بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

ايسے ميں قلم اور كتاب كسي كاتب وحي كے گھر پر هي ميسر هو سكتا هے. جو لانے ميں وقت لگے گا.
کاتب وحی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گھر کتنی دور تھا جہاں سے یہ سامان لانے میں دیر لگتی ؟؟؟؟

بهر حال حضرت عمر كي فقاهت پر تو كتب موجود هيں، يهاں صرف يه ثابت كرنا تھا كه اگر بعض صحابه بزرگ أصحاب سے اختلاف نه كرتے اور حضرت عمر كي بات پر غور كرتے اور مان ليتے تو تنازعه نه هوتا
کتنی عجیب بات ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے بر عکس حضرت عمر کی بات پر غور کرکے مان لینے کا مشورہ دیا جارہا ہے !!! اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہی مان لی جاتی تو یہ تنازعہ پیدا ہی نہیں ہوتا
 
آخری تدوین:
حضرت عمر رضي الله عنه كي خلافت كي پوري زندگي اٹھا كر ديكھ ليں. معلوم هوجائے گا كه سنت كي كيا قانوني اور تشريعي حيثيت هے.
حضرت عمر کی نظر میں حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قولی سنت کی اہمیت !
مفہوم حدیث صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بیان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ میں تشریف فرماتھے اتنے میں حضرت ابو ھریرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اے ابو ھریرہ میری یہ نعلین لے جاؤ اور جو تمہیں کلمہ طیبہ کی دلی یقین سے گواہی دیتا ہوا ملے ایسے جنت کی بشارت دو باغ کے باہر سب سے پہلی ملاقات حضرت عمر سے ہوتی ہے ابو ھریرہ ان سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو بھی کلمہ طیبہ کی دلی گواہی دے گا اس کے لئے جنت کی بشارت ہے اس حدیث کو سنتے ہی حضرت عمر شدید غصہ ہوجاتے ہیں اور ابو ھریرہ کے ایک زور دار ضرب لگاتے ہیں جس سے وہ زمین پر گر جاتے ہیں عمر حکم دیتے ہیں کہ واپس جاؤ ابو ھریرہ واپس رسول اللہ کے پاس حاضر ہوتے ہیں پیچھے پیچھے حضرت عمر بھی حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ اگر صرف کلمہ طیبہ پر لوگوں کی جنت کی بشارت دی گئی تو یہ عمل کرنا چھوڑ دیں گے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اچھا تو پھر عمل کرنے دو
مفہوم حدیث کا اختیام ہوا

یہاں بھی اعرابی والی حدیث کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر کا قول قبول کرلیا ، یہ ہے سنت پر عمل کی حقیقت

حضرت عمرکی نظر میں اپنے دور حکومت میں سنت کی اہمیت !
صحیح مسلم ہی میں بیان ہوا کہ
حضرت عمر کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا ! میں جنبی ہوگیا ہوں( یعنی مجھے غسل کی حاجت ہے ) اور پانی نہیں مل سکا حضرت عمر نے فرمایا ! نماز مت پڑھ حضرت عمار کہنے لگے اے امیر المومینن ! کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ ایک سریہ میں تھے دونوں جنبی ہوگئے تھے اور ہمیں پانی نہیں ملا آپ نے نماز نہیں پڑھی اور میں زمین پر لوٹ پوٹ ہوگیا اور نماز پڑھ لی ( جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا اور واقعہ عرض کیا ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! تمہارے لئے اتنا کافی تھا کہ تم دونوں ہاتھ زمین پر مارتے پھر پھونک مار کر گرد اڑاتے پھر ان کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتے حضرت عمر نے کہا ! اے عمار اللہ سے ڈرو حضرت عمار نے کہا آپ فرماتے ہیں تو میں کسی اور سے یہ حدیث بیان نہ کروں گا
حدیث کا مفہوم ختم ہوا

یہاں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ دی تھی ان کی بیان کی ہوئی حدیث کا انکار کیا جارہا ہے نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کی تیمم کے بارے میں واضح آیات سے بھی لاعلمی کا ثبوت دیا جارہا کیا ایسی کو فقاہت کہا جارہا ہے ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے کتب حدیث اور تاریخ سے
 
