برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

الف عین

لائبریرین
اگر آپ ماننے سے انکار ہی کر دیں تو کون آپ کو روکے گا اگر آپ بضد ہوں کہ بھئی یہاں ایطا ہے تو ہوگا، ہم تو ایسے ہی شاعری کریں گے۔ یوں تو رسائل میں بھی بے شمار اشعار عروض کی خامیوں کے با وجود چھپتے رہتے ہیں۔ اس کی بات اور ہے۔تم جواز کچھ بھی دے سکتے ہو، لیکن اس سے عروضی غلطی جائز نہیں ہو جاتی۔ اور یہاں تمہارے سلسلے میں ایسی شعری مجبوری بھی نہیں ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
جی آپ نے درست فرمایا، میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ میری شاعری میں اس قسم کی کوئی غلطی نہ ہو، میں اسے دوبارہ سے درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تب تک میں اپنی ایک پچھلی غزل یہاں عرض کر رہا ہوں آپ نے پہلے اسمیں کچھ خامیوں کا اشارہ کیا تھا جو میں نے درست کرنے کی کوشش کی ہے اور وارث صاحب کی ہدایت کیمطابق مطلع کے پہلے مصرع میں بھی تبدیلی لائی ہے، ذرا اصلاح فرما دیجیئے گا۔ شکریہ۔

تپا دشت ہے، سائباں بھی نہیں ہے
کسی سمت کوئی نشاں بھی نہیں ہے

کیا ہے حوالے یہ دل جسکے ہم نے
وہ ہے پاس پر درمیاں بھی نہیں ہے

مقابل ہے طوفاں سمندر میں لیکن
اٹھایا میں نے بادباں بھی نہیں ہے

پڑی کیوں سبھی کو ہے اپنے سروں کی
قیامت کا جبکہ سماں بھی نہیں ہے

ملے گی کہاں اب اماں سر کو راجا
محافظ تو کوئی یہاں بھی نہیں ہے​
 

ایم اے راجا

محفلین
عرض ہیکہ میرے ایک بہت محترم اور شفیق استاد ( شاعری میں نہیں) صاحب نے میرے تخلص ساگر پر اعتراض فرمایا ہیکہ ہندی کا لفظ ہے، تمہارا نام راجا محمد امین ہے سو ایم اے راجا لکھا کرو ( قلمی نام) اور تخلص راجا کر دو سو انکی بات ٹال نہیں سکا ہوں تبدیل کر دیا ہے، امید ہیکہ آپ مجھے اس نئے تخلص کے ساتھ بھی گوارا کریں گے۔شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے راجا۔۔۔۔ اب ساگر بھولنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ بس اس ٍزل کے دو اشعار میں خامی ہے۔ ایک کو تو وارث درست سمجھتے ہیں، چاہو تو اسے چلنے دو۔۔۔ یعنی جب کہ بر وزن ’جب کے‘۔
اس شعر کو
مقابل ہے طوفاں سمندر میں لیکن
اٹھایا میں نے بادباں بھی نہیں ہے
یوں کر دیں تو:
سمندر میں طوفاںمقابل ہے ، میں نے
اٹھایا ابھی بادباں بھی نہیں ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ اعجاز صاحب۔
ایک اور پرانی غزل عرض ہے اصلاح فرما دیں شکریہ۔

نئے طور سے امتحاں مانگتا ہے
سرِ بام مجھ سے وہ جاں مانگتا ہے

حوالے مرے سب پتا ہیں اسے تو
وہ کیوں پھر کسی سے نشاں مانگتا ہے

چلوں کیسے میں ساتھ اسکے سرِ رہ
زمیں پر بھی وہ آسماں مانگتا ہے

لہو ہی لہو ہے زمیں سب وطن کی
کہ اب کیا مرا حکمراں مانگتا ہے

پڑا ہے سرِ راہ بے آسرا جو
وہ بارش میں بس اک مکاں مانگتا ہے

یہ سورج چمکنے کو راجا یہاں پر
نیا پھر سے کوئی جہاں مانگتا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
پرانی غزل اور راجا تخلص؟
شاید مقطع تبدیل کر دیا ہو۔ لییکن بحر تو وہ چل ہی رہی ہے۔
مطلع میں
سرِ بام مجھ سے جاں مانگتا ہے
کیا کوئی لفظ چھوٹ گیا ہے؟؟ شاید ’وہ‘ یعنی وہ جاں مانگتا ہے۔

