برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

مغزل

محفلین
(ایک گزارش ساگر صاحب سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ )
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں۔۔۔
سے امید ہے آپ کو یہ غزل جوں کی توں یاد آجائے/۔۔۔ اس سے پرہیز کیجئے
(منتظمین سے گزارش کہ ہر ایک غزل کیلئے الگ سے تھریڈ کا سلسلہ ہونا چاہئے ۔۔ تاکہ سیر حاصل گفتگو ہو سکے۔۔۔۔ کیا خیال ہے ؟)
 

الف عین

لائبریرین
پہلی تین غزلوں/شعار کا پوسٹ مارٹم

حیاتی گئی پر اداسی گئی نہ1
خزاؤں کی رت تو یہ پیاسی گئی نہ2
رہے ہیں مراسم بڑی دیر لیکن
ہماری رنجش اساسی گئی نہ3
چلا تو گیا وہ مرے گھر سے کب کا
مگر کیوں یہ خوشبو قیاسی گئی نہ4
اگرچہ کھٹن ہے بہت ہی یہ راجا
مگر یہ فرائض شناسی 5گئی نہ

1۔حیاتی کیا مطلب؟
2۔خزاؤں کی رت پیاسی بھی واضح نہیں
3۔اساسی رنجش سے مراد دیرینہ رنجِش؟
4۔ خوشبو قیاسی؟
5۔ فرائض یا فرض شناسی کا قافیہ کسی طرح اس بحر میں نہیں آتا راجا جس میں اسے تبدیل کیا ہے۔ مطلب نہ سمجھنے پر بھی زمین تبدیل کر کے تین اشعار:

زندگی ختم ہوئی، اور اداسی نہ گئی
رت خزاؤں کی جب آئی بھی تو پیاسی نہ گئی
یوں تو دیرینہ مراسم تھے ہمارے اس سے
دل میں پھر بھی وہ جو رنجش تھی اساسی، نہ گئی
ہاں، وہ آیا تھا اور اب جابھی چکا، دیر ہوئی
گھر سے اس گل کی وہ خوشبوئے قیاسی نہ گئی


نوائے سحر کا اشارہ دے کوئی
سفینے کو میرے کنارہ دے کوئی
دے گرما لہو کو مرے جوخدایا1۔
جگر کو مرے وہ شرارہ دے کوئی
ہے منظور مجھکو ترے دِ ل میں رہنا
اگر تو مجھے تُو سہارا دے کوئی2


//
1۔ گرما یا گرمی؟ گرما کا مطلن گرمی کا موسم ہوتا ہے۔
2۔ تو اور توٗ اچھا نہیں لگ رہا، اور پھر جب ’اُس‘ کو سہارا دینے کا کہا جا رہا ہے تو ’کوئی‘ کیوں؟
ترمیم حاضر ہے

نوائے سحر کا اشارہ دے کوئی
سفینے کو میرے کنارہ دے کوئی
دے گرمی لہو کو جو میرے خدایا
جگر میں بھی میرے شرارہ دے کوئی
ہے منظور مجھکو کسی دِ ل میں رہنا
اگر ایک پل کو سہارا دے کوئی




میں تو اب دعائے سفر مانگتا ہوں1
ترے شہر میں کب میں گھر مانگتا ہوں2
گذرتا جو ہوں اب گلی سے تری میں
نہ آؤں نظر وہ ڈگر مانگتا ہوں
بغاوت نہیں ہے حکومت سے تیری
میں تو عدل کا اک شجر مانگتا ہوں3
بہے جو بطورِ لہو نس میں تیری4
وہ لفظوں میں اپنے اثر مانگتا ہوں

1۔/ وہی بات۔۔ میں میں ’یں[ کا گرنا، اور تو میں واؤ کا کھنچنا اچھا نہیں لگتا
2۔ کب میں گھر‘ بھی اچھا نہیں لگ رہا سننے میں
3۔ عدل کا شجر؟؟ اس شعر میں کچھ ترمیم نہیں کر رہا۔ واضح نہیں۔
4۔ کیا ایک ہی نس ہے؟
باقئی اشعار کی ترمیم

میں بس اب دعائے سفر مانگتا ہوں
میں کب شہر میں تیرے گھر مانگتا ہوں
گذرتا جو ہوں اب گلی سے تری میں
نہ آؤں نظر وہ ڈگر مانگتا ہوں
بہے جو رگوں میں تری خوں کی مانند
وہ لفظوں میں اپنے اثر مانگتا ہوں
 