يهاں بات لكھي هوئي چيز كي هو رهي هے تو حضرت عمر كا قول اس پر محمول هے كه جو چيزيں تمهارے پاس مكتوب شده هيں ان ميں سے قرآن كافي هے.
صلح حدیبیہ کے موقع پر مکتوب شدہ معاہدے پر حضرت عمر کا رد عمل کیسا تھا یہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں مکتوب کردیا ہے ایک بار ملاحظہ فرمالیں
 
حضور صلى الله عليه وسلم حضرت ابو بكر كے علاوه كسي اور كو خليفه پسند كريں گے تو كبھي بھي حضرت ابو بكر كي بيعت كامياب نه هوتي.
حضرت عمر كي بيعت اس كے لئے شهادت كافي هے كه امامت كا كوئي تصور اسلام ميں ممكن نهيں. اسلام ميں تقوى معيار هے نسب ونسل نهيں.
کیا خلافت کے لئے تقویٰ معیار ہے نسب اور نسل نہیں ؟؟
امام بخاری نے اپنی صحیح میں سقیفہ بنی ساعدہ کے حوالے سے جو حدیث پیش کی اس میں حضرت ابوبکر کی تقریر کے الفاظ کے مطابق خلافت کے کے لئے قبیلہ قریش کے اعلیٰ نسب و نسل ہی کی دلیل دی هذا الأمر إلا لهذا الحى من قريش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هم أوسط العرب نسبا ودارا،‏‏‏‏ اس تقریر کے بارے حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے بھی اپنے ذہین میں سقیفہ بنی ساعدہ کی جانی والی تقریر کو تیار کرلیا تھا لیکن مجھ سے پہلے حضرت ابوبکر نے تقریر کرنے شروع کردی ابو بکر کی تقریر میرے ذہین میں بنائی گئی تقریر جیسی ہی تھی بلکہ اس سے بھی بہتر تھی یعنی ان دونوں حضرات کے خیال سے خلافت پرقریش کا حق اس لئے ہے کہ یہ قبیلہ اعلیٰ نسب و نسل ہے
جب اعلیٰ نسب و نسل ہی معیار ہے خلافت کے لئے تو یہ ایک مسلم حقیقت ہے تمام عرب میں قبیلہ قریش اور تمام قبیلہ قریش میں بنی ہاشم ہی اعلیٰ نسب ہیں پھر کیوں قبیلہ بنی تمیم کا ایک فرد خلافت کا حق دار ہوا جبکہ قبیلہ بنی تمیم کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشادات کی روشنی میں یہ قبیلہ نہایت کم درجہ پر ہے اور ایک ناکام اور نامراد قبیلہ ہے
 
ذیل میں ایک کتاب کا لنک فراہم کررہا ہوں۔ یہ کتاب علامہ احمد سعید ملتانی صاحب نے لکھی ہے جو 74 سال کے ہیں اور جناب عرصہ 35 سال سے جامعہ محمدیہ احیاء السنۃ، کبیر والا شہر ضلع خانیوال میں قرآن اور حدیث کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جناب نے بخاری محدث کے ایسے بیانات کو واضح کیا ہے جو فرمان الہی قرآن حکیم کے سراسر خلاف ہیں۔

http://ia701508.us.archive.org/2/it...adath/QuranMuqaddasOrBukhariMuhadath_text.pdf

احمد سعید ملتانی چتروڑگڑھی جنہوں نے ’قرآن مقدس اور بخاری محدث‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے، جس میں انہوں نے صحیح بخاری کی 54 حدیثوں پر متعدد اعتراضات کیے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں محترم حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اس کتاب کا جامع اور مسکت جواب دیا ہے۔ حافظ صاحب نے کتاب کے شروع میں ملتانی صاحب کے 34 جھوٹوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ذیل میں کتاب کا رابطہ موجود ہے۔۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ اپنے حبیبﷺ کے صدقے حق کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔۔
جزاک اللہ

http://www.islamhouse.com/d/files/u..._bari_fi_tatbeeq_ul_quran_w_sahih_bukhari.pdf
 