چلوں کیسے میں ساتھ اسکے سرِ راہ
زمیں پر وہ تو آسماں مانگتا ہے
پہلے مصرعے میں تو راہ نہیں رہ تقطیع میں آتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں وہ کی ہ گر رہی ہے لیکن تو کا واؤ کھنچ رہا ہے۔
زمیں پر بھی وہ۔۔۔۔ کیسا رہے گا۔
باقی اشعار درست ہی ہیں۔ ماشاء اللہ خوب ترقی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہ پرانی غزل نہیں لگتی۔ خود ہی اب اپنا پرانا کلام دیکھو کہ وہ کس حد تک عروض کاا پابند تھا۔ اب اوزان ا پہلے کی طرح خطا نہیں ہوتے۔۔
 
میں اپنے علم میں اضافے کی خاطر پوچھ رہا ہوں کہ اب تک جہاں کہیں بھی پڑھا ہے بادبان کھولنے کے متعلق ہی پڑھا ہے۔ یہ بادبان اٹھانا اس کا مخالف لفظ ہے یا اسی معنی میں ہے؟
 
ارے یعنی اس کی وجہ سے راجہ بھائی کے شعر میں کوئی سقم ہے کیا؟

میں نے تو سوال کیا تھا آپ نے کس رنگ میں لے لیا؟
 

ایم اے راجا

محفلین
پرانی غزل اور راجا تخلص؟
شاید مقطع تبدیل کر دیا ہو۔ لییکن بحر تو وہ چل ہی رہی ہے۔
مطلع میں
سرِ بام مجھ سے جاں مانگتا ہے
کیا کوئی لفظ چھوٹ گیا ہے؟؟ شاید ’وہ‘ یعنی وہ جاں مانگتا ہے۔

چلوں کیسے میں ساتھ اسکے سرِ راہ
زمیں پر وہ تو آسماں مانگتا ہے
پہلے مصرعے میں تو راہ نہیں رہ تقطیع میں آتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں وہ کی ہ گر رہی ہے لیکن تو کا واؤ کھنچ رہا ہے۔
زمیں پر بھی وہ۔۔۔۔ کیسا رہے گا۔
باقی اشعار درست ہی ہیں۔ ماشاء اللہ خوب ترقی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہ پرانی غزل نہیں لگتی۔ خود ہی اب اپنا پرانا کلام دیکھو کہ وہ کس حد تک عروض کاا پابند تھا۔ اب اوزان ا پہلے کی طرح خطا نہیں ہوتے۔۔
بہت شکریہ اعجاز صاحب، اصل میں یہ سب آپ اور وارث بھائی کی بے لوث محنتوں کا ثمر ہے جو مجھ جیسے بے بحر بندے نے بھی بحر میں شعر کہنا شروع کردیئے، اور اگر کبھی میری کتاب منظرِ عام پر آئی تو اول صف میں آپ کے نام ہوں گے، یہ میں خوشامدن نہیں کہہ رہا بلکہ دل سے یہ لفظ نکل رہے ہیں۔
حضور میں نے واقعی اس غزل کا مقطعہ تبدیل ( صرف تخلص) کیا ہے۔
واقعی مجھ سے مطلع کے دوسرے مصرعہ میں وہ لکھنا جلدی کے باعث رہ گیا تھا، دوسرے شعر کا دوسرا مصرع بھی آپ کی ہدایت کے مطابق درست کر دیا ہے، راہ کے بارے میں گزارش ہیکہ گزشتہ پوسٹ میں وارث صاحب نے ایک جگہ راہ کی ہ گرانے کو جائز ( بلا تکلف )قرار دیا تھا سو میں نے گرائی اگر جائز نہیں تو میں رہ کر دوں، برائے کرم اسکے بارے میں کچھ فرمادیں تا کہ میرا ذہن صاف ہو جائے۔
سعید بھائی نے بادباں اٹھانے کے لیئے پر اعتراض فرمایا ہے، تو میں نے کہیں کسی شاعر کی ایک غزل میں بادباں اٹھانے کا پڑھا تھا میں ڈھونڈ کر بتاؤں گا، وہی میرے ذہن میں تھااس بارے میں بھی تشریح کی استدعا ہے۔
حضور ایک اور گزارش ہیکہ میری پچھلی غزل کا مقطع عرض ہے اس پر ذرا دوبارہ توجہ فرمائیے گا کہ کیا استعارہ درست ہے۔ شکریہ۔ مرے گھر میں راجا بسی ہے ابھی تک ۔گزشتہ محبت فضاؤں کی صورت
 
