ارے واه !
يه شراكت تو سب سے زياده مضحكه خيز هے ، اور سچ پوچھيے تو ميں كهه سكتا هوں كه اس طرز استدلال پر ميرے "هاسے" چھوٹ گئے.
يعني كه ايك جليل القدر صحابي جن كي اپني زبان عربي تھي وه آيت سمجھ نه سكے اور دليل يه دي جاتي هے كيونكه هندوستان كے جالندھري صاحب نے آيت كا مطلب اور ترجمه كسي اور طرح سمجھا !!!
آفرين !
آپ نے تو ايسي بات كي جيسے كوئي شخص كهے كه حضرت علي كرم الله وجهه نے بعد از ركوع قنوت پڑھ كر غلطي كي ، اور ثبوت يه دے كيونكه هندوستان كے كوئي عالم قبل از ركوع قنوت پڑھنے كے قائل هيں. ايك تو كيا پورا هندوستان ايك طرف جمع هو جائے تو بھي اس كے قول كي اتني حيثيت نهيں كه حضرت علي رضي الله عنه وأرضاه كو غلط ثابت كرسكے.
يا جيسے كوئي كهے كه حضرت حسن رضي الله عنه نے لشكر جرار هونے كے باوجود اپنا منصب چھوڑ كر غلط قدم اٹھايا اور ثبوت يه دے كيونكه حضرت حسن رضي الله عنه كے لشكر كے كئي لوگ ان كے اس اقدام كو غلط كهتے هيں.
تو جناب يه جالندھري صاحب والي دليل نےبهت محظوظ كيا.
پہلی بات یہ کہ یہ جالندھری صاحب ایک وہابی عالم ہیں اور وہابیوں کے بارے آپ اس دھاگے میں تعریفوں کے پل باندھ رہےہیں اب وہابیوں کی دلیل آپ کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی کیونکہ آپ صرف اپنے نفس کی ہی پیروی میں لگے ہوئے ہیں
یہ بات یاد رہے کہ اس دھاگے میں آپ کی موجودگی کی وجہ جو آپ نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں آپ نے امام بخاری کی صحیح بخاری کا دفاع کرنا ہے لیکن آپ کا عمل اس کے بلکل برعکس ہے یعنی آپ یہاں صحیح بخاری کا ہی رد فرمارہے ہیں وہ کس طرح وہ بیان کیا جاتا ہے
صحیح بخاری میں کتاب تیمم میں امام بخاری نے ایک حدیث بیان کی ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے جو کہ داؤد راز صاحب نے کیا ہےیاد رہے یہ صاحب بھی وہابی ہیں
صحیح بخاری ۔ کتاب تیمم ،باب: جب جنبی کو (غسل کی وجہ سے) مرض بڑھ جانے کا یا موت ہونے کا یا (پانی کے کم ہونے کی وجہ سے) پیاس کا ڈر ہو تو تیمم کر لے ،
حدیث نمبر: 346
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ (بن مسعود) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف (ہاتھ اور منہ کا تیمم) کافی تھا۔ ابن مسعود نے فرمایا کہ تم عمر کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے (جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے) عبداللہ بن مسعود اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔ (اعمش کہتے ہیں کہ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔
عربی متن کے لئے درجہ ذیل لنک پر تشریف لائیں
http://hadith.al-islam.com/Page.aspx?pageid=192&TOCID=241&BookID=24&PID=341
یہ ہے ایک صحابی کی دلیل جس سے صاف پتا چل رہا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی روایت کی گئی حدیث کو نہیں مانا یعنی صحابہ کلھم عدول کےفلسفے کا انکار کیا اور پھر صحابی نےتیمم کی پہلی دلیل حضرت عمار کی روایت سے دی پھر اس کے بعد قرآن کی واضح آیت کی دی اب صحابی پر یہ الزام نہ لگادینا کہ یہ غیر فقہی ہیں اور قرآن کی آیت کی دلیل پہلے دینے کی بجائے یہ حدیث کی دلیل دے رہے ہیں
دوسری بات یہ کہ کہا جاتا ہے امام بخاری کی فقہ ان کے ترجمہ ابواب میں ہے اور امام بخاری کی فقہہ کے مطابق بھی جنبی کو پانی میسر نہ ہونے پر تیمم کرنا چاہئے
امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب تیمم میں ایک اور حدیث بیان کی جو کہ ایک طویل حدیث ہے اس کا اس موضوع سے مناسب والا حصہ پیش کرتا ہوں
ترجمہ داؤد راز
ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ
مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے
صحیح بخاری ، کتاب التیمم ، حدیث نمبر: 344
عر بی متن کے لئے یہ لنک
http://hadith.al-islam.com/Page.aspx?pageid=192&BookID=24&TOCID=240
اب دیکھتے ہیں کہ آپ صحیح بخاری کا دفاع فرماتے ہیں یا رد
اس بحث میں اہل بیت اطہار کے افراد کا نام لے لےکر آپ جو اپنی دل کی بھڑاس نکل رہے ہیں اس سے ناصبیت کی بو آرہی ہے ہوسکتا یہ خیال صحیح نہ ہو
آئیں دیکھے کہ وھابی دیوبندی عورت کو چھونے سے وضو کرنے کے بارے میں کیا کہتے ہیں
سوال ::
میں شادی شدہ ہوں جب میں وضو کرکے آتاہوں تو کیا میں اپنی بیوی کا بوسہ لے سکتاہوں؟ کیا میں اپنی بیوی کے سامنے کپڑے بدل سکتاہوں جب میں وضو سے ہوں ؟ کیا اس سے میرا وضو بچا رہے گا؟
جواب ::
وضو کرنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کا بوسہ نہ لیں، تاکہ تمام ائمہ کے نزدیک آپ کی نماز صحیح رہے۔ وضو کی حالت میں بیوی کے سامنے اپنے کپڑے بدل سکتے ہیں، آپ کا وضو محفوظ رہے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=49472&limit=1&idxpg=0&qry=<c>PAD</c><s>PAC</s><l>ur</l>
یعنی کچھ ائمہ اہل سنت ایسے بھی ہیں جن نزدیک وضو کی حالت میں اپنی عورت کا بوسہ لینے سے بھی وضو نہیں ٹوٹا جب وضو ہی ناقص نہ ہوا تو وہ جنبی کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایسےتیمم کرنے کی کی حاجت ہو
وہابی اہل حدیث کا فتویٰ
سوال :
کیا عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب :
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح بات یہ ہے کہ عورت کو محض چھوٹے سے وضو نہیں ٹوٹتا الایہ کہ اسے چھونے کی وجہ سے کوئی چیز خارج ہو۔ اس کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کو بوسہ دیا،پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور وضو نہ کیا اور اس لیے بھی کہ اصل عدم نقض ہے الایہ کہ کسی صحیح اور صریح دلیل سے نقض ثابت ہو جائے۔ اور یہ کہ بندے نے اپنی طہارت کو دلیل شرعی کے مطابق مکمل کیا تھا لہذا جو چیز دلیل شرعی کے تقاضے کے مطابق ثابت ہو، وہ ختم بھی دلیل شرعی ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ﴾--المائدة:6
’’یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو۔‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں چھونے سے مراد ہم بستری ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور پھر اس کی ایک اور دلیل بھی ہے کہ اس آیت میں طہارت کو اصلی اور بدلی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور اسی طرح ان دونوں میں سے ہر ایک کو طہارت صغریٰ اور کبریٰ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور طہارت صغریٰ و کبریٰ کے اسباب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا قُمۡتُمۡ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغۡسِلُواْ وُجُوهَكُمۡ وَأَيۡدِيَكُمۡ إِلَى ٱلۡمَرَافِقِ وَٱمۡسَحُواْ بِرُءُوسِكُمۡ وَأَرۡجُلَكُمۡ إِلَى ٱلۡكَعۡبَيۡنِۚ﴾--المائدة:6
’’مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔‘‘