احمد سعید ملتانی چتروڑگڑھی جنہوں نے ’قرآن مقدس اور بخاری محدث‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے، جس میں انہوں نے صحیح بخاری کی 54 حدیثوں پر متعدد اعتراضات کیے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں محترم حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اس کتاب کا جامع اور مسکت جواب دیا ہے۔ حافظ صاحب نے کتاب کے شروع میں ملتانی صاحب کے 34 جھوٹوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ذیل میں کتاب کا رابطہ موجود ہے۔۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ اپنے حبیبﷺ کے صدقے حق کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔۔
جزاک اللہ

http://www.islamhouse.com/d/files/u..._bari_fi_tatbeeq_ul_quran_w_sahih_bukhari.pdf
زبیر علی زئی صاحب کے تذکرہ کردہ 34 جھوٹوں میں سے پہلے جھوٹ کا جائزہ

زبیر علی زئی صاحب اپنے مذکورہ کتاب میں رقم طراز ہیں کہ " اس عبارت میں متعرض نے ایک غلط بات لکھی ہے اور دو جھوٹ بولے ہیں​
اول:۔ یہ کہنا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی ہے کائنات کے بڑے جھوٹوں میں ایک جھوٹ ہے کیونکہ ایسی کوئی روایت صحیح یا حسن سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں

جواب :۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث کا مفہوم حضرت ابو ھیریرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ”سورۃ الجمعہ“ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم الایۃ اور دوسرو ں کے لئے بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہادی اور معلم ہیں) بیان کیا میں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ دوسرے کون لوگ ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر یہی سوال تین مرتبہ کیا۔ مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہو گا تب بھی ان لوگوں (یعنی فارس والوں) میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا۔
مفہوم حدیث ختم ہوا
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ملک فارس کے رہنے والے تھے ایسی لئے فارسی کہلائے ایسی طرح امام اعظم ابو حنیفہ بھی فارسی النسل تھے اور یہ اولین امام ہیں جو فارسی النسل ہیں امام جلال الدین سیوطی اور امام حجر ہیتمی کی تحقیق بھی یہی ہے کہ جس خوش نصیب اہل فارس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشارت دی تھی وہ امام اعظم ابو حنیفہ ہی ہیں
یہ ہے اس کائنات کے سب سے بڑے جھوٹ کی حقیقت
زبیر علی زئی صاحب فرماتے ہیں کہ
دوم :۔ یہ کہنا کہ امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کو مسلمانوں سے دھوکہ فراڈ کرنے والا کہا یہ جھوٹ ہے

جواب :۔ زبیر علی زئی صاحب نے یہاں کوئی دلیل نہیں دی کہ یہ کس بناء پر جھوٹ ہے کیونکہ اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں جہاں بعض لوگ کہہ کر ان کا رد کیا ہے ان بعض لوگوں میں امام ابو حنیفہ بھی آتے ہیں متعرض صحیح بخاری کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ امام بخاری نے کتاب الحیل یعنی کتاب حیلہ میں بیان کی ہے اور مکان کی خرید و فروخت کے ایک مسئلہ کو بیان کر کے اس کا رد کیا اور کہا ہے کہ" ان لوگوں نے مسلمانوں کے آپس میں مکروفریب کو جائز رکھا "
ان سب باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے متعرض نے جو کہا وہ ہی درست ہے کیونکہ بغیر دلیل کے زبیر علی زئی کا یہ کہنا کہ یہ جھوٹ ہے خود سلفیوں کے لئے بھی قابل قبول نہیں

زبیر علی زئی صاحب فرماتے ہیں کہ
اس عبارت میں یہ بات غلط ہے کہ امام ابو حنیفہ تابعی صغیر تھے ۔

جواب:۔ امام ابو حنیفہ کی ولادت کے سن میں اختلاف ہے اس بارے میں تین قول ہیں پہلے قول کے مطابق آپ کی ولادت 80 ھجری ، دوسرے قول کے مطابق 70 ھجری اور تیسرے قول کے مطابق 61 ھجری میں ہوئی اور وفات 150 ھجری میں ہوئی یہ وہ عرصہ ہے جس میں کئی صحابی حیات تھے اور اس عرصہ میں انس بن مالک کے کوفہ میں آنے کی خبر مصدقہ ہے اب ایک ایسا فرد جس کو دین سے لگاؤ ہو اور کسی صحابی کے کوفہ آنے پر ان کی زیارت نہ کرے یہ بات ناممکن ہے ایسی لئے ابن کثیر تاریخ ابن کثیر میں کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ان چار آئمہ میں سے ایک ہیں جن کے مذہب کی اتباع کی جاتی ہے اور آپ وفات میں ان سب سے مقدم ہیں کیونکہ آپ نے صحابہ کا زمانہ پایا اور انس بن مالک کو دیکھا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے ان کے علاوہ اور صحابہ کرام کی زیارت کی
 

