وصال کے بعد عبداللہ بن عمرو زیادہ تر شام میں رہے ہیں اور ابوہریرہ کا قیام مدینہ ہی میں رہا ہے ۔ چونکہ دور اول میں علم کا مرکز مدینہ ہی تھا ۔ لوگ تحقیق مسائل میں مدینہ ہی کے علماء کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ اس لئے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو روایات بیان کرنے کا زیادہ موقع ملا ۔

( 2 ) مستدرک حاکم میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی لکھی ہوئی حدیثیں موجود تھیں اور بخاری میں ہے " لا اکتب" اس کا جواب یہ ہے کہ ابوہریرہ خود لکھنا نہ جانتے تھے ان کے پاس جو ذخیرہ تھا وہ دوسروں سے لکھوایا گیاتھا ( فتح الباری ص 184ج 1 )
طبقات ابن سعد میں عبداللہ بن عمرو بن العاص کا واقعہ لکھا ہے کہ انہوں نے خدمت نبوی میں عرض کیا کہ جو حدیثیں میں نے آپ سے بالمشافہہ سنی ہیں ان کے لکھنے کی اجازت فرمائیں ۔ حضور صلی اللہ وسلم نے اجازت دے دی پھر عبداللہ نے در یافت کیا کہ صرف حالت نشاط کی حدیثیں لکھوں یا حالت غضب کی بھی ۔ آپ نے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا کہ اس منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا ۔ چنانچہ انہوں نے احادیث کوجمع کیا اور اس کانام " الصادقہ" رکھا ۔ یہی واقعہ ابوداود کی کتاب العلم میں بھی ہے ۔
جب لوگ قرآن کے معجزانہ اسلوب سے بخوبی واقف ہوگئے تو حضور صلی اللہ وسلم نے نہ صرف کتابت حدیث کی اجازت دی بلکہ لکھنے کا حکم دیا اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دینی مسائل اور پیغمبرانہ ہدایات خود لکھوائیں ۔
[arabic]كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَجْلِسُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْمَعُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُهُ وَلَا يَحْفَظُهُ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُنِي وَلَا أَحْفَظُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ لِلْخَطِّ [/arabic](رواہ الترمذی)
فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور ابو شاہ یمنی کی درخواست پر وہ خطبہ لکھوا کر ان کو دیا اکتبو الابی شاہ [[arabic]أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ قَامَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِي فَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا وَلَا تَحِلُّ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا أَنْ يُفْدَى وَإِمَّا أَنْ يُقِيدَ فَقَالَ الْعَبَّاسُ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّا نَجْعَلُهُ لِقُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ قُلْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ مَا قَوْلُهُ اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ هَذِهِ الْخُطْبَةَ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [/arabic]] ( مفتاح السنۃ مصر ی ص 17 بخاری)
عمرو بن حزم کو یمن بھیجتے وقت حضور صلی اللہ وسلم نے ایک مفصل تحریری ہدایت نامہ دیا جس میں صدقات ، دیات ، فرائض وغیرہ کے احکام تھے(مفتاح السنۃ ص 18 )
مسلم بن الحارث کے والد کو حضور صلی اللہ وسلم نے دوسرے شخص سے بشارت لکھواکر دی ( ابوداود)

