سر، میری مراد یہ تھی کہ ہمارے منہ سے مدعا بیان کرنے کے لئے پہلے جو الفاظ استعمال ہوتے تھے اب ان کی جگہ دوسرے آنے لگے یعنی ہمارے زیراستعمال الفاظ بدل گئے۔
زبان کے بارے میں اس فقیر کا مؤقف جان لیجئے۔
زبان محض لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوا کرتی۔ یہ باضابطہ طور پر ایک زندہ معاشرتی مظہر ہے اور اس میں اشیاء انفس سب شامل ہیں۔ معاشرت بجائے خود ایک جیتی جاگتی قدر بلکہ ام الاقدار ہے۔
میں زبان کو معاشرت کا اعلیٰ ترین مظہر کہا کرتا ہوں۔ کہ یہ کسی بھی تہذیب اور معاشرت کا تعارف ہوتی ہے اور زمان و مکان کے حوالے سے بھی اس میں بڑی لچک ہوتی ہے۔ اسماء و مصادر میں تبدیلی پہلے آپ کا معاشرہ قبول کرتا ہے پھر زبان اس کی تشہیر کرتی ہے۔ کوئی زبان اس وقت تک نہیں مرتی جب تک تہذیب زندہ ہے، اور کوئی زبان باقی نہیں رہتی جب اس کی تہذیب مر جائے یا اس کاحلیہ ہی بدل جائے۔
میں یا آپ، اگر واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زبان میں وسیع بنیادوں پر استوار ہو اور اس کا خزانہ ترقی کرے تو ہمیں اپنی تہذیب و معاشرت کو قائم رکھتے ہوئے اس کے نفوذ کا سامان کرنا ہو گا۔ "بدلنا" سے عمومی تاثر یہ بنتا ہے کہ ایک لفظ (اسم فعل حرف؛ جو کچھ بھی وہ ہے) وہ یا تو ترک ہو گیا، یا بھلا دیا گیا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ رواج پا گیا۔ عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اسماء مصادر ایک دوسرے کے متوازی سفر کرتے ہیں اور جس میں زیادہ جان ہوتی ہے (یعنی اس کے پس منظر میں مضبوط تر ثقافتی اقدار اور ان کا رواج ہوتا ہے) وہ زندہ تر رہتی ہے۔ اس عمل میں نئے اور پرانے اسماء و مصادر اس وقت تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں جب تک وہ ایک تہذیب کے لوگوں کے ہاں قبول کے درجے پر فائز رہتے ہیں۔ مزید یہ ہے کہ ایک کا دوسرے سے استبدال واقع ہونا لازمی نہیں ایک ہی مظہر کے لئے دو تین چار دس الفاظ متوازی بھی چل سکتے ہیں۔ اور یہ میرے آپ کے مطالعے اور مشاہدے پر منحصر ہے کہ ہم ایسے الفاظ کے بارے میں علم کتنا رکھتے ہیں۔
بات کر گیا ہوں، پتہ نہیں اس کا کوئی محل تھا بھی یا نہیں۔ بہت شکریہ۔