فرسان

محفلین
آپ كي بات كا رد كيا جا چكا هے۔
تاهم آپ كی تمام عرض ومعروض صرف اسي بات پر قائم هے كه صحابه نے نافرماني كي اور اس كا جواب پہلے ہی ديا جا چكا هے۔
بلا شبه بعض فرقوں كي طرف سے صحابه پر كفر كے فتوے بھی موجود ہیں اور ایسے کبیر فتاواجات كي موجودگی ميں بلا سمجھے نافرماني كا الزام قدرے چھوٹا جرم هے۔
 
آخری تدوین:

فرسان

محفلین
جبکہ قبیلہ بنی تمیم کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشادات کی روشنی میں یہ قبیلہ نہایت کم درجہ پر ہے اور ایک ناکام اور نامراد قبیلہ ہے
كاش آپ کچھ انساب سے بھی بہرہ ور ہوسکیں کہ قبيله "بنو تميم" كون هيں اور ان کا وطن کہاں ہے اور حجاز میں قبيله قريش كا "خاندان تميم" قبيله هے بھی یا نهيں۔
حضرت خليفه رضي الله عنه كا قبيله قريش تھا اور قبيله تميم جس كا ذكر حديث میں ہے وه قريش سے عليحده ايك قبيله هے جو مهاجرين كا قبيله نهيں۔
برائے مهرباني حضور صلى الله عليه وسلم كے ارشاد پاك سے يه بھی ثابت كرديں كه یہ قبیلہ نہایت کم درجہ پر ہے۔
 
آخری تدوین:

فرسان

محفلین
ايسے کچھ واقعات جن میں حضرات صحابه نے (بشمول حضرت علي) حضور كي راحت يا ادب كي خاطر قرآن كے حكم پر عمل كرتے هوئے ايسے حكم پر عمل كرنے سے تامل كيا جس سے حضور كو تكليف پہنچنے كا احتمال هو وه سابقه مشاركات میں گزر چکے ہیں۔ مجھے يقين هے كه جس طرح حضرت علي رضي الله عنه نے حديبيه كے روز حضور كے ادب کا خیال رکھا تھا ضرور اسی طرح قرطاس والے موقع پر بھی حضور كي راحت كا خيال ركھنے والے اصحاب میں شامل تھے ورنه اگر قلم دوات ان كے گھر میں موجود تھا تو وہ كسي سے خوف کھائے بنا فورا حاضر كرديتے۔
 

فرسان

محفلین
یہاں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ دی تھی ان کی بیان کی ہوئی حدیث کا انکار کیا جارہا ہے۔

حضور نے حضرات عمار كے ايمان اور شيطان سے پناہ كي بشارت دي تھی نه كه حافظه كي۔ اور حضرت عمر سنت كو اتني اهميت ديتے تھے كه بعض اوقات صرف ايك راوي سے كوئي دوسرا گواہ طلب كر ليا كرتے تھے۔ يه واقعه بھی انہی میں سے ہے۔

حضرت علي بھی (سوائے حضرت ابو بكر الصديق كے) باقي اگر ايك راوي هو تو اس سے قسم بھی ليا كرتے تھے۔
 
آخری تدوین:

فرسان

محفلین
بلکہ قرآن کی تیمم کے بارے میں واضح آیات سے بھی لاعلمی کا ثبوت دیا جارہا کیا ایسی کو فقاہت کہا جارہا ہے۔

برائے مهرباني ايسي آيت هميں بھی دکھا دیجیے جس میں جنابت سے تيمم كا ذكر هے ورنه آپ اپنے "ایمان" كي حرارت میں حضرت عمر كے ساتھ حضرت عمار پر بھی عدم فقهاهت كا دشنام لگا گئے ہیں۔

بھلا اگر قرآن میں ایسی آیت ہے تو حضرت عمار نے اس کو بطور استدلال ذكر كيوں نه كيا؟؟؟ قرآن سے پہلے كوئی اور دليل بطور استدلال پیش کرنا عدم فقاهت هے۔
بهر حال يه آیت موجوده قرآن میں اگر ہے تو پیش کی جائے۔
 
آخری تدوین:

فرسان

محفلین
حضرت عمر کی نظر میں سنت کی اہمیت !