طائف کے ایک شخص نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو ان کی ایک کتاب سنائی تھی ( ترمذی کتاب العال) خطیب کی روایت کے مطابق حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی احادیث کا مجموعہ تھا ۔ حضرت انس اپنی اولاد کو کتابت حدیث کا حکم دیا کرتے تھے ۔ ( درامی ص68 )
ابن عبدالبر نے جامع میں عبد الرحمان بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک کتاب دکھا کر قسم کھائی اور کہا کہ یہ عبداللہ بن مسعود کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے ۔
عبداللہ بن مسعود اور علی رضی اللہ تعالی عنہما نے بعض احادیث کو لکھ کر صحیفہ کی صورت میں اپنے پاس رکھا (بخاری) بعض کثیر الروایات صحابہ مثلاً ابوہریرہ ،عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر، جابر بن عبداللہ، براء بن عازب اور انس بن مالک وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہم کی مرویات کو ان کے شاگرد ، ان کے روبرو بیٹھ کر لکھا کرتے تھے ۔ ( دارمی68 ، 69 ۔ تہدیب التہذیب جلد 4 ص 198 ۔ کتاب العلل للترمذی )
حضرت عمر نے عمال حکومت کے لئے صدقتہ الماشیہ کے احکام لکھ رکھے تھے ۔ ( موطا مصری صفحہ 135 ، 136 ، 151 ، 152 پراس قسم کی مثالیں ملا حظہ ہوں)
مگر اس زمانہ حفظ صدور پر زیادہ زور تھا ۔ عرب کے لوگ حافظہ میں مشہور تھے ۔ طویل وعریض قصیدے ، مختلف مضامین کے انہیں یاد ہوتے تھے اور اونٹوں گھوڑوں کے نسب نامے حفط تھے ۔ حضور صلی اللہ وسلم کی احادیث کو ان لوگوں نے خصوصیت سے وحی الہی سمجھ کر حفظ کیا اور حضور صلی اللہ وسلم کے قول و فعل کو واجب الاتباع جان کر اس کی حفاظت کی ۔ حضور صلی اللہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے حضور صلی اللہ وسلم کو نہ دیکھا تھا وہ دور دراز سے سفر کرکے صحابہ سے حضور صلی اللہ وسلم کے حالات دریافت کرتے تھے اور انہیں محفوظ رکھتے تھے ۔ خود صحابہ نے دوسرے ممالک پہنچ کر حدیث کی تبلیغ کی ۔ دارمی نے میعون بن مہران سے روایت کیا ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تو ابو بکر پہلے قرآن میں تلاش کرتے اگر قرآن سے فیصلہ نہ ملتا تو اپنی معلومات احادیث میں غور کرتے ۔ اگر اس میں قاصر رہتے تو صحابہ میں عام طور پر اعلان کرواتے کہ ہمارے یہاں اس قسم کا مسئلہ پیش آیا ہے کیا اپ صاحبوں میں سے کسی کو اس سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ معلوم ہے ؟ بعض دفعہ ایسا بھی ہواہے لوگ اکر آپ سے علم نبوی بیان کرتے اور اسے سن کر آپ اللہ کا شکر کرتے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو یاد رکھنےوالے موجود ہیں اور اگر اس پر بھی فیصلہ نہ ہوتا تو صحابہ سے مشورہ لےکر اتفاق سے رائے سے فیصلہ کردیتے ۔ اگر کوئی شخص ایسی بات کہتا جو صحابہ کرام میں مشہور و معروف نہ ہوتی تو اس سے اس کے متعلق شہادت طلب کی جاتی خواہ وہ کیسا ہی معتبر کیوں نہ ہوتا ۔

مغیرہ بن شعبہ نے ابوبکر صدیق کے دریافت کرنے پر جب بتایا کہ جدہ کو حضور صلی اللہ وسلم سدس دیاکرتے تھے تو اپ نے پوچھا ھل معک احد؟ کیا تیر ا کوئی گواہ ہے اس پر محمد بن مسلمہ نے یہی گواہی دی تب صدیق نے جدہ کو سدس دیا ( بخاری و مسلم )

حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا دور آیا اور اس میں تکبیر جنازہ ، جزیہ مجوس ، طاعون ۔ خبر الضحاک بن سفیان فی توریت المرأۃ من دیۃ زوجھا ۔ اور خبر سعد بن ابی وقاص فی المسح علی الخفین وغیرہ کا فیصلہ احادیث ہی کو ۔ ۔ ۔ حجت بناکر کیا گیا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے اس حدیث کے بیان کرنے پر شہادت طلب کی کہ جب کوئی مسلمان(باہر سے ) تین مرتبہ سلام کہنے پر (اندر سے ) جواب نہ پائے ( اسے اندر انے کی اجازت نہ ملے ) تو واپس چلا جائے ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی تصدیق و شہادت پر ابو مو سی رضی اللہ تعالی عنہ کی پریشانی رفع ہوئی ( مفتاح السننۃ ص19 ، 20 ، حاکم ، بخاری، مسلم )
ان واقعات سے ثابت ہوا کہ محدیثین نےروایات حدیث کی پوری چھان بین کی ہے اسی وجہ سے اسماء الرجال اور اصول جرح و تعدیل کو مستقل فنون کی صورت میں مدون فرمایا ۔ اور صرف انہی احادیث کو ( ٹھوس علمی شہادت کی بنا پر ) صحیح قرار دیا جو اصول روایت در روایت کے بلند معیار پر پوری اتریں اور تعارض کی حالت میں ان میں کوئی معقول صورت تطبیق کی دریافت ہوسکی اور قرآن کے خلاف کسی حدیث کو بھی قبول نہ کیا ۔
ازالۃ الخفاء میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ۔
" فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بسیارازامہات فن حدیث و روایت کردہ است ودر دست مردم تاہنوزباقی است بعد ازان فاروق علماء صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم راباقلیم دارالاسلام روان ساخت و امر کرد باقامت شہر ہا و بر وایت حدیث درآنجا "
حضرت ابو ذر عفاری رضی اللہ تعالی عنہ کوروایت حدیث کا اس قدر شعف تھا اور حدیث کی تبلیغ و اشاعت اس قدر ضروری سمجھتےتھےکہ فرماتے ہیں : ۔
" اگر تم میر ے قتل کے لئے میرے گردن پر تلوار رکھ دو اور مجھے یہ امید ہو کہ مرنے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کلمہ بھی جو میں نےسنا ہے پہنچا سکوں تو میں ضرور کہہ دوں گا ۔ ( بخاری)
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ جب احادیث بیان کرتے تو سننے والوں کے ذوق و شوق کی یہ حالت ہوتی تھی کہ آدمیوں کی دیوار آپ کے سامنے کھڑی ہوجاتی ۔ بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کی کثرت اور ہجوم کے سبب مکانوں کی چھت پر چڑھ کر روایت بیان کرتے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ زمانہ نبوی میں کم سن تھے ، آپ زیادہ عمر کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دروازوں پر صبح کے وقت سے لیکر دوپہر تک صرف اس لئے بیٹھےرہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات وہ بیان کریں تو اسے لکھ لیں ۔ رسول اللہ علیہ کے عہد مبارک میں اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ میں بہت سے اجلئہ صحابہ مثلاً معاذ ابن جبل ، عمرو بن حزم ، عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمرو بن العاص ، زید بن ثابت ، ابو الدردا ، ابوذر ، ابوموسی اشعری وغیرہ ہم رضی اللہ تعالی عنہم مکہ ، مدینہ ، کوفہ ،بصرہ ، شام، مصراور یمن وغیرہ بلادمملکت اسلامیہ میں پھیل گئے اور ہرجگہ انہوں نے کتاب و سنت کی تعلیم دی ۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے بعد تابعین رحمہم اللہ کا زمانہ آیا ۔ انہوں نے دنیا ئے اسلام کے بعید سے بعید گوشہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو کمال حفاظت کے ساتھ پہنچایا ۔
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اگرچہ ذاتی یادداشتیں لکھی ہوئی تھی ۔ مگر حدیث کی کو ئی کتاب مرتب نہ تھی ۔ پہلی صدی کے آخر میں عمر بن عبدالعزیز (متوفی سن 101 ھجری) نے مدینہ منورہ کے والی ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو لکھا : ۔
انظر ما کان من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاکتبہ خفت دروس العلم وذھاب العلمائ ( مفتاح السنۃ ص 21 )
حضور صلی اللہ وسلم کی حدیثیں لکھ لو مجھے حدیث کے مٹ جانے کا خوف ہے

اور اسے یہ بھی لکھا کہ عمرہ بنت عبدالرحمان انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا ( متوفاۃ سن 98 ھجری ) اور القاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ( متوفی 120 ھجری )کی احادیث کے جو مجموعے ہیں وہ لکھ کر ان کے پاس بھیجے ۔
اسی طرح دوسرے بڑے شہروں مکہ ، کوفہ ، بصرہ ، شام اور یمن وغیرہ میں اپنے عمال کو تدوین حدیث کےلئے لکھا ۔ امام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن الشہاب الزہری المدنی ( المتوفی سن 124 ھجری) بھی انہی لوگوں میں سے تھے جن کو تدوین حدیث کے متعلق لکھا گیاتھا ( مفتاح السنۃ )