حضور میں نے اعتراض نہیں کیا ہے بس جاننا چاہا تھا اس ترکیب کے استعمال کے بارے میں۔ میرا مطالعہ بہت محدود ہے اس لئے اکثر ترکیبیں اجنبی لگتی ہیں۔ اب اساتذہ موجود ہیں تو چاہتا ہوں کہ ان سے بھی جس قدر ہو سکے فیض یاب ہو لوں۔ :)
 

ایم اے راجا

محفلین
ایک اور غزل آپکی اصلاح کے لیئے عرض ہے۔

کیا خود ہی تھا اب ستم دیکھتے ہیں
کھڑا در پہ اپنے یہ غم دیکھتے ہیں

سحر ہو کہ ہو شام کوئی مگر ہم
تو صورت تری ہی بلم دیکھتے ہیں

ہے جاتا نہیں اب یہ جادو نظر سے
خیاباں خیاباں صنم دیکھتے ہیں

سسکنے لگا ہے یہاں اب تو انساں
برستا یہ کیسا الم دیکھتے ہیں

نگاہ ہم اٹھاتے ہیں جس سمت کو بھی
درِ شاہ سے آتا ظلم دیکھتے ہیں

قدم کس کا راجا فلک پر پڑا ہے
فرشتے وہاں جو ارم دیکھتے ہیں

اس غزل پر ذرا خصوصی توجہ دیکر اصلاح کیجیئے گا کہ وارث بھائی نے اسکے مطلع اور پہلے اور دوسرے اشعار ک و مزید بہتر کرنے کا کہا تھا مطلع پر تو کوشش کی ہے باقی اشعار پر کوشش کے باوجود دماغ نے ساتھ نہیں دیا۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
1۔ مرے گھر میں راجا بسی ہے ابھی تک ۔گزشتہ محبت فضاؤں کی صورت
بحر میں ہے اور اچھا بھی ہے اگر چہ فضائیں گھر میں نہیں بستیں، خوشبوئیں بستی ہیں۔ پھر بھی چل سکتا ہے۔
2۔ بادبان اٹھایا نہیں جاتا، کھولا اور باندھا جاتا ہے۔ اس طرح محاورے کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ سعود نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا تھا شاید۔ بہر حال یہ بھی زبردستی چلایا جا سکتا ہے۔ ایک نئے محاورے کی تخلیق کی صورت ہی سہی۔
3۔ اب یہ نئی غزل؛

کیا خود ہی تھا اب ستم دیکھتے ہیں
کھڑا در پہ اپنے یہ غم دیکھتے ہیں
مطلب واضح نہیں ہوا۔ خود کیا کیا تھا؟ غم کو مدعو کیا تھا؟ مصرعہ ثانی میں الفاظ کی نشست درست نہیں۔

سحر ہو کہ ہو شام کوئی مگر ہم
تو صورت تری ہی بلم دیکھتے ہیں
یہ غزل کا شعر ہے کہ فلمی گانا۔ یہ بلم سجن وغیرہ سے پرہیز کرو تو بہتر ہے۔ عامیانہ انداز بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پ“ہلے مصرعے میں ”کوئی‘ حشو ہے، اور لگتا تو ہے محض بیان۔ پھر یہ "مگر: بھی زائد لگتا ہے۔ کہنا یہی تو چاہتے ہو نا کہ صبح ہو یا شام‘۔
سحر ہو کہ ہو شام، ہو وقت کوئی
تری شکل ہی ہم صنم دیکھتے ہیں
کچھ ہتر ہوتا ہے۔ لیکن خاص شعر تب بھی نہیں۔

ہے جاتا نہیں اب یہ جادو نظر سے
خیاباں خیاباں صنم دیکھتے ہیں
یہ شعر بھی میرے ذہن میں نہیں‌گھسا۔ دوسرا مصرعہ قطعی صاف نہیں۔ صنم یعنی محوب کو تخاطب ہے؟ یا خیاباں خیاباں آپ کسی صنم کو دیکھ رہے ہیں۔ پھر اس میں جادو کہاں سے آیا؟

سسکنے لگا ہے یہاں اب تو انساں
برستا یہ کیسا الم دیکھتے ہیں
وزن درست ہے، شعر پھر بھی خاص نہیں۔

