شاکرالقادری
لائبریرین
افسوس کوئی شافی و کافی جواب نہیں ملا بس لڑائی شروع ہو گئی ۔۔۔ اور یہی (تفرقہ بازی) امت کی گمراہی ہے
میں نے امام نووی اور ابن تیمیہ کی شروح دیکھ لیں یا کم از کم جو کچھ آپ نے یہاں پیش کیا وہ پڑھ لیا اس سب کچھ سے ذہن کے پردے تو صاف نہیں ہوئے البتہ مزید سوالات پیدا ہوگئے:
میں نے امام نووی اور ابن تیمیہ کی شروح دیکھ لیں یا کم از کم جو کچھ آپ نے یہاں پیش کیا وہ پڑھ لیا اس سب کچھ سے ذہن کے پردے تو صاف نہیں ہوئے البتہ مزید سوالات پیدا ہوگئے:
- کیا غیر نبی کی فہم و فراست اور قوت اجتہاد ایک نبی سے زیادہ ہو سکتی ہے کہ نبی غیر نبی کے سامنے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرنا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
- اور یہ تشریح کہ پہلے کچھ لکھوانے کا حکم ہوا اور پھر بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اس کو تو اسی صورت میں تسلیم کیا جا سکتا تھا جب آپ حکم دیتے کہ کاغذ قلم لاؤ۔۔۔۔۔ تو تعمیل کرتے ہوئے حاضر کر دیا جاتا۔۔۔ پھر ارشاد ہوتا واپس لے جاؤ اب اس کی ضرورت نہیں رہی لیکن یہاں تو صورت برعکس ہے۔ اختلاف ہوا" تکرار کی نوبت آئی اور پھر جس حالت میں سب کو باہر بھیج دیا گیا وہ تو اس جانب اشارہ نہیں کرتا کیا میں اس کے باوجود اس شرح سے مطمئن ہو جاؤں۔۔۔۔۔؟
- یہ تشریح کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیماری کی تکلیف سے بچانے کے لیے ایسا کیا گیا تھا۔ کیا پوری روایت میں اس کا کوئی ہلکا سا تاثر بھی ملتا ہے بلکہ نہایت گہرا اور واضح تاثر تو یہی ہے کہ اس اختلاف و تکرار سے آپ کی اذیت میں اضافہ ہوا اور آپ نے ناگواری کا اظہار فرمایا۔ کیا اس کے باوجود میں مطمئن ہو جاؤں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔؟
- البتہ محمود احمد غزنوی کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ہم جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں اپنے ذہن کو صاف رکھتے ہوئے اس روایت کو ہی درایت کے اصول کے ساتھ رد کر دیں۔ لیکن اس سے بخاری شریف پر حرف آجائے گا اور اس کی صحت میں کلام ہو جائے گا پھر آپ مطمئن نہیں ہونگے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں ناموس رسالت اور ناموس فاروق اعظم کو اختیار کروں یا ناموس بخاری کو خاطر میں لاؤں۔۔۔۔۔۔؟