خلیفہ عادل کی اس ہدایت نے محدثین کی حوصلہ افزائی کی اور انہوں نے اپنی کو ششوں کو تیز تر کردیا اور احادیث کی تدوین کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا ۔ اس مقدس گروہ میں سب سے ممتاز شخصیت محمد بن مسلم زہری کی ہے ۔ ان کی پیدائش سن 50 ھجری میں ہوئی ۔ سنن و آثار نبوی کے قصر کے یہ چھ ستون فن حدیث میں بڑا درجہ رکھتے ہیں ۔ امام زہری ( مدینہ میں) عمرو بن دینار(مکہ میں ) قتادۃ و یحیٰ بن کثیر ( بصرہ میں) ابو اسحاق و سلیمان اعمش ( کوفہ میں) ۔
امام زہری تابعین کے طبقہ اولی کے محدثین میں سے ہیں جنہوں نے احادیث کو قلمبند کیا ۔ بعد میں اسی دوسری صدی میں طبقہ ثانیہ آیا اس میں تدوین عام اور شائع ہوگیا ۔ چنانچہ ابن جریح ( متوفی سن 150 ھجری) نے سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں احادیث کو بصورت کتابت جمع کیا ۔ ( مدینہ منورہ میں) ابن اسحاق متوفی سن 151ھجری اور امام مالک متوفی 179 ھجری (بصرہ میں) ربیع بن صبیح متوفی 160 ھجری (کوفہ میں) سفیان ثوری متوفی سن 191 ھجری (شام میں) اوزاعی متوفی 156 ھجری (یمن میں) معمر متوفی سن153ھجری اور خراسان میں ابن المبارک متوفی سن 181 ھجری وغیرہ نے احادیث کو لکھ کر مدون کیا ۔ جس میں اقوال صحابہ اور تابعین کے فتاوی بھی مختلف تھے ۔ اسی دور ہی میں سفیان بن عینیہ مکہ میں ۔ حمادبن سلمہ وسعید بن ابی عروبہ بصرہ میں ۔ ہشیم بن بشیر واسط میں ۔ وکیع بن الجراح شام میں ۔ عبد الزاق یمن میں ۔ جریرہ بن عبداللہ وغیرہم ایسے جلیل القدر محدیثین گزرے ہیں جن کے کارنامے حیات ابدی پاچکے ہیں ۔

ازالۃ الخفاء میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ۔
" فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بسیارازامہات فن حدیث و روایت کردہ است ودر دست مردم تاہنوزباقی است بعد ازان فاروق علماء صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم راباقلیم دارالاسلام روان ساخت و امر کرد باقامت شہر ہا و بر وایت حدیث درآنجا "
حضرت ابو ذر عفاری رضی اللہ تعالی عنہ کوروایت حدیث کا اس قدر شعف تھا اور حدیث کی تبلیغ و اشاعت اس قدر ضروری سمجھتےتھےکہ فرماتے ہیں : ۔
" اگر تم میر ے قتل کے لئے میرے گردن پر تلوار رکھ دو اور مجھے یہ امید ہو کہ مرنے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کلمہ بھی جو میں نےسنا ہے پہنچا سکوں تو میں ضرور کہہ دوں گا ۔ ( بخاری)
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ جب احادیث بیان کرتے تو سننے والوں کے ذوق و شوق کی یہ حالت ہوتی تھی کہ آدمیوں کی دیوار آپ کے سامنے کھڑی ہوجاتی ۔ بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کی کثرت اور ہجوم کے سبب مکانوں کی چھت پر چڑھ کر روایت بیان کرتے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ زمانہ نبوی میں کم سن تھے ، آپ زیادہ عمر کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دروازوں پر صبح کے وقت سے لیکر دوپہر تک صرف اس لئے بیٹھےرہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات وہ بیان کریں تو اسے لکھ لیں ۔ رسول اللہ علیہ کے عہد مبارک میں اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ میں بہت سے اجلئہ صحابہ مثلاً معاذ ابن جبل ، عمرو بن حزم ، عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمرو بن العاص ، زید بن ثابت ، ابو الدردا ، ابوذر ، ابوموسی اشعری وغیرہ ہم رضی اللہ تعالی عنہم مکہ ، مدینہ ، کوفہ ،بصرہ ، شام، مصراور یمن وغیرہ بلادمملکت اسلامیہ میں پھیل گئے اور ہرجگہ انہوں نے کتاب و سنت کی تعلیم دی ۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے بعد تابعین رحمہم اللہ کا زمانہ آیا ۔ انہوں نے دنیا ئے اسلام کے بعید سے بعید گوشہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو کمال حفاظت کے ساتھ پہنچایا ۔
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اگرچہ ذاتی یادداشتیں لکھی ہوئی تھی ۔ مگر حدیث کی کو ئی کتاب مرتب نہ تھی ۔ پہلی صدی کے آخر میں عمر بن عبدالعزیز (متوفی سن 101 ھجری) نے مدینہ منورہ کے والی ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو لکھا : ۔
انظر ما کان من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاکتبہ خفت دروس العلم وذھاب العلمائ ( مفتاح السنۃ ص 21)
حضور صلی اللہ وسلم کی حدیثیں لکھ لو مجھے حدیث کے مٹ جانے کا خوف ہے