نگاہ ہم اٹھاتے ہیں جس سمت کو بھی
درِ شاہ سے آتا ظلم دیکھتے ہیں
ظلم کا تلفظ۔۔۔۔۔ کیا فلمی گانا سمجھ کر جُلَم باندھنے کا ارادہ تھا۔ گجب بھیو راما جلم بھیو رے!!!!
راہ، شہ اور نگاہ کی ہ گرنی کی جو بات ہے وہ یوں درست ہے کہ غیر ہ کے ان کی شکلیں رہ، شہ اور نگہ بھی درست ہیں۔ اس لئے وہی شکلیں لکھنے کی ضرورت ہے۔
کسی سمت کو بھی نظر ہم اٹھائیں
کر دیں تو ’نگہ ہم‘ میں ہ کی تکرار سے ھی بچ سکتے ہیں
اور ظلم کی جگہ ’ستم‘ کر دیں۔

قدم کس کا راجا فلک پر پڑا ہے
فرشتے وہاں جو ارم دیکھتے ہیں
درست اور اچھا شعر ہے۔ بلکہ یہی ایک شعر اچھا ہے، باقی سب بھرتی کے لگتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ غزل اچھی نہیں ہے۔ میں تو لگی لپٹی نہیں رکھتا نا۔۔۔
 

ایم اے راجا

محفلین
حضور میں نے اعتراض نہیں کیا ہے بس جاننا چاہا تھا اس ترکیب کے استعمال کے بارے میں۔ میرا مطالعہ بہت محدود ہے اس لئے اکثر ترکیبیں اجنبی لگتی ہیں۔ اب اساتذہ موجود ہیں تو چاہتا ہوں کہ ان سے بھی جس قدر ہو سکے فیض یاب ہو لوں۔ :)

ارے سعید بھائی لگتا ہے آپ ناراض ہوگئے، میں معافی چاہتا تھا، میں نے اعتراض کا محض اسلیئے استعمال کیا تھا کہ اور کوئی مناسب لفظ نہیں ملا تھا میں تو خود طالبعلم ہوں سو سیکھنا چاہ رہا ہوں، اگر میرے اعتراض والے لفظ سے آپکی دِل آزاری ہوئی ہے تو میں ایک بار پھر معافی چاہتا ہوں۔ میں تو بس اس بارے میں اساتذہ کرام سے مزید معلومات چاہ رہا تھا۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
1۔ مرے گھر میں راجا بسی ہے ابھی تک ۔گزشتہ محبت فضاؤں کی صورت
بحر میں ہے اور اچھا بھی ہے اگر چہ فضائیں گھر میں نہیں بستیں، خوشبوئیں بستی ہیں۔ پھر بھی چل سکتا ہے۔
2۔ بادبان اٹھایا نہیں جاتا، کھولا اور باندھا جاتا ہے۔ اس طرح محاورے کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ سعود نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا تھا شاید۔ بہر حال یہ بھی زبردستی چلایا جا سکتا ہے۔ ایک نئے محاورے کی تخلیق کی صورت ہی سہی۔
3۔ اب یہ نئی غزل؛

کیا خود ہی تھا اب ستم دیکھتے ہیں
کھڑا در پہ اپنے یہ غم دیکھتے ہیں
مطلب واضح نہیں ہوا۔ خود کیا کیا تھا؟ غم کو مدعو کیا تھا؟ مصرعہ ثانی میں الفاظ کی نشست درست نہیں۔

سحر ہو کہ ہو شام کوئی مگر ہم
تو صورت تری ہی بلم دیکھتے ہیں
یہ غزل کا شعر ہے کہ فلمی گانا۔ یہ بلم سجن وغیرہ سے پرہیز کرو تو بہتر ہے۔ عامیانہ انداز بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پ“ہلے مصرعے میں ”کوئی‘ حشو ہے، اور لگتا تو ہے محض بیان۔ پھر یہ "مگر: بھی زائد لگتا ہے۔ کہنا یہی تو چاہتے ہو نا کہ صبح ہو یا شام‘۔
سحر ہو کہ ہو شام، ہو وقت کوئی
تری شکل ہی ہم صنم دیکھتے ہیں
کچھ ہتر ہوتا ہے۔ لیکن خاص شعر تب بھی نہیں۔

ہے جاتا نہیں اب یہ جادو نظر سے
خیاباں خیاباں صنم دیکھتے ہیں
یہ شعر بھی میرے ذہن میں نہیں‌گھسا۔ دوسرا مصرعہ قطعی صاف نہیں۔ صنم یعنی محوب کو تخاطب ہے؟ یا خیاباں خیاباں آپ کسی صنم کو دیکھ رہے ہیں۔ پھر اس میں جادو کہاں سے آیا؟

سسکنے لگا ہے یہاں اب تو انساں
برستا یہ کیسا الم دیکھتے ہیں
وزن درست ہے، شعر پھر بھی خاص نہیں۔

