اس كي تعميل كي كوشش كسي حد تك كروں گا إن شاء الله مگر پوری طرح ممكن نهيں۔فرسان صاحب سے درخواست ہے کہ حدیثِ قرطاس کے جتنے حوالہ جات انہوں نے دئے ہیں، اگر زحمت نہ ہو تو انکے متون بھی یہاں پوسٹ کردیں تاکہ حق پوری طرح واضح ہوسکے۔۔۔ شکریہ
سو حدیث قلم و قرطاس میں کونسا پہلو مخفی ہے ۔ جو حدیث مبارک یہ بیان کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرے سے ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے ۔
صلح حدیبیہ کے بارے سوچنا ہے تو اس حدیث مبارک بارے سوچیں ، جو کہتی ہے کہ کچھ صحابہ کرام کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صلح کرنا پسند نہ آیا ۔ اور وہ آپ کی رسالت پر اشکال میں الجھ گئے ۔۔۔
پہلے اک حدیث بارے بات کر لیں ۔ پھر دوسری پھر تیسری ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
یہ جو کچھ لوگ کہتے ہیں جن پر ظن و تخمین و جرح کی جاتی ہے ۔ یہ لوگوں کے اقوال احادیث ہی کی کتب سے سامنے آئے ہیں ۔
سرٹیفیکیٹ دیا
آپ اس طالب علم سے علم ومرتبه ميں بلند ہیں۔ آپ سے كافي كچھ سيكھنے كو ملے گا ان شاء الله۔
میرے محترم بھائی پہلے واقعے میں ایمان ہے ۔
میرے محترم بھائیلے آئيے يه الفاظ كه سيدي صلى الله عليه وسلم كےمبارك چہرے سے نارضگي ظاهر هوئي۔ ياد رهے كه جب آپ ايسي روايت لائيں تو سند صحيح هوني چاهيے۔
اگرحديث صحيح هو تو هم اسے عقل پر فوقيت ديتے ہیں۔
اور اگر ضعيف هو تو اس كا جواب دينا لازم نهيں جانتے۔
يه حديث (صحيح سند كے ساتھ بھی آپ پر ادھار هوئي۔ رسالت ميں اشكال كا پيدا هونا اسي صحيح حديث ميں هونا چاهيے۔
جي ضرور ان شاء الله
حديث كي كتب ميں موجود حضورصلى الله عليه وسلم كے اقوال كي حيثيت نبي كے قول كي هے۔
اور انهي كتب ميں " کچھ لوگ" كے اقوال كي حيثيت " کچھ لوگ" هي كي سي ہِے
میرے محترم بھائیاگر اس كا مطلب يه هے كه لفظ كا نه مٹانا ايمان كي دليل هے تو يه مطلب مردود اور باطل هے كيونكه يه لفظ بهر حال مٹا ديا گيا تھا۔
میرے محترم بھائی
میں احادیث کو صرف ذاتی علم و اصلاح کے لیئے مناسب سمجھتا ہوں ۔ اور ان احادیث کے مطالعے سے مشرف ہوتے صرف " اسوہ حسنہ " سے آگہی مقصود و مطلوب رکھتا ہوں ۔ باقی دین کے لیئے قران پاک بہترین اور مستند ذریعہ ہے ۔
احادیث بارے جو کہ ڈیڑھ دو سو سال بعد جمع ہوئیں ۔ ان کی حیثیت ان ہی میں موجود یہ احادیث واضح کر دیتی ہیں ۔
کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار (مسلم) ”دین کے معاملے میں ہر نئی شے بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے اورہرگمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے “۔
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (رواہ البخاری ومسلم)
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایاکہ جس نے ہمارے اس دین میں کسی نئی چیز کو ایجادکیا جو اس میں نہیں ہے وہ ناقابلِ قبول ہے “۔