اور اسے یہ بھی لکھا کہ عمرہ بنت عبدالرحمان انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا ( متوفاۃ سن 98 ھجری ) اور القاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ( متوفی 120 ھجری )کی احادیث کے جو مجموعے ہیں وہ لکھ کر ان کے پاس بھیجے ۔
اسی طرح دوسرے بڑے شہروں مکہ ، کوفہ ، بصرہ ، شام اور یمن وغیرہ میں اپنے عمال کو تدوین حدیث کےلئے لکھا ۔ امام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن الشہاب الزہری المدنی ( المتوفی سن 124 ھجری) بھی انہی لوگوں میں سے تھے جن کو تدوین حدیث کے متعلق لکھا گیاتھا ( مفتاح السنۃ )

خلیفہ عادل کی اس ہدایت نے محدثین کی حوصلہ افزائی کی اور انہوں نے اپنی کو ششوں کو تیز تر کردیا اور احادیث کی تدوین کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا ۔ اس مقدس گروہ میں سب سے ممتاز شخصیت محمد بن مسلم زہری کی ہے ۔ ان کی پیدائش سن 50 ھجری میں ہوئی ۔ سنن و آثار نبوی کے قصر کے یہ چھ ستون فن حدیث میں بڑا درجہ رکھتے ہیں ۔ امام زہری ( مدینہ میں) عمرو بن دینار(مکہ میں ) قتادۃ و یحیٰ بن کثیر ( بصرہ میں) ابو اسحاق و سلیمان اعمش ( کوفہ میں) ۔
امام زہری تابعین کے طبقہ اولی کے محدثین میں سے ہیں جنہوں نے احادیث کو قلمبند کیا ۔ بعد میں اسی دوسری صدی میں طبقہ ثانیہ آیا اس میں تدوین عام اور شائع ہوگیا ۔ چنانچہ ابن جریح ( متوفی سن 150 ھجری) نے سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں احادیث کو بصورت کتابت جمع کیا ۔ ( مدینہ منورہ میں) ابن اسحاق متوفی سن 151ھجری اور امام مالک متوفی 179 ھجری (بصرہ میں) ربیع بن صبیح متوفی 160 ھجری (کوفہ میں) سفیان ثوری متوفی سن 191 ھجری (شام میں) اوزاعی متوفی 156 ھجری (یمن میں) معمر متوفی سن153ھجری اور خراسان میں ابن المبارک متوفی سن 181ھجری وغیرہ نے احادیث کو لکھ کر مدون کیا ۔ جس میں اقوال صحابہ اور تابعین کے فتاوی بھی مختلط تھے ۔ اسی دور ہی میں سفیان بن عینیہ مکہ میں ۔ حمادبن سلمہ وسعید بن ابی عروبہ بصرہ میں ۔ ہشیم بن بشیر واسط میں ۔ وکیع بن الجراح شام میں ۔ عبد الزاق یمن میں ۔ جریرہ بن عبداللہ وغیرہم ایسے جلیل القدر محدیثین گزرے ہیں جن کے کارنامے حیات ابدی پاچکے ہیں ۔


اللہ اکبر کبیرا
 

باذوق

محفلین
مزید یہ بھی فرمائیے کہ :
یہاں لکھنے کے معنی لکھ کر ریکارڈ‌کرنے کے ہیں یا کہ کاتب کی کتابت کرنے کے عمل کے ہیں؟

میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ کوئی بھی معانی استعمال کئے جائیں، اس روایات کے مطابق رسول اللہ صلعم سے نسبت کرکے آپ غیر القران نہیں‌لکھیں گے یعنی ریکارڈ نہیں‌کریں گے یا آپ کے الفاظ میں‌کاتب صاحب کتابت بھی نہیں کریں گے۔ جو بھی غٍیر القرآن لکھا ہے اس کو تلف کردیں گے۔