نگاہ ہم اٹھاتے ہیں جس سمت کو بھی
درِ شاہ سے آتا ظلم دیکھتے ہیں
ظلم کا تلفظ۔۔۔۔۔ کیا فلمی گانا سمجھ کر جُلَم باندھنے کا ارادہ تھا۔ گجب بھیو راما جلم بھیو رے!!!!
راہ، شہ اور نگاہ کی ہ گرنی کی جو بات ہے وہ یوں درست ہے کہ غیر ہ کے ان کی شکلیں رہ، شہ اور نگہ بھی درست ہیں۔ اس لئے وہی شکلیں لکھنے کی ضرورت ہے۔
کسی سمت کو بھی نظر ہم اٹھائیں
کر دیں تو ’نگہ ہم‘ میں ہ کی تکرار سے ھی بچ سکتے ہیں
اور ظلم کی جگہ ’ستم‘ کر دیں۔

قدم کس کا راجا فلک پر پڑا ہے
فرشتے وہاں جو ارم دیکھتے ہیں
درست اور اچھا شعر ہے۔ بلکہ یہی ایک شعر اچھا ہے، باقی سب بھرتی کے لگتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ غزل اچھی نہیں ہے۔ میں تو لگی لپٹی نہیں رکھتا نا۔۔۔
بہت شکریہ اعجاز صاحب، بھائی کی منگنی کی وجہ سے دو تین دن غیر حاضر رہا آتے ہی آپکی اصلاح پڑھ کر دل خوش ہوا۔ ہم اب اس غزل کو ایک قطعہ میں تبدیل کر دیتے ہیں ویسے پہلے وارث بھائی بھی اسے ناپسندیدہ قرار دے چکے ہیں۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
حضور کچھ قطعات عرض کر رہا ہوں انکی اصلاح ہو جائے تو تو فیئر کر لوں اور پھر آگے چلوں۔ شکریہ۔

حیاتی گئی پر اداسی گئی نہ
خزاؤں کی رت تو یہ پیاسی گئی نہ
رہے ہیں مراسم بڑی دیر لیکن
ہماری رنجش اساسی گئی نہ
چلا تو گیا وہ مرے گھر سے کب کا
مگر کیوں یہ خوشبو قیاسی گئی نہ
اگرچہ کھٹن ہے بہت ہی یہ راجا
مگر یہ فرائض شناسی گئی نہ

2۔ نوائے سحر کا اشارہ دے کوئی
سفینے کو میرے کنارہ دے کوئی
دے گرما لہو کو مرے جوخدایا
جگر کو مرے وہ شرارہ دے کوئی
ہے منظور مجھکو ترے دِ ل میں رہنا
اگر تو مجھے تُو سہارا دے کوئی

3۔ میں تو اب دعائے سفر مانگتا ہوں
ترے شہر میں کب میں گھر مانگتا ہوں
گذرتا جو ہوں اب گلی سے تری میں
نہ آؤں نظر وہ ڈگر مانگتا ہوں
بغاوت نہیں ہے حکومت سے تیری
میں تو عدل کا اک شجر مانگتا ہوں
بہے جو بطورِ لہو نس میں تیری
وہ لفظوں میں اپنے اثر مانگتا ہوں

4۔ غموں کی ہی پھر تو تمازت رہے گی
جو قسمت میں تیری رفاقت رہے گی
نہ لُٹنے سے خیما بچے گا کوئی بھی
لُٹیروں کے بس جو حفاظت رہے گی
 

الف عین

لائبریرین
ان کو قطعات کہہ رہے ہو راجا؟؟
یہ غزل کئ ہی اشعار لگ رہے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ 3۔4 اشعار ہی ہیں اکثر۔ تفصیل سے ان کا پوسٹ مارٹم بعد میں۔ لیکن بیشتر میں ایسے حروف گر رہے ہیں جن کو نہیں گرنا چاہئے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
یہ ہم نے تب لکھے تھے جب بحر سیکھنا شروع کی تھی، انھیں پوسٹ مارٹم کے ساتھ ساتھ مرحم پٹی بھی کر دیجیئے گا تا کہ آپ کے دستِ شفاء سے یہ صحت حاصل کر سکیں اور ہماری بیاض میں آرام سے رھ سکیں، ہمیں انتظار رہے گا اور وہ بھی بڑی بیچینی سے۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
حضور ہمارے مندرجہ بالا اشعار آپکے دستِ مسیحائی کے لیئے شدتِ درد سے تڑپ رہے ہیں کچھ چارہ کریں کہ انھیں آرام ملے :)
 
Top