وڈیو میں زنا پر شادی شدہ کو سنگسار اور غیر شادی کو سو کوڑے مارنے پر سوال کیا کہ ائمہ کی فقہ میں یہ قانون ہے۔ مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ ہم ائمہ کی وہ بات مانینگے جو قران و حدیث کے مطابق ہو باقیوں کو رد کرینگے۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ نے ایسا کہا تھا کہ اگر میرا کوئی مسئلہ قران و حدیث کے خلاف نظر آئے تو اسے دیوار پر مار دینا۔
جواب:
پہلی بات کا جواب یہ کہ جو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جس پر تمام امت کا اجماع ہوجائے وہ شرعی قانون ہے۔ اور اس سے بغاوت کرنے والا گمراہ ہے۔
بات کو غیر متعصب ہو کر سمجھیں۔ یہ نظریہ کس وقت آیا کہ قران حدیث کو مانو، ہر بات پر دلیل مانگو اور جو بات تمہیں قران و حدیث کی دلیل کے خلاف لگے اسے رد کرو؟
بر صغیر میں اسلام کی صدیوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اس طرح کہتا۔ یہ نظریہ ملکہ وکٹوریہ کے دور میں آیا اور چند شر پسندوں نے علماء اور فقہاء کو تنگ کرنا شروع کیا۔
بارہ سو سال میں بادشاہ، عوام، وزیر و مشیر سب حنفی تھے ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو اس طرح دلیل مانگتا۔
انگریزوں کے دور میں یہ سب فرقے نکلے، ورنہ انگریزوں کے دور سے
پانچ منٹ پہلے کی آپ کسی ایسے فرقے کی صرف چھوٹی سی نماز کی کتاب بھی نہیں دکھا سکتے (جیسے ہماری ”آسان نماز“ کتاب ہے) جس نے صرف قران و حدیث کے حوالوں سے نماز سکھائی ہو۔
اب سوچیں کہ دور عباسی میں، سلجوقیوں کے دور میں، خوارزمیوں کے دور میں بادشاہ، رعایا، قاضی، وزیر، سب کے سب حنفی ہوتے۔ حکومت ہی حنفیوں کی تھی اس لئے جہاد جیسی عظیم عبادت بھی انہی کے حصے میں آئی کیونکہ جس کی حکومت نہ ہو اسکا جہاد بھی نہیں۔ اسی دوران مالکی حنبلی، اور شافعی بھی بڑھ گئے۔ اور سارے حق بجانب ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود کوئی بھی ایسا نہ تھا جو نہ حنفی ہو نہ مالکی نہ شافعی نہ حنبلی۔ ابھی سو سال پہلے تک بھی 1911 میں علامہ شکیب ارسلانؒ 1366ھ (حاشیہ حسن المساعی نمبر 69) پر فرماتے ہیں:
اثنا عشری ایک کروڑ سینتیس لاکھ، زیدی تیس لاکھ، حنبلی تیس لاکھ، مالکی ایک کروڑ، شافعی دس کروڑ، اور حنفی سینتیس کروڑ سے زائد۔ اب دیکھیں سنی مسلمانوں کی تعداد 48 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہے۔ مگر اس میں کوئی ایک بھی خانہ ایسا نہیں جہاں سنیوں میں ان چار ائمہ کی فقہ کے ماننے والوں کے علاوہ کوئی ہو۔ تو ثابت ہوا کہ جو لوگ ان چاروں ائمہ میں کسی کی پیروی نہ کریں وہ اجماع امت سے تو خارج ہیں۔ کیونکہ ان ائمہ کو امت کے اجماع نے مجتہد مانا، اور انکی پیروی کرکے 1200 سال تک اسلام پر عمل کیا۔ اور جو اجماع سے ثابت ہو وہی اللہ کی مرضی بھی ہے۔
دوسری بات جو کہی کہ:
اس حوالے سے میں عرض کرونگا کہ یہ بات امام صاحبؒ نے کسی چمار کے لئے نہیں کہی تھی کہ وہ جا کر حدیث کا اردو ترجمہ پڑھ کر میرے مسائل کی تحقیق کرنا شروع کردے
ارے یہ تو انکی حدیثوں اور فقہ پر مہارت پر مبنی قول ہے۔ مثال یوں سمجھیں:
اگر کوئی ڈاکٹر کوئی نسخہ تجویز کرے اور کہے کہ جاؤ اور کھا لو یہ دوا۔ اگر فائدہ نہ ہو تو میرے منہ پر تھوک دینا۔ تو اس ڈاکٹر کے اس قول کا مطلب یہ نہیں کہ اسکی دوا سے شفا نہیں ہوگی۔ بلکہ وہ اپنی مہارت بتا رہا ہے کہ جاؤ کھالو اور شفا ہو جائے گی۔
یا جیسے میں نے رباعی کے دو اوزان سے چوبیس اوزان نکال کر کہہ دیا کے آجائے کوئی عروضی اور ان چوبیس اوزان کے علاوہ کوئی وزن نکال کر دکھائے۔ مگر اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی عروضی ایسا نہیں کر سکتا۔ یہی امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ حدیثوں کے خلاف مل جائے تو دیوار پر مار دینا۔ مگر کوئی مسئلہ خلاف ہے ہی نہیں۔
مگر یہ بات امام صاحبؒ نے کسی چمار کے لئے ہرگز نہیں کہی تھی۔۔