ایم اے راجا

محفلین
پہلی تین غزلوں/شعار کا پوسٹ مارٹم

حیاتی گئی پر اداسی گئی نہ1
خزاؤں کی رت تو یہ پیاسی گئی نہ2
رہے ہیں مراسم بڑی دیر لیکن
ہماری رنجش اساسی گئی نہ3
چلا تو گیا وہ مرے گھر سے کب کا
مگر کیوں یہ خوشبو قیاسی گئی نہ4
اگرچہ کھٹن ہے بہت ہی یہ راجا
مگر یہ فرائض شناسی 5گئی نہ

1۔حیاتی کیا مطلب؟
2۔خزاؤں کی رت پیاسی بھی واضح نہیں
3۔اساسی رنجش سے مراد دیرینہ رنجِش؟
4۔ خوشبو قیاسی؟
5۔ فرائض یا فرض شناسی کا قافیہ کسی طرح اس بحر میں نہیں آتا راجا جس میں اسے تبدیل کیا ہے۔ مطلب نہ سمجھنے پر بھی زمین تبدیل کر کے تین اشعار:

زندگی ختم ہوئی، اور اداسی نہ گئی
رت خزاؤں کی جب آئی بھی تو پیاسی نہ گئی
یوں تو دیرینہ مراسم تھے ہمارے اس سے
دل میں پھر بھی وہ جو رنجش تھی اساسی، نہ گئی
ہاں، وہ آیا تھا اور اب جابھی چکا، دیر ہوئی
گھر سے اس گل کی وہ خوشبوئے قیاسی نہ گئی


نوائے سحر کا اشارہ دے کوئی
سفینے کو میرے کنارہ دے کوئی
دے گرما لہو کو مرے جوخدایا1۔
جگر کو مرے وہ شرارہ دے کوئی
ہے منظور مجھکو ترے دِ ل میں رہنا
اگر تو مجھے تُو سہارا دے کوئی2


//
1۔ گرما یا گرمی؟ گرما کا مطلن گرمی کا موسم ہوتا ہے۔
2۔ تو اور توٗ اچھا نہیں لگ رہا، اور پھر جب ’اُس‘ کو سہارا دینے کا کہا جا رہا ہے تو ’کوئی‘ کیوں؟
ترمیم حاضر ہے

نوائے سحر کا اشارہ دے کوئی
سفینے کو میرے کنارہ دے کوئی
دے گرمی لہو کو جو میرے خدایا
جگر میں بھی میرے شرارہ دے کوئی
ہے منظور مجھکو کسی دِ ل میں رہنا
اگر ایک پل کو سہارا دے کوئی




میں تو اب دعائے سفر مانگتا ہوں1
ترے شہر میں کب میں گھر مانگتا ہوں2
گذرتا جو ہوں اب گلی سے تری میں
نہ آؤں نظر وہ ڈگر مانگتا ہوں
بغاوت نہیں ہے حکومت سے تیری
میں تو عدل کا اک شجر مانگتا ہوں3
بہے جو بطورِ لہو نس میں تیری4
وہ لفظوں میں اپنے اثر مانگتا ہوں

1۔/ وہی بات۔۔ میں میں ’یں[ کا گرنا، اور تو میں واؤ کا کھنچنا اچھا نہیں لگتا
2۔ کب میں گھر‘ بھی اچھا نہیں لگ رہا سننے میں
3۔ عدل کا شجر؟؟ اس شعر میں کچھ ترمیم نہیں کر رہا۔ واضح نہیں۔
4۔ کیا ایک ہی نس ہے؟
باقئی اشعار کی ترمیم

میں بس اب دعائے سفر مانگتا ہوں
میں کب شہر میں تیرے گھر مانگتا ہوں
گذرتا جو ہوں اب گلی سے تری میں
نہ آؤں نظر وہ ڈگر مانگتا ہوں
بہے جو رگوں میں تری خوں کی مانند
وہ لفظوں میں اپنے اثر مانگتا ہوں


شکریہ اعجاز صاحب اب جا کر سکون آیا ہے اور امید ہیکہ آج رات کو نیند اچھی آئے گی :)
 

ایم اے راجا

محفلین
آپ کا دھیان صحیح طور اس جانب نہیں گیا ۔۔ کیوں کہ بادبان اٹھانا (مصدر) بھی محاورے میں ہے۔۔
مغل صاحب بہت شکریہ آپکی رہنمائی کا، امید ہیکہ آئیندہ بھی اسی طرح بندے کے کام آتے رہیں گے، غزل کو میں نئی تھریڈ میں اسلیئے نہیں بھیجتا کے یہ تھریڈ میں نے بحر سیکھنے کےلیئے شروع کی تھی اور مجھے نہیں پتہ تھا کہ اعجاز صاحب اور وارث بھائی جیسے مخلص بندے یہاں مل جائیں گے اور ہم بے بحر سے با بحر ( کچھ کچھ) ہو جائیں گے، اب اس تھریڈ سے دل لگ گیا ہے اور اس میں موجود اساتذہ ( اعجاز اور وارث صاحبان ) سو ہمیں یہ ڈر ہیکہ اگر ہم نے تھریڈ بدلی تو کہیں ان صاحبان کی سرپرستی سے ہاتھ ہی نا دھونے پڑ جائیں۔ امید ہیکہ آپ یہاں تشریف لاتے رہیں گے اور رہنمائی فرماتے رہیں گے۔ شکریہ۔ ایم اے راجا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
حضور ایک اور غزل حاضر ہے، شفا پانے کے لیئے۔

