حضرت عمر رضي الله عنه كي خلافت كي پوري زندگي اٹھا كر ديكھ ليں. معلوم هوجائے گا كه سنت كي كيا قانوني اور تشريعي حيثيت هے.
حضرت عمر کی نظر میں حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قولی سنت کی اہمیت !
مفہوم حدیث صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بیان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ میں تشریف فرماتھے اتنے میں حضرت ابو ھریرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اے ابو ھریرہ میری یہ نعلین لے جاؤ اور جو تمہیں کلمہ طیبہ کی دلی یقین سے گواہی دیتا ہوا ملے ایسے جنت کی بشارت دو باغ کے باہر سب سے پہلی ملاقات حضرت عمر سے ہوتی ہے ابو ھریرہ ان سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو بھی کلمہ طیبہ کی دلی گواہی دے گا اس کے لئے جنت کی بشارت ہے اس حدیث کو سنتے ہی حضرت عمر شدید غصہ ہوجاتے ہیں اور ابو ھریرہ کے ایک زور دار ضرب لگاتے ہیں جس سے وہ زمین پر گر جاتے ہیں عمر حکم دیتے ہیں کہ واپس جاؤ ابو ھریرہ واپس رسول اللہ کے پاس حاضر ہوتے ہیں پیچھے پیچھے حضرت عمر بھی حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ اگر صرف کلمہ طیبہ پر لوگوں کی جنت کی بشارت دی گئی تو یہ عمل کرنا چھوڑ دیں گے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اچھا تو پھر عمل کرنے دو
مفہوم حدیث کا اختیام ہوا
یہاں بھی اعرابی والی حدیث کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر کا قول قبول کرلیا ، یہ ہے سنت پر عمل کی حقیقت
حضرت عمرکی نظر میں اپنے دور حکومت میں سنت کی اہمیت !
صحیح مسلم ہی میں بیان ہوا کہ
حضرت عمر کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا ! میں جنبی ہوگیا ہوں( یعنی مجھے غسل کی حاجت ہے ) اور پانی نہیں مل سکا حضرت عمر نے فرمایا ! نماز مت پڑھ حضرت عمار کہنے لگے اے امیر المومینن ! کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ ایک سریہ میں تھے دونوں جنبی ہوگئے تھے اور ہمیں پانی نہیں ملا آپ نے نماز نہیں پڑھی اور میں زمین پر لوٹ پوٹ ہوگیا اور نماز پڑھ لی ( جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا اور واقعہ عرض کیا ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! تمہارے لئے اتنا کافی تھا کہ تم دونوں ہاتھ زمین پر مارتے پھر پھونک مار کر گرد اڑاتے پھر ان کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتے حضرت عمر نے کہا ! اے عمار اللہ سے ڈرو حضرت عمار نے کہا آپ فرماتے ہیں تو میں کسی اور سے یہ حدیث بیان نہ کروں گا
حدیث کا مفہوم ختم ہوا
یہاں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ دی تھی ان کی بیان کی ہوئی حدیث کا انکار کیا جارہا ہے نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کی تیمم کے بارے میں واضح آیات سے بھی لاعلمی کا ثبوت دیا جارہا کیا ایسی کو فقاہت کہا جارہا ہے ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے کتب حدیث اور تاریخ سے