یہ خلفائے راشدین کے ادوار کے کہیں بعد تحریر و تدوین ہوئیں ۔ اور پھر " متفق " "موضوع " " محذوف " " منقطع کا درجہ پاتے امت مسلمہ میں انتشار و فساد کا باعث ٹھہریں ۔ قرآن مجیدمیں بہت واضح طورپر بیان کیاجاچکا ہے کہ میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا اوراس دین کے ناطے تمہیں اپنی تمام نعمتیں عطاکردیں اورتمہارے لیے دینِ اسلام کو بحیثیت ضابطہ حیات منتخب کیا (سورة المائدة : 3 ) مطلب یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنے کا اختیار کسی انسان کو حاصل نہیں۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی دین اورشریعت کے معاملے میں اپنی مرضی سے کوئی ترمیم یا اضافہ نہیں کرتے جیسے قرآن مجید نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی مرضی اور خواہش سے دین کے معاملہ میں کوئی گفتگو نہ فرماتے مگروہی کچھ بتاتے ہیں جو انہیں اللہ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے ۔“
دین اسلام ہرلحاظ سے کامل اورمکمل ہے ۔ احادیث کی اسناد بارے عقل لڑانے سے بہت بہتر عمل ہے قران پاک میں تفکر و تدبر کرنا ۔
احادیث کے مجموعے بزرگوں نے فلاح انسانیت کے لیئے جمع فرمائے ۔ اگر کسی نے کوئی قول اپنی خواہش نفسانی کے زیر اثر اسم رسول علیہ الصلوات والسلام منسوب کیا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
کچھ احادیث جو کہ ستر اور اسی کی دہائی میں متفق علیہ قرار پاتی تھیں وہ آج تیس پینتیس سال کے بعد ضعیف اور موضوع کے درجہ پر ہیں ۔
قران پاک اللہ کی حفاظت میں ہے ۔ اور ابن آدم کو انسان بناتے مسلمان کرنے کو شافی و کافی ہے ۔
جس حدیث پر آپ بحث کر رہے ہیں ۔ یہ حدیث بھی مختلف مجموعوں میں مختلف متون کے ساتھ موجود ہے ۔ متون سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا واقعہ ہوا ۔ اس واقعے کی تاویلات ہر اک اپنے سوچ وخیال کے بل پر کرتا ہے ۔
نیٹ پر احادیث کی چھان بین کرنے سے بہتر ہوگا کہ ہند و پاک میں موجود کسی قدیم لائیبریری میں جا کر 1970 سے پہلے کے شائع شدہ " مجموعہ الاحادیث " کا خود مطالعہ کیا جائے ۔ حیرنگی کی انتہا نہ رہے گی ایسی ایسی احادیث پڑھنے کو ملیں گی ۔
اب تو تفرقہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہر مسلک نے اپنی پسند کی احادیث کو اختیار کرتے باقی کی احادیث کو " موضوع و ضعیف " کے درجے سے نوازتے دوسرے مسالک کے لیئے " مہر کفر " بنا رکھا ہے ۔
بلا شک میرے لیئے قران ہی مستند اور کافی و شافی ہے ۔
میرے محترم بھائی ۔اچھا آپ وه دو احاديث جو آپ پر ادھار ہیں وه ضرور لانا۔
موجوده جواب ميں وهي پرانی غلط فهمياں ہیں جنهيں دور كرنا چاهيے۔ آپ ان كو دور كروانے كسي محدث كے پاس تشريف لے جاسكتے ہیں۔ وه آپ كو مايوس نهيں كريں گے ان شاء الله۔
باقي 1970 سے پہلے والي بات آپ محض بوكھلاهٹ ميں كه رہے ہيں۔ كوئي معنى خيز نهيں هے وه۔
نیٹ پر احادیث کی چھان بین واقع نهيں كرني چاہیے۔ آپ درست كهتے ہیں، ميں بھي نهيں كرتا والحمد لله۔
اگر آپ سے شر ملاقات نصيب هوا تو آپ كو أحاديث كي كتب پرانی اور نئي دكھانے ميں لطف آئے گا ان شاء الله۔