میری رائے:
جس معنوں میں یہاں‌ لکھنا استعمال ہوا ہے وہ قرآن میں استعمال ہونے والے "کتب" سے بالکل مماثلت رکھتا ہے جو کہ "لکھنے " کے مساوی ہے۔ یعنی لکھ کر بطور ریکارڈ کرلینا۔ اس روایت کا مقصد واضح طور پر یہ ہے کہ رسول اللہ سے منسوب کرکے غیر القرآن یعنی قرآن کے علاوہ کچھ بھی نہ لکھا جائے۔ یہ تمام کتب روایات اس فرمان کے مخالف ہیں، اسی لئے خلفائے راشدہ نے یا کسی بھی صحابی نے اس قسم کی روایات کو ریکارڈ کرنے کی کوئی بھی کوشش نہیں‌کی ۔ بلکہ روایات موجود ہیں کہ جن لوگوں نے روایات لکھی ہوئی تھیں وہ تلف کردی تھیں۔

اس کے برعکس باذوق صاحب کا نکتہ نظر یہ ہے کہ یہ کتابت کرنے کے مساوی ہے - یعنی اس کو کتابت نہ جائے بلکہ صرف زبان سے کہا جائے ۔

اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس کتاب میں جو روایات ہیں وہ کسی نہ کسی طور پر، کسی نہ کسی لفظ سے ، کسی نہ کسی تاویل کی مدد سے رد کی جارہی ہیں۔

سنت کا اور اس کی درستگی کا مسئلہ اپنی جگہ۔
اصحابہ کرام کا ان روایات کو جمع نہ کرنا اور 250 سال تک کسی ترتیب کی کمی - اور اس کی موجودہ شکل ---- صرف اور صرف ایک مقصد رکھتی ہے۔ وہ ہے "مطلب براری" ۔ مالی مطلب براری، سیاسی مطلب براری اور سماجی مطلب براری (جیسے عورتوں‌کو مقید رکھنا اور حقوق سے محروم رکھنا) اور سب سے بڑھ کر تفرقہ بازی۔ کہ مستند روایات کے ساتھ اپنی مرضی کا تڑکا لگایا کہ قرآن میں‌پیوند لگایا جاسکے۔

آج تک میں‌ نے کوئی لسٹ‌نہیں‌دیکھی جس میں ملول، ضعیف، صحیح کا تذکرہ ہو۔ کل تک بھائی آپ ہی فرما رہے تھے کہ ان کتب میں سب روایات صحیح ہیں۔ صاحب یہ طعنہ نہیں۔ صاحب خود ہی دیکھئے کہ ان میں کچھ ملول ہیں ، کچھ ضعیف ہیں اور پھر بھی صحیح ہیں۔ ہم سب بہت ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ روایت صحیح روایات میں سعودی حکومت کی ویب سائٹ پر ہے۔ اور ضعیف و ملول روایات کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ قابل قبول نہیں - یعنی ملول و ضعیف دوسرا نام ہے نرمی سے رد کرنے کا۔
متذکرہ حدیث صحیح مسلم کی حدیث ہے اور یہ صحیح حدیث ہے ، اس کو ردّ کرنے کا سوال ہی نہیں۔
ہاں ، اصل بحث یہ ہے کہ : کیا اس ایک حدیث سے وہ فیصلہ فائینل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ فاروق صاحب نے لکھا :
اس روایت کا مقصد واضح طور پر یہ ہے کہ رسول اللہ سے منسوب کرکے غیر القرآن یعنی قرآن کے علاوہ کچھ بھی نہ لکھا جائے۔ یہ تمام کتب روایات اس فرمان کے مخالف ہیں

اوپر کی کئی پوسٹس میں بار بار یہ بات دہرائی جا چکی ہے کہ کسی ایک آیت یا کسی ایک حدیث سے کوئی واحد فیصلہ فائینل نہیں کیا جا سکتا !!
علاوہ ازیں ۔۔۔۔ جس رسول نے ایک بات منع کی ہو اگر وہی رسول بعد میں اپنی ممانعت کو ختم کر دے تو کیا رسول کا تازہ حکم مانا نہیں جائے گا؟؟

حالانکہ یہ تو عین قرآنی فکر ہے !!
ثبوت میں ذیل کی دو قرآنی مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

سورہ البقرہ کی آیات 143 اور 144 دیکھیں۔
کعبة اللہ کو قبلہ بنائے جانے سے قبل مسلمان "بیت المقدس" کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ پھر آیات بالا میں "کعبة اللہ" کو قبلہ بنانے کا حکم نازل ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۔۔۔
[ARABIC]وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا ......[/ARABIC]
اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا (اردو ترجمہ: طاہر القادری)
اس آیت کے ذریعے تو اللہ تعالیٰ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ کعبة اللہ سے پہلے والے قبلہ کو بھی اسی نے مقرر کیا تھا۔ اب اس کو ختم کر کے نیا حکم ملا کہ "کعبہ" کی جانب رُخ کیا جائے۔