یہ پانی کے ساتھ اصلی صغریٰ طہارت ہے، پھر فرمایا:﴿وَإِن كُنتُمۡ جُنُبٗا فَٱطَّهَّرُواْۚ﴾’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘یہ پانی کے ساتھ اصلی کبریٰ طہارت ہے۔ پھر فرمایا:﴿وَإِن كُنتُم مَّرۡضَىٰٓ أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوۡ جَآءَ أَحَدٞ مِّنكُم مِّنَٱلۡغَآئِطِ أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُواْ مَآءٗ فَتَيَمَّمُواْ﴾ ’’اور بیماری ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا عورتوں سے ہم بستر ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو تیمم کر لو۔‘‘ چنانچہ یہاں تیمم بدل ہے اور﴿أَوۡ جَآءَ أَحَدٞ مِّنكُم مِّنَ ٱلۡغَآئِطِ﴾’’یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو۔‘‘ یہ سبب صغریٰ کا بیان ہے اور﴿أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ﴾’’یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو۔‘‘ یہ سبب کبریٰ کا بیان ہے اور اگر اسے ہاتھ سے چھونے پر محمول کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے طہارت صغریٰ کے دو سبب ذکر کیے ہیں اور طہارت کبریٰ کے سبب سے سکوت فرمایا ہے، حالانکہ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ﴿وَإِن كُنتُمۡ جُنُبٗا فَٱطَّهَّرُواْۚ﴾ ’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘ تو ایسا کہنا قرآنی بلاغت کے خلاف ہے، لہٰذا اس آیت میں عورتوں کو چھونے سے مراد ہم بستر ہونا ہے، تاکہ آیت طہارت کے موجب دواسباب، سبب اکبر اور سبب اصغر پر مشتمل ہو جائے جن میں سے طہارت صغریٰ کا تعلق جسم کے چار اعضا سے ہے جب کہ طہارت کبریٰ کا تعلق سارے بدن سے ہے اور اس کے بدل یعنی تیمم کے ساتھ طہارت کا تعلق صرف دو اعضا سے ہے کیونکہ اس میں طہارت صغریٰ و کبریٰ مساوی ہیں۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1038/29/
یعنی انھوں نے تو سارا مسئلہ ہی حل کردیا کہ قرآن میں جہاں عورت کو چھونے کا ذکر ہے اس سے مراد ہم بستری ہے
لیجئے اب اہل سنت والجماعت کا فتویٰ بھی سن لیجئے
سوال :
کن چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا؟
جواب :
درج ذیل امور سے وضو نہیں ٹوٹتا :
- خون کا ظاہر ہونا جو اپنی جگہ سے بہا نہ ہو۔
- خون بہے بغیر گوشت کا گر جانا۔
- کیڑے کا زخم سے یا کان سے یا ناک سے نکلنا۔
- عضو تناسل کو چھونا۔
- عورت کو چھونا۔
- قے جو منہ بھر کر نہ آئے۔
- بلغم کی قے اگرچہ بلغم زیادہ ہو۔
- کسی ایسی چیز سے ٹیک لگا کر سونا کہ اسے ہٹا لیا جائے تو آدمی گر جائے۔
- بیٹھ کر سویا اور گرگیا تب بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن رکوع و سجدہ یا قیام و قعود میں سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک گر نہ جائے۔
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/334/کن-چیزوں-سے-وضو-نہیں-ٹوٹتا/
اب جب عورت کو چھونے سے وضو ناقص نہیں ہوتا تو پھر پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کی حاجت کیوں پیش آئے گی ؟
ویسے سنن ابی داؤد کی یہ حدیث بھی قابل غور ہے
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قبَّلَ امرأةًمِن نسائِهِ ثمَّ خرجَ إلى الصَّلاةِ ولم يتوضَّأْ
الراوي:عائشة أم المؤمنينالمحدث:الألباني -المصدر:صحيح أبي داود-الصفحة أو الرقم:179
خلاصة حكم المحدث:صحيح