کھلا ہے دریچا عذابوں کا پھر سے
لٹا شہر میرے ثوابوں کا پھر سے

نئی آگ پھر سے لگا دی کسی نے
سلگنےلگاشہر خوابوں کا پھر سے

نہ کربل رہا ہے، نہ غازی وہ اب تو
کرےکون بندمنہ کذابوں کاپھر سے

نظر میں تڑ پنے لگی تشنگی پھر
وطن آ گیا ہے سرابوں کا پھر سے

دِلوں میں خزاؤں نے ڈالے ہیں ڈیرے
نہ آ ئے گا لہجہ گلابوں کا پھر سے

لٹا میں کروں گا سرِ عا م راجا
زمانا ہے لوٹا خرابوں کا پھر سے​
 

مغزل

محفلین
مغل صاحب۔۔ اردو بولا کریں بھائی۔

جناب جناب۔۔ میں آئندہ خیال رکھوں گا۔۔
(کوئی دو ہفتوں سے بستر پر پڑے پڑے ۔۔۔
زبان سوکھے ہوئے کدو کی صورت اختیار کر گئی تھی میں نے سوچا ذرا پانچ دریائوں کے پانی والی زبان سے تازہ کرلوں)
بہر کیف میں دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں۔۔
 

ایم اے راجا

محفلین


جناب جناب۔۔ میں آئندہ خیال رکھوں گا۔۔
(کوئی دو ہفتوں سے بستر پر پڑے پڑے ۔۔۔
زبان سوکھے ہوئے کدو کی صورت اختیار کر گئی تھی میں نے سوچا ذرا پانچ دریائوں کے پانی والی زبان سے تازہ کرلوں)
بہر کیف میں دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں۔۔
مغل صاحب خیریت تو ہے ناں آپکی طبیعت ناساز ہے کیا اللہ آپ کو صحت اور کامرانی عطا فرمائے۔ آمین۔
 

ایم اے راجا

محفلین
حضور ایک اور غزل حاضر ہے، شفا پانے کے لیئے۔

کھلا ہے دریچا عذابوں کا پھر سے
لٹا شہر میرے ثوابوں کا پھر سے

نئی آگ پھر سے لگا دی کسی نے
سلگنےلگاشہر خوابوں کا پھر سے

نہ کربل رہا ہے، نہ غازی وہ اب تو
کرےکون بندمنہ کذابوں کاپھر سے

نظر میں تڑ پنے لگی تشنگی پھر
وطن آ گیا ہے سرابوں کا پھر سے

دِلوں میں خزاؤں نے ڈالے ہیں ڈیرے
نہ آ ئے گا لہجہ گلابوں کا پھر سے

لٹا میں کروں گا سرِ عا م راجا
زمانا ہے لوٹا خرابوں کا پھر سے​
استادِ محترم۔ درج بالا غزل آپکے نشترِ شفا کے لیئے بے چین ہے۔ شکریہ۔
 

مغزل

محفلین
مغل صاحب خیریت تو ہے ناں آپکی طبیعت ناساز ہے کیا اللہ آپ کو صحت اور کامرانی عطا فرمائے۔ آمین۔
جی ہاں ساگر صاحب۔
الحمدللہ اب اللہ کے کرم سے ٹھیک ہوں اور آج اپنے دفاتر بھی گیا ہوں۔۔۔
تھریڈ کا حسن نہ خراب ہو۔۔ اس لیئے اس شعر کے ساتھ اجازت۔۔

کیا دوا ، کیسی بحالی، آخری کوشش کے ساتھ
بسترِ بیمار پر دستِ مسیحا جل گیا۔۔

دعا ئوں میں یاد رکھیئے گا۔
نیاز مند
م۔م۔مغل
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم، اعجاز صاحب السلام علیکم۔
امید ہیکہ بخیریت ہونگے، کسی ضروری کام سے کراچی جانے کی وجہ سے دو تین دن فورم سے غیر حاضر رہا ہوں، حضور مندرجہ بالا غزل ابھی تک تشنا ہے، برائے کرم نظرِ عنایت فرمادیں۔ شکریہ۔
 

مغزل

محفلین
راجا میاں کراچی آئے ملاقات نہ ہونے پائی ------------------- پھرکبھی آئیں گے، ملاقات بھی ہوجائے گی۔۔۔۔