57 ساله ، ذرا اس جملے په غور !!! كس دربار ميں هو ؟؟؟
سرٹیفیکیٹ کا مطلب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ سند ۔۔۔۔۔ آپ کو انگریزی لفظ استعمال کرنے پر اعتراض ہے یا جواب نہ پاکر دائیں بائیں ہو رہے ہیں۔ (ویسے آپ کی خوشی کی خاطر میں نے "سرٹیفکیٹ دیا" کو "سند عطا کی" سے بدل دیا ہےسرٹیفیکیٹ دیا
ميرا كوئي شاگرد ايسي جسارت كرتا تو ساري زندگي اسے اپنے سے دور كر ديتا ان شاء الله۔
ميں اپنے يه الفاظ واپس ليتا هوں۔
میرے محترم بھائی ۔
بڑے بول سے اللہ تعالی معاف فرمائے
اک عمر گزاری ہے اس دشت کی سیاحی میں
میرے بھائی بچپن سے یہ کتب احادیث مطالعے میں ہیں ۔
سن ستر سے نوے تک پسندیدہ شوق تھا ان مجموعہ احادیث کا مطالعہ کرنا ۔ اور لایعنی بحثیں کرنا ۔
ان احادیث کے تقابل نے مجھے دہریت تک پہنچا دیا تھا ۔
میں نے ان احادیث کو صرف انتشار وفساد پھیلانے کے لیئے ہی استعمال ہوتے دیکھا ہے ۔
بزرگوں نے مسلمانوں کو " اسوہ حسنہ " سے آگہی دینے کے لیئے انہیں تحریر فرمایا تھا ۔
کیا کیا مشقتیں برداشت کی تھیں ان بزرگوں نے ۔
ہم "اسوہ حسنہ " تو اخذ کر نہ سکے ۔ اور انہیں " مہر کفر " بنا لیا ۔
بلاتفریق " گیہوں کے ساتھ گھن کو پیسا ہم نے "
ان شاءاللہ پاکستان آنے پر آپ سے شرف ملاقات حاصل کروں گا ۔
سن ستر سے نوے تک پسندیدہ شوق تھا ان مجموعہ احادیث کا مطالعہ کرنا
یعنی خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جو حدیث قرآن کے مطابق نہ ہو اسے چھوڑ دیا جائے۔
|
- وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِه
- وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِه
- فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا
- اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ
- فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِين
- أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُون
- أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ
- فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ
|
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور مٹاتا تو اس کے ایمان کی کجی سامنے آ جاتی ۔
ما شاء الله بهت عمده ترجمه هے۔
اور تفسير بھي بالكل نئي اور اچھوتی هے۔
ميں کچھ آيات بھيج رها هوں ان ميں بھی "حديث" كا يهي مطلب تصور كرليں تو سارا مسئله حل هو جائےگا۔ اگر برا نه منائيں تو اپني كي گئي تفسير ميں 1300 هجري سے پہلے كي كوئي عالم شخصيت اگر آپ کے ساتھ هو تو حواله بھي لائيں۔
یہ جن صاحب کی کتاب کے بارے میں دھاگہ شروع کیا گیا ہے۔ یہ بھی کسی دارالعلوم سےکسی استاد سے ہی پڑھے ہوئے تھے۔۔۔کیا خیال ہے؟(جو حضرت بھي كتب احاديث كے مطالعه كا شوق ركھتے ہیں تو وه ضرور بالضرور اس پر عمل كريں مگر كسي أستاد كے سامنے كريں تاكه محترم ناياب صاحب والے انجام سے بچ سكيں۔)
قرآن بھي استاد سے هي پڑھنا چاہیے۔
یہ جن صاحب کی کتاب کے بارے میں دھاگہ شروع کیا گیا ہے۔ یہ بھی کسی دارالعلوم سےکسی استاد سے ہی پڑھے ہوئے تھے۔۔۔ کیا خیال ہے؟