پرانی غزل اور راجا تخلص؟
شاید مقطع تبدیل کر دیا ہو۔ لییکن بحر تو وہ چل ہی رہی ہے۔
مطلع میں
سرِ بام مجھ سے جاں مانگتا ہے
کیا کوئی لفظ چھوٹ گیا ہے؟؟ شاید ’وہ‘ یعنی وہ جاں مانگتا ہے۔
چلوں کیسے میں ساتھ اسکے سرِ راہ
زمیں پر وہ تو آسماں مانگتا ہے
پہلے مصرعے میں تو راہ نہیں رہ تقطیع میں آتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں وہ کی ہ گر رہی ہے لیکن تو کا واؤ کھنچ رہا ہے۔
زمیں پر بھی وہ۔۔۔۔ کیسا رہے گا۔
باقی اشعار درست ہی ہیں۔ ماشاء اللہ خوب ترقی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہ پرانی غزل نہیں لگتی۔ خود ہی اب اپنا پرانا کلام دیکھو کہ وہ کس حد تک عروض کاا پابند تھا۔ اب اوزان ا پہلے کی طرح خطا نہیں ہوتے۔۔
بہت شکریہ اعجاز صاحب، اصل میں یہ سب آپ اور وارث بھائی کی بے لوث محنتوں کا ثمر ہے جو مجھ جیسے بے بحر بندے نے بھی بحر میں شعر کہنا شروع کردیئے، اور اگر کبھی میری کتاب منظرِ عام پر آئی تو اول صف میں آپ کے نام ہوں گے، یہ میں خوشامدن نہیں کہہ رہا بلکہ دل سے یہ لفظ نکل رہے ہیں۔
حضور میں نے واقعی اس غزل کا مقطعہ تبدیل ( صرف تخلص) کیا ہے۔
واقعی مجھ سے مطلع کے دوسرے مصرعہ میں وہ لکھنا جلدی کے باعث رہ گیا تھا، دوسرے شعر کا دوسرا مصرع بھی آپ کی ہدایت کے مطابق درست کر دیا ہے، راہ کے بارے میں گزارش ہیکہ گزشتہ پوسٹ میں وارث صاحب نے ایک جگہ راہ کی ہ گرانے کو جائز ( بلا تکلف )قرار دیا تھا سو میں نے گرائی اگر جائز نہیں تو میں رہ کر دوں، برائے کرم اسکے بارے میں کچھ فرمادیں تا کہ میرا ذہن صاف ہو جائے۔
سعید بھائی نے بادباں اٹھانے کے لیئے پر اعتراض فرمایا ہے، تو میں نے کہیں کسی شاعر کی ایک غزل میں بادباں اٹھانے کا پڑھا تھا میں ڈھونڈ کر بتاؤں گا، وہی میرے ذہن میں تھااس بارے میں بھی تشریح کی استدعا ہے۔
حضور ایک اور گزارش ہیکہ میری پچھلی غزل کا مقطع عرض ہے اس پر ذرا دوبارہ توجہ فرمائیے گا کہ کیا استعارہ درست ہے۔ شکریہ۔
مرے گھر میں راجا بسی ہے ابھی تک ۔گزشتہ محبت فضاؤں کی صورت