شہزادے بھائی خبر تو دی ہوتی ، ہم استقبال کو حاضر ہوجاتے۔۔
 

الف عین

لائبریرین
لو بھئی۔ تمہاری غزل کا پوسٹ مارٹم:

کھلا ہے دریچا عذابوں کا پھر سے۔۔۔ ص
لٹا شہر میرے ثوابوں کا پھر سے

نئی آگ پھر سے لگا دی کسی نے ۔۔۔۔ص
سلگنےلگاشہر خوابوں کا پھر سے


اوپر کے دونوں اشعار درست ہیں

نہ کربل رہا ہے، نہ غازی وہ اب تو
کرےکون بندمنہ کذابوں کاپھر سے

دوسرے مصرعے میں ’بند منہ‘ بر وزن فعلن غلط ہے، بند کی دال بے طرح گر رہی ہے جو قطعی جائز نہیں۔’کذّاب‘ میں ذال پر شد ہے، کذاب بوزن سراب غلط ہے۔ اس طرح یہ قافیہ قطعی فٹ نہیں ہوتا۔


نظر میں تڑ پنے لگی تشنگی پھر
وطن آ گیا ہے سرابوں کا پھر سے

وزن درست ہے، لیکن مفہوم کے اعتبار سے واضح نہیں۔ ’وطن آ گیا‘ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ جیسے آپ ٹرین میں بیٹھے ہیں اور سٹیشن آ گیا ہے۔ پھر ایک ہی سفر میں ایک منزل دو بار کس طرح آ سکتی ہے؟ ہاں وطن کی جگہ موسم قسم کا کوئی لفظ رکھا جائے تو تفہیم بہتر ہو سکتی ہے۔

دِلوں میں خزاؤں نے ڈالے ہیں ڈیرے
نہ آ ئے گا لہجہ گلابوں کا پھر سے ۔۔۔ص


اوزان میں درست ہے، شعر بھی اچھا ہے


لٹا میں کروں گا سرِ عا م راجا
زمانا ہے لوٹا خرابوں کا پھر سے

پہلے مصرعے میں ’ ’لُٹا میں کروں گا‘ جیسے جملے مجھے پسند نہیں آتے اگر رواں مصرعے بن سکیں تو۔۔ جیسے ’میں لٹ جاؤں گا پھر سرِ عام راجا‘ بہتر مصرع ہو سکتا ہے۔
میں عموماً ایسے الفاظ استعمال کرنا بھی پسند نہیں کرتا جس کے کئی تلفظ ہوں۔ یہاں ’لوٹا‘ کو کوئی ’لٗوٹا‘ پڑھ سکتا ہے تو کوئی بنا پیندے یا پیندے والا لوٹا بھی۔ اور ’ہے لوٹا‘ بھی کانوں کو بھلا نہیں لگتا۔ معنی کے اعتبار سے یہاں خرابہ کا کیا مطلب ہے۔ جس کا زمانہ ہوتا ہے؟؟ خرابہ مقام کو کہتے ہیں جو وہرانہ ہو یا جہاں بربادی کے آثار ہوں۔ اس لئے اس مکمل شعر یعنی مقطع کو نکال دو تو بہتر ہے۔ کوئی دوسرا شعر کہو۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب جناب راجا صاحب آپ تو کمال کر رہے ہیں لگتا ہے آپ نے اس بحر کو نہیں چھوڑنا ارے بھائی نئی بحر میں بھی کچھ لکھنے تاکہ ہم اآگے بڑھ سکے بہت شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
استادِ محترم، اعجاز صاحب السلام علیکم۔
امید ہیکہ بخیریت ہونگے، کسی ضروری کام سے کراچی جانے کی وجہ سے دو تین دن فورم سے غیر حاضر رہا ہوں، حضور مندرجہ بالا غزل ابھی تک تشنا ہے، برائے کرم نظرِ عنایت فرمادیں۔ شکریہ۔

راجا صاحب ماشااللہ اب آپ اچھے خاصے شاعر ہوچکے ہیں‌اس لئے اب الفاظ کی درستگی کا بہت خیال رکھا کیجئے - آپ کی تحریر اور اس موضوع کے عنوان میں دو غلطیاں ہیں اسے درست کرلیں -
1- برائے کرم نہیں‌ بلکہ براہِ کرم صحیح ہے - اسی طرح برائے مہربانی نہیں بلکہ براہِ مہربانی صحیح ہوتا ہے -
2- دوسرا لفظ تشنا نہیں بلکہ صحیح تشنہ ہے جیسے ایک شاعر ہیں عالمتاب تشنہ
تشنگی تشنگی، ارے توبہ!
قطرے قطرے کو ہم ترستے ہیں
اے خدواندِ کوثر و تسنیم
تیرے بادل کہاں برستے ہیں؟
 
Top