دوسری مثال :
[ARABIC]أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ ...... (بقرة : 187)[/ARABIC]
تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو، اﷲ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ (اردو ترجمہ: طاہر القادری)
پہلے یہ حکم تھا کہ روزوں کی راتوں میں بیویوں سے مباشرت حرام تھی۔ جیسا کہ مکمل آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام ہونے کے باوجود لوگ باز نہیں آتے تھے لہذا اللہ نے لوگوں کے حال پر رحم کیا اور انہیں معاف کیا اور اپنا سابقہ حکم ختم کر کے نیا حکم لاگو کیا۔

اب دیکھئے کہ ۔۔۔ یہی قرآنی فکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپناتے ہیں۔
پہلے اس ضمن میں دو الگ الگ مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

[ARABIC]قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها ونهيتكم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث فأمسكوا ما بدا لكم ونهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء فاشربوا في الأسقية كلها ولا تشربوا مسكرا ‏"‏ ‏.[/ARABIC]
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : میں تم کو منع کرتا تھا قبروں کی زیارت سے سو اب تم زیارت کیا کرو اور منع کرتا تھا تم کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے کو سو اب جب تک چاہو رکھو اور منع کرتا تھا میں تم کو "نبیذ" بنانے سے مگر مشکوں میں سو اب پینے کے برتنوں میں سے جس میں چاہو بناؤ مگر نشہ کی چیز نہ پیو۔
[ARABIC]صحيح مسلم ، كتاب الجنائز ، باب استئذان النبي صلى الله عليه وسلم ربه عز وجل في زيارة قبر أمه ، حديث:2305[/ARABIC]

[ARABIC]رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ يا ايها الناس اني قد كنت اذنت لكم في الاستمتاع من النساء وان الله قد حرم ذلك الى يوم القيامة فمن كان عنده منهن شىء فليخل سبيله ولا تاخذوا مما اتيتموهن شيئا‏"‏ ‏.[/ARABIC]
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : اے لوگو! میں تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دیتا رہا ہوں اور بےشک اللہ تعالیٰ نے یہ چیز اب قیامت تک کے لیے حرام کر دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحيح مسلم ، كتاب النكاح ، باب نكاح المتعة وبيان انه ابيح ثم نسخ ثم ابيح ثم نسخ واستقر تحريمه الى يوم القيامة ، حديث:3488

بالکل اسی طرح ۔۔۔۔ پہلے حکم تھا کہ حدیث نہ لکھی جائے۔ پھر پہلا حکم ختم کر کے نیا حکم جاری ہوا کہ حدیث لکھی جائے !
دلائل بھی ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔ (ویسے تو میں نے یہاں وہ تمام احادیث درج کر دی تھیں جن سے حدیث کے لکھے جانے کا ثبوت ملتا ہے)۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جو حدیث ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا ، اس کو لکھ لیتا اپنے یاد کرنے کے لیے۔
پھر قریش کے لوگوں نے مجھ کو لکھنے سے منع کیا اور کہا کہ : تم ہر بات لکھ لیتے ہو حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں ، غصے اور خوشی کی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں۔
یہ سن کر میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا :
[ARABIC]اكتب فوالذي نفسي بيده ما يخرج منه إلا حق[/ARABIC]
لکھا کر !
قسم اس ذات پاک کی جس کے اختیار میں میری جان ہے ، اس منہ سے سوائے سچ کے ، کوئی بات نہیں نکلتی۔
ابو داؤد ، كتاب العلم ، باب : في كتابة العلم ، حدیث : 3648

حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ دیا۔ یہ سن کر ایک یمنی شخص (ابوشاہ) نے حاضر ہو کر عرض کیا :
یا رسول اللہ ! یہ (سب احکام) مجھے لکھ دیجئے ۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( [ARABIC]اکتبوا لابی فلان[/ARABIC] ) ابو فلاں کو لکھ دو۔
صحیح بخاری ، كتاب العلم ، باب : كتابة العلم ، حدیث : 112
ترمذی ، كتاب العلم عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، باب : ما جاء في الرخصة فيه ، حدیث : 2879