اگر واقعي آپ كو حضرت عمر كي پوری حيات سے يه هي مثاليں ملی ہیں كه جن سے آپ سنت كي اهميت واضح كر سكيں تو يه بات آپ كے حق میں کافی تشویشناک ہے۔
آپ غالبا بخاري شريف كے دھاگے كو شيعه سني مناظرة میں بدلنا چاہتے ہیں۔

ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے کتب حدیث اور تاریخ سے

بلا شبهه آپ ایسی چند اور مثالیں بھی پیش كرسكتے ہیں۔ كيونكه بعض فرقوں نے احاديث كي كتابوں سے چن چن كر ايسي احاديث جمع كركے باقاعده كتب ترتيب دي ہیں جن سے حضرات صحابه پر كسي بھی طرح طعن میں مدد ملتي هو۔

مگر درحقيقت ان احاديث كو طعن كے لئے ايك خاص انداز میں بيان كيا جاتا ہے۔ اكثر اوقات ترجمه میں غلطي كي جاتي هے۔ بعض اوقات عوام كي جهالت سے فائده اٹھاتے ہوئے احاديث كا معنى بدلا كر بات پیش کی جاتي هے۔ ايك مثال بنو تميم والي تو يهيں موجود هے۔
 
آخری تدوین:

فرسان

محفلین
شيعه سني تنازع كئي صديوں پر محيط هے۔ اگر كوئی واقعه هي يه يقين كرلے كه بهترين نبي اور بهترين آسماني كتاب سے وجود میں آنے والي امت اپنے پیارے نبی کے وصال کے ایک ہفتہ کے اندر اندر گمراہ ہوگئی اور دين کے ارکان میں تحریف بھی واقع هوگئی ، تو ايسي عقل زريں كسي مناظرے كي محتاج نهيں۔

حالانكه صحابه كے فضائل اور ان سے الله كي رضا قرآن میں بيان هے جبكه اهل بيت كے شيعه تصور كي فضيلت میں ایک بھی آیت نہیں ، امامت پر آیات تو دور کی بات ہے۔
شيعه سني تنازع كئي صديوں پر محيط هے۔ اس لئے اس پر مزید مناظرة وسائل كا ضياع هے ، میں معذرت چاہوں گا۔
 

فرسان

محفلین
کتنی عجیب بات ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے بر عکس حضرت عمر کی بات پر غور کرکے مان لینے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
قرآن کے حكم پر عمل كا تقاضه تو يهي هے كه حضورسيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم كا خيال جان سے بھی زياده ركھا جائے۔ جب حضور كو آخری وقت میں بھی امت كا خيال هے تو جان نثار امت كيوں حضور كي تكليف پر حضور كا خيال نه كرے ؟؟؟

مگر معاشره میں هميشه سے ایسے لوگ موجود رہے ہیں کہ والد پر اگر تکلیف طاری ہو تو انھیں وراثت كے حساب كتاب كي پڑی رهتي هے اور وه والد كي تلكيف كا خيال نهيں کرتے۔ اور صحيفه وصيت كي طمع رهتي هے چاہے اس کا وجود ہی نہ ہو۔
 
صحابه پر كفر كے فتوے بھی موجود ہیں اور ایسے کبیر فتاواجات كي موجودگی ميں بلا سمجھے نافرماني كا الزام قدرے چھوٹا جرم هے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فورا بعد ہی صحابہ منکر زکوۃ ہوگئے تھے جن کی سرکوبی کے لئے حضرت ابو بکر نے کئی لشکر روانہ کئے اور ہزاروں لوگوں کو مارا گیا ۔ اور آپ صرف فتویٰ دینے پر اتنے چیں باجبیں ہورہے ہیں
 