ایسی احادیث بہت ہیں جن سے حدیث کو ریکارڈ کرنے / کتابت کرنے / بیان کرنے کا حکم ملتا ہے اور یہ تمام درجہ کے لحاظ سے بھی قوی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قسم کے احکام (ممانعت اور اجازت) والی احادیث کو سامنے رکھ کر کیا فیصلہ کیا جانا چاہئے؟ خاص طور پر وہ آخری حکم جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں دیا تھا کہ : حاضر ، غائب کو خبر دے (بحوالہ بخاری اور دیگر کتب احادیث)۔
پھر بخاری ، کتاب العلم (باب : حفظ العلم) میں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی واقعہ مذکور ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تھی کہ انہیں احادیث یاد نہیں رہتیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور ابوھریرہ نے کہا کہ اس کے بعد سے وہ کوئی حدیث نہیں بھولے۔
اگر احادیث ، دین کا حصہ نہ ہوتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاف کہہ دیتے کہ میں انہیں لکھنے / کتابت کرنے / ریکارڈ کرنے سے منع کر چکا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ایسی دعا کرتے کہ ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) کا رہا سہا حافظہ بھی ختم ہو جاتا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان کے حافظہ کے قوی ہونے کی دعا فرمائی !!

اگر اب بھی یہی کہا جائے کہ احادیث کی کتابت / ریکارڈ / بیان ممنوع ہے تو پھر ہمیں چاہئے کہ احادیث کے تمام تر زخیرے کو تلف کر دیں !
مگر کیا یہ ممکن ہے؟
حالانکہ خود فاروق سرور خان صاحب احادیث کے وجود اور ان کی اہمیت کا انکار نہیں کرتے جیسا کہ آپ نے اسی تھریڈ کی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ آپ صرف انہی روایات کو نہیں مانتے جو بہت واضح طور پر قرآن کی مخالف لگتی ہیں۔ یعنی باقی روایات کو تو آپ بھی مانتے ہیں ! الحمدللہ۔

خلفائے راشدہ نے یا کسی بھی صحابی نے اس قسم کی روایات کو ریکارڈ کرنے کی کوئی بھی کوشش نہیں‌کی ۔
بہت پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ صرف زبانی کلامی دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل آج تک نہیں دی گئی۔ اس کے مقابل سات حوالے دئے گئے ہیں کہ دورِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں احادیث "ریکارڈ" بھی ہوتی تھیں۔ تفصیل یہاں دیکھ لیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جو احادیث "ریکارڈ" کر رکھی تھیں اس مجموعے کو آج بھی "صحیفۂ علی" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صحیح بخاری سے اس کی دلیل دیکھیں :
ابو جحیفہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ :
کیا تمہارے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟
انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ : نہیں ! مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔
میں نے پوچھا : اس صحیفے میں کیا ہے؟
انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان ، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
صحیح بخاری ، كتاب العلم ، باب : کتابۃ العلم ، حدیث : 111
 
آپ کا شکریہ آپ کی کاوشوں کے لئے ہے ۔ یہ مثالیں اس لئے دیں تھیں کہ یہ واضح ہوجائے کہ کیا کیا معیار ہیں روایات کو سمجھنے اور سمجھانے کے۔ ان ہی تمام روایات کو پڑھنے کے بعد ہی میں‌اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جہاں بھی شبہ ہو وہاں قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے۔

آئیے دعا کریں کہ اللہ تعالی سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔ اس دھاگے کہ میں کئی بار پڑھ چکا ہوں۔ اور پڑھتا رہوں‌گا۔ آپ سے بھی استدعا ہے کہ پڑھتے رہئیے۔ سب سےاہم بات یہ ہے کہ ہم سب پر یہ واضح ہے کہ کون کیا نظریہ یا سوچ رکھتا ہے۔ امید یہ کرتا ہوں کہ مستقبل میں ایک دوسرے کو درست کرنے کے بجائے سب کے لئے معلومات فراہم کرنے پر ہماری توجہ رہے۔

والسلام
 

سلفی کال

محفلین
ہمارے مذہب اسلام کے مکمل فریم ورک میں‌ جب کوئی بات فٹ نہ بیٹھے تو اس کے سب سے بیتر جج ہم اور آپ ہیں
اگر ھم اور آپ جج ہیں تو اللہ کا دین کا تو نہ ہوا ،،یہ تو محض ایک انسانی فلسفہ اور آراء ھوئیں ،،اور یہ بات تو مسلم کہ انسانی فلسفہ اور آراء کو قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار سب کو حاصل ہے،،اور ایسی چیز دین و شریعت نہیں کچھ اور کہلا سکتی ہے
 
Top