بات چونکہ حضرت عمر فاروقِ اعثم رضی اللہ عنہ کی ہورہی ہے تو سوچا یہ واقعہ بھی شئیر کرتے چلیں، آج یہ تحریر ایک جگہ پر نظر سے گذری۔۔۔۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک وفد بیت المقدّس بھیجا وہ وَفد کوئی عام آدمیوں کا نہیں بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا وَفد تھا یہ وَفد بیت المقدّس پہنچا یہ اُس دور کی بات ہے جب بیت المقدّس پر پادریوں کا قبضہ تھا حضرت عمر بیت المقدّس کو پادریوں کے چُنگل سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پادریوں سے کہا کہ ہم امیر المومنین حضرت عمر فاروق کی جانب سے یہ پیغام لائے ہیں کہ تم لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔ یہ سُن کر پادریوں نے کہا ہم لوگ صرف تمہارے امیر المومنین کو دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جو نشانیاں ہم نے فاتح بیت المقدّس کی اپنی کتابوں میں پڑھی ہیں وہ نشانیاں ہم تمہارے امیر میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ نشانیاں تمہارے امیر میں موجود ہوئیں تو ہم بغیر جنگ و جدل کے بیت المقدّس تمہارے حوالے کردیں گے یہ سُن کر مسلمانوں کا یہ وَفد حضرت عمر فاروق کی خدمت میں حاضر ہوااور سارا ماجرا آپ کو سُنایا۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے اپنا ستر پیوند سے لبریز جُبّہَ پہنا، عمامہ شریف پہنا اور جانے کے لئے تیار ہوگئے سارے صحابہ کرام علیہم الرض...وان ، حضرت عمر سے عرض کرنے لگے حضور! وہاں بڑے بڑے لوگ ہوں گے، بڑے بڑے پادری ہوں گے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اچھا اور نیا لباس پہن لیں۔ ہمارے بیت المال میں کوئی کمی نہیں۔

انسانی فطرت کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ جب بندہ کوئی بڑی جگہ جاتا ہے تو وہ اچھا لباس پہنتا ہے تاکہ اُس کا وقار بلند ہو۔ مگر اﷲ اکبر! صحابہ کرام علیہم الرضوان کی یہ بات سُن کر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو جلال آگیا اور فرمانے لگے کہ کیا تم لوگ یہ سمجھے کہ عمر کو عزت حکومت کی وجہ سے ملی ہے یا اچھے لباس کی وجہ سے ملی ہے؟ نہیں عمر کو عزت حضور کی غلامی کی وجہ سے ملی ہے آپ فوراً سواری تیار کر کے روانہ ہوگئے جیسے ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیت المقدّس پہنچے تو حضرت عمر فارقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا حُلیہ مبارک دیکھ کر ، سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کو دیکھ کر پادریوں کی چیخیں نکل گئیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں میں گِر پڑے اور ساری بیت المقدّس کی چابیاں حضرت عمر کے حوالے کردیں اور کہنے لگے کہ ہمیں آپ سے جنگ نہیں کرنی کیونکہ ہم نے جو حُلیہ فاتح بیت المقدس کا کتاب میں پڑھا ہے یہ وہی حُلیہ ہے اس طرح بغیر جنگ کے بیت المقدّس آزاد ہوگیا۔
 
كاش آپ کچھ انساب سے بھی بہرہ ور ہوسکیں کہ قبيله "بنو تميم" كون هيں اور ان کا وطن کہاں ہے اور حجاز میں قبيله قريش كا "خاندان تميم" قبيله هے بھی یا نهيں۔
حضرت خليفه رضي الله عنه كا قبيله قريش تھا اور قبيله تميم جس كا ذكر حديث میں ہے وه قريش سے عليحده ايك قبيله هے جو مهاجرين كا قبيله نهيں۔
برائے مهرباني حضور صلى الله عليه وسلم كے ارشاد پاك سے يه بھی ثابت كرديں كه یہ قبیلہ نہایت کم درجہ پر ہے۔
میں یہ مانتا ہوں کہ علم انساب میں اتنا طاق نہیں ہوں یہ خطاء ایسی بناء پر ہوئی آپ کی توجہ دلانے پر جب میں نے اس پر مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر کا تعلق قبیلہ قریش کی ایک شاح بنو تیم سے ہے اور قبیلہ بنوتمیم ایک الگ قبیلہ ہے جو نجد اور اس کے اطراف میں آباد تھا اور سلفیوں کے امام محمد بن عبدالوھاب التمیمی نجدی کا تعلق ایسی قبیلے سے ہے اور اس نام یکسا نیت کی بناء پر یہ خطاء ہوئی لیکن آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری اس غلطی کی نشاندہی فرماکر میرے علم میں اضافہ کے باعث بنے شکریہ
لیکن میں اب بھی آپ سے مدبانہ یہی عرض کرنا ہے کہ بنو تیم کہ جو حضرت ابو بکر کا خاندان ہے وہ پھر بھی خاندان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی بنی ہاشم سے نسب میں کم درجہ پر ہے یا اگر اس پر کوئی دلیل ہے کہ بنو تیم ہی قبیلہ قریش میں سب سے اعلی خاندان ہے تو اس کے لئے دلیل دے کر مجھ ناقص علم کے علم میں اضافہ فرمائے شکریہ کیونکہ یہ یاد رہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کے لئے اعلی نسب اور خاندان کی دلیل دی گئی تھی
 
ايسے کچھ واقعات جن میں حضرات صحابه نے (بشمول حضرت علي) حضور كي راحت يا ادب كي خاطر قرآن كے حكم پر عمل كرتے هوئے ايسے حكم پر عمل كرنے سے تامل كيا جس سے حضور كو تكليف پہنچنے كا احتمال هو وه سابقه مشاركات میں گزر چکے ہیں۔ مجھے يقين هے كه جس طرح حضرت علي رضي الله عنه نے حديبيه كے روز حضور كے ادب کا خیال رکھا تھا ضرور اسی طرح قرطاس والے موقع پر بھی حضور كي راحت كا خيال ركھنے والے اصحاب میں شامل تھے ورنه اگر قلم دوات ان كے گھر میں موجود تھا تو وہ كسي سے خوف کھائے بنا فورا حاضر كرديتے۔

حضرت مولا علی علیہ السلام نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی معاہدے سے نہ مٹایا اس میں صرف ادب کو ہی ملحوض نہیں رکھا بلکہ یہ ان کے ایمان کی بھی بات تھی کیونکہ معاہدے سے صرف نام محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )مٹانے کی بات نہیں تھی کیونکہ یہ نام تو بعد میں بھی لکھا گیا اور اس پر کفار نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا کفار کا اعتراض تو ""محمد رسول اللہ "" پر تھا جو ہر مسلمان کے ایمان کا ہے اگر مولا علی علیہ السلام یہ مٹادیتے تو آج ناصبی اس کو دلیل بنا کر مولا علی علیہ السلام پر طن کرتے جو کہ اس کے باوجود بھی کرتے ہیں
جہاں تک بات ہے راحت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راحت ایسی میں ہے کہ ان کی امت گمراہی سے بچ جائے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے عبادت کرکے اللہ سے دعا کرتے تھے یہ مکتوب بھی ایسی سلسلے کی ایک کڑی تھی
مولا علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کا کس درجہ خیال رکھتے تھے یہ امام احمد رضا خان صاحب کے اس شعر سے معلوم ہوجائے گا
مولا علی نے واری تیری نیند پر نماز
وہ بھی عصر جو سب سے زیادہ خطر کی ہے

یہاں رد شمس والی حدیث کی طرف اشارہ ہے
 
آخری تدوین:
حضور نے حضرات عمار كے ايمان اور شيطان سے پناہ كي بشارت دي تھی نه كه حافظه كي۔ اور حضرت عمر سنت كو اتني اهميت ديتے تھے كه بعض اوقات صرف ايك راوي سے كوئي دوسرا گواہ طلب كر ليا كرتے تھے۔ يه واقعه بھی انہی میں سے ہے۔
"اللہ تعا لیٰ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے صرف ایمان کو پناہ دی تھی !!!! نہ کہ حافظے کو!!! "
حضرت عمار نے جو حدیث بیان کی اس کا تعلق دین کے احکام سے تھا اورکیا یہ اس اللہ کی پناہ سے باہر ہے ؟؟؟؟
یعنی حضرت عمر کے آگے کوئی صحابی حدیث بیان کرتے تو اس سے ایک اور گواہ طلب کیا جاتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ " الصحابہ کلھم عدول " کے فلسفے پر حضرت عمر کا ایمان نہیں تھا یا کوئی اور بات تھی صحیح مسلم کی حدیث جو بیان کی کہ حضرت عمر نے حدیث بیان کرنے پر ابو ھیریرہ کو مارا اور فہم رسالت کے اوپر اپنی رائے کو اہمیت دی اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور ہی بات تھی ۔۔۔۔۔۔۔
 
Top